پروین شاکر کی یاد میں
عبدالحفیظ ظفرؔ
محبت کے تضادات کی کھوج کرنے والی شاعرہ کی آج 20ویں برسی ہے ***** اس میں کسی شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ پروین شاکر جدید طرزِ احساس اور رومانویت کو نئی جہتوں سے آشنا کرنے والی اہم ترین شاعرہ ہیں۔ انہوں نے غزلیات اور آزاد نظم میں زبان اور خیال کے جو خوبصورت تجربات کیے،ان کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ رومانویت کے ساتھ پروین شاکر نے سماجی مسائل اور رسمیات کو جس فنکارانہ چابکدستی سے فوکس کیا، اس پر بھی وہ داد کی مستحق ٹھہرتی ہیں۔ 24 نومبر1954ء کو جنم لینے والی پروین شاکر نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’خوشبو‘‘ 1976ء میں منصہ شہود پر آیا۔ اس کے بعد 1980ء میں ’’صد برگ‘‘ شائع ہوا اور پھر ان کے شعری مجموعے: ’’خود کلامی‘‘،’’ انکار‘‘ اور’’ کف ِآئینہ‘‘ منظر عام پر آئے، پھر ’’گوشۂ چشم‘‘ کے نام سے ان کے اخباری کالموں کا مجموعہ شائع ہوا۔ وہ شروع ہی سے شاعری کے ساتھ نثر بھی لکھتی تھیں۔ اس کے علاوہ انگریزی اخبارات میں ان کے مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ شروع میں پروین شاکر کا قلمی نام ’’بینا ‘‘تھا، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ انہوں نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا، پھر لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی
اس کے علاوہ انہوں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں بھی ایم اے کیا اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ نو سال تک درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد وہ سول سروس میں چلی گئیں اور محکمہ ٔکسٹم سے وابستہ ہوگئیں۔ 1986ء میں وہ سی بی آر (ابFBR) میں سیکنڈ سیکریٹری کے عہدے پر متمکن ہوئیں۔ انہیں ان کی شاندار ادبی خدمات پرپرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔ پروین شاکر کی شاعری کے دورنگ ہیں، جو قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈالے رکھتے ہیں۔ ایک غزلیات اور پھر آزاد شاعری۔ رومانویت ان کی شاعری کا بنیادی وصف ہے۔ محبت، حقوق نسواں اور سماجی بیماریاں ان کی شاعری کی وہ جہتیں ہیں، جنہیں بڑے موثر انداز میں قاری کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ان کی شاعری بڑی کامیابی سے محبت، جمالیات اور ان کے تضادات کی کھوج لگا رہی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے استعاروں کا استعمال اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ وہ خاتون شاعرہ ہیں، جنہوں نے اپنی شاعری میں لڑکی کا لفظ استعمال کیا۔ اُردو شاعری کی دنیا جس میں مرد شاعروں نے حکومت کی، اس میں یہ لفظ نہیں ملتا۔اُن کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں: بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے بس اپنے واسطے ہی فکر مند ہیں سب لوگ یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے پروین کے ہاں محبت اور بے وفائی کے تجربات کی بھی بڑی خوبصورت آمیزش ہے۔ ذرا اُن کے یہ اشعار دیکھئے: کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی پروین شاکر بہت حساس شاعرہ تھیں۔ جذبات کی ناقدری اور دوسروں کی بے حسی انہیں ذہنی طور پر بری طرح گھائل کر دیتی تھیں۔ اور ان کے احساس کی شدت ہر چیز پر غالب آ جاتی تھی۔ یہ شعر ملاحظہ فرمائیں: بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لئے اور پھران اشعار میں شاعرہ نے جس لطیف پیرائے میں اپنی محرومیوں کا تذکرہ کیا ہے، وہ ان کی شاعری کو مزید نکھار دیتا ہے: میری ہر نظر تیری منتظر، تیری ہر نظر کسی اور کی میری زندگی تیری بندگی، تیری زندگی کسی اور کی بے وفا وقت تھا، تم تھے یا مقدر میرا بات اتنی ہے کہ انجام جدائی نکلا اس بات سے اختلاف کرنا ناممکن ہے کہ پروین شاکر کی شاعری کلاسیکی روایات اور جدید طرز احساس کا بہترین امتزاج ہے۔ ان کی شاعری پڑھ کر قاری فوری طور پر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ عورت محبت کو کس تناظر میں دیکھتی ہے۔ اور پھر اس سے وابستہ موضوعات پر بھی ان کا خامہ کمالات دکھاتا ہے۔ جیسے قربت، علیحدگی، عدم اعتماد اور بے وفائی۔ ان کی زیادہ تر غزلیں پانچ سے دس اشعار پر مشتمل ہیں۔ بعض اوقات ان کے یکے بعد دیگرے دو اشعار میں مفہوم کے حوالے سے تضادات بھی آشکار ہوتے ہیں۔ استعاروں اور مسکراہٹوں کی چادر میں لپٹی ہوئی، پروین شاکر کی شاعری غنائیت اور نغمگی کا احساس دلاتی ہے، یہ شعر ملاحظہ کیجیے: وہ تو خوشبو ہے ہوائوں میں بکھر جائے گا مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا یہاں خوشبو کو ایک بے مروت صنم کے استعار کے طور پر استعمال کیا گیا اور پھول اس شخص کا استعارہ ہے، جسے محبت میں کھلا فریب دیا گیا ہے۔ ان کی شاعری میں تتلی کو رومیو، بادل کو محبت، بارش کو انس اور آندھی کو مصائب کا استعارہ بنایا گیا ہے۔پروین شاکر کے بعض اشعار کو اُردو شاعری کا خزانہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے کئی اشعار اب تک زبان زد عام ہیں: جگنو کو دن کے وقت پکڑنے کی ضد کریں بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے پروین شاکر نے جنسی امتیاز، حب الوطنی، انسانی نفسیات اور زمینی حقائق کے حوالے سے بھی کئی خوبصورت اشعار تخلیق کیے ہیں۔ یہ ان کی شاعری کے وہ رنگ ہیں، جو کبھی پھیکے نہیں پڑ سکتے۔ انہوں نے زندگی میں جو تجربات حاصل کیے ،انہیں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کر دیا، وہ ایک صاف گو اور کھری شاعرہ تھیں، جو منافقت اور جھوٹی شان کا پردہ چاک کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتی تھیں۔مندرجہ ذیل شعر میں وہ صاف لفظوں میں کہتی ہیں: بدلی جو رت غرور کے گردو غبار کی دستار کھل گئی ترے جھوٹے وقار کی سہل ممتنع (Deceptive Simplicity) میں شاعری کرنا انتہائی کٹھن کام ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے عظیم شعراء نے سہل ممتنع کی شاعری بھی باکمال انداز میں کی اور اس حوالے سے ان کے اَن گنت اشعا راپنی مقبولیت اور اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میںمیرؔ، غالبؔ، مومنؔ، فیضؔ، ناصرؔکاظمی ، عدمؔ اور ساغرؔ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ چھوٹی بحر میں کہے گئے، ان عظیم شعرا کے اشعار معانی کے نئے سے نئے جہان کھول دیتے ہیں۔پروین شاکر نے بھی سہل ممتنع کی شاعری کی اور اس میں ان کا فن اوج کمال کو پہنچ گیا۔مندرجہ ذیل اشعار ان کی اس فن پر دسترس کا بین ثبوت ہیں: اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے شام کے وقت سفر کیا کرتے تیری خوشبو کا پتہ دیتی ہے مجھ پہ احسان ہوا کرتی ہے اپنے اسپین کی خبر رکھنا کشتیاں تم اگر جلائو کبھی پروین شاکر نے بہت شاندار آزاد نظمیں بھی تخلیق کیں۔ ان نظموں میں رومانویت کی ہوا کے جوتازہ جھونکے ملتے ہیں ان کا سراغ پروین کی زندگی کے ان تجربات میں ملتا ہے جنہیں انہوں نے بارہا اپنے اشعار میں بیان کیا ہے۔ان کی ایک آزاد نظم ’’سرشاری‘‘ اس ضمن میں کیا کہتی ہے، ذرا دیکھئے: ہاں یہ وہ موسم تو وہ ہے کہ جس میں نظر چپ ہے اور بدن بات کرتا ہے اس کے ہاتھوں کے شبنم پیالوں میںچہرہ میرا پھولوں کی طرح ہلکورے لیتا ہے پروین شاکر کا کمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس میں پاپ کلچر کے حوالے دیئے ہیں۔ اپنی آزاد شاعری میں انہوں نے انگریزی کے الفاظ اور محاورے بھی استعمال کیے ہیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے، جسے نامناسب سمجھا جاتا ہے اور اُردو شاعری میں اس رجحان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔کچھ نقادوں کے نزدیک پروین شاکرکی شاعری کا کینوس محدود ہے۔ ان کی رائے میں پروین کی شاعری اپنی ذات اور جنس کے مسائل کا احاطہ کرتی ہے ،لیکن عصری کرب کے حوالے سے ان کا خامہ خاموش رہا۔ سماجی اور سیاسی حوالے سے ان کی شاعری میں بہت کم مواد ملتا ہے۔ اس طرح بعض نقادوں کے مطابق ان کی شاعری طبقاتی شعور سے تہی ہے اور اس میں سماج کے پیسے ہوئے طبقات اور ان کے دکھوں کے حوالے سے کوئی شے نہیں ملتی۔ اس بات سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہر شاعر کے تجربات اور ترجیحات اپنی ہیں اور وہ انہی کے حصار میں مقید ہوتا ہے۔ اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک طے شدہ قاعدے کے مطابق اپنے خیالات کو شعر کی زبان دے۔ پروین شاکر بلاشبہ ایک سحر انگیز شاعرہ ہیں۔ جنہوں نے ایک عالم کو اپنی شاعری سے متاثر کیا۔26 دسمبر1994ء کو محبت اور خوشبو کی یہ شاعرہ اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف 40 برس تھی۔ ان کا نام اُردو شاعری کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ٭…٭…٭
بہ شکریہ روزنامہ دنیا