نوجوان شاعراحمدعطاء کے ساتھ ایک شام

Share

نوجوان شاعر عطا احمد

اردو اکادمی جھنگ کے زیرِ اہتمام نوجوان شاعر احمد عطا ء کے ساتھ ایک شام

رپورٹ :ابن عاصی
علم وادب کے فروغ کے لئے سنجیدگی سے کوشاں جھنگ کی معروف تنظیم ،اردو اکادمی جھنگ، کے زیرِ اہتمام ،عامر عبداللہ اکیڈمی،میں گجرات سے آئے خوبصورت شاعر احمد عطاء کے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت ممتاز غزل گو شاعر صفدر سلیم سیال نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی استاد شاعر گستاخ بخاری تھے تلاوتِ کلام پاک اور نعتﷺکی سعادت بالترتیب اسحاق کھرل اور گستاخ بخاری نے حاصل کی سٹیج سیکرٹری کے فرائض ،سینۂ خاک ،میں تنہا کھڑا ہوں ،اور ،اجلی کرن کی پگڈنڈی پر،جیسی خوبصورت کتابوں کے بے مثال نظم گوشاعر عامر عبداللہ نے نہایت عمدگی سے ادا کئے ،انہوں نے اپنی نظم،یہ میں ہوں ،کے بعد ایک زبردست غزل سے آغاز کیا-

ہوا جو راستہ ہم پر عیاں نہاں ہوئے ہم
پھر اپنے خاک کی تہہ میں رواں دواں ہوئے ہم
وہ کس کے سوگ کی شب تھی ہمیں نہیں معلوم
بجھا چراغ کہیں اور دھواں دھواں ہوئے ہم
ان کے بعد جن شعراء نے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا ان کے اسمائے گرامی اور کلام ملاحظہ فرمائیں
محمد علی ظاہرنے ،تھکن،کے عنوان سے نہایت اعلیٰ نظم پیش کر کے داد پائی،ان کی غزل کے دو شعر دیکھیں ذرا
آنکھ میں کچھ ایسا منظر آگیا
عکس آئینے سے باہر آگیا
تو مجھے باہر ہی سے تکتا رہا
میں ترے اندر سے ہو کر آگیا
اسحاق کھرل:
ہم نے تو ایسی بات بھی نہیں کی
جانے کیوں روٹھے جا رہا ہے کوئی
بھوک سب سے بڑا درندہ ہے
اپنا ہی ماس کھارہا ہے کوئی
پر وفیسر عصمت اللہ نے خوبصورت سنا کر داد پائی
انتظار باقی:
سائے دیوار کے مانوس لگنے لگے ہیں مجھ کو
جاگ اٹھے ہیں کئی کرب شناسائی کے
ابراہیم عدیل کی غزل نے بھی خوب سماں باندھا
ڈاکٹر محسن مگھیانہ:
کس لئے تم چن رہے ہو مجھ کو اس دیوار میں
کیا کوئی مجھ سے بڑا مجرم نہیں سنسار میں
یہ اچانک فیصلہ کیا کہ ہم ترے قابل نہیں
اب بلندی آگئی کیوں ترے معیار میں
انیس انصاری نے نظم ،ہوائے تغیر چلی ،سنا کر داد سمیٹی
گستاخ بخاری:
عجیب لطف کسی شخص کے جمال میں تھا
خیال آئینے میں آئینہ خیال میں تھا
وہ کس لئے مجھے تنہائیوں میں ڈال گیا
مرا رفیق اگر مری دیکھ بھال میں تھا
ایک طائر یہ کہہ کر لوٹ گیا
رنگ کیسے قفس میں رکھے ہیں
اس کے بوسے کا ذائقہ واللہ
جس طرح ہونٹ رس میں رکھے ہیں
احمد عطاء:
دونوں کے جو درمیاں خلا ہے
یہ اصل میں تیسرا ہے
تعبیر بتائی جا چکی ہے
بس آنکھ کو خواب دیکھنا ہے
جاؤ چھپتے پھرو،گریز کرو
ایک دن میں بھی دیکھ لوں گا تمہیں
تم بنے ہو،بنے رہو خوشبو
میں کسی روز لے اڑوں گا تمہیں
اک دن احمد عطا بھی خواب ہوا
کہہ گیا خواب میں ملوں گا تمہیں
ہمیں نہ دیکھئے ہم غم کے مارے جیسے ہیں
کہ ہم تو ویسے ہیں اس کے اشارے جیسے ہیں
وہ جانتا ہے تبھی دور بھاگتا ہے بہت
وہ جانتا ہے ہم اس کو خسارے جیسے ہیں
ہم آج ہنستے ہوئے کچھ الگ دکھائی دئیے
بوقتِ گریہ ہم ایسے تھے سارے جیسے ہیں
یہ غم کے پھو ل ہیں یا شعر دیکھئے اور بس
پتہ ہمیں ہے ہم نے نکھارے جیسے ہیں
ہمارے کسی بزرگ کے بوسے کی نشانی ہے
ہمارے ماتھے پہ تھوڑی سی روشنی ہے ناں
جناب حنیف باوا نے پنجابی نظم ،پندھ حیاتی والا،سنا کر بے پناہ داد پائی
صفدر سلیم سیال:
اسے اک سلطنتِ راجدھانی چاہیے تھی
محبت میں بھی اس کو حکمرانی چاہیے تھی
کبھی میں نے نظر انداز جب اس کو کیا تھا
پرانی بات ہے جو بھول جانی چاہیے تھی
بچھڑنے کا وہ پہلے سے تہیہ کر چکا تھا
اسے مری طرف سے بد گمانی چاہیے تھی
تمہیں یوں برملا اظہار کا کس نے کہا تھا
امیرِ شہر کو تو بے زبانی چاہیے تھی
تقریب میں گورنمنٹ ڈگری کالج اٹھارہ ہزاری کے پرنسپل اور ،کلیاتِ جعفر طاہر،جیسی خوبصورت تحقیقی کتاب کے مصنف پروفیسر سید سلیم تقی شاہ نے خصوصی طور پر شرکت کی

Share
Share
Share