ہندوستان کی اوّلین اردو سائنس کانگریس – دہلی

Share

اردو سائنس کانگریس

اردو سائنس نگاری کو مقبول بنانے کے نئے عزائم کا اعلان
ڈاکٹر ریحان انصاری، بھیونڈی(مہارشٹرا)

اردو میں سائنسی نگارشات و تدریس کو معاصر تعلیم و طریقہ اورجدید تکنیک سے ہم آہنگ کرنے نیز نتیجہ خیز بنانے کی غرض سے دہلی میں ۲۰؍ اور ۲۱؍مارچ ۲۰۱۵ ؁ء کو دو روزہ اجتماع منعقد کیا گیا۔ایک اور غرض تھی اس اجتماع کی کہ ہندوستان بھر سے اردو میں سائنسی موضوعات پر لکھنے والے قلم کاروں کو یکجا کرکے ان میں باہم تعارف و رابطہ مستحکم کرایا جائے۔یہ ایک نئی توانائی، دلچسپیوں اور نئے عزائم کا سبب بنا۔انجمن فروغِ سائنس (اَنفروس) اور اردو ماہنامہ ’سائنس‘ کے زیرِ انصرام پرنسپل ڈاکٹر محمد اسلم پرویز (مدیر ’سائنس‘) کی سربراہی میں یہ کانفرنس ترتیب دی گئی تھی جس میں مرکزی کونسل برائے فروغِ اردو زبان اور دہلی اردو اکیڈمی کا اشتراک بھی شامل تھا۔
ذاکرحسین دہلی کالج کے سلمان غنی ہاشمی آڈیٹوریم میں جاری یہ کانفرنس اپنے مقصد میں بے حد کامیاب رہی۔سائنسی تدریس و تحریر کا معیار بلند کرنے کی فکر میں غلطاں و پیچاں افراد شمالی و مشرقی ہند، جنوبی ہند (دکن)، وسط ہند، اور مغربی ہند سے تشریف لائے تھے۔ ان میں سائنسداں، پروفیسر، ڈاکٹر اور اساتذہ کے ساتھ ہی دانشور حضرات نے بھی شرکت کی۔مقالات اور پاورپائنٹ پیشکش کے ذریعہ شرکا نے اپنے تجربات و مشاہدات کو مرتب کرکے اپنی باتیں مؤثر انداز میں پیش کی۔

آغازِ اجلاس میں قاری محمد عثمان صاحب نے خوش الحانی کے ساتھ سورۃ ’فاطر‘ کی آیات تلاوت فرمائی اور ان کا ترجمہ بھی پیش کیا۔ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر شاہ عالم نبھا رہے تھے۔
پروگرام کے ابتدائی اجلاس کی صدارت قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے ڈائرکٹر اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر جناب خواجہ اکرام الدین صاحب نے فرمائی۔ اپنے بلیغ خطبہ میں آپ نے اردو اورفنون سے متعلق کی گئی تقاریر کے سیاق و سباق کے حوالے سے فرمایا کہ ’’زندگی اسی کا نام ہے کہ روشنی بھی ہو تاریکی بھی۔ تاریکیوں سے ہی روشنی کی اہمیت بڑھتی ہے۔اردو سے میں بہت پُرامید ہوں۔ اس وقت بولی جانے والی زبانوں میں اردو پوری دنیا میں اپنی تہذیب و ثقافت کی بدولت دوسرے مقام پر ہے۔ یہ صرف ادب نہیں ہے؛ ایک تہذیبی زبان ہے جس میں سبھی علوم کسی نہ کسی شکل میں پائے جاتے ہیں۔اس میں تہذیب و ثقافت کے عناصرپائے جاتے ہیں۔ صرف وضو کے پانی کا بیان لیجیے۔ کتنی اقسام بیان کی گئی ہیں! یہ سائنس نہیں تو اور کیا ہے؟ رہی بات ایجاد و انکشاف کی مروّجہ زبان؛ تو اسے اپنانا ہماری مجبوری ہے۔ ریڈیو کو ریڈیو ہی کہنا پڑے گا کیونکہ اس کی ایجاد ہم نے نہیں کی۔ اسی طرح دوسری اصطلاحات بھی ہیں۔ یہ تسلیم کہ ہم نے اردو کا مطلب اب تک اردو اسکول، کالج، یونیورسٹی، ادیب اور شاعر ہی لیا ہے لیکن اب عام قاری کو بھی اردو والا سمجھنا ہوگا، اسے بھی جوڑنا ہوگا۔ دلی کالج کی تین سو برسوں پر محیط تابناک تاریخ میں آج ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے ایک نیا اور سنہرا باب رقم کیا ہے۔ اردو ماہنامہ ’سائنس‘ میں مطبوعہ مضامین کی موضوعاتی ترتیب دے کر الگ الگ کلیات اورمجموعے شائع کرنا چاہیے۔ یہ کام کردیجیے اور ڈیجیٹائز کیجیے تو ان کی اشاعت کا کام قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان انجام دینے کو تیار ہے۔ اس منصوبے کو ہم تک پہنچائیں ہم شکرگذار ہوں گے۔‘‘
افتتاحی اجلاس میں ڈاکٹر محمد اسلم پرویز صاحب نے خیرمقدمی و تعارفی کلمات پیش کیے۔ برِّ صغیر میں اپنی نوعیت کی اوّلین اردو سائنس کانگریس کے انعقاد پر آپ نے بھرپور اظہارِ خیال کیا۔اردو میں سائنس کو لکھنے اور پھیلانے کی اہمیت، اردومیڈیم اسکولوں کی اہمیت، اردو زبان میں معلوماتی مواد کی کمی اور اس میں اضافے کے اقدامات وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کی۔ آپ نے سب سے اپیل کی کہ اس جانب دیانتداری کے ساتھ اپنا اپنا حصہ ادا کریں۔ اپنے اکیس سالہ اشاعتی کارنامے ماہنامہ ’سائنس‘ کے آغاز اور اس میں انفروس کے ناقابلِ فراموش حصہ کا تذکرہ تفصیل سے کرتے ہوئے مرحومہ نورجہاں ثروت صاحبہ (مدیرہ ’قومی آواز‘) کو بھرپور خراج پیش کیا کہ انھیں کی ابتدائی تحریک اور مہمیز کی وجہ سے وہ آج یہ خدمات انجام دینے کے قابل ہوئے ہیں۔ آپ نے اپنے تحریکی سفر سے متعلق فرمایا کہ جس کمی کو محسوس کیا اس کا شکوہ کسی سے نہیں کیا۔ اس پر قلم اٹھایا اور اپنا حصہ ادا کرنے کی کوشش کی۔ ہم لوگوں میں یہ بات عام ہے کہ دوسروں سے توقع رکھتے ہیں اور خود کچھ نہیں کرتے۔ کیا یہ زندگی کی علامت ہے؟ آپ نے انفروس کے بانیان پروفیسر شمس الاسلام فاروقی، پروفیسر فیروز احمد اور پروفیسر انصاری رضاء اﷲ صاحبان کا ذکرکیا کہ کس طرح ۱۹۹۲ ؁ء میں سب نے مل کر انجمن فروغِ سائنس (انفروس) کی بنیاد ڈالی اور اردو زبان میں عام فہم مضامین لکھنے کی تحریک شروع کی۔ اسی انجمن کے زیرِ اہتمام ۱۹۹۴ ؁ء میں اردو ماہنامہ ’سائنس‘ کا آغاز و اجرا کیا گیا جس کے از ابتدا تاحال بلا ناغہ ۲۹۴؍ شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ اس رسالہ کے اجرا میں ذاکر حسین دلی کالج کے سابق پرنسپل حضرات احمد علی اور سلمان غنی ہاشمی صاحبان نے جو اعانت و حوصلہ افزائی کی وہ بھی ایک اثاثہ ہے۔لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ’سائنس‘ میگزین کا موجودہ پھیلاؤ کافی ہے یا اسے مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے؟ آپ نے کہا کہ ہمارے بچوں کو تمام بنیادی معلومات اردو میں دینا ضروری ہے۔ اردو میڈیم اسکولوں میں انگریزی یا ہندی کو ڈیولپ کیوں نہیں کرتے؟ اصل مسئلہ میڈیم کا نہیں اِن پُٹ کے فرق کا ہے۔ صرف ٹیچر نہیں والدین بھی یکساں ذمہ دار ہیں۔ ماں باپ، گھر اور ماحول کی یکساں اہمیت ہے۔ جس چیز کا تناسب زیادہ ہوگا شخصیت پر اسی کا اثر بھی زیادہ پڑے گا۔ بچے کی تربیت کا مطلب صرف اچھی چھت، اچھا کھانا، اچھا لباس اور اخراجات مہیا کردینا نہیں ہے۔ رسالہ ’سائنس‘ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ طلبہ کو اردو میڈیم میں مقید کردیا جائے بلکہ مقصد ان کی ذہن سازی ہے، چنگاری پیدا کرنا ہے، انھیں سوچنے والا بنانا ہے۔ کیونکہ یہی سوچنے کا فرق انسان اور جانور میں ہوتا ہے۔اصطلاحات اور اصطلاح سازی کی بنیادوں اور مشکلات پر بھی آپ نے چند باتیں پیش کیں۔ اور یہ بات رکھی کہ معلوماتی ادب کو ہم کیوں نصاب کا حصہ نہیں بناتے؟ اس کو تحریک بنانے کی ضرورت ہے۔ سائنس، کامرس، جغرافیہ، انجینئرنگ اور دیگر علوم پر مبنی معلوماتی مضامین یا کہانیاں نصاب میں جگہ پائیں گی تو نئی جنریشن اور اردو دونوں کا مستقبل تابناک ہوگا۔ اور صرف اسکولوں میں نہیں بلکہ دینی نصاب پڑھانے والے مدارس میں بھی ایسے معلوماتی مضامین پڑھانا چاہیے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں بہتر مسلمان بن سکیں۔
دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر شعبۂ فارسی پروفیسر شریف حسین قاسمی صاحب نے کہا کہ ہمارا دور سائنس، فن اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔سائنس اور اس سے متعلقہ جدید امور و معلومات کو اردو زبان میں منتقل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ آپ نے ماضی میں اردو میں سائنس نگاری کا اجمالی تذکرہ کیا اور اسی کے ساتھ بتلایا کہ روس، فرانس، جرمنی، اٹلی وغیرہ میں یہ مضامین انھیں کی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں تو ہمیں بھی اردو میں پڑھانے کے لیے ضروری اجازت و انتظامات کرنے چاہئیں۔انھوں نے مزید کہا کہ اردو میں سائنسی ادب کے فروغ میں انفروس اور ماہنامہ ’سائنس‘ کا کردار بہت اہم ہے۔
پدم شری پروفیسر حکیم سید ظل الرحمٰن (بانی و صدر ابنِ سینا اکیڈمی، علی گڑھ) نے فرمایا کہ مجھے بعض وقت خیال ہوتا ہے کہ اردو کا خمیر غیرسائنسی ہے لیکن بعض اوقات اس میں سائنسی نگارشات و کوششوں سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ خیال غلط ہے۔ اردو کا دائرہ روز بروز سمٹتا جارہا ہے۔ پہلے اردو کے رسائل میں سائنسی مضامین بھی ہوا کرتے ہیں۔ مگر اب اردو کی اصنافِ ادب پر کام کرنے والوں کو ہی اردووالا سمجھا جاتا ہے جبکہ دیگر علوم کے لکھنے والوں کو اردووالا نہیں سمجھا جاتا۔ اردو ادب اپنی اصناف کے لحاظ سے محدود ہے جبکہ سائنسی، طبی و تکنیکی علوم کو اردو میں منتقل کرنے کی کوششیں ہی اردو میں تنوع اور وسعت پیدا کریں گی۔زبان اسی وقت وسیع ہوگی جب سائنسی، سماجی، طبی علوم کو اس میں منتقل کیا جائے گا۔
صدرِ شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی پروفیسر (ناصر کمال) ابنِ کنول نے فرمایا کہ زبانوں کو محدود کردینا ہماری کم نصیبی ہے۔ہم نے اردو کو شعر و ادب میں ہی قید کر رکھا ہے۔ اگر ہمیں زبان کو زندہ رکھنا ہے تو اس کی وقعت اور قدر کو محسوس کرنا ہوگا۔ہم اپنی ماں سے تو محبت کرتے ہیں لیکن اس کی زبان سے محبت نہیں کرتے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ انگریزی پڑھی جائے لیکن اپنی زبان کی قربانی کی قیمت پر کیوں؟پہلے اردو میں مختلف موضوعات پر کتابیں موجود تھیں۔ موٹر میکانک گائیڈ، مرغی خانہ، اسلحہ سازی وغیرہ کیونکہ اس وقت لوگوں کو اپنی زبان سے محبت تھی۔ اب ایسی کتابیں دستیاب نہیں ہیں۔ NCPUL اور اردو اکیڈمیوں کو چاہیے کہ ایسے سیمنار اور کانفرنسیں سال میں ایک یا دو مرتبہ ضرور منعقد کرنا چاہیے جن میں اردو کا تعلق شعر و اداب سے ہٹ کر دیگر علوم سے بھی دکھایا جانا چاہیے۔ قدیم داستان نویسی اٹھا کردیکھیں تو ان میں سائنس ملے گی جیسے ’داستانِ امیر حمزہ‘ اور ’بوستانِ خیال (ترجمۂ حدائقِ انظار، طلسمِ اجرام و اجسام) میں سائنسی بیانات ملتے ہیں۔ اب ایسی تصنیفات عنقا ہو چکی ہیں۔
صدرِ شعبۂ فارسی (دہلی یونیورسٹی) پروفیسر چندرشیکھر نے اپنی شستہ تقریر میں فرمایا کہ فکرِ معاش زبانوں کا حصہ ہے۔ زبان کے لیے جو سیاست ہوتی ہے اس میں بعض اوقات قاتلانہ سازشیں اور حملے کیے جاتے ہیں۔ایک وقت تھا کہ دارالترجمہ یا دہلی کالج میں علوم و فنون کا ترجمہ کیا جاتا تھا۔ مجھے ایک کتاب ایڈِٹ کرنے کا موقع ملا تھا جس کا عنوان تھا ’تلوار سازی‘۔ اسے ۱۷۰۴ ؁ء میں لطف اللہ خاں نثار دہلوی نے تحریر کیا تھا۔اسی طرح حیدرآباد سے بھی تلوارسازی پر دو کتابیں ۱۹۲۳ء اور ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی تھیں۔اسی کی مانند میں نے ’’چیتے کو پالنا اور شکار کرنا‘‘ جیسے عنوان پر کتاب دیکھی ہے۔ اب ادبی اصناف کے علاوہ نان لٹریری کتابیں پڑھنے کا رجحان نہیں پایا جاتا اس لیے اصطلاحات سے بھی رفتہ رفتہ عدم واقفیت ہوتی جارہی ہے۔کلیم الدین احمد صاحب کی فرہنگ میں متبادل اصطلاحات نہیں ملتیں۔ ہم سب اردو سے اتنے مؤدب ہوگئے ہیں کہ سائنس کو بھلا دیا ہے۔مخطوطات کو لائبریریوں میں قید کردیا گیا ہے۔ اس سے استخراج نہیں کیا جاتا۔ اگر ہمیں اردو کو فروغ دینا ہے تو ہر روز کالج اور اسکول کے بورڈ پر اردو اصطلاحات والے پانچ الفاظ لکھ دیئے جائیں تاکہ وہاں سے گذرنے والے طلبہ ان کو پڑھ لیں اور لکھنے کی عادت بھی بنائیں۔کالج کے میگزین میں ایک گوشہ سائنسی مضامین کا رکھا جائے۔
اردو اکیڈمی دہلی کے سکریٹری اور دہلی کالج کے سابق طالبعلم جناب انیس اعظمی صاحب نے اردو میں تھیٹر تکنیکوں سے متعلق تذکرہ کیا۔ آپ نے کہا کہ سائنس اور زندگی کا بہت گہرا تعلق ہے۔ ایک اسلم پرویز سے کام نہیں چلے گا۔ ایسے کئی افراد چاہئیں۔ البتہ اردو میں سائنس کی کتابوں کی نکاسی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سرکار اور سرکاری اداروں سے شکوہ اپنی جگہ اور بجا، لیکن ہم اپنی زبان کو ترقی دینے کے لیے کتنے مخلص ہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا۔ کمی ہم میں ہے۔ خلوص و جذبہ کی کمی۔
حاضرین کی کثیر تعداد ان خیالات سے مستفید ہوئی اور افتتاحی اجلاس کے اختتام پر پروفیسر شمس الاسلام فاروقی صاحب نے جملہ مہمانان و سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اس اجلاس میں سائنسی ادب کی مسلسل خدمت انجام دینے کے لیے ڈاکٹر شمس الاسلام فاروقی، ڈاکٹر عبدالمعز شمس (علی گڑھ)، سید سکندر علی (اکولہ)، ڈاکٹر عابد معز (حیدرآباد)، اور داکٹر جاوید احمد (کامٹی، ناگپور) کو ’’نشانِ امتیاز‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اسی اجلاس میں تین کتابوں سفیرانِ سائنس (ڈائرکٹری) مؤلفہ ڈاکٹر عبدالمعز شمس اور ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی (علیگڑھ)، عام طبی معائنے (ڈاکٹر عابد معز، حیدرآباد) اور جسم بے جان (ڈاکٹر عبدالمعز شمس، علیگڑھ) کا اجرا بھی عمل میں آیا۔
ملکمل رپورٹ پی ڈی ایف میں پڑھیں

(مرسلہ: عزیز عرسی)

Click to access Urdu%20Science%20Congress.pdf

Share
Share
Share