علی احمد جلیلی کی غزل گوئی
ڈاکٹرسید تقی الدین
فون: 919885012827+
علی احمد جلیلی نے اپنی شاعری کا آغاز سخن فہمی سے کیاتھا۔ جو ان کو اپنے عظیم المرتبت شاعر ‘والدمحترم سے ملا تھا۔ گھر کے ماحول نے انہیں فطری شاعر بنادیاتھا۔ ظاہر ہے انہوں نے وہی لب و لہجہ اختیارکیاجو ان کا ورثہ تھا۔ خود جلیل قدیم مکتب فکر کے نمائندہ تھے۔ ان کی غزل گوئی بندھے ٹکے فارمولوں میں مقید تھی ۔ لطف کی بات یہ تھی کہ جلیل حضرت امیر مینائی کے شاگرد ہونے کے باوجود داغ کے رنگ میں خود کو رنگنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ خیال صد فیصد درست نہ سہی لیکن جلیل کے کئی اشعار(داغ کی شاعری کا) گہرا نہ سہی ہلکا سا پرتو لئے ہوئے ہیں یہ بحث ہم نے اس لئے شروع کی ہے کہ علی احمد جلیلی کی ابتدائی شاعری اسی روایت اور روش پر کاربند نظرآتی ہے۔ حسب ذیل اشعار نمونتاً پیش ہیں۔
گھرکے سناٹے میں اب بات کریں تو کس سے
بستر خواب پہ سوئی ہوئی تنہائی ہے
اف یہ انداز تری ٹوٹتی انگڑائی کا
اس میں شامل میرے خوابوں کی تھکن ہو جیسے
چھوڑئیے بات ہماری شب تنہائی کی
آپ کا دل بھی تو کچھ دیر کو دھڑکا ہوگا
رات بادل جو تری زلف کا پھیلا ہوگا
کون جانے ہے کہاں ٹوٹ کے برسا ہوگا
کتنے گیسو آکے مرے ہاتھ میں
پیچ و خم کا بانکپن کھوتے رہے
کوئی جاگا ہوا تھا رات بھر
تھکن بستر پہ رکھ کرسوگیاہے
آپ پردہ نہ رخ سے سرکائیں
آگ لگ جائے گی چناروں میں
اک بدن وہ جسے چھواہی نہیں
اس کی خوشبو ہے میرے ہاتھوں میں
مست کرکے مجھے اورو ں کو لگا منہ ساقی
یہ کرم ہوش میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے
مندرجہ با لا اشعار میں جورنگ اور آہنگ شعر ہے وہ ان کے دور کے اساتذہ کے پاس تھا۔ خاص طورپر جلیل ، امیر اورداغ سے ان کا جذباتی تعلق تھا۔ مخمور سعیدی نے جو خود ایک اچھے شاعرہیں اور علی احمد جلیلی کے ہم عصر تھے اس خیال کا اظہارکیاہے کہ:
’’ علی احمد جلیلی اس موروثی سلسلہ سے شاعری کی کلاسیکی روایات کے امین اورپاسدار ہیں‘‘
اسی طرح پروفیسر نثار احمد فاروقی نے اپنے ایک مکتوب بنام علی احمد جلیلی میں لکھاتھا۔
’’ اردو غزل کی آبروکو آپ نے قائم رکھا‘ اورفصاحت جنگ جلیل کی روایت کو آگے بڑھایا۔ زبان کی شگفتگی اورسلاست‘ بیان کی فصاحت اوراسلوب کی شائستگی ہرغزل میں نمایاں ہے۔‘‘
ندافاضلی کا بھی یہی خیال ہے۔
’’آپ ( علی احمد جلیلی) اردو کی ایک بڑی روایت کے وارث ہیں ‘ اس روایت کو آپ نے محنت اور ذہانت سے سجایاہے اور آگے بڑھایابھی۔ زبان و بیان کی نفاستوں سے کوسوں دور آپ کے عہد میں آپ کی مشاقی اور کلاسیکی شائستگی بہت غنیمت ہے‘‘۔
پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے اپنی عقیدت کا اظہار اس طریقہ سے کیاتھا۔
’’ میں ایک مدت سے آپ کے کلام کا عاشق ہوں ‘ روایت کا احترام اور ساتھ ہی عصری حسیت سے یہ قرب آپ کو قسام ازل سے ملا ہے۔ غزل کی تازگی اورشگفتگی دامن دل کو کھینچتی ہے۔ آپ نے جس طرح اپنی شاعری میں فکر کو جذبہ بنایاہے۔یہ ہر ایک کے بس کا کام نہیں‘‘۔
یہ افکار نقادوں کے نہیں ہیں ان میں زیادہ علی احمد جلیلی کے ہم عصر شاعر تھے ‘ خود انہوں نے واضح طورپر اس بات کا اعتراف کیاتھا۔
اس رنگ تغزل پہ علی چھاپ ہے میری
یہ ذوق سخن مجھ کو وراثت میں ملا ہے
مندرجہ بالا اشعار کے انتخاب کے وقت مجھے یہ خیال آتے رہا کہ کہیں اشعار کا یہ انتخاب میری پسند نہ سمجھا جائے۔ کیوں کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اشعار کے انتخاب سے رسوائی کا سامان پیدا ہونے کا احتمال رہتا ہے۔یہ بات یہاں میں نے سخن گفترانہ طورپر لکھی ہے جہاں تک علی احمد جلیلی کی غزل گوئی کا معاملہ ہے وہ کلاسیکی یعنی قدیم اور جدید شاعری کا حسین امتزاج ہے۔ قدیم رنگ تغزل سے ان کی شاعرانہ شخصیت کی تعمیر ہوئی تھی ۔ اسی رنگ نے انہیں شاعر بنادیاتھا۔ ہر چند وہ ’’جلیل منزل‘‘ کی چاردیواری میں پروان چڑھے ‘ لیکن باہر کی فضا ہی ان کو ہمیشہ متاثر کرتی رہی۔ ہرانسان اپنے ماحول کا پروردہ ہوتا ہے۔ علی احمد جلیلی اس سے کیسے محفوظ رہتے۔ جامعہ عثمانیہ کے ایک فرزند کی حیثیت سے انہوں نے اردو زبان و ادب خاص طورپر اس کی عطا کردہ تہذیب کی حفاظت کی۔
یہ میری تہذیب ہے دیکھو
کانٹوں کو بھی پھول کہاہے
انہیں اپنے عظیم الشان اردو زبان و ادب کی پیدا کردہ ثقافت کے ٹوٹنے کا شدت سے احساس تھا۔
یہ جو آتے ہیں نظرفٹ پاتھ پر بکھرے ہوئے
دست و بازو ہیں میری تہذیب کے ٹوٹے ہوئے
زندگی کے سایہ میں یوں جی رہے ہیں ہم
جیسی گرتی ہوئی دیوار کو تھامے ہوئے
علی احمد جلیلی ۱۹۲۱ء میں پیدا ہوئے جب ان کی عمر پندرہ برس کی ہوئی یعنی ۱۹۳۶ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی لکھنو میں بنیاد رکھی گئی۔ ان کے بی اے کامیاب کرنے تک یعنی ۱۹۴۰ء میں اس تحریک نے چھ سال کے دوران ایک عہد کو متاثر کردیاتھا۔ حیدرآباد میں اس تحریک کا بڑے شور کے ساتھ غلغلہ ہوا۔ یہاں اس انجمن کی کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ اس تحریک سے وابستہ ادبی رسالوں اور ماہناموں کو شوق سے پڑھاجانے لگا۔ اس زمانہ میں جامعہ عثمانیہ کے ایک انگریزی ادب کے استاد عظیم احمد نے اس تحریک کی ایک مبسوط تاریخ ’’ ترقی پسند تحریک ‘‘ شائع کی۔ بنیادی طورپر عزیز احمد ایک ناول نگار تھے اور جامعہ عثمانیہ کے استاد کی حیثیت سے عثمانین برادری میں اپنا اثر رکھتے تھے۔ علی احمدجلیلی متذکرہ حیدرآباد کے ادبی ماحول سے متاثر ہورہے تھے۔ یہ وہی دور ہے جب علامہ اقبال کی شاعری کا حیدرآباد کے عوام پر گہرا اثر ہوچکا تھا۔علی احمد جلیلی کی حیات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ملازمت کی مجبوریوں کی وجہ سے حیدرآباد سے باہر اضلاع کی زندگی پر قانع تھے۔ اس لئے حیدرآباد کی علمی و ادبی سرگرمیوں اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات سے اتنا فائدہ نہیں اٹھاسکے جتنا کہ ان کے چند ہم عصر شاعر‘ صحافی اورادیب کرسکے۔ انہیں ورثہ میں جو شعری رجحان او رنگ تغزل حاصل ہواتھا وہی ان کا سرمایہ حیات تھا تاہم ۱۹۴۸ء کے بعد یعنی ان کے گرائجویٹ ہونے کے8 سال بعد ریاست حیدرآباد کو زوال ہوا۔ اب حیدرآباد اردو کا گہوارہ ہوتے ہوئے بھی حالات کا شکار ہوا۔ علی احمد جلیلی عملی طورپر اس حادثہ سے دوچار نہیں ہوئے لیکن اس انقلاب کے شاہد تھے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ اس قلزم خون کے شناور نہیں تھے لیکن یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اضلاع میں رہتے ہوئے بھی حالات سے باخبر تھے یہیں سے ان کا کلاسیکل ذہن بدلتے حالات سے متاثر ہوکر ایک نئے لب و لہجہ کاخالق بن گیا۔ آزادی ہند کے بعد حالات سے متاثر ہوئے بغیر وہ نہیں رہ سکتے تھے۔ لیکن اہم بات یہ ہوئی کہ بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہونے کے باوجود وہ اپنے شعری ورثہ سے کبھی اجتناب نہیں کیا۔ اس کا انہیں خود احساس تھا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے اس ورثہ کو خود اپنے والد یا خاندان کا ورثہ قرارنہیں دیتے ، وہ نہایت وسیع النظری سے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ دکن کی گود میں پلے بڑھے تھے ۔ اگرچیکہ ان کے آباء و اجداد کا وطن اترپردیش تھا لیکن ان کے والد اور ان کا پوراخاندان دکن کاہوگیاتھا۔ انہوں نے اپنے تہذیبی ورثہ کو دکن سے مربوط کیاتھا اوروہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ارض دکن نے کتنے انقلابات کو دیکھا لیکن اہل دکن کا انداز فکر نہیں بدلا۔
دور آئے گئے کتنے مگر اے ارض دکن
تیرے چہرے کا وہی سانولاپن ہے
علی احمد جلیلی کی غزل گوئی شائستہ غزل گوئی ہے۔ انہوں نے سماجی اور سیاسی حادثات کو بھی شائستگی ،متانت اور ادبی رکھ رکھاؤ کے ساتھ بیان کیاہے۔ ان کی غزل میں ایمائیت کے ساتھ ساتھ استعاروں تلمیحات کا استعمال نہایت آسان ہے جو عام قارئین کی فہم و ادراک کو بھی متاثر کردیتا ہے ۔ یہاں ان کے ایسے اشعار کو اس بیان کی تائید میں درج کیاجاتا ہے جن کے مطالعہ سے علی احمد جلیلی کی عصری حسیت کے ساتھ ساتھ ان کے شائستہ شعری رویہ کا بھی اعتراف کرنا ضروری ہوجاتاہے۔
باغ بانوں کا یہ انداز نظر تو دیکھو
پھول بھی پھول سمجھ کر نہیں دیکھے جاتے
ہم زندگی کے ایسے سوالوں میں بٹ گئے
حالات کے تناؤ میں ماضی سے کٹ گئے
علی یہ لوگ ہیں کن بستیوں کے
کہ قاتل کو دعائیں دے رہے ہیں
علی احمد جلیلی کو اپنے شگفتہ اور شائستہ لب و لہجہ کااحساس تھا۔ اس لئے وہ کہتے ہیں۔
اہل نظر جو ہیں علی ان سے پوچھئے
چہرہ ہماری فکر کا کتنا جمیل ہے
علی احمد جلیلی نے اپنے دور کے حالات اور حادثات سے متاثر ہوکر کہاتھا۔
خون بہتا ہے میرے دور میں پانی کی طرح
اور وہ بھی کسی دریا کی روانی کی طرح
آپ نے زخم عنایت جو کئے تھے ہم کو
ہم لے پھرتے ہیں وہ زخم نشانی کی طرح
ہم نے تاریخ جو لکھی تھی لہو سے اپنے
لوگ پڑھتے ہیں اسے آج کہانی کی طرح
ہم کو سمجھو کہ سمجھنا ہمیں آسان نہیں
ہم چھپے رہتے ہیں لفظوں میں معانی کی طرح
آپ اسے گرمی حالات کا عنوان دیدیں
ہم نے رکھی ہے علی شعلہ بیانی کی طرح