اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
از۔ سید سعد ندوی
دورِ جدید علوم وفنون کی ترقی کا سنہرا دور ہے سائنسی میدان میں انسان کی قلابازی حیرتانگیزہے۔
آئے دن حیرت انگیز ایجادات اور نت نئے انکشافات کاسلسلہ جاری ہ ہے۔ماضی کا انسان جن چیزوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ سب آج ایک کھلی حقیقت بن کر ہمارے سامنے جلوہ گر ہیں۔ صرف چالیس سال کے اندر دنیا نے اتنی ترقی کی ہے کہ گراموفون، ریڈیو اور ثیپ ریکارڈ جیسی چیزیں جو دورِ جدید کی ایجادات میں سے ہیں وہ سب اس حد تک پرانی ، بلکہ پامال ہوچکی ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور کا انسان انہیں استعمال کرنے کو اپنے ليے باعثِ ننگ وعار سمجھنے لگاہے۔
پچھلی دو دہائیوں سے دنیا بھر میں کمپیوٹر کا استعمال اس قدر عام ہو رہاہے کہ اب وہ انسانی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت بن گیاہےجس کے بغیر زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔ آنے والے چند سالوں میں مزید اس کا استعمال اس قدر بڑھے گا کہ یہ ہر گھر کی ضرورت بن جائے گا اور جو اس کا استعمال نہ جانتاہو دنیا اس کو اَن پڑھ اور جاہل شمار کرےگی۔
سوال یہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے روشنی کا سفر ظے کرنے والی اس دنیا میں مسلمانوں کا کیا کردار ہے؟ جدید ایجادات میں مسلمانوں کا کیا حصہ ہے؟ اس سوال کا جواب بڑامایوس کن اور حوصلہ شکن ہے کہ جدید ترقیوں میں حصہ لینا تو کجا یہاں مسلمانوں کی دقیا نوسی ذہنیت کا یہ عالم ہے کہ جدید ایجادات کے یہ نہ صرف مخالف ہیں بلکہ ان ایجادات کو اپنے خلاف ایک سازش بھی سمجھنے لگے ہیں۔ دنیا کی دوسری قومیں کمپوٹر اور انٹرنیٹ کے استعمال سے ترقی کے بامِ عروج پر بہنچ کر مریخ کی خاک چھان رہی ہیں اور مسلمان ہیں کہ ٹی ۔وی اور انٹرنیٹ کے استعمال کے عدمِ جواز کے فتوے صادر کرنے میں لگے ہوے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹی۔وی ہوکہ کمپیوٹر یہ سب ایسے آلات ہیں کہ فی نفسہ ان میں نہ خیر ہے اور نہ ہی شر۔ بات ان کے استعمال پر موقوف ہے ، اچھے ہاتھ اگر اسے استعمال کریں گے تو یہ خیر کے پھیلانے کا سبب بنیں گے اور بُرے ہاتھوں میں اگر یہ لگ جائیں تو دنیا میں تباہی مچائیں گے۔ ایسے میں یہ دانشمندی نہیں کہ ان وسائل کا زیادہ تر استعمال شَر کے لیے ہورہاہو تو اس کے عدمِ جواز کا فتوی لگادیاجائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ آگے بڑھ کر ہم ان وسائل کو اسی طرح خیر کے لیے استعمال کریں جس طرح کے بری ذہنیت کے لوگ شر کےلیے انہیں استعمال کر رہے ہیں۔ جدید ایجادات سے مسلمانوں کی دوری اور غفلت کا یہ انجام ہوا کہ آج انٹرنیٹ پر اسلام کے تعلق سے اس قدر منفی مواد پایاجاتاہے کہ مسلمانوں کی دسیوں تنظیمیں مل کر بھی سالہاسال کی کوششیں صرف کردیں ، تب بھی کماحقہ ان شبہات کا جواب دیاجانا مشکل نظر آتاہے۔حد تو یہ ہے کہ آج اسلام کے نام سے باطل فرقوں کے اپنے ویب سائٹس ہیں، قادیانی تعداد میں ہم سے بہت کم ہونے کے باوجود انٹرنیٹ کے استعمال میں ان کا تناسب ہم سے کہیں زیادہ نظر آتاہے۔اردو اور عرب زبانوں میں عیسائی مشنریوں نے اپنے بے شمار ویب سائٹس کھول رکھے ہیں، جن کا شکار کوئی بھی سادہ لوح مسلمان بآسانی ہوسکتاہے
ہم مسلمان یہ دعوی کرتے نہیں تھکتے کہ قرونِ وسطی میں دنیا کی تمام ترقیوں کے بانی اور معمار ہم تھے اور یا حقیقت بھی ہے کہ جس زمانے میں یورپ تعلیمی پس ماندگی کے دلدل میں پھنسا ہوا تھا ہمارے ہی سہارے اسے اس دلدل سے نکلنا نصیب ہوا۔ مسلمانوں نے ایجادات اور انکشافات کے میدان میں حیرت انگیز کارنامے انجام دیے تھے، عہد عباسی میں مصنوعی چاند انہوں نے بنایاتھا، طب کے ایسے حیات بخش نسخے انہوں نے دریافت کیے تھے کہ ابن سینا
(1037-980ء) کی کتاب "القانون” جو چودہ جلدوں میں ہے آج بھی جدید طبیبوں کے لیے مشعلِ راہ بنی ہوی ہے۔
ہارون رشید نے اپنے دورِ خلافت میں اپنے ہمعصر حکمران شارلیمان کو ایک گھڑی تحفے میں پیش کی تھی جسے ایک باکمال مسلمان نے بنایاتھا۔ شارلیمان اس گھڑی کے عجائبات کو سمجھ نہ سکا، اور اُسےیہ گمان ہوا کہ کہیں یہ جادو کا کرتب تو نہیں!
قطب نما جس پر ماضی میں تمام بحری اسفار کا درومدار تھا،اس کی مدد سے جہاز سمتِ سفر معلوم کیا کرتے تھے، اس موجد بھی مسلمان ہی تھے۔
ماضی میں ہماری یہ صورت حال تھی مگر بعد میں حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی کہ یورپ ہم سے سقت کرگیا اور ہم اس کے تابع ہوگئے۔ اب جب کہ وہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے نئی نئی ایجادات دنیا کے آگے پیش کررہاہے، ہم خود اس کے خالفِ اول بن جائیں ، حالانکہ ان ترقیوں کی بنیاد خود ہم نے فراہم کی تھی؟
تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری، جن کو سمجھاہے بُرا تونے
آج یورپ اگر زندگی کے ہر شعبے میں غالب اور ہم ہرقدم اس سے مرعوب ہیں تو اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے یورپ دنیا کو بہت کچھ دے رہاہے، اور یہ مسئلہ ہر آئے دن بڑھتے جارہاہے۔ ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہم صرف لیناجاتے ہیں۔ لہذا اس طرزِ عمل کا لازمی نتیجہ نفسیاتی مرعوبیت ہے جو ہرجگہ مسلمانوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ہم مرعوبیت کی اس ذہنیت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم دینے والے بنیں۔ جب ہم دنیا کو دینے کی پوزیشن میں آئیں گے اور چیزوں کے علاوہ اپنے دین ومذہب کو بھی پورے اعتماد کے ساتھ دوسروں کے آگے پیش کرسکیں گے اور ہماری بات دنیا والوں کی نظروں میں بھی اپنا ایک وزن رکھے گی، اور دنیا ہماری بات پر توجہ دینے پر مجبور ہو جائے گی۔
اسلام جدید ترقیوں کا مخالف نہیں ہے، اس سلسلے میں پہلی وحی میں دیا گیا پیغام "اقرا باسم ربک” بڑا معنی خیزہے۔ پہلی وحی میں گویا یہ بات بتادی گئی کہ کوئی بھی علم جو معرفتِ الٰہی کا ذریعہ بنتاہے اسلام اس کی تشجیع اور حوصلہ افزائی کرتاہے۔ کوئی بھی ایسی ترقی جو رب العالمین کی قدرت کو آشکارا کرتی ہے اسلام اس کا حامی اور مؤیدہے بلکہ اگر قرآن مجید میں غور کیا جائے تو کئی ایک مقامات پر ہمیں ایسی آیتیں ملتی ہیں جو مستقبل میں ہونے والی ترقیوں کی جانب بڑی صراحت سے اشارہ کررہی ہوتی ہیں۔ مثلاً سورۃ النحل میں دورِ قدیم کی سواریوں گھوڑے گدھے اور خچر کے ذکر کے بعد قرآن مجید کا یہ فرمانا: "ویخلق مالاتعلمون” کہ اللہ تعالی آئندہ بہت سی ایسی چیزیں پیداکرنے والاہے جنہیں تم نہیں جانتے۔ یہ چھوٹی سی آیت مستقبل کی کتنی ترقیوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوے ہے! کیا دورِ جدید کی نئی نئی ایجادات بسیں ، ٹرینیں اور ہوائی جہاز اسے کا مصداق نہیں ہیں؟ جواب ظاہر ہے کہ یقیناً یہ سب ایجادات مذکورہ ارشادِ ربانی کی مصداق ہیں۔ جب اللہ تعالی گھوڑوں،گدھوں اور خچروں کی سواریوں کو اپنی نعمت کے طور پر پیش کررہاہے، حالانکہ جدید سواریوں کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی تو کیا آج کی یہ آرام دہ بسیں ، ٹرینیں اور ہوائی جہاز ہمارے لیے نعمتیں نہیں ہیں جنہیں انسان نے اللہ تعالی کی دی ہوی عقل کی روشنی میں بنایا اور ایجاد کیاہے؟
سیرت رسول ہمیں جہاں بہت سارے پیغامات دیتی ہے وہیں اس کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ ہر دور اور ہرزمانے کا ایک مزاج ہوتاہے۔ دعوت وتبلیغ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ زمانے کے مزاج کو سجھ کر دعوت کے لیے مناسب وسائل اپنائے جائیں، اس کا ایک عملی نمونہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیش کیا کہ جب آپ کو اللہ کی جانب سے یہ حکم دیا گیا کہ آپ اپنے قریبی رشتہ داروں اور مکہ والوں کو قیامت کے آنے والے دن سے آگاہ کردیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر تشریف لے گئے۔ وہاں سے آواز دے کر سب کو اکٹھا کیا اور اپنا پیغام پہنچایا۔
صفاکی پہاڑی پر چڑھنے اور اس پر کھڑے ہوکر خطاب کرنے کی ضروت کیاتھی؟ بات در اصل یہ تھی کہ "پہاڑی” کو اس دور کا ایک اسٹیج سمجھا جاتاتھا۔ عربوں کی عادت تھی کہ جب وہ کسی بھی بستی پر کسی اجتماعی خطرے کو منڈلاتے ہوے دیکھتے تو سب سے پہلے جو شخص اس خطرہ کو محسوس کرتا وہ قریب کی کسی پہاڑی پر کھڑا ہوجاتا اور آواز دے کر بستی والوں کو آگاہ کرتا۔ بستی والے سمجھ جاتے کہ کوئی دشمن حملہ آور ہونے والاہے، اس لیے وہ اپنی حفاطت کے سارے بندوبست کلیتے۔ اسی رواج کو اپناتے ہوے قیامت کے آنے والے اجتماعی خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کے اسٹیج کو اپنایا۔ البتہ یہاں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ عربوں کی عادت کچھ ایسی تھی کہ جو شخص خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے پہاڑی پر چڑھتا وہ برہنہ ہی جاتا اور اپنے کپڑے نکال کر انہیں ہلاتے ہوے قوم کو متنبہ کرتاتھا۔ اسی بات کے پیشِ نظر ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مثال اس ڈرانے والے اور آگاہ کرنے والے سے دیتے ہوے فرمایا: انی انا النذیر العریان۔ "میں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں”۔
یہ برہنگی چونکہ اچھی بات نہیں ہے اس لیے اس بات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور کے رواج کو نہیں اپنایا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہر دور اور ہرزمانے کے اعتبار سے مناسب اسٹیج کو اپنائیں اور خود کو اس کے منفی پہلوؤں سے بچائیں، اس میں اگر کسی بھی قسم کی خرابی ہوتو اس خرابی سے بچتے بچاتے ہوے اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج کا موثر اسٹیج ٹی وی ، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ہے۔ ضرورت ہےکہ دعوت وتبلیغ اور اسلام کی نشر واشاعت کے لیے انہیں بروئے کار لیاجائے، ان کے ذریعے سے ہم بیک وقت لاکھوں، کروڑوں افراد کو خطاب کرسکتے ہیں اور اپنا پیغام اُن تک پہنچاسکتے ہیں۔ ورنہ یہ دانائی اور عقل مندی نہیں کہ آج انٹرنیٹ کے زریعے اسلام کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا جارہاہے اس کا مقابلہ ہم صرف منبر ومحراب سے کرنا چاہیں، یا پھر کسی اردو ماہنامہ اور جریدے میں مضمون لکھ کر مطمئن ہوجائی کہ ہم نے انٹرنیٹ میں کی گئی زہر افشانی کا جواب دے دیاہے۔ یہ بس ہماری خام خیالی ہوگی۔
آج ذارئع ابلاغ کی اہمیت بھی ہرجگہ مسلم ہے۔ بات چاہے الکٹرانک میڈیا کی ہو یا پھر پرنٹ میڈیا کی،دنیا آج اسی کی بات سنتی ہے اور اسی کی زبانی بولتی ہے۔ دشمن میڈیا کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف الزام تراشیوں کے لیے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے خوب استعمال کررہاہے۔ دہشت گردی کے جھوٹ کو اس نے اس قدر دوہرایا ہے کہ آج دنیا دہشت گردی کا نام سنتی ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے اسلام اور مسلمانوں ہی کی تصویر پھر جاتی ہے۔ الحدید یقطع الحدید۔ "لوہا لوہے کوکاٹتاہے” کہ مصداق ان الزام تراشیوں کا مقابلہ کرنے بلکہ دنیا کے سامنے طوفان بن کر اٹھ کھڑے ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم میڈیا کے میدان میں اپنا سکہ جمائیں ۔ اس کے بغیر ہماری آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ اس سلسلے کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ مسلم نوجوانوں کا ایک صلاحیت مند اور باشعور طبقہ دین وملت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر میدانِ صحافت میں قدم رکھے، بلکہ خود علماء کرام کو اس تعلق سے سنجیدگی کے ساتھ سوچنا اور فکر مند ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اسلام کی سچی ترجمانی بہتر طریقے سے علماء ہی کرسکتے ہیں۔
دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور ہم ہیں کہ ٹکٹکی باندھے اس کی ترقیوں کو تک رہے ہیں۔ دقیانوسی ذہن کے بنھوروں سے آزاد ہوکر نئی بیداری کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔