سید تالیف حیدرؔ
شعر:ترسیل ،تفہیم اور استفہام
موبائل : 09540321387
(الف)
بصیرت اورفنی افکارکے میلانات کا تعین نہیں کیا جا سکتا ،اس کی کئی جہات ہیں ۔جس طرح علم کی تعیین تعریف کا مسئلہ ہے ۔ اسی طرح شعر ،موسیقی اور مصوری کے کلیتاً اظہار کا مسئلہ بھی کافی پیچیدہ اور غور طلب ہے۔ان اصنافِ ثلاثہ کے تعریفی بیانات پر قدیم و جدید کتب کا ایک انبار موجود ہے ۔لیکن یہ تمام تعریفیں بہت حد تک زمانی اور محدود نظریۂ اظہار سے متعلق ہیں ۔جن تعبیرات سے مستفید تو ہوا جاسکتا ہے لیکن اسے کماحقہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔مثلاً شعر کی حقیقت کا اظہار عرب و عجم کی بیشتر مہذب قوموں نے کیا ہے۔یونانی فلسفہ یا ارسطو و افلاطونی ترجمانی کا مر ثیہ توہمارے عہد کے کئی ناقدین نے زور و شور سے پڑھا ہے لیکن ساتھ ہی ساؤجی سلمانؔ اور رودکیؔ وغیرہ کے واقعات سے بالترتیب اس کی ماہئیت کو ہر طور سمجھانے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔مصوری اور موسیقی کے متعلق تو غالباً اس سے بھی زیادہ نظریات موجود ہیں۔میرا موقف اسکی تاریخ بیان کرنا نہیں بلکہ اس کے جدید ابلاغ کی توسیع کرنا ہے۔
ہمیں شعر کی افہام و تفہیم کوحالیؔ ،مسعود حسن رضوی ادیبؔ ،امداد امام اثرؔ اور نجم الغنیؔ وغیرہ کے خیالات سے نہیں سمجھناچاہئے ۔اس کی معقول وجہ یہ ہے کہ اس عہد میں شعر اور مسائل کی صورت اس عہد سے بالکل مختلف تھی او ر ساتھ ہی ساتھ زمانی ارتقاء نے موسیقی اور مصوری میں جو سرفرازی حاصل کی ہے اس سے اشعار کا ظاہر و باطن بھی متاثر ہوا ہے۔مثلاً مشرقی ملک ہندوستان میں جس وقت یہ تمام ادیب شعر کی حقیقت کا بیان کر رہے تھے تب تک پوپ میوزک اور ماڈرن تجریدی آرٹ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔یہ تو درکنار اشعار کے معاملات میں بھی نثری نظم اور آزاد غزل وغیرہ کے تصورات سے ہمارے اذہان خالی تھے ۔تو بھلا ہمارے تصورات کیوں کر ان تشریحات کی ر وشنی میں راستہ پا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے عہد کے تمام تر مسائل کی روشنی میں از سر نو شعر ،موسیقی اور مصوری کی تشریحات درکار ہیں۔
شعر کی اصل صورت اس کا قالب نہیں اس کا قلب ہے ،جن بنیادوں پہ ہم کسی شعر سے محظوظ ہوتے ہیں وہ اس کے قلب میں مضمر ہوتی ہیں اسی لئے اس کا اثر بھی ہمارے ذہنوں سے زیادہ ہمارے دلوں پر ہوتا ہے۔قلب کے فکری یا غیر فکری ہونے سے قطع نظر اس بات کا اثبات تو کرنا ہی پڑتا ہے کہ کوئی تو محرک صورت اس میں پیوست ہے جو ہمیں امکان شعر یا افہام شعر پہ محظوظ کرتی ہے۔اب یہ دیکھنا ہے کہ شعر کے وہ کون سے عناصر ہیں جوا ن جذباتی محرکات کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔کیا شعر آواز ہے ؟یا آوازوں کا ایسا مربوط نظام ہے ،جو ترتیب دی ہوئی صوتیات کو ہمارے رو بہ رو کرتا ہے ؟ اس سے مفر نہیں۔لیکن پھر موسیقی کو شعر سے ممیز نہیں کیا جا سکتا، اور اگر شعر صرف اس خطاطی نظام کی دین ہے جو آڑی ترچھی لکیروں سے ایک آواز پیدا کرتا ہے اور وہ آواز ہمیں اس تصویر سے حاصل ہوتی ہے۔ تو گویا شعر کی اپنی کوئی شناخت نہیں رہ جاتی اس صورت میں شعر ،موسیقی اور مصوری کا ایسا امتزاج ہے جو ہمیں وقتی آسودگی یا اضطراب فراہم کرتا ہے۔اگر یہ بھی نہیں ہے تو شعر کیا ہے؟ ۔۔۔ابھی کچھ دنوں قبل ہم ایسی اصناف سے رو شناس ہوئے ہیں جنہیں ہم اشعار کی صف میں شامل کرتے ہیں لیکن وہ قدیم نظریات کے عین مطابق شعر نہیں۔ مثلاًراشد یا میراجی کی کچھ ایسی تخلیقات جو شعری پیرائے میں ہیں لیکن اس کی صوتیات کسی قسم کے عروضی نظام کی قائل نہیں ۔وہ بجنسہ شعر ہے یا مصرع ہے جس کی تکمیل کی اکائی ،مدلل صوتی نظام سے انحراف کی دلیل ہے۔لیکن وہ ایک موسیقی ہے یا ایک شعر ہے،جس کے امکان کا اثبات بھی اتنا ہی جدید ہے جتنا اس کے وجود کا زمانہ۔ یہ ایک طو یل بحث ہے کہ مقدمہ شعر و شاعری کے تصور شعر کا ابلاغ حلقۂ ارباب ذوق کے تصور سے کیوں کر مختلف ہے ،جس کی بنیادی اور سطحی وجوہ میں مغربی اثرات او رموضوع پر ہیئت کی ترجیحات کا اظہار وغیرہ عمومی مباحث ہیں ۔اصل چیز شعر ہے اورشعر کی کئی اشکال ہیں۔ موضوع،مواد،ہیئت،خارج،داخل،ظاہر یا باطن یہ سارے معاملات سوائے مبالغے کے اپنی کوئی حقیقت نہیں رکھتے، جن کا وجود ہمیں حسن شعر تک پہنچانے میں مانع ہوتا ہے ۔ شعر کے ابلاغ کا حصول مزید اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ شعرتضاد کا دوسرا نام ہے اور یہ تضاد ہمارے احساسات میں پایا جاتا ہے۔اسی لئے اسفال و افراز (لاحقے یا سابقے کے قواعدی اصول کو جدید نظام لفظ سے مختلف انداز میں وضع کرنے کے لئے کچھ الفاظ کی ساخت میں تبدیلی جائز کی جا سکتی ہے،کتاب سے اکتاب جیسے الفاظ پہ اعتراض صحیح ہے، لیکن اسفل سے اسفال اور افراختن کے حاصل مصدر کو اردو قواعد کی رو سے اس انداز میں استعمال کیا جائے تو کوئی قباحت نہیں ہونا چاہئے،یہ میرا معروضہ ہے جس پہ میرے عزیز دوست مولانا ارشاد نعمانی کو اعتراض ہے لیکن وہ بھی کسی حد تک اس کے قائل ہیں کہ اس انداز کی کلیتاً تردید نہیں کی جاسکتی۔یہ پہلی کوشش ہے ارباب علم و ادب اسم کی اقسام کو مد نظر رکھتے ہوئے اس اصول پہ غور کر سکتے ہیں۔لیکن جدید توسیع و اختراعات کو بھی نظر میں رکھیں۔ ) کی نوعیت کے مصلقات بھی اسی تضاد کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔اسے کسی قسم کے ظاہر یا باطن میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔شعر ایک نو مولود مبہم تسکین کی مانند ہمارے وجود کے ایک خاص حصے میں اپنی ولادت کا اعلان کرتا ہے، جو لمحاتی بھی ہو سکتا ہے اور مسلسل بھی۔ اس کے تسلسل کا انحصار اس کے تاثر پہ ہوتا ہے۔شعر اس تاثری خصوصیات سے جتنا مملو ہوگا اتنی دیر تک ہمارے محسوسات کی زندگی کا حصہ بنا رہے گا۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ شعر کی ایسی تعریف سے کیا اس بات کا اظہار ہورہا ہے کہ شعر اصلاً تاثر کی دوسری شکل ہے ؟یا شعر بجنسہ تاثر ہے؟میں کچھ کہوں اس سے پہلے آپ فاروقی صاحب کا ایک اقتباس دیکھئے۔فرماتے ہیں:
شعر کے پیدا کردہ تاثر یا جذباتی رد عمل کی اقداری یا مقداری قدر کو شعر کی پہچان نہیں بنایا جا سکتا۔ مثلاً کوئی شعر بے ثباتی دنیا کا تذکرہ کر کے ہمیں متاثر کرتا ہے یا کوئی نظم انسان کی لا چاری کا ذکر کر کے ہمیں متاثر کرتی ہے ۔جذباتی تاثر پیدا کرنے کی یہ قوت جو شعر میں پائی جاتی ہے ۔اس لسانی ترتیب کے مطالعے میں ہماری کوئی مدد نہیں کرتی۔جسے ہم شعر کہتے ہیں ۔کیوں کہ یہ قوت تو کسی افسانے نا ول یا ڈرامے میں بھی ہو سکتی ہے ۔ممکن ہے کہ اس قوت کا ذکر اور اس سے متاثر ہونے کی صلاحیت شعر کا لطف اٹھا نے میں ہماری معاون ہو ،لیکن شعر کو پہچاننے میں ہماری معاون نہیں ہو سکتی ۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چوں کہ فلاں لسانی تر تیب ہمارے اندر جذباتی تاثر پیدا کرتی ہے اس لئے وہ شعر ہے۔کیوں کہ یہ جذباتی تاثر تو کئی طرح کی تحریروں سے پیدا ہو سکتا ہے ۔جس کے لئے شعر کی قید نہیں ہے۔
(صفحہ نمبر :۳۵،شعر غیر شعر اور نثر،شمس الرحمٰن فاروقی، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان )
فاروقی صاحب کی بات سے صد فی صد اتفاق ،یہ اقتباس باطنی کے ساتھ ساتھ ظاہری عناصر پہ مشتمل ہے۔ جس سیاق میں انھوں نے شعر کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اس کے لئے اس سے اچھی تعریف مشکل تھی پھر بھی اس سے تاثر اور شعر کے رشتے پر روشنی پڑتی ہے ۔بہر کیف اس سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ شعر نہ تو اصلاً تاثر کی دوسری شکل ہے اور نہ بجنسہ تاثر ہے۔بلکہ اس کے مولد کا محرک ہے۔اس کا اثبات اس طرح ہوتا ہے کہ تاثر شعر میں مضمر نہیں بلکہ اس کا تعلق اس وجود سے ہے جہاں اس کا نزول ہو رہا ہے ،اوریہ بھی کوئی کلیہ نہیں کہ شعر کا موثر ہونا یا نہ ہونا اس کی تفہیم پہ منحصر ہے اس کا انحصار اس کی ترسیل پر ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس کی ترسیل کا مقام عین شعر کے مطابق ہو جہاں اس کی ترسیل ہوتی ہے وہاں شعر بجنسہ اثر کی صورت اختیار کر لیتا ہے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اثر بجنسہ شعر ہو جاتا ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہمارے محظوظ یا مکد ر ہونے سے شعر کوکتنا علاقہ ہے ۔یا یہ کہ اس سے شعر کا کوئی علاقہ ہی نہیں۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ شعر بہت قوی محسوسات کا اجماع ہوتاہے ۔جو ہمارے کسی خاص جذبے کو مہمیز کرتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک شعر ہمیں ابھی اچھا لگے اور اگلے ہی لمحے و ہ ہمیں برا لگنے لگے ۔اس کے بر عکس یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شعر ہمیں آج ذرا بھی پسند نہ ہو، لیکن اگلے دس برس بعد پسند آنے لگے۔ حالانکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جذباتی اور وقتی ،تاثراتی شاعری جو ایک خاص عمر میں بہت فرحت بخشتی ہے ،وہ ذہنی بلوغت کے بعد بہت زیادہ سطحی اور اوچھی معلوم ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح نا بالغ ذہنیت کے دوران جو اشعار مہمل اور کسی مجذوب کی بڑلگتے ہیں ،وہ ایک عمر کے بعد بہت متاثر کرتے ہیں ۔یہ توبہت عام باتیں ہیں لیکن انھیں لوگوں کے درمیان ہمیں بہت سے ذی شعور اشخاص ایسے نظر آتے ہیں جو ان نا بالغ اشعار (جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے )کو ہمیشہ علویت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بہت سے کم شعوری صلاحیتوں کے مالک اذہان ایسے ہوتے ہیں ،جو ناپختہ عمری میں ہی بہت ثقیل اور مبہم اشعار سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔میں اسے محض شعوری یالا شعوری صلاحیتوں کی دلیل نہیں سمجھتا ۔بلکہ اس میں اشعار کی محر کانہ صلاحیتوں کافسوں پو شیدہ ہے۔ اگر ساحر ،اختر شیرانی ،فیض احمد فیض اور اقبال کو وقتی جذباتیت کی مثال تسلیم کر لیں، تو یہ بات کچھ اور واضح ہو جائے گی کہ یہ فسوں حقیقتاً ہے کیا بلا ۔اسمیاتی مرعوبیت اس تحریک کا سب سے بڑا محرکہ ہے۔مجھے اقبال ،فیض،ساحر اور اختر شیرانی پسند ہیں لیکن اگر میں شعر کی عمر کے ارتقا کی بات کر تا ہوں تو مجھے اس بات کا اثبات کرنا پڑتا ہے کہ شعر جو مجھ میں، میرے احساسات میں، مسقف، اپنی پرداخت کے عمل میں سر گرداں ہے۔تو مجھے کسی قسم کی مر عوبیت شعر کے صحیح ابلاغ سے نہیں روک سکتی ،اور میں ان تمام سے آگے نکلنے میں اپنا ایک لمحہ بھی خرچ نہیں کروں گا ۔لیکن اصل نکتہ یہ ہے کے میں جب اس مقام سے آگے کا سفر کرتا ہوں اور شعر کی تمام تعریفات کو متعین کر کے’ کشاکش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا ‘کے راستے پہ قدم رکھتا ہوں تو کیا شعر اپنی صورت بدل لیتا ہے، اور وہ تعریف یا شکل جو گزشتہ دنوں مجھے اصل شعر کی مانند معلوم ہوتی تھی وہ محض ایک واہمہ کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔وہ تمام شاعر جنہیں میں شعر کا محرم تسلیم کرتا تھا ،ان کو کبھی شاعر سمجھنے پر بھی آج انگشت بدنداں ہوں، اور انھیں سرے سے غیر شاعر یا نا بالغ شاعر کہہ کر آگئے بڑھ جاتا ہوں ۔یہ ہی ہے شعر کا اصل فسوں جو اپنے آپ میں سفر کرتا ہے اور ہمیں اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ شعر کی ایک شکل تفہیم آگہی بھی ہے۔ایک اور بات کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ یہ تفہیم کا ارتقائی عمل علم کے ارتقائی عمل کی دین ہے ،لیکن یہ کوئی کلیہ نہیں کہ علم کا ارتقا ہر شخص کو شعر کی اس تفہیم سے آگاہ ہونے میں ممد ثابت ہو۔
اردو شاعری کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ابھی نئی ہے ،لیکن پھر بھی اس میں کئی قسم کے تجربات ہو چکے ہیں ۔ہر عہد کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ہمارے شعرا نے کس طرح شعوری اورغیر شعوری انداز میں شعر کی تفہیم کا مسئلہ حل کیا ہے ۔ولی سے بھی اس کی شروعات کی جائے تو ہمیں اس کے تجربات کا بتدریج ارتفاع، ابلاغ شعر میں مدد دیتا ہے ۔یہ بات الگ ہے کہ ہم شعر کو ارادتاً اس انداز میں اپنے مطالعے میں نہیں لاتے کہ ہم اس کے تجربات کو ملاحظہ کر رہے ہیں ۔اس انداز کو بہت شعوری طور پہ داخل مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ایک اقتباس دیکھئے:
’ولی نے بعض جگہ ہندوی اور فارسی یا عربی کے الفاظ کے امتزاج سے بھی ترکیبیں وضع کی ہیں جو ایک مخصوص لسانی میلان کا پتہ دیتی ہیں۔ اگر ایک طرف ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابلاغ کے مسئلے کو حل کرنے میں اس عہدکے شعرا نے کیسی وسیع النظری اور کشادہ قلبی کا ثبوت دیا ہے تو دوسری جانب شعری اسلوب کی اس خاص ارتقائی منزل کی نشاندہی بھی ہوتی ہے جو زبان کی ترسیلی صلاحیتوں کی کم مائیگی کی غماز ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ شعری لب و لہجہ اپنے معیار تک پہنچنے میں کن منزلوں سے گزرا ہے۔‘
(صفحہ نمبر ۴۴ ؍دکنی غزل کا پس منظر:پروفیسر سیدہ جعفر:اردو غزل؍ مرتبہ :کامل قریشی)
یہ تمام تجربات چاہے زبان کی تکمیل کے لئے عمل میں آئیں یا ارتقا ء کے لئے، اس کا شعر سے کوئی تعلق نہیں، میرا موقف (اس بیان کی حد تک )تمام ظاہر ی اعمال کی تردید کرتا ہے ۔شعر کو نثر سے ممیز کر کے تو فاروقی صاحب نے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔لیکن یہاں داخلی معاملات ملحوظ ہیں۔شعر تجربے سے نہیں بلکہ تجربہ شعر سے ماخوذ ہے ۔وجود شعر کو ان تجربات سے علاقہ نہیں ہوتا ۔ لیکن بد قسمتی یہ کہ شاعر کو اپنی اس ریزہ کاری سے محظوظ ہونا آتا ہے۔یہ شاعری کی حد تک محدود نہیں ۔دیگر اصناف میں بھی تخلیق کار اپنا یہ رویہ قائم رکھتا ہے۔شاید اسی لئے ناسخ جیسے شعرا کو غزل کے میدان میں شہسوار کی حیثیت نہیں حاصل۔حالاں کہ انیس جیسے مشاق بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جو اپنے مراثی کے حوالے سے ایسے دعوے کے ساتھ فن پارہ تخلیق کرتے ہیں، کہ اس دفتر شعر میں نئے الفاظ کی بھرتی ہے۔ جہاں دیرینہ ترکیب و تشبیہات کا گزر بھی نہیں،غالب نے بھی بقول سرور ؔ اسی طرح کی شعوری کوششیں کی تھیں انکا کہنا ہے کہ:
’غزل کا فن روانی اورشیرینی چاہتا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ شاعر ذوق کی طرح صرف سوئے ہوئے استعاروں یا محاورں پر تکیہ کرے ۔نسخہ حمیدیہ کے غالب نے اسی لئے ذوق کی ’پنچایتی ‘ شاعری سے روگردانی کی اور فکر کی جولانی کے لئے فارسی تراکیب کا سہارا لیا تاکہ وہ اپنے آئینے کو مانجھنے اور معنی کی صورت دکھانے کے لئے دیوان غالب تک پہنچ سکے۔‘
(صفحہ نمبر ۲۸ ؍ غزل کا فن:آل احمد سرور:اردو غزل؍ مرتبہ :کامل قریشی)
سرور ؔ صاحب کی کئی باتوں سے اتفاق اور اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔مجھے فی الحال ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں کہ ذوق ؔ کے استعارے سوئے ہوئے ہیں یا مردہ ہیں یا ان کی شاعری پنچایتی ہے یا غیر پنچایتی ۔اس اقتباس سے سرور صاحب کا مافی الضمیرغالب ؔ کے شعوری اعمال کی جانب ہماری توجہ مبذول کراتا ہے ۔یہ تو پھر بھی لسانی وضعداری ہے۔ لیکن شعرکچھ بھی ہو ،سبھاش چند بوس کا نعرا نہیں ہو سکتا۔ خیر یہ بہت پرانی تختی ہے جس کی مخالفت بھی اب بے معنی معلوم ہوتی ہے۔منشا یہ ہے کہ راشد ؔ ہوں یا میراجیؔ ، جدیدیت ہو یا ما بعد جدیدیت ،ذہنی آزادی ہو یا غلامی، انفرادیت ہو یا اجتماعیت اور جنسیت ہو یا تصوف یہ سب محض مراحل ہیں جن سے تمام ایسی باتیں یا ایسی تخلیقات سامنے آتی ہیں جو شعر کہنے میں معاون کم حائل زیادہ ہوتی ہیں۔ میرا مقصد غالب ؔ یا اس قبیل کے دوسرے شعرا پہ غیر شاعرانہ الزام کی تنقید نہیں ۔پھر چاہے وہ ولیؔ ہوں یا غالبؔ ، ترقی پسند مصنفین ہوں یا حلقہ ارباب ذوق۔ میرا موقف صرف یہ ثابت کرے کی کوشش ہے کہ۱۷۲۵ ، ۱۸۵۷ ، ۱۹۲۱ اور ۱۹۳۶ کے انداز کو اختیار کرنے کا زمانہ اب نہیں رہا ۔کیوں کہ آج کا شاعر بھی اتنا ہی چالاک اور عقل مند ہے جتنا اس کے تخیل کا معمار، آج ہمیں شعر کی افہام و تفہیم کی ضرورت اگر نہیں پیش آتی، تو اس کی ترسیل کا مسئلہ بھی نہیں ستاتا ۔لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھیں دونوں بنیادوں پہ ایک اضطرابی کیفیت جنم لیتی ہے جو کئی سوالوں کے درمیان ایک شاعر کو تخلیقی عمل میں زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے ۔ یہ بھی ایک ضمنی بات ہے کہ یہ کوشش یا تو کامیاب ہوتی ہے اور ظفر اقبال جیسے شعرا کو آفاقیت سے ہم کنار کر دیتی ہے یا پھر نا کام ہوتی ہے اور بشیر بدر اور ندا فاضلی جیسے شاعروں کو امکانی سطح پہ مقامیت سے بھی محروم کر دیتی ہے۔میرا موضوع شعرا کے متعلق اظہار خیال کرنا نہیں بلکہ شعر کی ترسیل و تفہیم کو اجاگر کرنا ہے ۔ لہٰذا اس عہد کے شعرا کے تعلق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے یہاں خسرو سے لے کرکبیر تک جائسی سے آسی غازی پوری تک جعفر زٹلی سے لے کر چرکین تک اور میر سے لے کر ناصر کاظمی تک تمام شعرا کا انداز موجود ہے ۔ ساتھ ہی الیکٹرونک میڈیا،گلوبلازیشن ،امارت و ادبار کے جدید پیمانے ، ریٹیل ازم ،فیشن انڈرسٹری اور جملہ شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افکار بھی محفوظ ہیں۔
(ب)
(اس باب کا مطالعہ کرنے سے قبل ’ایل ۔سوسن اسٹیبنگ ‘کی کتاب ’جدید ابتدائی منطق ‘ کے پہلے باب ’منطق کا مطالعہ ‘کوپڑھ لیا جائے تو بہتر ہے۔اس کے علاوہ جو لوگ منطق کا مطالعہ نہیں کرتے وہ کسی ذریعے سے علم منطق میں مقدمہ ،دلیل اور نتیجہ کی حیثیت کو سمجھ لیں تو اس حصے سے محظوظ ہو نے میں آسانی پیش آئے گی۔بہر کیف میں نے خود بھی مختصراً مقدمہ ،دلیل اور نتیجہ کی تشریح پیش کر نے کی کوشش کی ہے۔ میں نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ منطقی اصولوں سے شعر کی اہمیت اور اس کی ایک خاص قسم کو سمجھا جا سکے۔)
شعر میں منطقی عناصر اور اس کے مظاہرکا اصولی تجزیہ مدلل اور جامع انداز میں پیش کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ شعر کی بازیافت کا مسئلہ حکماء کے اقوال کی تشریح سے زیادہ مشکل اور سائنس اور الجبرا کی اصطلاحوں سے زیادہ علامتی ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ شعر ایک قول بھی ہے ۔اور ہر قول جب اپنی تصدیق کرتا ہے تو اس کے پس منظر میں ایک شہادت نامہ مرقوم ہوتا ہے اور یہ علم منطق کا اصول ہے کہ جب کوئی قول کسی بیان کی شہادت پیش کرتا ہے تو اسے مقدمے کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔یہ مسئلہ بحث طلب ہے۔بہر کیف اس سے قبل یہ بھی ذہن نشین کر لینے کی ضرورت ہے کہ’ شعر ‘حقیقت میں شعر نہیں ہوتا ۔ایک عروضی نظام میں مقید یاہر جدید عروضی نظام سے مزین ایک فکر ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس ’شعر ‘ایک اصطلاح ہے ،اور کسی بھی اصطلاح کا ایک مقام ہوتا ہے۔ہر علم کو سمجھنے کے لئے اس کی اصطلاحات کی معنویت کا ہم پر پوری طرح واضح ہونابہت ضروری ہے ۔اگر آپ کسی ایک اصطلاح کے صحیح معنی تک پہنچنے سے چوک گئے تو وہ دس اصطلاحات کو لفظی معنویت میں تبدیل کردے گا۔لفظ جب اصطلاح کی صورت اختیار کرتا ہے تو اس حالت میں اصطلاح میں لفظ کی دس فی صد معنویت پوشیدہ ہوتی ہے ،جس سے ہمیں اس اصطلاح کو اپنے حافظے میں محفوظ رکھنے میںآسانی پیش آتی ہے ۔ لیکن لفظ میں اصطلاح کا ایک فی صد بھی نہیں ہوتا۔اس سے ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم شعر کو شعر کیوں کہیں، الف ،ب یاج ،کیوں نہ کہیں۔اس کا معقول جواب یہ ہے کہ ہم لوگ دلالتی ہیئت (Implicational Forum)کے بجائے صحیح دلالت (Right Implication) کے ذریعے بات کو جلدی سمجھتے ہیں ۔الف ،ب اور ج کے مقابلے میں شعر ایک صوری و معنوی تشکیل کا مظہر ہے ۔جو ہمارے تخیلات کی دنیا کو صحیح اور پر سکون معنوی رہ گزر سے روشناس کرواتا ہے۔خیر ہم اصطلاح پہ تھے ۔میں یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا کہ دنیا کی تمام زبانیں اور ان تمام زبانوں کے تمام حروف و الفاظ ایک اصطلاح اور ایک علامت ہیں۔بلکہ میں تو پوری کائنات کو ایک علامت تصور کرتا ہوں لیکن یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے ۔ارسطو نے زبان کے متعلق جو بات کہی ہے اس سے بھی میرے جملے کی تصدیق ہوتی ہے ۔وہ الفاظ کے تعلق سے کہتا ہے کہ ’آوازیں ہیں جو رسم و رواج کی بنا پر با لمعنی ہیں ‘(صفحہ نمبر ۲۰،جدید ابتدائی منطق،ایل۔سوسن اسٹیبنگ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان)’رسم و رواج کی بنا پر‘سے میرے موقف کا اظہار ہوتا ہے کہ ہر لفظ ایک اصطلاح ہے ۔یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ آخر اصطلاح کا استعمال ہوتا کیوں ہے؟اصطلاح اور علامت حقیقتاً مقدار کم اور اقدار بڑھانے کے لئے استعمال میں آتی ہے۔کیوں کہ کمیت کی زیادتی کیفیت کو منقطع کرتی ہے ۔اسی لئے ایک صوفی ،ادیب ،سائنس داں اور حکیم اصطلاح کی اہمیت کو دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین سے نسبتاً زیادہ سمجھتے ہیں۔میں اپنی بات کو ایک مثال کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مندرجہ ذیل جملے کو ملاحظہ کیجئے۔
’استدلال کی صحت کا دار و مدار اس کی ہیئت پر ہوتا ہے۔‘
(صفحہ نمبر۲۳،جدید ابتدائی منطق،ایل۔سوسن اسٹیبنگ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان)
سب سے پہلے دیکھئے کہ اس میں اصطلاحات کیا کیا ہیں۔استدلال،صحت اور ہیئت ۔اب استدلال سے کیا مراد ہے ۔صحت کی معنویت صادق ہے یا کاذب اور ہیئت کا استعمال اس کی کس قسم کے طور پر کیا گیا ہے۔مثلاً وہ ترتیب ،نظم، قسم،نوع،وضع،شکل،صورت،پیکر،معمول،قاعدہ،نمونہ وغیرہ میں سے کیا ہے؟اس کے بعد آپ کو اس جملے کے صحیح معنی کا علم ہوگا۔اب ہر شخص آزاد ہے کہ وہ اس جملے کو کس طرح سمجھے گا۔
بہر کیف یہ ایک ضمنی تذکرہ تھا ،ہم بات کر رہے تھے اس منطقی اصول کی کہ جب کوئی قول کسی بیان کی شہادت پیش کرتا ہے تو اسے مقدمے کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ ایک شعر دیکھئے۔
آخرش کون ہے جو گھورتا رہتا ہے مجھے
دیکھتا رہتا ہوں آئینے کو حیرانی سے
(سالم سلیم)
شعر کے منظر نامے کے حسن سے قطع نظر یہ دیکھئے کہ شاعر نے کتنے مدلل انداز میں اپنے استفہام کی وجہ پیش کی ہے ۔ اب ہمارے پاس دو چیزیں ہیں ایک استفہام ،دوسری وجہ، اور منطقی اصول کے تحت بھی دو لوازم ہیں۔ایک بیان،دوسراقول(شہادت)۔بیان ،استفہام ہے اور وجہ ،شہادت ۔ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ شعر کا اصل رکن اکثر اوقات استدلال کی صورت میں نمودار ہوتا ہے ،لیکن یہ شاعر کا کارنامہ ہے کہ اس نے بیان کو قول سے بڑھا دیا ہے ۔یہ کیفیت شعر کی صحیح قرأت کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ آخرش:اضمحلال ۔’کون ہے جو گھورتا رہتا ہے مجھے‘:جوش،اضطراب،مسرت،المیہ،طربیہ ،خمار اور بے ثباتی وغیرہ ۔’دیکھتا رہتا ہوں آئینے کو حیرانی سے ‘یہ مصرع کیفیت کی تکمیل(اور موت) ہے ۔خیر یہ دوسرا مصرع قول ہے ۔اب شہادت نے بظاہر استفہامی صورت میں مقدمے کی شکل اختیار کر لی ہے ۔لیکن اس میں کئی جہات مضمر ہیں جو مقدمہ بھی ہے ،نتیجہ بھی اور دلیل بھی۔ اصولاً اسے مقدمہ ہی کہا جائے گا۔یہ تمامی صورتیں استدلال کی نوعیت پہ منحصر ہیں ۔
شعر کے تعلق سے ایسی منطقی گفتگو کا مطالعہ کیا جائے تو کچھ دیر تک یہ محسوس ہوتا ہے کہ کائنات میں شعرسے بڑی کوئی حقیقت نہیں ۔میں ابھی خود اپنے اس احساس کو پوری طرح تسلیم نہیں کرتا،لیکن انکار کی کوئی معقول وجہ بھی نظر نہیں آتی۔بہر حال مقدمات سے نتائج کا استخراج ہوتا ہے۔اس صورت کو امکانی سطح پہ اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ مقدمہ ایک مردہ شئے ہے ۔اسے مقدمہ ہم نے بنایا ہے ،اب اگر ہم کسی اصول کو وضع کرتے ہیں تو ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم کچھ نسلیں ان اصولوں کی اسی طرح پابندی کریں۔لیکن ہر نسل کا ایک ذہنی اجتہاد ہوتا ہے جو گزشتہ اصولوں کی تردید کر کے نئے اصول وضع کرتا ہے۔منطق کے کچھ اصول ایسے ہیں جن کی تردید اتنی آسان نہیں۔مثلاًجز سے کل اور کل سے جزسے حاصل شدہ نظریات وغیرہ۔اسی طرح علم عروض کے مدورانہ نظام کے تعلق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے اصول حقیقتاً دائمی ہوتے ہیں ۔خیر اسی لئے مقدمے کی حیثیت کو ہم اپنے تفہم پہ منطبق کریں گے ۔اصولاًیہ کہنا چاہئے کہ کسی مقدمے کی استخراجی(Deducative)یا استقرائی(Inductive)صورت کا تعین استدلال کرنے والے کے تفہم پر مشتمل ہوتا ہے۔یہاں ایک تجرباتی نوعیت کا معائنہ کیجیے کہ وہ شعر جو ابھی وجود میں نہیں آیا وہ بھی ایک مقدمہ ہے اور اگر ایسا کوئی مقدمہ اپنے نتائج کی ترسیل وقت سے پہلے کر دے تو ایسا شعر الہامی صورت میں ہم پر نازل ہوگا۔اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم اس کی استخراجی تحریک کا حصہ بن چکے ہیں۔ہم پہلے ہی سمجھ چکے ہیں کہ اصل رشتہ مقدمے اور دلیل کا ہے ،نتیجہ اس کی درمیانی کڑی ہے،لیکن اسی پر ان دونوں کی حیثیت کا انحصار ہوتا ہے۔الہام حقیقتاً کوئی ما فوق الفطری چیز نہیں ہے بلکہ شعر کا ایک بدن ہے ،ایک کہنے کی معقول وجہ یہ ہے کہ شعر کے کئی بدن ہیں اسی طرح الہام بھی ایک بدن ہے۔اس کی مثال بھی حسان بن ثابت کا وہ مشہور واقعہ ہی ہے جس میں انہوں نے اپنے بیٹے کے شاعر ہونے کا اعلان کیا تھا۔بہر حال منطقی اصولوں کے تحت مقدمہ اور نتیجہ بیک وقت ایک نہیں ہو سکتے۔ مقدمہ اس صورت میں کسی طرح نتیجہ نہیں ہو سکتا جب اس سے استدلال مقصود ہو،اور نتیجہ اس شکل میں مقدمہ بن جاتا ہے جب اس کی صحت سے استفادہ کیا جائے۔یہاں صحت سے مراد شعر کا الہامی اور غیر الہامی ہونا ہے۔
(ج)
آج کا شعر اپنے رہ گزر کی طوالت اپنے بطن سے تیار کرتا ہے جس کا ظاہر لاکھوں طرح کے افکار کی مٹی تلے دفن ہے ۔اس قبر سے ایک پگڈنڈی نکالنا ایک بڑے تخلیق کار کی نشانی ہے اور اس عمل میں ایک شعاع بھی کامیاب ہو گئی تو لاکھوں سال تک اس روشنی سے کئی گھروں کے چراغ روشن ہوں گے۔
Syed Taleef Haider
Mob : 9540321387
F-32,street no 6/3,Zakir Nagar,
okhla, New Delhi 110025