ترقی پسندی اورجدیدیت-ایک تنقیدی جائزہ
ڈاکٹر اطہر سلطانہ
اسوسی ایٹ پروفیسرو صدر شعبۂ اُردوتلنگانہ یونیورسٹی
یوں تو اُردو ادب میں نئے رحجانات کی ابتداء انیسویں صدی کے آخری حصے اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہوگئی تھی ۔ انیسویں صدی کے آخر میں انگریزوں کا ہندوستان پر باقاعدہ تسلط ہوگیا تھا، جس کی وجہہ سے ہندوستان ایک نئی کشمکش میں مبتلا تھا۔ انسانی زندگی بے اوقات ہو کر رہ گئی تھی۔ زندگی کی جیسی بے قدری اس دور میں ہوئی اس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے ۔ پرانے عقیدوں اور رحجانوں پر سے یقین اٹھ گیا تھا اور عوام نئے عقیدوں ، قدروں اور رحجانوں کے لئے کوشاں ہوئے۔ لہذا ایک طرزِ حیات میں آئی وہیں اس زمانے کی تہذیب اور روایات کی کشمکش ، نئی زبان نئی تہذیب اور نئی باتوں کو قبول یا رد کر نے کا مسئلہ۔ اس کے ساتھ ہی متوسط طبقے کی حالت بھی دن بہ دن خراب ہوئی جار ہی تھی جس کے لئے سر سید، ؔ حالیؔ ،مولانا محمد حسین آزاد،ؔ شبلی ؔ نعمانی اور ذکا اللہ وغیرہ نے نئی باتوں کو اپنانے کی تحریک شروع کی ۔ انہوں نے اپنے تحریروں اور تقریروں کے ذریعے نئے علوم اور نئی تہذیب کی حمایت کی اور اس کے زیر اثر اس زمانے کے ادب میں بھی تبدیلی کے نمایاں اثرات دیکھے گئے تھے۔ اس جدید نقطہ نظر کی تلاش ’’ رومانی عقلیت‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔
اس کے بعد اُردو ادب میں جو سب سے اہم ادبی تحریک ملتی ہے ۔وہ ہے ترقی پسند تحریک ۔ یہ تحریک دراصل اس زمانے کے مطابق اور حالاتِ حاضرہ سے متاثر ہو کر وجود میںآئی۔ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعدجو آزادی کی پہلی لڑائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ہندوستانی عوام میں بے چینی و انتشار کا ماحول تھا۔ اور عوام امید و یاس کے دور سے گذر رہی تھی اس انقلاب نے ایک سیاسی بساط الٹ دی تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں انگریزوں کی بدولت صنعتی انقلاب اور تعلیم کے میدان میں جدید علوم سے آگہی کی بدولت عام ہندوستانی کا ذہن ایک نئی فکر اور ایک نئے میعارِ زندگی کی طرف بڑھ رہا تھا اس تحریک کی فضا دراصل ۱۹۳۶ء سے قبل ہی باقاعدہ طور پر شروع ہوئی لیکن دراصل یہ تحریک اس وقت وجود میں آئی جب کہ فاشزم آگے بڑھ رہا تھا۔ ان سب باتوں اور محرکات کا اثر ان ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں پر پڑا جو پیرس میں مقیم ادیب و شاعر تھے۔ ان میں خاص نام سجاد ظہیر، ملک راج آنند، جیوتی گھوش، محمد دین تاثیر اور پرمود سین گپتا وغیرہ ہیں۔ مغرب کی ترقی پسند سرگرمیوں سے متاثر ہوکر ان نوجوانوں نے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی، جس کا نام ’’ ہندوستانی ترقی پسند ادیبوں کی انجمن‘‘ رکھا گیا تھا ۔ اس انجمن کے مقاصد اور دوسرے عوامل پر لمبی لمبی بحیثیں بھی ہوئیں۔اور باقادہ اس انجمن کی میٹنگیں ہونی لگی، لیکن ساتھ ہی ان نوجوانوں کو اس بات کا بھی احساس ہونے لگا تھا کہ وہ ملک سے باہر رہ کر کوئی ادبی کارنامہ انجام نہیں دے سکتے ہیں ۔ ایک مستودہ تیار کرکے ہندوستان کے مختلف ادیبوں اور شاعروں کو بھیجا۔ سب سے پہلے جس شخص نے اس کو سراہا وہ پریم چند تھے۔ ان ہی کی صدارت میں ہندوستان میں ترقی پسند مصنیفین کی پہلی کانفرنس ۱۹۳۶ ء میں بمقام لکھنؤ میں منعقد ہوئی۔ دراصل اُردو ادب میں اس تحریک کی بنیاد یہ کانفرنس تھی ۔ جس میں نئے اور پرانے سب ہی ادیبوں نے شرکت کی ۔ اور چونکہ اس کانفرنس میں پریم چندؔ ، رویندرناتھ ٹیگورؔ ، حسرت موہانی، جوش ؔ ملیح آبادی اور قاضی عبدالغفارؔ جیسے مستند ادیبوں اور شاعروں کی تائید اور سرپر ستی حاصل تھی تو دوسری طرف سجاد ظہیر، احمدؔ علی ، ڈاکٹر اعجازؔ حسین، فیضؔ احمد فیض ، احتشام ؔ حسین، ڈاکٹر تاثیرؔ خواجہ احمد عباسؔ کرشنؔ چندر، منٹو ؔ ، اور مجازؔ جیسے بعد کے نوجوان ادیب اور شاعر اس کے ہم نواتھے۔ اس لئے یہ تحریک تھوڑے ہی عرصے میں ملک کی ساری ادبی فضا پر چھا گئی۔ چونکہ پریم چند کا خطبہ صدارت جو انہوں نے پہلے اجلاس میں پڑھا تھا ایک نئے موڑ کا نشانِ راہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ جہاں اس نے انجمن ترقی پسندتحریک کے کو ایک نئی راہ دکھائی وہاں ادب کے مقاصد او رزندگی سے اس کے تعلق پر بھی زور ڈالا اور اپنے خطبہ کا اختتام ان الفاظ پر کر تے ہیں۔
’’ ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو ، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جو ہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت ، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرکے سُلائے نہیں کیونکہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی‘‘ (بحوالہ (مشمولہ) خلیل الرحمن اعظمی۔ از ’’اُردو میں ترقی پسند ادبی تحریک ‘‘ صفحہ نمبر ۴۵۔ ۱۹۸۴)
یہ چند الفاظ ترقی پسند کا پورا تجزیہ کرتے ہیں اور یہ تحریک زندگی کو ادب سے نزدیک لائی اور اس کے ذریعے مصنفیں و شعراء نے زندگی کے ان مناظر پر بھی نظریں دوڑائیں جن کی طرف دیکھنا لوگ پسند نہیں کرتےتھے۔ یعنی غریبوں کی حمایت اور مزدوروں کی جدو جہد میں جدو جہد میں ساتھ دینے کا جذبہ ، ملک کوسامراجی قوتوں سے مقابلہ کرانے کا حوصلہ اور آزادی کا جذبہ ان ہی ترقی پسند وں نے ادب کے ذریعے تمام ملک میں پھیلا یا اور آگے بڑھا یا تھا ۔ مزدوروں، کسانوں اور تمام مظلوم انسانوں کی طرف داری کی ذمہ داری انہوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھائی وہ عوام کے ساتھ مل کر عوام کی آواز میں آواز ملا کر گیت گانے لگے۔ ڈھکا چھپا اظہار بیان نہیں تھا بلکہ وضاحت تھی، اجتماعیت تھی۔ چونکہ ترقی پسندوں کے مخاطب غریب اور مزدور طبقہ کے لوگ تھے، جو زیادہ پڑھے لکھے نہںے لہذا انہوں نے سادہ و سلیس زبان کا استعمال کیا اور وضاحت سے کام لے کر لوگوں کے دلوں میں محبت، ہمدردی، بھائی چارگی اور مساوات کے پیغام پہنچائے، اور چونکہ یہ وقت کی آواز تھی لہذا اس آواز پر ہر شخص نے لبیک کہا۔ علی سردار جعفری لکھتے ہیں:
’’ ادب کا تناور درخت جو شاعروں اور ادیبوں کی ذہنی فضاء میں پھلتا پھولتا ہے اپنی جڑوں کی آبیاری کے لئے عوام کے دماغوں کا محتاج ہوتا ہے ۔ اس لئے عام زندگی سے ادب کو الگ نہیں کیا جا سکتا‘‘
Article:Dr Ather Sultana
mob: +919849098054
باقی مضمون پی ڈی ایف میں پڑھیں۔