قبلۂ اول مسجد اقصیٰ، فلسطین
Masjid Aqsa, Palestine
ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی، ورنگل
موبائل:09866971375
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے 623 ء میں مدینہ ہجرت کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے بحکم خداقبلہ کو تبدیل فرمایا اور مسجد الحرام کو قبلہ قرار دیا گیا۔ مفسرین کے مطابق مسجد اقصیٰ کاذکر قرآن میں سورہ المائدہ میں یا قوم ادخلو الارض المقدسہ التی(5-21) ، سورہ الانبیا میں الی الارض التی بارکنا فیھا (21-81)اور سورہ الاسریٰ میں الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ (17-1)میں موجود ہے۔ اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر اس مسجد کی عظمت کو واضح کرنے کے لئے اللہ کے رسول ﷺ کو معراج کی شب مسجد اقصیٰ لے گیا۔ جہاں آپ ؑ نے تمام نبیوں کی امامت فرمائی۔ احادیث میں مسجد اقصیٰ سے عمرہ کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔حضرت ابو درداؓ سے روایت کردہ حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس مسجدمیں نماز کا ثواب دوسری عام مساجد کے مقابلے میں 500 گنا زیادہ ہے ( سوائے مسجدالحرام اور مسجد نبویؑ کے) بعض دوسری روایتوں میں مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی پر ثواب 50000گنا بھی آیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے جن تین مساجد کی طرف سفر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے اس میں مسجد اقصیٰ بھی شامل ہے ، (دوسری مساجد مسجدالحرام اور مسجد نبوی ہیں)
خدا کو ماننے والی دنیاکی تین بڑی اقوام یعنی عیسائی، یہودی اور مسلمان حضرت ابراہیم ؑ کو برگزیدہ پیغمبرتسلیم کرتی ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے بحکم خدا اپنے17سالہ فرزند حضرت اسمٰعیل ؑ کے ساتھ ملکر کعبہ کی تعمیر فرمائی۔تاکہ روئے زمین کے تمام انسان یہاں اللہ کی عبادت کر سکیں۔ تعمیر کعبہ کے تقریباً دو ہزار پانچ سو برس بعد حضرت اسمٰعیل ؑ کے سلسلے سے حضور اقدس ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تاکہ مختلف وجوہات کی بنا پیدا شدہ بد عقیدگی کو دور کیا جائے اور کعبہ کی تطہیر انجام دی جائے تاکہ ایک اللہ کی عبادت کی جاسکے ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے بحکم خدا تعمیر کعبہ کے 40 برس بعد یروشلم میں ایک اور خدا کے گھر کی بنیاد رکھی ، جسکو Beteyel کہا گیااس اللہ کے گھر یعنی Beteyelکی توسیع حضرت یعقوب ؑ نے کی جو حضرت ابراہیم ؑ کے فرزند حضرت اسحٰق ؑ کے دوسرے بیٹے تھے۔ اسی اللہ کے گھر یا Beteyel ( یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے)کو مسجد اقصیٰ کہا گیا۔ جسکے معنی ’’دور مقام ‘‘ ہے جسکی وضاحت کرتے ہوئے مورخین لکھتے ہیں کہ کعبہ کے مغرب میں دور فاصلے پر فلسطین میں واقع عبادت گاہ کو مسجد اقصی کہا جاتا ہے۔ جب حضرت یوسف ؑ نے فلسطین میں پھیلے قحط کی وجہ سے اپنے والد حضرت یعقوبؑ اور دوسرے تمام قریبی رشتہ داروں کو مصر بلالیا تو اللہ کے اس گھر کی نگرانی کے لئے صرف کچھ مقامی افراد ہی باقی رہ گئے۔ اس طرح حضرت یعقوب ؑ کی اولاد تقریباً 400 برس تک مصر ہی میں رہی۔اسکے بعد تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے میں خدا نے انہیں فلسطین واپس ہونے کا حکم دیا لیکن قوم یعقوبؑ یعنی اسرائیلی صحرائے سنائی میں آباد ہوگئے بعد مین اسی نسل میں اللہ نے حضرت داؤد ؑ کو پیدا فرمایاجنہوں نے فلسطین کے ایک حصے میں اپنی حکومت قائم کی اسکے بعد انکے فرزند حضرت سلیمان ؑ نے مسجد اقصیٰ کی مکرر تعمیر فرمائی کیونکہ حوادثات زمانہ نے اس مقدس عمارت پر کافی ستم ڈھائے تھے جسکی وجہ سے وہاں تعمیر ابراہیمی کی صرف بنیادیں باقی تھیں۔بعض دوسری روایتوں کے مطابق حضرت داؤد ؑ نے قوم بنی اسرائیل کے ایک عذاب شدید ( جس میں70ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے) سے نجات پانے کے شکریہ میں قوم کے تمام افراد کی مرضی سے اس بیت المقدس یعنی مسجد اقصی کی بنیاد ڈالی۔ جسکی تعمیر انکے فرزند حضرت سلیمان ؑ نے کی جو بڑے جلیل القدر پیغمبر اور بادشاہ تھے۔ حضرت سلیمان ؑ کی سلطنت انکے دو بیٹوں میں تقسیم ہوگئی اور یہودی تاریخ کے مطابق یروشلم کی سلطنت کا وجود دو سو برس تک رہا ۔ اسکے بعد 586قبل مسیح میں آخری یہودی بادشاہ Je- Hoia- Chin حکومت بابل کی قوت کا مقابلہ نہ کرسکی ،قلعہ کی حد تک رہنا پسند کیا لیکن جب اہل یروشلم بھوک اور پیاس کی شدت کا مقابلہ نہ کرسکے تو بادشاہ نے انکے لئے ایک سرنگ بنائی تاکہ وہ قلعہ بندی کے دوران رسد کا ہموار انتظام کر سکے۔اسی لئے تاریخ میں اس سرنگ کو Tunnel of Je- Hoia- Chin کہا جاتا ہے۔لیکن جب یہ سرنگ ایک حادثہ کا شکار ہوگئی تو بادشاہ نے شکست قبول کرلی۔اس طرح یروشلم پربابل کے بادشاہ بخت نصر نے قبضہ کر لیا۔ یہ وہی سرنگ ہے جس کو اسرائیلی آ ثار قدیمہکی کھدوائی کے دوران برامد کیا جاکر دوسرے ہیکل سلیمانی کا راستہ قرار دیا جارہا ہے۔اور بخت نصر وہی بادشاہ ہے جس نے اس ہیکل کو ڈھادیا ۔ اس کے بعد فارس کے حکمراں Cyrusنے یروشلم کو فتح کیا،اس وقت رومی سلطنت اہل فارس(ایران) سے لڑائی میں مصروف تھی اس موقعہ پر اسرائیلی عوام نے ایران کا ساتھ دیااس موقعہ پر اسرائیلی عوام نے ایران کا ساتھ دیا جسکا مطلب روم کے حکمرانوں نے یہ نکالا کہ اسرائیلی سلطنت روم کے دشمن ہیں۔اسی لئے 70 ء میں اس Beteyel یا مسجد اقصی کو جلا یا گیا اور اس ہیکل کو رومن خداؤں کے خدا (Jupiter) کا مندر بنادیا گیا ۔ جب 315 میں رومن قوم نے عیسائی مذہب اختیار کیا تو اس مندر کی اہمیت ختم ہوگئی اور اس علاقے کی عوام نے اس کو کچرا گھر بنادیا کیونکہ انکے پاس اسکی تقدیس ختم ہوچکی تھی۔ جب 614 میں سلطنت ایران نے رومن قوم کو شکست دی تو یہودیوں کو پھر سے اس عبادت گاہ میں عبادت کا موقعہ ملا۔ 621 ء میں اللہ کے رسول ﷺ معراج کو تشریف لے گئے آپ نے اسی مسجد اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت فرمائی۔اسکے بعد سے یہ مسجد دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے مقدس ہوگئی اور تقدیس کے اعتبار سے اس کا شمار مسجد الحرام اور مسجد نبویﷺ کے بعد کیا جاتا ہے۔637 ء حضرت عمرؓ نے یروشلم فتح کیا اسکے بعد اس مسجد کے دروازے مسلمانوں کی عبادت کے لئے کھول دئے گئے۔اس وقت یروشلم یا فلسطین کے تمام یہود و نصاریٰ حضرت عمرؓ کی آمد فلسطین سے خوش ہوئے۔تقریباً 460 برس یروشلم مسلمانوں کی حکومت میں رہا اس کے بعد گیارویں صدی عیسوی کے اواخر یعنی 1097 میں صلیبی جنگوں نے جب مسلمانوں اور یہودیوں کو نشانہ بنایا تو ایک بار پھر بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ جاتا رہا۔ لیکن کچھ برسوں میں ہی حالات نے پلٹا کھایا اور 1187 ء میں صلاح الدین ایوبیؔ نے بیت المقدس میں ایک بارپھر اسلامی حکومت کو قائم کیا تاریخ شاہد ہے کہ اس زمانے میں تمام اقوام خوش و خرم زندگی بسر کرتے تھے۔ 1948 ء میں مغربی طاقتوں نے ایک بار پھر یروشلم کویہودیوں کو لوٹانے میں مدد دی جسکے بعد سے یہودی مسلسل اس علاقے کی عوام کو تنگ کررہے ہیں۔1980 ء کے دہے میں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ اور قبتہ الصخرا کے پاس کھدوائی شروع کی ۔ انکے مطابق یہ کھدوائی ہیکل سلیمانی کی تلاشی کے لئے کی جارہی ہے جو Chanuyosکہلاتا ہے اسکا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ اموی خلیفہ نے قدیم ہیکل کی بنیادوں پراسلامی مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی اسی لئے وہ اس ہیکل کی تلاش میں ناکام رہے لیکن اتفاقاً انہیں وہ سرنگ نظر آگئی جسکا تذکرہ قبل ازیں کیا جاچکا ہے جسکو وہ فی الوقت دوسرے ہیکل کا راستہ قرار دینا چاہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت اسکے بالکل بر عکس ہے۔ اس سرنگ کی تاریخی حیثیت ہوسکتی ہے لیکن کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے۔اسرائیلی پراجکٹ کے تحت کی گئی اس کھدوائی نے مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کو اس قدر کمزور کردیا ہے کہ اب وہ زلزلے کا معمولی سے معمولی جھٹکا بھی برداشت نہیں کرسکتی۔ انکے ارادے اور عزائم خطرناک نظر آتے ہیں جسکا اظہار ایک عرصہ قبل اس مسجد کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ’’ محبت کرنے والے جوڑوں کے مرکز کا قیام ‘‘کے اعلان کے ذریعہ کیا ہے۔ایک اسرائیلی کی کتاب Daydreamبھی انکے عزائم کی ترجمان ہے۔جس میں گنبد صخرا کو بنیادوں سمیت شہر سے دور منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ علاوہ اسکے یہ تصور عام ہوتا جارہا ہے کہ یہودی عقیدے کے مطابق ’’ بغیر دھبے والی لال گائے ‘‘ پیدا ہوچکی ہے جسکو دوسرے ہیکل کی تعمیر کے وقت نظر انداز کردیا گیا تھا اسی لئے وہ ہیکل دنیا میں دیرپا ثابت نہ ہو سکا ۔ لیکن اب تیسرے ہیکل کے لئے اس ’’لال گائے‘‘ کو قربان کیا جائے گا اور اسکو جلانے کے بعد اسکی مائع میں تبدیل ہوتی ہوئی راکھ سے مذہبی رسومات ادا کی جائیں گی۔
مسجد اقصیٰ الحرم الشریف کامپلکس کے جنوبی حصے میں واقع ہے ، اس کامپلکس کو Majed Mountبھی کہا جاتا ہے۔ یہ مکمل احاطہ 35ایکڑ پر مشتمل ہے جو دیواروں سے گھرا ہوا ہے ان دیواروں میں کچھ میناریں بھی بنی ہوئی ہیں۔اس احاطے میں کئی عمارات ۔ باغ ، قبتہ الصخرا (Dom of Rock) اور کئی گنبدان واقع ہیں۔یہودی اس احاطے کو Har- Ha- Bayit کہتے ہیں۔جو عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ اس احاطہ کی مغربی دیوار کا کچھ حصہ دوسرے ہیکل کی نشانی ہے۔ جس کو 70 ء میں Herods نے بنایا تھا ۔ اس بادشاہ کو تعمیرات کا بڑا شوق تھا اسی نے Augustusکے احترام میں Amphitheater بنائی تھی ۔ اسی بادشاہ کے بنائے ہوئے ہیکل کی دیوار کو ’’ دیوار گریہ ‘‘(Wailing Wall)کہا جاتا ہے۔ پہلی صدی عیسوی میں بنائی ہوئی یہ دیوار 160 فٹ لمبی اور 60 فٹ اونچی ہے، اس دیوار کی بنیاد بہت گہری ہے ۔ اس دیوار پر کہیں کہیں Menorah بنے ہوئے ہیں جو یہودی مذہبی رسومات میں استعمال ہونے والی قندیل ہے اس دیوار کے بارے میں یہودیوں کا خیال ہے کہ ’’ خدا کا دامن اس دیوار کی وجہ سے کبھی نہیں چھوٹتا ‘‘ اسی لئے یہودی اس دیوار کے قریب کھڑے ہوکر یا اس سے چمٹ کر بڑے دردناک انداز میں روتے ہیں،آنسو بہاتے ہیں اور
دعائیں مانگتے ہیں۔ یعنی بالفاظ دیگر یہ دیوار یہودیوں کی مقام عبادت ہے۔
مسجد اقصیٰ مشرقی یروشلم میں واقع ہے۔دور قدیم میں اس مسجد کی شکل کیا تھی صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے، ویسے بعض مورخین نے مسجد کے نیچے سرنگ کے راستے سے گذر کر قدیم عمارت کے نشان تلاش کئے ہیں جس کو ابتدائی مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے، اس میں لگے بڑے بڑے پتھروں اورسنگی شہ تیروں کو دیکھ کر بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ یہ وہی عمارت ہے جس کو حضرت سلیمان ؑ نے جنوں کے ذریعہ تعمیر کروایا تھا۔ویسے جہاں تک دور اسلامی کا تعلق ہے مسجداقصیٰ کو حضرت عمرؓ نے تعمیرکروایا، اس بات سے قطع نظر کہ حضرت سلیمان ؑ کی بنائی مسجد کہاں ہے، یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مسجد اقصیٰ صرف وہی مسجد نہیں ہے جس کو حضرت عمرؓ نے تعمیر کروایا تھا بلکہ ابن تیمیہ ؒ کے مطابق مسجد اقصی کا پورا صحن مسجد اقصیٰ میں شمار ہوتا ہے لیکن حضرت عمرؓ کی قائم کردہ حدوں میں نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ مسجد اقصیٰ کو حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں لکڑی سے بنایا گیا تھا ۔ اسکے بعد عبدالملک بن مروان ؔ کی شروع کردہ تعمیر کو انکے فرزند الولیدؔ نے 710 ء میں مکمل کروایا اس خوبصورت اسلامی اور صلیبی طرز تعمیر سے معمور مسجد میں زائد از پانچ ہزار افراد نماز ادا کرسکتے تھے (الولید وہی خلیفہ ہے جس نے دمشق میں ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی جو آج بھی عجوبہ روزگار بنی ہوئی ہے) ۔746ء میں ایک زلزلے نے اس کی عمارت کو شدید نقصان پہنچایا جس بعد میں 754ء میں عباسی خلیفہ المنصور ؔ نے مسجد اقصٰی کو تعمیر کروایا780ء میں المہدی ؔ نے اس کی بڑے پیمانے پر مرمت کی ۔ اس کی آخری اور بڑی تعمیر و ترمیم 1035 ء میں ہوئی جس کو خلیفہ الظاہرؔ نے تعمیر کروایا تھا، کیونکہ ایک زلزلے نے اس مسجدکو مکمل منہدم کردیا تھا۔ لیکن اس تعمیر میں بنیاد وہی قایم رکھی گئی جو پہلے سے موجود تھی۔اسکے بعد سے اس مسجد کی کوئی بڑی ترمیم نہیں ہوئی لیکن وقتاً فوقتاً اس کو سنبھالا جاتا رہا ان ترمیمات میں ہندوستان کی علاقائی سلطنتوں جیسے نواب رامپور، نظام
حیدرآباد نے بھی بہ نیت ثواب تعاون کیا ۔
مسجد اقصیٰ تعمیری اعتبار سے نہایت خوبصورت ہے ، باب الداخلہ عالی شان ہے جس کو 1065ء میں فاطمی خلیفہ المستنصرؔ نے بنوایا تھا، مسجد کے رخ (Facad)کے درمیانی حصے میں ایک اونچی کمان بنی ہوئی ہے، اس کے دونوں بازو مزید تین ،تین کمانیں بنی ہیں ، باب الداخلے کی کمان میں نازک ڈیزائن بنے ہوئے ہیں جو کمان کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں ،یہ تمام کمانیں ایک راہداری میں کھلتی ہیں جہاں سے اندر جانے کے کئی راستے ہے۔ مسجد کا یہ دروازہ مملوک اور فاطمی طرز تعمیر کا بھر پور اظہار کرتا ہے ،صدر دروازے کی اوپری قوس کے نیچے خوبصورتی پیدا کرنے کے لئے دو سے زائد ستون بنائے گئے ہیں جبکہ دوسرے دروازوں میں صرف ایک جوڑ ستون موجود ہیں ۔ درمیانی دروازہ ایوان کی شکل میں اونچا ہے جس پر خوبصورت ڈیزائن کی حفاظتی دیوار(پیرا پیٹ) بنی ہوئی ہے ، اس ایوان کے اوپر تین جوڑ کمانیں کھدی ہوئی ہیں جو سامنے کے رخ کو بہت دیدہ زیب بناتی ہیں، مسجد کا اندرونی حصہ بہت خوبصورت ہے نماز کے لئے سرخ قالین بچھے ہوئے ہیں۔ منبر و محراب بہت اچھا ہے کہاجاتا ہے کہ صلاح الدین ایوبیؔ نے نور ؔ الدین زنگی کا بنوایا ہوا ہاتھی دانت کی منبت کاری کیا ہوا صنو بر سے بنا چوبی منبر 1187میں نصب کیا تھا کیونکہ منبر کی تکمیل سے قبل ہی نور ؔ الدین زنگی چل بسا تھا، مسموع ہے کہ یہ منبر 1969ء میںآگ کے ایک حادثے میں تباہ ہوگیا، محراب بھی صلاح الدین ایوبیؔ کا بنایا ہوا ہے جس پر بنوانے والے کا نام ابوا لمظفرؔ صلاح دنیا و دیں لکھا ہوا، محراب بہت خوبصورت ہے محراب کے اندرونی حصے میں یکے بعد دیگرے سفید اور کالے پتھر لگا کر ندرت پیدا کی گئی ہے ، محراب کے اوپری جانب نازک کام کیا گیا ہے،محراب نقوش عربۂ کی گل کاریوں سے مزین ہے ،چھت کی اونچائی سے ایک نازک اور دیدہ زیب جھومر لٹک رہا ہے جس کی روشنی ماحول میں عجیب روحانیت پیدا کردیتی ہے،قبلے کی اونچی دیوار میں لگی مختلف سائز کی کھڑکیوں سے چھن کر آتی روشنیوں میں محراب کی خوبصورتی لا جواب ہوجاتی ہے اور انسان اپنے آپ کو دوسری دنیا میں محسوس کرنے لگتا ہے اور جب اسے یاد آجاتا ہے کہ یہ وہ مسجد ہے جہاں رسول خدا ﷺ نے تمام نبیوں کی امامت فرمائی تھی تو اس کا دل ادب و احترام سے جھکنے لگتا ہے اور اس کا سر آسمان کی جانب اٹھ کر خدا سے مانگنے لگتا ہے کہ ائے اللہ۔ ائے ارحم الراحمین میری دعاؤں کو قبول فرما اور یہاں جتنے رسولوں اور نبیوں بالخصوص رسول اللہ ﷺ نے
جو جو دعائیں مانگی ہیں ان دعاؤں میں میرا بھی حصہ عنایت فرما۔
عثمانیوں نے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں 1538 میں قبۃ النبیؑ بنایا جو ہشت پہلو خوبصورت گنبد جیسی چھوٹی عمارت ہے، اس کا قبہ آٹھ سنگ مرمر کے ستونوں پر ایستادہ ہے ، اس کے علاوہ انہوں نے مشرقی جانب گیٹ لگوائے اس کے بعد کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوئے ۔ 1922ء میں امینؔ الحسینی نے احمد کمال ؔ الدین آرکیٹیکٹ کے ذریعہ بڑے پیمانے پر مرمت کا کام کروایا جس میں کچھ اندرونی ستونوں کی تبدیلی، بعض جگہوں پرلکڑی کی جگہ برانز کا استعمال، کھڑکیوں میں رنگین شیشوں کی تبدیلی، کمانوں پر سونے (Gold)اور جیپسم (Gypsum) سے آرائش وغیرہ شامل ہے۔ پہلی گنبد بنی امیہ نے بنوائی تھی جو عرصہ قبل منہدم ہوگئی جو انہوں نے محرابکے سامنے بنوائی تھی اس کے بعد مسجد اقصیٰ کی گنبد کو الظاہرؔ نے لکڑی سے بنوایا اور اس پر کانسے کی پلیٹیں لگوائی ، 1969 میں اس کی ترمیم ہوئی اور اس پر المونیم کی پلیٹیں چڑھائی گئی بعد میں اس کو بھی تبدیل کرکے گنبد پر کانسہ لگایا گیا جو آج بھی موجود ہے ،گنبد کے اندرونی حصے کی تزئین بہت بہتر ہے اس کو سنگ مرمر اورمسطح کاشیوں سے سجایا گیا ہے ، یہ گنبد خالص اسلامی طرز تعمیر رکھتی ہے جبکہ گنبد صخرا کی طرز تعمیر بازنطینی ہے۔ مسجد اقصیٰ میں 121کھڑکیاں ہیں جن پر رنگین شیشے لگے ہیں ، مسجد میں جملہ 45ستون ہیں جن میں 33پر سنگ مرمر ہے اور بقیہ 12ستون پتھر کے بنے ہیں۔مسجد میں7 عدد ہالس یعنی Hypostyle Naves مسقف گذرگاہیں بنی ہوئی ہیں،مسجد اقصیٰ کے چار مینار ہیں پہلا ’’فخریہ مینار‘‘ کہلاتا ہے جس کو 1278 میں جنوب مغربی جانب مملوک سلطان حسام الدین لاجین ؔ المنصوری نے تعمیر کروایا ، دوسرا مینار بھی لاجین ؔ نے 1298میں تعمیر کروایا جو اقصیٰ کا سب سے اونچا مینار ہے، جس کی اونچائی 121فٹ ہے، یہ مینار شمال مغربی جانب واقع ہے، 1329میں تیسرا مینار مغربی کونے میں بنایا گیا جس کو ’’باب السلسلہ‘‘ کہا جاتا ہے،چوتھا مینار 1467میں عثمانیوں نے بنوایا جس کو ’’میناراسرائیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ بنی امیہ نے709میں وضو کے لئے حوض بنوایا تھا جس کو گورنر تنکیزؔ نے 1327 میں وسعت دی اور خوبصورت بنوایا۔ زمانہ قدیم میں مسجد میں جملہ 700 قندیل جلا کرتے تھے اورجو افراد مسجد حاضر نہیں ہوسکتے وہ عقیدتاًمسجد کو تیل بھجوایا کرتے تاکہ چراغوں میں جلایا جاسکے، اگر تیل زائد مقدار میں جمع ہوجاتا تو تیل کو حفاظت کی غرض سے ایک کنوئیں میں ڈال دیا جاتا جس کو ’’بیر زیت‘‘ کہا جاتا ہے جو آج بھی موجود ہے ۔ اس کے گرد جالیاں لگا دی گئی ہیں
آج مسجد اقصیٰ کے تعمیری استحکام کو خطرہ لا حق ہے کیونکہ گذشتہ برسوں میں ہوئی ان کھدوایوں کے باعث اسکی اہم تنصیبات جیسے گیٹ وغیرہ کو شدید نقصان پہنچا اور مسجد اقصیٰ کے مغربی و جنوبی جانب اور باب ا لرحمۃ کی طرف کی کھدوایوں سے مسجد کی بنیادیں تقریباً کھوکھلی ہوچکی ہیں جسکی وجہ سے اس کامپلکس میں موجود تقریباً 100گنبدان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ وہ مقامات ہیں جہاں کئی پیغمبران اور صحابہ اکرامؓ آرام فرما ہیں سر زمین فلسطین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں پر سو سے زائد پیغمبران موجود ہیں، یہی وہ خیال ہے جس کے باعث وہاں کی قوم آئے دن اس مسجد کو بچانے کے لئے مظاہرے کرتی رہتی ہے ،کبھی کبھی ہزاروں فلسطینی محض مسجدکی حفاظت کی خاطر مسجد کے اندرشب بسری کرتے ہیں اور اسرائیلی ناپاک کوششوں کو ناکام بناتے ہیں اور ایسے ہی فلسطینیوں کے متعلق اقبالؔ نے کہا
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے خالی میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
***