پروفیسر محمد علی اثر ۔حیدرآباد ۔دکن
اورنگ زیب‘ دکنی شعرا کی نظر میں
اورنگ زیب عالم گیر ہندوستان کے حکمرانوں میں جیسا کہ اس کے تاریخی نام ’’آفتابِ عالم تاب‘‘ (۱۰۶۸ھ) سے ظاہر ہے‘ اسم بامسمیٰ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ایک ایسا اولوالعزم‘ خدا ترس‘ انسان دوست‘ دور اندیش‘ بلند حوصلہ‘ دریا دل‘ مدبر‘ سیاّ س‘ صاحب سیف و قلم اور صاحب کردار بادشاہ گزرا ہے‘ جس کی نظیر تاریخِ ہندوستان میں ملنی دشوار ہے۔ تاریخ میں ہمیں ایسے متعدد حکمران ملتے ہیں جو صاحب علم اور نیک سیرت تھے لیکن وہ مدبر فاتح نہ تھے۔ اسی طرح بعض ایسے فرماں روا بھی ملتے ہیں جو نہایت بہادر اور جری تھے اور انھوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں‘ لیکن وہ صاحب علم اور زیرک نہ تھے۔
اورنگ زیب عالم گیر کی ذات میں ہمیں جہاں گیری و جہاں بانی جیسے اوصاف کے علاوہ سیر ت و کردار کی پاکیزگی اور تقویٰ و صالحیت بھی نظر آتی ہے۔ اس نے کم و بیش نصف صدی سے زیادہ عرصے تک ہندوستان کے ایک وسیع و عریض علاقے پر حکومت کی۔ اس کی سلطنت کے حدود اربعہ میں کابل سے چاٹگام اور کشمیر سے کاویری تک شامل تھے۔ اورنگ زیب کی سلطنت ہندوستان کی سب سے وسیع اور عظیم سلطنت تھی۔ جو رقبے کے اعتبار سے اس وقت کی دنیا میں سب سے بڑی مملکت تھی۔ بر عظیم کی تاریخ میں اتنی عظیم الشان سلطنت اس سے پہلے اور اس کے بعد کبھی وجود میں نہیں آئی(۱)۔ اگرچہ عالم گیر کے‘ بعض اقدامات کی تائید اور مخالفت میں لمبی لمبی بحثیں بھی ہوئیں لیکن بہ حیثیت مجموعی وہ ایک قابل منتظم‘ بہادر فاتح‘ منصف مزاج حکمران اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے متقی و پرہیزگار انسان تھا۔
بعض مفسد مصنّفین خصوصاً انگریز مورخین نے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کا حربہ استعمال کرکے اس ولی صفت بادشاہ پر الزام لگایا کہ وہ بت شکن‘ فرقہ پرست اور ظالم حکمران تھا۔ اورنگ زیب کی مخالفت میں لکھنے والوں میں سرفہرست جدوناتھ سرکار کا نام ہے‘ جس نے برٹش سرکار کی ہدایت پر عالم گیر کے خلاف پانچ جلدوں پر مشتمل کتاب لکھ کر انگریز آقاؤں سے نہ صرف انعام و اکرام حاصل کیا بلکہ ’سر‘ کا خطاب بھی حاصل کیا۔ غالباً اسی قبیل کے لوگوں کے لیے شبلی نے کہا تھا
تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا
کہ اورنگ زیب ہندوکش تھا‘ ظالم تھا ستم گر تھا
آئیے اب دکنی اردو کے سخن وروں کے اورنگ زیب کے بارے میں خیالات اور تاثرات کا جائزہ لیں۔ کیوں کہ ہر دور کا اظہار اُسی دور کے ادب میں بڑے پُر اثر انداز میں ہوتا ہے۔
سید مظفر مازندرانی ابوالحسن تاناشاہ کا پہلا دیوان تھا۔ تاناشاہ سے کسی بات پر ناراض ہوکر اورنگ زیب عالم گیر کی خدمت میں چلاگیا تھا۔ مظفر نے’ ظفر نامۂ عشق ‘کے عنوان سے ایک مثنوی لکھی تھی‘ جس کا دوسرا نام قص�ۂ مہر و ماہ بھی ہے۔ اس کے آغاز میں اس نے ’’صفتِ بادشاہِ اورنگ زیب غازی‘‘ کے عنوان سے 28 اشعار لکھے ہیں ‘ عالم گیر کو وہ ’’جہاں کے شاہاں میں ولی‘ شاہِ ابلابلی ‘ شاہ بلند اختر‘ رسول خدا کا خلاصہ‘ شیر خدا کا شاگرد‘ عالم با عمل‘ سخاوت اور شجاعت میں لاثانی‘‘ جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ چند شعر دیکھیے
شہِ کامراں، شاہِ ابلابلی(۱)
جہاں کے شہاں میں ہے بے شک ولی
خدا کے جو خاصاں میں خاصہ ہے او (۲)
رسولِ خدا کا خلاصہ ہے او
سو او کون جو شاہِ اورنگ زیب
کیا فکر کوں دور اس کا نہیب
دھریں(۳) لطف سو اس پو(۴) آلِ رسول
اچھے(۵) شاخ پر سائباں جیوں (۶)کہ پھول
قوی طالع اوشاہِ اختر بلند
کمند سٹ پکڑتا ہے کیواں کوں بند
شجاعت میں شاگردِ شیرِ خدا
غنیم اس انگے(۷) جیوں ختم کا مندا
مظفر کی اس مدحِ اورنگ زیب کے مطالعے کے بعد ڈاکٹر زور نے لکھا ہے۔ ’’ میر جعفر زٹلی نارنولی نے اورنگ زیب کی جو اردو مدح لکھی تھی وہ بھی اسی بحر اور اسی اسلوب میں لکھی ہے۔ بعض مصرعے اور ترکیبیں بھی ایسی ہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زٹلی نے قیام دکن کے زمانے میں یہ مثنوی ضرور پڑھی تھی اور اپنے خاص مزاحیہ انداز میں اس نے اسی مدح کا خاکہ اڑایا ہے(۲)۔
شیخ دادو ضعیفی اسی دور کا ایک بلند پایہ عالم اور مذہبی شاعر تھا‘ جس نے مسائل فقہ کے موضوع پر ایک ضخیم اور مستند مثنوی ہدایات ہندی کے عنوان سے سنہ ۱۱۰۰ھ میں تصنیف کی تھی ۔ اس نے اس کتاب میں جگہ جگہ آیات قرآنی اور احادیث نبوی درج کرکے ان کا دکنی میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔ ہدایات ہندی کے آخری باب میں ضعیفی نے بادشاہِ وقت اورنگ زیب کی مدح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ نہ صرف ایک عادل شہنشاہ اور اسلام کا کارساز تھا بلکہ اس نے بدعت اور ضلالت سے ہندوستان کو پاک کیا۔ اس سے پہلے بھی نیک اور صاحب کردار بادشاہوں نے اس ملک پر حکومت کی لیکن زہد و تقویٰ میں کوئی اس کی برابری نہیں کرسکتا۔چنانچہ ضعیفیؔ نے عالمگیر کی درازی عمر کے لیے دعا کرتے ہوئے لکھا ہے
بہ دور جہاں دار اورنگ زیب
کہ جس تے(۱) ہوا اس زمانے کو زیب
شہنشاہ عادل اہے در امور
کہ بدعت ضلالت ہوا جس تے دور
دھریا(۲) حق تعالی نے یوں جس کو جس(۳)
جو دشمن ہوا اس انگے خوار و خس
دیا سر پو(۴) چوپن شہی کا وہ تاج
دلّی ہور دکھن کا ہوا ایک راج
عجب فتح و نصرت ہے اس کے سنگات
جو کوئی نئیں (۵)کیا اس سوں(۶) دعوے کی بات
کہ شاہاں بھی اول ہوئے ہیں تو کیا
نہ کوئی زہد و تقویٰ میں ایسا دِسا(۷)
اہے(۸) اس منے(۹) بھی ولی کی صفات
کہ ہو آے جو موں (۱۰)سوں کاڑے (۱۱)وہ بات
بڑا دین اسلام کا کارساز
الٰہی توں کر عمر اس کی دراز
قصہ ابو شحمہ کا مصنف اولیا ؔ گولکنڈوی‘ شاہ ابوالحسن کے دور کا شاعر ہوتے ہوئے بھی اس مثنوی میں عالم گیر کی مدح کرتا ہے یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ ابوالحسن تاناشاہ حضرت شاہ راجو قتال حسینی حیدرآبادی کا مرید تھا۔ اس کی ابتدائی زندگی انھیں کی خانقاہ میں بسر ہوئی‘ لیکن قطب شاہی تخت پر بیٹھتے ہی وہ عیاشی اور فسق و فجور میں مبتلا ہوگیا۔ خافی خاں نے ’’منتخب اللباب‘‘ میں لکھا ہے۔ ’’ابوالحسن نے ملک کو اکناّ اور مادناّ کے ہاتھوں میں دے دیا تھا جو سخت متعصب کافر تھے اور اسی وجہ سے مسلمانوں پر سخت ظلم ہوتا تھا اور علانیہ فسق و فجور اور شراب خوری و ناچ رنگ ملک میں پھیل گیا‘‘(۳)۔
بہر حال اولیا کی مثنوی قصہ ابوشحمہ میں مدح اورنگ زیب کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
توں ہے شاہِ اورنگ آفاق گیر
کہ سارے شہاں تجھ تے اخلاق گیر
توں ہے شاہِ گنبھیر عالی نول(۱)
خدا نے دیا تجھ معالی فضل (۲)
گودھرا کے شاعر محمد امین نے عہد اورنگ زیب میں ’’یوسف زلیخا‘‘ کے عنوان سے 4114 اشعار اور 43عناوین پر مشتمل مثنوی لکھی جس میں شاعر نے اورنگ زیب کی مدح تو نہیں لکھی تاہم اس کا نام لینا ضروری سمجھا ہے
زمانے شاہ اورنگ زیب کے میں
لکھی یوسف زلیخا کو امیںؔ نیں(۹)
سلطنت بیجاپور کا خاتمہ یوں تو 1097ھ؍1685ء میں ہوا لیکن مغلیہ حکمران عملی طور پر ایک طویل عرصے سے دکن کے علاقوں پر اپنا سکّہ جماچکے تھے۔ اس کا اظہار اس دور کی شاعری میں بھی ہورہا تھا۔ بیجاپور کا مشہور نابینا شاعر ہاشمی محبوبہ کے ہونٹوں پر جمی کالی تہہ(دھڑی) پر اپنے دل کے بیٹھنے کی تشبیہ‘ اورنگ زیب کے کرناٹک پر سکّہ بٹھانے سے اس طرح دیتا ہے
کالی دھڑی میں دھن(۳) تری بیٹھا ہے میرا جیو(۴) سویوں
بیٹھا ہے کرناٹک میں جیوں(۵) سکّہ سو عالمگیر کا (۵)
مشہور بیجاپوری شاعر شیخ حسن شوقی کے فرزند شاہ حسین ذوقیؔ نے اورنگ زیب کی وفات سے دس سال قبل ‘ وجہی کی نثری تصنیف ’’سب رس‘‘ کے قصے پر مبنی ایک مثنوی ’’ وصال العاشقین‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔ جس کے آخر میں ذوقی نے اورنگ زیب عالمگیر کی مدح بھی کی ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں
جو ہے اس وقت اورنگ زیب عالی
نبیؐ کے شرع کے گلشن کا مالی
عبادت کے ہنر دوڑاکے بالذّات
رکھا تازے ہیں دیں داروں کے پھُل پات(۱)
سہاوے(۲) نام عالمگیر اس کوں
کنا(۳) لازم ہے جگ کا پیر اس کوں
شریف بیجاپوری عادل شاہی دور کا ایک گم نام لیکن خوش گو قصیدہ نگار اور غزل گو تھا‘ جس نے صلح نامہ علی عادل شاہ کے موقع پر ’’قصیدۂ در تعریفِ علی عادل‘‘ لکھا تو اس قصیدے میں مادۂ تاریخ نظم کرتے ہوئے عالم گیر کا نام لیے بغیر نہ رہ سکا
کہا میں سالِ تاریخ اس وضا(۴) مصراع(۵) یو(۶)سارا
’’ہوا یوں صلح اورنگ زیب عادل شہ دبانے سے‘‘
1079ھ (1689)ء
قاضی محمود بحری ایک جہاں گرد صوفی شاعر تھے۔ وہ عادل شاہی دور کے پہلے صدر مقام گوگی کے متوطن تھے1095ھ میں وہ بیجاپور کی تباہی کے بعد حیدرآباد آرہے تھے راستے میں چوروں نے مال و اسباب کے ساتھ ان کی ساری بیاضیں بھی لوٹ لیں۔ موجودہ کلام ’’کلیات بحری۔راگ مالا‘‘اور مثنوی ’’من لگن‘‘ بعد کا کہا ہواکلام ہے۔ بحری نے اپنے دوسرے قدر دان سلاطین کی طرح اورنگ زیب عالم گیر کی بھی مدح کی ہے۔ درج ذیل عنوان سے بحری نے عالم گیر کو’’دیں پناہ‘‘ غازی ٗ دیں دار ٗ دانا ٗ دلیر ٗ ماہر علوم ٗ وہ آپ خود فیصلے کرتا ہے ٗ اللہ کے بھروسے وہ دشمن پر حملہ کرتا ہے۔ نوّے برس کی عمر میں بھی تیز رفتاری سے گھوڑا دوڑاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی کوئی ایسا بادشاہ ہوا ہے اور نہ اس کے بعد ہوگا۔ اللہ تعالیٰ عالم گیر کو ہمیشہ دل شاد رکھے اور دنیا میں اس کا بول بالا کرے۔
’’مدحِ پادشاہِ دیں پناہ سلطان اورنگ زیب غازی‘‘
اب بول توں مدح بادشاہ کا
اور اس کی کمالیت کی کلاہ کا
ایسا نہ ہوا کُی(۱) شہاں میں
نا بلکہ بڑے مشائخاں میں
جس ناؤں اہے ابو مغازی
سلطان اورنگ زیب غازی
دیں دار‘ دلیر اور دانا
یک علم نہ سب میں سیانا
اب لگ تو کسے(۲) نہ رائے پوچھا
بن(۳) آپ نہ کس(۴) بلائے پوچھا
جے(۵) فکر میں یعنی اپنی آئے
بے فکر اسے ظہور میں لائے
دیوے جو غنیم کے اُپر چل
اللہ کے بل نہ کسی اور کے بل(۶)
اچھ(۷) عمر نود برس کی نوخیز(۸)
پارک سے ترنگ پھیرتا تیز
یک جس کی دعا ہزار دعوات
دعوات بھی تس(۹) اُپر دھرے(۱۰) دھات
پیچھے بھی کوئی ہوا نہ ایسا
آگے بھی تو سچ نہ ہوگا ویسا
اللہ کرے شاد دل کو شہہ کے
بالا کرے بول بادشہ کے
حواشی
۱۔ ڈاکٹر جمیل جالبی۔ تاریخ ادب اردو جلد اول۔ ص ۷۶۔
۲۔ ڈاکٹر زور۔ تذکرۂ اردو مخطوطات جلد اول ترمیم و اضافہ محمد علی اثر ص ۵۰۔
۳۔ ڈاکٹر عبد المغنی۔ اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر۔ ص ۹۲۔
۴۔ ڈاکٹر جمال شریف۔ دکن میں اردو شاعری ولی سے پہلے ۔ ترمیم و اضافہ محمد علی اثر ۔ص ۷۰۰۔
۵۔ جمیل جالبی۔ تاریخ ادب اردو (ج ۱) ص ۳۷۶۔
۶۔ ایضاً ص ۱۸۔۵۱۹
۷۔ قلمی بیاض انجمن ترقی اردو کراچی بحوالہ جمیل جالبی ۔ تاریخ ادب اردو۔
۸۔ تاریخ ادب اردو ۔ ص ۳۷۶۔
۹۔ ڈاکٹر زور۔ تذکرہ مخطوطات (جلد اول) مرممہ ایڈیشن ص ۹۵۔