ادبی شگوفے
رائیتہ بنا موضوعِ شعر
ایک بار کسی دعوت میں بہت سے شعرا و ادبا مدعو تھے کھانا آنے سے قبل اس بات پر گفتگو ہو رہی تھی کہ صاحب طرز انشا پردازی یا شاعری اکتسابی چیز ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﺳﮯ ﻣﺤﻨﺖ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺳﮯ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﻭﮨﺒﯽ ﺻﻔﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻓﻄﺮﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﮨﻢ ﺑﻌﺾ ﺩﻓﻌﮧ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﺰﻝ ﻏﺎﻟﺐ ﯾﺎ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﮐﮯ ﺭﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﯾﺎ ﯾﮧ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﯽ ﺳﯽ ﻧﺜﺮ ﮨﮯ۔ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺭﺍﺋﺘﮧ ﻻ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﺎﺯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﺌﮯ ﺭﺍﺋﺘﮯ ﮨﯽ ﮐﻮ ﻟﮯ ﻟﯿﺠﺌﮯ ﺍﮔﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺷﻌﺮﺍ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺮﺗﮯ۔ ﺟﯿﺴﮯ
ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﮐﮩﺘﮯ :
ﺣﯿﻒ ﺷﺎﮨﯿﮟ ﺭﺍﺋﺘﮧ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ
ﯾﺎ ﺟﻮﺵ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﯾﻮﮞ ﮐﮩﺘﮯ :
ﻭﮦ ﮐﺞ ﮐﻼﮦ ﺟﻮ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺭﺍﺋﺘﮧ ﺍﮐﺜﺮ
ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺘﺮ ﺷﯿﺮﺍﻧﯽ ﮐﮩﺘﮯ :
ﺭﺍﺋﺘﮧ ﺟﺐ ﺭﺥ ﺳﻠﻤﯽٰ ﭘﮧ ﺑﮑﮭﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ :
ﭨﮭﮩﺮﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﺫﺭﺍ ﺭﺍﺋﺘﮧ ﮐﮭﺎﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﭼﻠﻮﮞ
ﻓﺮﺍﻕ ﯾﻮﮞ ﮐﮩﺘﮯ :
ﭨﭙﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﺍﺋﺘﮧ ﮐﭽھ ﮐﭽھ
ناکام شاعر
ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ : میں ناکام شاعر ہوں ۔
اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا :
جون صاحب ! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔ یہاں اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ، ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں۔
نقاد کون؟
جوشؔ ملیح آبادی شام کے وقت شغل مئے نوشی میں مصروف تھے کہ نوکر نے آکر اطلاع دی کہ ایک صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں جو نقاد ہیں۔جوشؔ صاحب نے پوچھا اکیلے ہیں کیا؟
’’نہیں تین چار دوست ان کے ساتھ ہیں‘‘ نوکر نے کہا۔
’’وہ جھوٹ بول رہے ہیں‘‘جوشؔ صاحب نے جوش میں آکر کہا۔ساتھ بیٹھے دوست نے پوچھا ۔آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟
’’جس کے چار دوست ہوں ہوں وہ نقاد ہو ہی نہیں سکتا ‘‘ جوشؔ نے جواب دیا۔