ڈاکٹرزوردکنی ادب کے معمار@ڈاکٹرمحمد ابرارالباقی

Share
ڈاکٹر زور
ڈاکٹر محی الدین قادری زور

دکنی ادب اورڈاکٹر زور

از : ڈاکٹر محمد ابرار الباقی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہء اردو ساتا واہانا یونیور سٹی کریم نگر

ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور(۱۹۰۴ء ۔ ۱۹۶۲ء ) سرزمین حیدرآباد دکن کے ایک مایہ ناز سپوت اور اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک انتہائی قدآور شخصیت کے حامل معتبر نام ہے۔ وہ ایک نامور ماہر لسانیات، محقق نقاد، ادیب، شاعر، افسانہ نگار، مرتب و مدون، سوانح نگار، مورخ، ادارۂ ادبیاتِ اردو کے بانی، ہمہ پہلو شخص تھے۔ وہ بلاشبہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ دکنی ادب کے فروغ میں ان کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ کلیاتِ محمد قلی قطب شاہ کی تدوین، اردو شہ پارے اور دیگر کتابوں کی تدوین سے انھوں نے اردو زبان و ادب کی تاریخ میں گراں قدر اضافے کیے۔ لسانیات میں اردو زبان کے آغاز کے بارے میں ان کا نظریہ، ہندوستانی صوتیات پر ان کی تحریر کردہ کتابیں اپنے موضوع سے متعلق انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کی تصنیف ’’روح تنقید‘‘ اردو تنقید کی اولین کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر زور نے افسانے بھی لکھے۔ ان کے افسانوی مجموعے ’’گول کنڈہ کے ہیرے‘‘ اور ’’سیر گولکنڈہ‘‘ دکنی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر زور کی شاعری بھی تخلیقی شان رکھتی ہے۔ تخلیق، تحقیق اور تنقید سے متعلق ان کی کئی کتابیں اردو تحقیق و تنقید میں آنے والی نسلوں کے لیے رہبری و رہنمائی کا کام کررہی ہیں۔

ڈاکٹر زور ایک مقناطیسی و حرکیاتی شخص تھے وہ بے لگان کام کرتے تھے اور دوسروں کو کام کی ترغیب دیتے تھے۔ ادارۂ ادبیاتِ اردو کی شکل میں انھوں نے دکنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے جو ادارہ تشکیل دیا تھا وہ آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس ادارہ کا ترجمان سب رس اور اس کے دیگر شعبہ جات ڈاکٹر زور کی کاوشوں کے رہن منت ہیں۔ ڈاکٹر زور کو دکنی تہذیب اور اردو زبان و ادب سے پیار تھا۔ ڈاکٹر زور کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے ذیل میں موضوع کے اعتبار سے ان کی علمی و ادبی خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر زورؔ بہ حیثیتِ ماہر لسانیات
ڈاکٹر زورؔ نامور ماہرِ لسانیات تھے۔لسانیات پر ڈاکٹر زورؔ کی دو کتابیں ہیں اور کچھ مضامین
(۱) ہندوستانی لسانیات، (۲) ہندوستانی فونیٹکس (بزبان انگریزی)۔
اس کے علاوہ ان کا ایک پر مغز مقالہ ’’ہندوستان کی گجراتی شاخ‘‘ پر ہے جس کو انھوں نے ڈاکٹر جے۔پلوک کی نگرانی میں قلم بند کیا تھا۔ لسانیات میں اپنی خدمات کی بنا پر ڈاکٹر زورؔ کو اردو کا سب سے پہلا باقاعدہ ماہر لسانیات تسلیم کیا جاتا ہے۔چناں چہ ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں:
’’دکن کو بجاطور پر فخر حاصل ہے کہ اردو نظم و نثر دونوں کی باقاعدہ ابتدا اس سرزمین سے ہوئی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اردو کا سب سے پہلا ماہر لسانیات بھی خاک دکن سے اٹھا۔‘‘
(ڈاکٹر خلیق انجم ’’زورؔ ایک ماہر لسانیات‘‘ مشمولہ سب رس کراچی، زورؔ نمبر جنوری ۱۹۷۹ء، ص: ۸۹)
ہندوستانی لسانیات : لسانیات کی نمائندگی کرنے والی ان کی اہم کتاب ’’ہندوستانی لسانیات‘‘ ہے، جسے اردو لسانیات پر پہلی کتاب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جو کسی ہندوستانی نے لکھی ہے جس میں لسانیات کے جدید ترین اصولوں کی روشنی میں اردو زبان کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب کے سلسلے میں زورؔ صاحب تین سال تک لندن اور پیرس کی درس گاہوں میں مصروف تحقیق رہے۔ یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ انھیں بین الاقوامی شہرت رکھنے والے ماہر لسانیات کی سرپرستی نصیب ہوئی۔ اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز لندن کے پروفیسر آر۔ایل۔ٹرنر اور ہندوستانی زبان کے ماہر گراہم بیلی نے زورؔ صاحب کی مدد کی اور بڑے قیمتی مشورے دیے۔
ہندوستانی فونیٹکس : یہ کتاب عملی لسانیات میں اہم مقام رکھتی ہے۔ ہندوستانی لسانیات سے متعلق انگریزی میں اپنی نوعیت کی یہ اولین کتاب ہے اس میں زبان کا صوتیاتی تجزیہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین نے اسی بنا پر
’’زورؔ صاحب کو صرف اردو ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی جملہ زبانوں میں علم زبان کے قافلے کے سالاروں میں شمار کیا۔‘‘
(ڈاکٹر ضیا الدین انصاری، ’’زورؔ صاحب کی تصانیف کا تعارف‘‘ مشمولہ محی الدین قادری زورؔ مرتب خلیق انجم، ص: ۱۷۴، سنہ اشاعت ۱۹۸۹ء)
اس سے بہ حیثیت ماہر لسانیات ڈاکٹر زورؔ کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے دو مضامین ’’اردو اور پنجابی‘‘ (مطبوعہ نقوش لاہور ۱۹۵۳ء) اور اردو کی ابتدا (مطبوعہ اردوئے معلی لسانیات نمبر جلد سوم ۱۹۶۴ء) اس سلسلے میں اہمیت کے حامل ہیں۔
ڈاکٹر زورؔ بہ حیثیت نقاد
اردو تنقید کے ابتدائی دور میں ایک معتبر نام ہمیں ڈاکٹر زورؔ کا ملتا ہے۔ جن کی تنقید نگاری پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر زورؔ بنیادی طور پر سائنٹفک دبستان تنقید سے وابستہ تھے۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کے تنقیدی دبستان کے مسلک کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر زورؔ نے تنقید کے لیے جن اصولوں کو ضروری قرار دیا ہے وہ بڑی حد تک سائنٹفک ہیں۔ اگر ان کو سامنے رکھ کر تنقید کی جائے تو زیر نظر تصنیف کے تمام پہلو پڑھنے والے کے سامنے آسکتے ہیں۔ ان کی عملی تنقید میں یہ خصوصیت سب سے زیادہ نمایاں ہے۔‘‘
(ڈاکٹر عبادت بریلوی ’’اردو تنقید کا ارتقا‘‘، ص: ۳۲۰، سنہ اشاعت ۱۹۹۵ء)
روح تنقید : اصول تنقید پر ڈاکٹر زورؔ کی کتاب ’’روح تنقید‘‘ ایک معرکتہ الآرا تصنیف ہے۔ اس میں انھوں نے مغربی تصورات تنقید سے براہ راست استفادہ کیا اس کے مضامین عملی تنقید کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں۔ اس کتاب کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس کتاب سے پہلے بہت ہی کم نقادوں نے اصول تنقید کی تدوین کی طرف توجہ دی تھی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ کتاب تصنیف کر کے اردو والوں کو ان کے تنقیدی نظریات سے روشناس کروایا۔ ان سے پچاس سال قبل ڈاکٹر زورؔ نے ارسطو سے میتھو آرنلڈ تک نقادوں سے اردو دنیا کو واقف کروایا تھا۔ اس اعتبار سے ڈاکٹر زورؔ جمیل جالبی کے پیش رو اور اپنی مثال آپ قرار دیے جاسکتے ہیں۔
’’روح تنقید‘‘ کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصہ میں فن تنقید کے ارتقا، ادب اور تنقید کے باہمی تعلق اور فن تنقید کے اصول و مبادیات سے بحث کی گئی ہے اور دوسرے حصہ میں دنیا کے مختلف ممالک مثلاً یونان، روما، فرانس اور انگلستان میں تنقید کے ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹر زورؔ نے تنقید کی تعریف، ادب میں اس کی اہمیت و ضرورت اور دوسرے اہم مسائل پر قلم اٹھایا ہے۔ ان کے تنقیدی خیالات کا اندازہ ذیلی اقتباس سے کیا جاسکتا ہے:
’’تنقید میں نہ صرف تقریظی پہلو ہوتا ہے بلکہ تخلیقی بھی اس کا کام نہ صرف برائی کی خدمت کرنا ہے بلکہ اچھائیوں کی بھی صحیح طور پر ترجمانی کر کے ان میں ترقی دینا۔‘‘
(ڈاکٹر زورؔ ’’روح تنقید‘‘، ص: ۷ سنہ اشاعت ۱۹۲۵ء، طبع اول)
تنقیدی مقالات : روح تنقید کے حصہ دوم یعنی تنقیدی مقالات میں ڈاکٹر زورؔ نے عملی تنقید کے نمونے پیش کیے ہیں۔ اس کتاب کے بعض مضامین موقر جرائد میں شائع ہو کر اہل ادب سے داد و تحسین حاصل کرچکے تھے۔ ’’میر انیس کی شاعری‘‘، ’’ہورس اسمتھ کی شاعری‘‘ اور ’’میر تقی میر کی مثنویاں‘‘ کو بہ قول مصنف تمام تنقیدوں کو ایک جگہ محفوظ کرنے کے خیال سے اس مجموعے میں جگہ دی گئی ہے۔ ڈاکٹر زورؔ نے تنقید کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔
(۱) تخریبی (۲) تعمیری (۳) تخلیقی
ڈاکٹر زورؔ اپنی اس اولین تصنیف کو بہت عزیز رکھتے تھے چناں چہ انھوں نے لکھا کہ:
’’روح تنقید‘‘ مجھے بہت عزیز ہے۔ یہ میری پہلی علمی و ادبی کوشش ہے اور اگرچہ اس کے بعد میری ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔لیکن کوئی کتاب اردو دنیا میں اتنی مفید و مقبول ثابت نہیں ہوئی حالاں کہ میں سمجھتا ہوں کہ بعض دوسری کتابیں میری محنت و کاوش اور افادیت کی وجہ سے مقبولیت میں اس سے بڑھ جائیں گی۔ خدا کا شکر ہے کہ ’’روح تنقید‘‘ کی مانگ روز افزوں ہے جس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ یہ ان وقتی کتابوں میں نہیں ہے جو امتداد زمانہ کی وجہ سے اوراق پارینہ بن جاتی ہیں اس میں زندگی کی قوت موجود ہے اور یہ اردو ادب میں زندہ رہے گی۔‘‘
(’’ڈاکٹر زورؔ ‘‘ از پروفیسر سیدہ جعفر ،نئی دہلی، ساہتیہ اکادمی سنہ اشاعت ۱۹۹۰ء)
تین شاعر : اس کتاب میں ڈاکٹر زورؔ نے میر تقی میر، میر انیس اور ہوریس اسمتھ کی ادبی خدمات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔
جواہر سخن : مولوی مبین عباسی چریاکوٹی نے اردو شاعری کا انتخاب ’’جواہر سخن‘‘ کے عنوان سے چار جلدوں میں مرتب کیا تھا۔ ڈاکٹر زورؔ نے اس پر ایک طویل تبصرہ لکھا اور اسے ’’جواہر سخن‘’ کے نام سے ہی کتابی شکل دے دی گئی۔ ڈاکٹر زورؔ نے ’’جواہر سخن‘‘ پر تنقیدی نظر ڈالی ہے اور اس کے فروگزاشتوں کی نشان دہی کی ہے۔
ادبی تحریریں : یہ ڈاکٹر زورؔ کے مختلف تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس کو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے مرتب کیا ہے۔
ادبی تاثرات : اس کتاب میں ڈاکٹر زورؔ کے دوسرے مصنفین کی کتابوں پر لکھے گئے تبصروں اور مقدموں کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو مرزا قدرت اللہ بیگ نے مرتب کیا ۔ ان تبصروں اور مقدموں کی تعداد جملہ ۴۳ ہے۔
ڈاکٹر زورؔ بہ حیثیت محقق و مدون
ڈاکٹر زورؔ ایک مایہ ناز محقق، تجربہ کار مدون تھے۔ ان کی تحقیقی اور تدوینی کام کی وجہ سے کئی شاعر گوشۂ گم نامی سے نکل کر شہرت کے بام عروج پر پہنچے۔ تحقیق ایک صبرآزما اور مشکل کام ہے اس میں جذبے کی لطافت، ذہنی یکسوئی خیال کی ہم آہنگی کا ہونا نہایت لازمی ہے، تحقیق اپنے موضوع کے ساتھ انصاف چاہتی ہے۔ وہ مواد کو سلیقے سے اکٹھا کرنا، اس کی صحیح جانچ پڑتال، چھان بین، تقابل، رد و قدح جیسے مراحل میں باریک بینی و حساسیت چاہتی ہے۔ یہ تمام اوصاف ڈاکٹر زورؔ میں بہ درجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ اسی لیے ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ اپنے مضمون ’’محقق اعظم‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’اگر میں کسی ادبی ادارے سے منسلک ہوتا تو ڈاکٹر موصوف کو محقق اعظم کا خطاب پیش کرتا اس لیے کہ ان میں وہ تمام خوبیاں جمع ہیں جو تحقیق، تدلیل، تنقید کے کار اہم کے لیے ناگزیر ہیں۔ جیسے (۱) کھوج پڑتال (۲) مواد کی ڈھونڈ بھال کی فطرتِ اہلیت (۳) وسیع و عمیق مطالعہ اور اساتذہ کی صحبت (۴) موضوع سے ہمدردی اور موافقت (۵) فکر غائر کی عادت (۶) شک اور ایمان سے سمجھوتا (۷) تنوع ا ور تعمق کی لگن (۸)تحلیل و تسنیق کا گر (۹) بے تعصبی و بے غلوی (۱۰) حوصلہ، صبر، خوداعتمادی، انکساری (۱۱) ٹھیک جچی تلی مختصر بات کہنے کی کاوش اور تاکید و تکرار سے حذر (۱۲)حقیقت عشق اور دارگیری کا جنوں۔‘‘
(ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ ’’محقق اعظم‘‘ مشمولہ سب رس کراچی زورؔ نمبر، ص: ۹۲،۹۳، جلد ۲ دسمبر جنوری ۷۹۔۱۹۷۸ء، مدیر خواجہ حمید الدین شاہد)
ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ نے اپنے مضمون میں ڈاکٹر زورؔ کی ان تمام خوبیوں کا ذکر کیا ہے جو ایک اچھے محقق کے لیے ضروری ہیں۔ ان اوصاف کو دیکھ کر موہن سنگھ دیوانہ انھیں ’’محقق اعظم‘‘ قرار دینے پر مجبور ہیں۔ ان کا ’’محقق اعظم‘‘ کے عنوان سے مضمون کا لکھنا ہی ڈاکٹر زورؔ کے تحقیقی کارناموں اور اس کی قدر و منزلت کا ثبوت دینا ہے۔
ڈاکٹر زورؔ مخطوطہ شناسی کے سارے گر سے واقف تھے اور ان کو ’’مخطوطہ شناسی‘‘ کا فطری ذوق تھا ۱۹۳۱ء میں ادارۂ ادبیاتِ اردو کے قیام نے ڈاکٹر زورؔ کی مخطوطات کے جمع کرنے اور ان کی بازیافت کی دھن اور ان کی ترتیب اور وضاحت پر محنت کی وجہ سے ڈاکٹر زورؔ کی مخطوطہ شناسی میں کافی بالیدگی آچکی تھی اور ان کی اسی دلچسپی نے مخطوطات کے سرمائے میں کافی اضافہ کر دیا۔سید حرمت الاکرام لکھتے ہیں:
’’یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ ان کی دوسری تصنیفات و تالیفات سے قطع نظر اگر حیدرآباد اور باقی ماندہ پورے ہندوستان کے مخطوطات ایک دوسرے کے مقابلے میں رکھ دیے جائیں تو اس میں حیدرآباد سبقت لے جائے گا۔ جس کا سہرا ڈاکٹر زورؔ کی ذات واحد کے سر ہے۔‘‘
(سید حرمت الاکرام ’’ڈاکٹر زورؔ زورؔ شخصی اور ادبی زندگی‘‘ مشمولہ سب رس کراچی، زورؔ نمبر، ص: ۱۰۴، جلد ۲، دسمبر جنوری ۷۹۔۱۹۷۸ء، مدیر خواجہ حمید الدین شاہد)
ڈاکٹر زورؔ کا سب سے گراں بہا کام دکنی ادب کی تحقیق و تدوین ہے انھوں نے ایسے لافانی کارنامے انجام دیے کہ اردو دنیا اس کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔انھوں نے تحقیق و تدوین کے کام کو منظم طور پر اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا۔ کلیات محمد قلی قطب شاہ، حیات میر محمد مومن، نذر محمد قلی قطب شاہ، متاع سخن، کیف سخن، بادہ سخن، فیض سخن، معانی سخن، رمز سخن، محمود غزنوی کا بزم ادب، اردو کے اسالیب بیان، اردو شاعری کا انتخاب، فن انشا پردازی، حب ترنگ، طالب و موہنی، روح غالب، مکاتیب شاد عظیم آبادی، شاد اقبال، باغ و بہار، قطب شاہی سلاطین اور آندھرا، جامعہ عثمانیہ کے فرزندوں کی اردو خدمات، تذکرہ گلزار ابراہیم، تذکرہ اردو مخطوطات جلد اول تا پنجم، تذکرہ نوادر ایوان اردو، مرقع سخن (جلد اول)، مرقع سخن (جلد دوم)، یادگار محمد قلی قطب شاہ، ارمغان یوم محمد قلی وغیرہ ان کے بیش بہا کارنامے ہیں۔
ڈاکٹر زورؔ بہ حیثیت ادبی مورخ
ڈاکٹر زورؔ ایک شاعر، افسانہ نگار، نقاد ہی نہیں بلکہ ادبی مورخ بھی تھے۔ بہ حیثیت ادبی مورخ ان کے کارنامے قابل قدر اور گراں بہا ہیں اور یہ کارنامے اردو کی ادبی تاریخ کا ایک بیش بہا سرمایہ ہے۔ ان کے ان کارناموں کو اردو دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ (۱) تاریخ ادب اردو، (۲) دکنی ادب کی تاریخ، (۳) داستان ادب حیدرآباد اور (۴) اردو شہ پارے۔
تاریخ ادب اردو : اس کتاب کو ڈاکٹر زورؔ نے اپنی تصنیف قرار دینے کے بجائے مرتبہ ادارۂ ادبیاتِ اردو لکھا ہے۔ اس میں اختصار و جامعیت کے پہلو پر خاصا دھیان دیا گیا ہے۔ یہ کتاب اپنے اختصار و ایجاز کے باوجود بہت ساری معلومات کا احاطہ کرتی ہے۔ دراصل ڈاکٹر زورؔ نے سمندر کو کوزہ میں بند کیا ہے۔
دکنی ادب کی تاریخ : دکنی ادب کی تاریخ زورؔ صاحب کی تصانیف میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جو قدیم دکنی تخلیق کار سے لے کر اورنگ آباد تک احاطہ کیے ہوئے ہے۔
داستان ادب حیدرآباد : ڈاکٹر زورؔ کی مرتبہ ادبی تواریخ کے سلسلے کی ایک کڑی ہے اس میں شہر حیدرآباد کی علمی و ادبی تحریکات ارباب علم اور اصحاب کمال کی حالات زندگی اور ان کے تصانیف کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
اردو شہ پارے : اردو شہ پارے ڈاکٹر زورؔ کی پہلی تصنیف ہے یہ تحقیق پر مبنی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے پروفیسر محمد انور الدین رقم طراز ہیں:
’’اردو شہ پارے ۱۹۲۹ء میں شائع ہوئی ۔ یہ دکنی ادب کی تحقیق میں شاہ کار کا درجہ رکھتی ہے۔ اس قدر گراں مایہ کتاب اس سے قبل اورا س کے بعد نہیں چھپی ۔یہ وہ کتاب ہے جس نے دکنیات کے میدان میں مطالعے کی بنیاد فراہم کی اور محققین کے لیے نئی راہ ہموار کی۔‘‘
(پروفیسر انور الدین ’’ڈاکٹر زورؔ کی تواریخ ادب و تذکرے‘‘ مشمولہ سب رس زورؔ نمبر نومبر دسمبر ۱۹۹۶ء، ص: ۳۵)
ڈاکٹر زورؔ بہ حیثیت افسانہ نگار
ڈاکٹر زورؔ ایک کامیاب افسانہ نگار تھے لیکن انھوں نے افسانہ نگاری کو اپنی ادبی زندگی کا مقصد نہیں بنایا۔ دراصل وہ ایسا چاہتے بھی نہیں تھے۔ جب کبھی انھیں تحقیقی و تنقیدی کاموں سے فرصت ملتی تھی وہ افسانے لکھتے تھے یا شعر موزوں کرتے تھے۔
ڈاکٹر زورؔ کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری ہی سے ہوتا ہے ۱۹۱۸ء اور ۱۹۲۰ء کے درمیان ان کے افسانے شائع ہونے لگے۔ انھوں نے جتنے بھی افسانے لکھے وہ تاریخی یا پھر نیم تاریخی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ رومانوی افسانے لکھنا اتنا مشکل نہیں جتنا تاریخی افسانے، تاریخی افسانوں کے لیے وسعت نظر، مطالعہ، مشاہدہ، دوربینی اور تحقیق و تاریخ سے واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر شخص کو میسر نہیں آتی۔ ان کا سب سے پہلا طویل نیم تاریخی افسانہ، ’’طلسم تقدیر‘‘ ہے جو بے حد مقبول ہوا۔
ان کے مختصر افسانوں کے مجموعے ’’سیر گولکنڈہ ۱۹۳۶ء‘‘ اور ’’گولکنڈہ کے ہیرے ۱۹۳۷ء‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ ’’سیر گولکنڈہ‘‘ میں سولہ افسانے اور گولکنڈہ کے ہیرے میں چھ افسانے ہیں جن میں طلسم تقدیر بھی شامل ہے۔ ان افسانوں کے مجموعوں کے علاوہ ۱۹۵۲ء میں شہر حیدرآباد پر ایک اور کتاب ’’حیدرآباد فرخندہ بنیاد‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کے دوسرے حصے ’’روایات‘‘ میں انھوں نے اپنے انیس (۱۹) افسانوں کو شامل کیا جو ’’سیر گولکنڈہ‘‘ اور ’’گولکنڈہ کے ہیرے‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ ڈاکٹر زورؔ کے جملہ تئیس (۲۳) افسانے ہمارے سامنے موجود ہیں۔
سیر گولکنڈہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بابائے اردومولوی عبدالحق لکھتے ہیں:
’’یہ بہت دلچسپ کتاب ہے اور دلچسپ طرز میں لکھی گئی ہے۔ اس میں تاریخ اور افسانے اور واقعات اور تخیل کو بڑی خوبی سے سمویا ہے کہ قطب شاہی دور کی تصویر نظروں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ بڑی بڑی تاریخوں کو پڑھنے سے وہ معلومات حاصل نہیں ہوتیں جو اس چھوٹی سی کتاب میں ہیں اور وہ نہ لطف و کیفیت ہے جو اس میں ہے۔ اس وقت کی معاشرت کا رنگ بھی اس میں نظر آتا ہے۔‘‘
(مولوی عبدالحق اردو سہ ماہی (اورنگ آباد) سنہ اشاعت جولائی ۱۹۳۷ء)
ڈاکٹر زورؔ کے تاریخی افسانے اس لیے بھی غیر معمولی طورپر کامیاب ہیں کہ یہ افسانہ نگاری کے فنی تقاضوں پر بھی پورے اترتے ہیں۔ مختصر افسانے کی پہلی اور اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں زندگی کا ایک واقعہ یا ایک جھلک دکھائی جاتی ہے۔ لیکن یہ واقعہ یا جھلک اتنی جامع ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ افسانے کے مرکزی کردار کی پوری زندگی پر روشنی پڑتی ہے۔
افسانہ ’’مشک محل‘‘ میں سلطان کی زندگی کا ایک واقعہ پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اس واقعہ کے ذریعہ ہم سلطان کی طرز حکمرانی کو پوری طرح جان لیتے ہیں۔ ’’مکہ مسجد‘‘ میں بھی مسجد کے سنگ بنیاد رکھنے کی یہ شرط رکھی گئی کہ ایسا شخص مسجد کا سنگ بنیاد رکھے جس کی بارہ سال کی عمر سے نماز قضا نہ ہوئی ہو۔ پورے مجمع میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو اس شرط کو پوری کرتا۔ لیکن سلطان آگے بڑھ کر سنگ بنیاد رکھتا ہے۔ اس طرح ’’سیر گولکنڈہ‘‘ ہو یا ’’گولکنڈہ کے ہیرے‘‘ دونوں افسانوں کے مجموعوں سے کوئی بھی افسانہ ہم لے لیں اس میں یہی خوبی ملے گی کہ وہ فنی خوبی پر بھی پورے اترتے ہیں۔
ڈاکٹر زورؔ بہ حیثیت سوانح نگار
ڈاکٹر زورؔ کی ہمہ جہت ادبی شخصیت کا ایک روشن پہلو سوانح نگار کی شکل میں آتا ہے انھوں نے بعض ادبی اور تاریخی شخصیتوں کی سیرت و سوانح شخصیت و کردار، واقعات حیات اور ان کے گوناں گوں کارناموں کو سپرد قلم کر کے انھیں زندہ جاوید بنا دیا ہے۔
ڈاکٹر زورؔ کی سوانحی تصانیف میں گارساں دتاسی، سرگزشت حاتم، سرگزشت غالب، سلطان محمد قلی قطب شاہ اور میر حسن کے نام قابل ذکر ہیں۔
گارساں دتاسی : گارساں دتاسی اردو کا پروفیسر اور فرانس کا مشہور مستشرق تھا ڈاکٹر زورؔ نے پیرس میں اپنے قیام کے دوران ’’گارساں دتاسی‘‘ کے نام سے اردو کے بے لوث خدمت گزار کے واقعات، حیات اور اس کے علمی و ادبی کارناموں پر مشتمل ایک سیر حاصل تذکرہ مرتب کیا جو رسالہ ہندوستانی (الہ آباد) کے اپریل ۱۹۳۱ء کے شمارے میں پہلی بار چھپا اور بعد میں اس ادارے کی جانب سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔
ڈاکٹر زورؔ نے اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں دتاسی کی ابتدائی زندگی اور اردو سے دلچسپی، تصانیف، کتب خانہ، درس و تدریس اور طریقہ تلامذہ اس زمانے کے اردو کے دیگر اساتذہ اور اس کے ہم عصر مستشرقین کو متعارف کروایا ہے۔
سرگزشت حاتم : یہ کتاب شاہ ظہور الدین حاتم کے ’’دیوان زادہ‘‘ پر ڈاکٹر زورؔ کا تحریر کیا ہوا مقدمہ ہے۔ جو علاحدہ کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں مولف نے شاہ حاتم کا نام، پیدائش، ان کے والد کا نام اور پیشہ، شعر گوئی کا آغاز، ولی کے اثرات، وضع قطع عرفان پسندی، معاصرانہ چشمک کی روشنی میں تبصرہ کیا ہے اور ساتھ ہی سوانحی حالات و کوائف کا خاکہ بڑی تحقیق و تدقیق اور عرق ریزی کے ساتھ مرتب کیا۔
سرگزشت غالب : سرگزشت غالب میں ڈاکٹر زورؔ نے مرزا غالب کے حالات زندگی ان کے ادبی کارنامے اور عزیز و اقارب کا اجمالاً ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب دراصل ’’روح غالب‘‘ کے مقدمہ کے طور پر لکھی گئی تھی۔ لیکن یہ مقدمہ اس قدر طویل ہوگیا کہ اسے مختصر سی کتابی شکل دے دی گئی۔
سلطان محمد قلی قطب شاہ : ڈاکٹر زورؔ کی سوانحی کتابوں میں سلطان محمد قلی قطب شاہ سب سے ضخیم اور بھرپور سوانح حیات ہے۔ اس میں اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر، شہر حیدرآباد کے بانی اور قطب شاہی خاندان کے پانچویں حکمرانوں سلطان محمد قلی قطب شاہ (۱۵۶۵ء ۔ ۱۶۱۱ء) کے حالات زندگی اوراس ضمن میں حیدرآباد کی تاریخ اور یہاں کی سیاسی و سماجی زندگی پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹر زورؔ بحیثیتِ خطیب و مکتوب نگار
ڈاکٹر زورؔ نے کئی دفعہ جلسوں میں صدارتی خطبہ دیا اور کئی موقعوں اور کئی مقامات پر اپنے گراں بہا خطبات سے بہت ہی مفید و معلومات آفرین چیزوں کا انکشاف کیا اور کئی دفعہ ایوانِ اردو میں بہت بڑی بڑی شخصیتیوں کا استقبال کیا۔ اسی طرح ۲۹/ جولائی ۱۹۶۰ء کو صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد کی تشریف آوری پر ڈاکٹر زورؔ نے خیر مقدمی تقریر کی اس کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ہمارے ہر دل عزیز صدر جمہوریہ ہند
آج آپ کا قدوم میمنت لزوم ہمارے اس چھوٹے سے گھر میں آئے جس کو حضرت خواجہ حسن نظامی مرحوم نے ایوان اردو جیسا بڑا نام عطا فرمایا تھا۔ اس لیے آج ہم بجاطور پر شاعر کی زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ:
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں‘‘
(ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ ’’ڈاکٹر زورؔ کے خطبات‘‘ مشمولہ سب رس زورؔ نمبر ۱۹۶۳ء، ص: ۸۹، نگرانی عبدالمجید صدیقی)
ڈاکٹر زورؔ لفاظ نہیں تھے۔ بلکہ ان کا ہرایک لفظ اپنے اندر ایک سمندر لیے ہوتا ۔وہ کم الفاظ میں زیادہ معنی و مطالب سمود یتے تھے۔
مکتوب انسان کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ خطوط کے ذریعہ انسان کی فطرت مزاج اور عصری ماحول کی عکاسی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر زورؔ نے یورپ کے زمانہ قیام کے دوران اپنے ایک عزیز دوست نواب عبدالرحمن شریف کو متعدد خطوط لکھے ان کے ایک خط سے لندن کی آب و ہوا اور موسم کا ذکر ملتا ہے۔
’’لندن کی آب و ہوا بڑی خراب ہے میں اس سے بیزار ہوگیا ہوں۔ گزشتہ دو ہفتوں میں خاصی برف گری۔ یہ چیز میرے لیے نئی ہے اور ساتھ ہی پرُ لطف بھی۔ خصوصاً علی الصبح مطلع ابرآلود ہو تو برف ڈھکے مکان، درخت اور سڑکیں بقعۂ نور نظر آتی ہیں۔‘‘
(سید رفیع الدین قادری زورؔ ’’ڈاکٹر زورؔ لندن میں‘‘ مشمولہ سب رس حیدرآباد، نومبر ۱۹۸۰ء، ص: ۲۶)
انسان کی باطنی تبدیلیوں کا اظہار کرتے ہوئے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’محبی۔ میں یہاں وہ آدمی نہیں رہا ہوں جو کبھی تھا میرا لباس بدل گیا، میری صورت بدل گئی، میرا کھانا بدل گیا، میرا طریقہ و بودباش بدل گیا، یہاں تک کہ میری زبان بدل گئی۔ کہیے پھر میرے خیالات تبدیل نہ ہوئے ہوں۔‘‘
(سید رفیع الدین قادری زورؔ ’’ڈاکٹر زورؔ لندن میں‘‘ مشمولہ سب رس حیدرآباد، نومبر ۱۹۸۰ء، ص: ۲۸۔۲۹)
خط انسان کی زندگی کا آئینہ ہوتا ہے اورا س آئینہ سے مکتوب نگار کی سیرت و شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔ ڈاکٹر زورؔ کے مکتوبات سے ان کے علمی مشاغل و نیز ان کے ذاتی مصروفیات کا پتہ چلتا ہے۔
ڈاکٹر زورؔ بہ حیثیت شاعر
ڈاکٹر زورؔ نے بچپن ہی سے شاعری شروع کر دی تھی۔ شاعری ان کو ورثہ میں ملی تھی۔ ان کے والد غلام محمد قادری زعمؔ اچھے شاعر تھے۔ اعلیٰ تعلیم کا حصول پھر درس و تدریس کی مصروفیات، تحقیق کی راہوں کے انہماک نے شاعری کے ذوق میں اضمحلال پیدا کر دیا۔ ان کے استاد وحید الدین سلیم ہمیشہ ان کو اردو کے جدید تقاضوں کی طرف متوجہ کیا کرتے تھے۔ اس لیے بھی وہ عام راستے سے ہٹ کر اور نئے نئے کام کرنے اور مادر جامعہ کا نام روشن کرنے کے لیے شاعری کی جگہ نثر اور اس میں بھی تاریخ اور تحقیق و تنقید کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے۔
کالج کے زمانے کی کہی ہوئی نظموں میں روایتی طرز اسلوب کی کارفرمائی نظر آتی ہے ان کے اشعار میں ’’تغافل یار‘‘ اور ’’حسن ہوش ربا‘‘ کا تذکرہ بار بار ملتا ہے۔
ڈاکٹر زورؔ کی ابتدائی شاعری کے بارے میں پروفیسر سیدہ جعفر رقم طراز ہیں:
’’ان کے اشعار میں نوجوانی کی امنگ بھی ہے اور محبت کرنے کا حوصلہ بھی۔ ان میں انفرادی اور داخلی جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ زبان میں روانی اور سلاست ہے لیکن گہرائی رفعت تخیل اور ندرت فکر کے عناصر نظر نہیں آتے۔ ڈاکٹر زورؔ کی ابتدائی نظمیں ہلکی پھلکی اور عشقیہ ہیں یہ نظمیں عنفوان شباب کے لطیف اور معصوم جذبات کی آئینہ دار ہیں۔‘‘
(پروفیسر سیدہ جعفر ’’ڈاکٹر زورؔ ‘‘ نئی دہلی، ساہتیہ اکادمی سنہ اشاعت ۱۹۹۰ء، ص: ۱۵۶)
ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کے شاعرانہ اوصاف اور افکار اپنے عصر کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ خود زورؔ صاحب کے ذوق ادب اور ان کے غیر معمولی کارناموں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کی شاعری میں لطافت رکھ رکھاؤ، حسن اور رعنائی کا پرتو جھلکتا ہے۔ شاعری میں وہ کوئی آواز یا نئی تحریک سے وابستہ نہ رہے اور نہ اپنے درون کی آواز پر اپنے احساسات کا بیان کیا ہے۔ ان کے چند اشعار بہ طور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں :
جناب زورؔ بھی شاعر ہیں سنتے آئے ہیں
کسی قطار میں شامل نہ کچھ شمار میں ہیں
یاد تڑپائے گی زورؔ اس کی ہمیشہ ہم کو
نہ ملا ہے نہ ملے گا کوئی ایسا ہم کو
پونچھ ڈالو اب چشم نم ساتھیو
کیوں کریں آج بھی کل کا غم ساتھیو
اپنی تقدیر بنتی ہے تدبیر سے
اب نہ دشمن کا ڈھونڈو کرم ساتھیو
زندگی سانس لیتی رہے گی یوں ہی
زندہ دل ہنستے ہنستے گزر جائیں گے
موت سے بھی مریں گے نہیں زورؔ ہم
زندگی میں جو کچھ کام کر جائیں گے

ڈاکٹر زورؔ کو شاعری کی بنا پر جب شہرت ملی اور لوگ ان کی شاعری پسند کرنے لگے توگویا وہ شہرت کی معراج پر پہنچ گئے تھے۔ ایسے میں انھوں نے ایک دم سے خاموشی اختیار کی جیسے وہ فن شاعری سے واقف ہی نہیں۔ ایک عرصہ تک خاموش رہنے کے بعد وادی کشمیر میں وہ اپنی شاعری کی آگ کو پھونک مار مار کر پھر سے تابناک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے تحقیق، تنقید، درس و تدریس کی راکھ اپنے آغوش میں چھپالی تھی۔
پروفیسر سیدہ جعفر زورؔ صاحب کی شاعری کے دوسرے دور کے تعلق سے لکھتی ہیں:
’’ڈاکٹر زورؔ کی شاعری کا دوسرا دور وادی کشمیر سے وابستہ ہے مسلسل کئی سال کی خاموشی کے بعد وہ شعر گوئی کی طرف مائل ہوئے ۔۔۔ سرزمین کشمیر کے دل فریب نظاروں، یہاں کی پرُ فضا اورفرحت بخش ماحول اور اس جنت شان کی دل فریبیوں سے مسحور ہو کر ڈاکٹر زورؔ نے شعر کہے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر زورؔ کو بڑھاپے میں وطن چھوڑنا پڑا تھا ۔۔۔ پردیس میں دکن کے دیوانے کو وطن کی یاد ستاتی رہی اور ان میں سویا ہوا شاعر جاگ اٹھا۔‘‘
(پروفیسر سیدہ جعفر ’’ڈاکٹر زورؔ ‘‘ نئی دہلی، ساہتیہ اکادمی سنہ اشاعت ۱۹۹۰ء، ص: ۱۵۷)
چوں کہ ڈاکٹر زورؔ کو کشمیر میں رہنے کا بہت کم موقع ملااور جب کہ وہ شاعری کی طرف مائل ہوئے ہی تھے کہ ان کے قلب پر حملہ ہوا جس کے بعد وہ سنبھل نہ سکے اور اپنی شاعری کے سلسلے کو ادھورا چھوڑتے ہوئے اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔

ڈاکٹر ابرارالباقی
ڈاکٹر ابرارالباقی

Article:Dr Zore:Deccani adab ke memar
Author:Dr Md Abrarul Baqui
mob:+919440717525

Share

One thought on “ڈاکٹرزوردکنی ادب کے معمار@ڈاکٹرمحمد ابرارالباقی”

Comments are closed.

Share
Share