اردومیڈیامیں ترجمے کی معنویت@راجیش رینا کالکچر

Share
اردو میڈیا
ڈاکٹر راجیش راینا

شعبۂ اردو ’ مانو

اردو میڈیا میں تر جمے کی معنویت‘پر راجیش رینا کا خصوصی لکچر

آج مؤرخہ 10؍اپریل 2015ء کو شعبۂ اردو ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیور سٹی، میں آزاد ڈسکورس فورم کے تحت جناب راجیش رینہ، گروپ ایڈیٹر ای ۔ٹی۔وی۔ نے ’’اردو میڈیا میں تر جمے کی معنویت‘‘کے موضوع پرایک سیر حاصل اور پرمغز لکچر دیا۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک نہایت معلوماتی اورتجزیاتی لکچر دیا۔اردو میڈیا میں تر جمے کی معنویت پر گفتگو کرتے ہوئے عہدِحاضر میں اس کی اہمیت اور مختلف گوشوں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ذو لسان ہونے کے بڑے فائدے ملے ہیں۔ ان کی روزی روٹی اردو سے چلتی ہے اور اس زبان کے ساتھ ان کا ایک اٹوٹ جذباتی رشتہ ہے۔ انہوں نے افسوس کر تے ہوئے کہا کہ آخر اردو بھی تو ہندوستان کی زبان ہے، پھر اس کے ساتھ امتیازی سلوک

کیوں ؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو کی اس دگر گوں حالت کی ذمے دار صرف حکو مت ہی نہیں بلکہ ہم بھی ہیں ۔ اس لیے کہ جب اردو پڑھنے پڑھانے کی بات آتی ہے تو اس کی جگہ ہم جرمن،فرانسیسی،انگریزی یا دیگر زبانوں کو اردو پر تر جیح دیتے ہیں۔لسانی کثرت میں وحدت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہندوستان کی بائیس(22) قومی زبانوں میں اردو کا ایک اہم مقام ہے۔راجیش رینا نے مادری زبان کی اہمیت کو بتاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بچے کی بہتر نشو و نما صرف اور صرف اس کی مادری زبان ہی میں ہوسکتی ہے۔انہوں نے جہاں اردو زبان و ادب اور ثقافت کی اہمیت کو اجاگر کیا وہیں طلبا کو انگریزی زبان وادب پر بھی مہارت حاصل کرنے کی تلقین کی ۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک کامیاب صحافی کے لیے انگریزی زبان کا جاننا بے حد ضروری ہے۔راجیش رینا نے اردو میڈیا میں ترجمے کی معنویت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہی ترجمہ نگار کامیاب ہو تا ہے جو عام فہم اور سادہ و سلیس زبان کا استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہاکہ لفظ ’سرقہ ‘کے بجائے اگر لفظ ’چوری ‘کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے اردواور خبر کی رسائی عوام الناس تک آسان ہو جاتی ہے۔موصوف نے ترجمے کے ایک اہم گوشے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ایک ترجمہ نگار کے لیے علاقائی کلچر و تہذیب سے واقف ہونا لازمی ہے نیز ترجمے کے دوران میں لفظ ، فقرے اور جملے کے سیاقات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے معانی و مفاہیم کے تعین کا اہتمام کرنا اشد ضروری ہوتاہے۔ انہوں نے طلبا کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ صحافت کے میدان میں لسانی اور علمی اعتبار سے ’آل راونڈر‘بننے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے صحافت پر تبصر ہ کرتے ہوئے کہا کہ سب سے اچھا صحا فی وہ ہے جس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنا کام ایمانداری سے کرنا چاہیے۔ انہوں نے ایک بہت ہی اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج مسلمانو ں کو بھی میڈیا میں آنے کی ضرورت ہے تا کہ ان کے ساتھ بھید بھاؤ اور متعصبانہ رویے کو روکا جا سکے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں تر جمہ سیکھنے کے لیے کم سے کم ایک اردو اور ایک انگریزی کا اخبارضرورپڑھنا چاہیے تاکہ ہم معیاری اعتبار سے ذولسان اور علمی اعتبار سے وسیع الذہن ہو سکیں۔ طلبا کی مستعدی اوران کے معیاری سوالات کی ستائش کرتے ہوئے انہوں نے ان سے اردو میڈیا میں ترجمے کی مہارت کے ساتھ آنے کے لیے کہا۔اس پر مغز لکچر میں صدرِ شعبہ ڈاکٹر ابوالکلام نے مہمان مقرر کا تعارف پیش کیا اور اس پروگرام کے اغراض و مقاصد بتائے۔ ایم۔فل۔ کے ریسرچ اسکالر محمد امان نے پروگرام کے اختتام پر ہدیہ تشکر پیش کیا۔ اس موقعے پرپروفیسر خالد سعید،پروفیسرنسیم الدین فریس، ڈاکٹر مسرت جہاں ،ڈاکٹر بی بی رضا خاتون کے علاوہ شعبۂ ترجمہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جنید ذاکرموجود تھے،علاوہ ازیں شعبۂ اردوکے طلبا اور ریسرچ اسکالرس سمیت دیگر شعبوں کے طلبااور ریسرچ اسکالرس موجود تھے ۔

Share
Share
Share