مسجد الحرام، مکہ المکرمہ-
Masjid ul Haram, Makkah
(موجودہ توسیع کے مختصر بیان کے ساتھ)
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی ورنگل
09866971375
شہرمکہ یامسجد الحرام کی تقدیس کا بیان مجھ جیسے کم علموں سے ممکن نہیں۔یہ متبرک شہر قابل صد تعظیم ہے اس کی عظمت و جلالت یگانہ روزگار ہے ،یہ مسلمانو ں کا قبلہ ہے اس کو بیت العتیق، بیت الحرام، ام القریٰ، البلد الامین،مسجد الحرام وغیرہ کہا جاتا ہے ۔زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر مسجدا لحرام کی توسیع جاری ہے اسی لئے پراجکٹ کی تکمیل تک اس مسجد کی وسعت کا بیان بھی مشکل ہوچلا ہے کیونکہ آئے دن اس کی وسعت اور خوبصورتی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
مساجد اللہ کے گھر ہیں،’’مساجد ‘‘کا لفظ بزرگوں کی تحقیق کی حد تک قرآن میں چھ بار وارد ہوا ہے قرآن میں ارشاد ہے (1) انما یعمر مساجد اللہ من آمن باللہ والیوم الاخر واقام الصلاۃ(9-18) اللہ کی مسجدوں کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جن کا ایمان اللہ اور روز آخرت پر ہے اور جنہوں نے نماز قائم کی۔(2) ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعیٰ فی خرابھا یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے بندوں کو اللہ کے ذکر سے روکے۔ (3)۔۔۔۔عاکفون فی المساجد (2-187) مسجد وں میں اعتکاف کے موقعہ پر ۔۔۔(4)ما کان للمشرکین ان یعمرو ا مساجد اللہ (9-17) مشرکین کا یہ کام نہیں کہ اللہ کی مسجدوں کے خادم بنیں۔ (5)و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا (22-40) اور مساجد جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر ہوتا ہے۔ (6) وان المساجد للہ (72-18) اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں۔
علاوہ اس کے لفظ’’ مسجد‘‘ قرآن کریم میں پانچ بار استعمال ہوا ہے۔ (1)۔ واقیمو ا وجوھکم عند کل مسجد (7-29) اور تم سب ہر نماز کے وقت اپنے رخ کو سیدھا رکھا کرو (2) ۔۔ یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد (7-31) اے اولاد آدم تم ہر نماز کے وقت اپنا لباس زینت پہن لیا کرو۔ (3) ۔ ۔۔۔ لمسجد اسس علی علی التقویٰ من اول یوم ۔۔۔(9-108) جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی۔(4) ۔ولیدخلو االمسجد کما دخلوہ اول مرۃ (17-7) اور مسجد میں اس طرح داخل ہو ں جس طرح پہلے داخل ہوئے تھے (5) ۔ قال الذین غلبو ا علیٰ امرھم لنتخذن علیھم مسجد ا (18-21) اور جو لوگ دوسروں پر غالب آئے انہوں نے کہا کہ ہم ان پر مسجد بنائیں گے۔
سورہ التوبہ آیت ۱۰۷میں ’’مسجد ضرارا ‘‘ اور سورہ الاسرا آیت نمبر ایک میں ’’المسجد الاقصیٰ‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔اس کے علاوہ قرآن میں مسجدالحرام کا لفظ جملہ 15مرتبہ استعمال ہوا ہے۔
مسجد کے متعلق احادیث میں ارشاد ہوا ہے کہ(۱) جو مسجد سے محبت رکھے اس سے اللہ محبت رکھتا ہے۔ (۲) جس شخص نے اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائی اگرچہ وہ مسجد بھٹ تیتر کے بِل کے برابر بھی کیوں نہ ہو اللہ اس شخص کے لئے جنت میں محل بناتا ہے۔ (۳) اگر کوئی شخص مسجد میں چراغ روشن کرے تو اس کی روشنی سے مسجد جب تک منور رہتی ہے حاملین عرش اور فرشتے اسکی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہیں (۴) جو شخص عبادت کے لئے مسجد کو آتا ہے اللہ اس شخص کو عزت و وقار عطا کرتا ہے۔ (۵) رات کی تاریکی میں مسجد آنے والے کے لیے جنت واجب ہے۔ (۶) جب تم کسی ایسے آدمی کو دیکھو جو مسجد آنے کا عادی ہے تو اسکے ایمان کی گواہی دو۔(۷) بندہ جب کسی زمین کے ٹکڑے پر سجدہ کرتا ہے تو وہ زمین کا ٹکڑا اسکے عمل کی گواہی دیتا ہے۔ (۸) جس کسی نے بھی اللہ کو راضی کرنے کے لئے مسجد بنائی اللہ اس کے لئے ویسا ہی ایک گھر جنت میں تعمیر کرے گا۔(۹) اللہ کے نزدیک بازار بدترین جگہ ہے اور مسجد پسندیدہ جگہ ہے۔(۱۰) مسجد سے کوڑا کرکٹ اٹھانے والوں کو اللہ جنت عطا فرماتا ہے۔ مسجد قبا کی تعمیر کے موقعہ پر حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے عربی اشعار لکھے جنکا مفہوم یہ ہے کہ ’’وہ کامیاب ہے جو مسجد تعمیر کرتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے اور رات کو جاگتا رہتا ہے‘‘ ان اشعار کو یہ شرف حاصل ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے انکو دوہرایا تھا۔ سورہ النور میں ارشاد ہے کہ ’’ان گھروں میں کہ اللہ نے حکم دیا انکو بلند کرنے کا اور وہاں اسکا نام پڑھنے کا صبح و شام‘‘ مفسرین نے اس آیت کا مطلب اس طرح بیان کیا ہے کہ اللہ نے مسجدوں کو بلند کرنے کی اجازت دی ہے یعنی ان گھروں کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے جن گھروں میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہو۔ لیکن بعض مفسرین نے اس طرح بھی لکھا ہے کہ قرآن میں ’’ترفع‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں مسجدوں کا بنانا بھی داخل ہے اور اسکی تعظیم و تکریم بھی شامل ہے۔ بعض حضرات نے مسجدوں کے عالی شان بنانے پر اس طرح استدلال پیش کیا ہے کہ حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے مسجد نبوی میں نقش و نگار اور تعمیری خوبصورتی کا کام کافی اہتمام سے کروایا تھا۔ امام اعظمؒ کے نزدیک اگر نام و نمود اور شہرت کے لیے نہ ہو،بلکہ اللہ کے نام اللہ کے گھر کی تعظیم کی نیت سے کوئی شخص مسجد کی تعمیر شاندار و مستحکم دیدہ زیب و خوبصورت بنائے تو کوئی ممانعت نہیں بلکہ امید ثواب کی ہے۔ اسی لیے ابتدائی زمانے ہی سے بادشاہان وقت ہوں یا عوام جب بھی موقعہ ملا انہوں نے ضرور مساجد بنانے کی کوشش کی۔
مسجدالحرام یعنی کعبۃ اللہ سعودی عرب کے شہر ’’مکہ‘‘ میں واقع ہے ،قرآن میں مسجد الحرام کا ذکرا للہ رب العزت نے15مرتبہ کیا ہے،(۱) فلنولینک قبلۃ ترضا ھا فول وجھک شطر المسجد الحرام (2-144) (۲) و من حیث خرجت فول وجھک شطر المسجد الحرام (2-149)(۳) و من حیث خرجت فول وجھک شطر المسجد الحرام (2-150)(۴) ولا تقاتلو ھم عند المسجدالحرام (2-191)(۵) ذٰ لک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام (2-196)(۶) و صد عن سبیل اللہ و کفر بہ المسجد الحرام (2-217)(۷) ان صدو کم عن المسجدالحرام(5-2)(۸) وھم یصدون عن المسجدالحرام (8-34)(۹) الا الذین عاھد تم عند المسجد الحرام (9-7) (۱۰) اجعلتم سقایۃ الحاج و عمارۃ المسجدالحرام (9-19) (۱۱) فلا یقربوالمسجدالحرام(9-28)(۱۲) سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام (17-1) (۱۳) و یصدون عن سبیل اللہ و المسجدالحرام (22-25) ( ۱۴) و صدو کم عن المسجدالحرام (48-25) (۱۵) لتدخلن المسجدالحرام (48-27) ۔
اللہ سورہ آل عمران کی آیات نمبر 96اور 97میں میں فرماتا ہے کہ بے شک سب سے پہلا گھر جو انسانوں کے لئے تعمیر کیا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے اور تمام جہاں والوں کے لئے مرکز و ہدایت ہے اس میں کھلی نشانیاں ہیں مقام ابراہیم ہے اور جو اس میں داخل ہوا امن میں آگیا۔ کعبۃ اللہ چوکور عمارت ہے اسی لئے اس کا نام کعبہ ہوا ، روایتوں کے مطابق یہ آسمانی کعبہ بیت المعمور کے ٹھیک نیچے زمین پر واقع ہے ۔ ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق کعبۃ اللہ پر ہر دن رات ایک سو بیس رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں جن میں 60طواف کرنے والوں پر، 40 کعبۃ اللہ میں نماز پڑھنے والوں پر اور 20 کعبۃ اللہ کو دیکھنے والوں پر نازل ہوتی رہتی ہیں۔ کعبۃاللہ کوسب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت آدم ؑ کی بنیاد پر تعمیر کروایا ، روایت کے مطابق آپؑ نے بیت اللہ کو طور سینا، طور زیتا، لبنان، جودی اور حرا پہاڑیوں کے پتھر سے تعمیر کیا۔ تاریخ حلبی میں بخاری نے نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی تعمیر کے تقریباً 2645برس بعد قریش نے کعبۃاللہ کی تعمیر کی۔اسلامی تقویم کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ 2510ما قبل ہجری عراق کے شہر اُر میں پیدا ہوئے کچھ اختلاف کے ساتھ یہ تاریخ مختلف مورخین کے پاس قبل مسیح میں 1996قرار پاتی ہے، آپؑ نے تقریباً 175برس کی عمر پائی اور 2329ما قبل ہجری ’’الخلیل‘‘(Hebron)میں انتقال فرمایا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی تعمیر کے بعد مختلف ادوار میں کعبۃ اللہ کی توسیع ہوتی رہی ، جس کی تفصیل کافی طویل ہے، قریش سے قبل کعبۃاللہ کو عمالقہ، جرہم، قصَی بن کلاب وغیرہ نے تعمیر کروایا۔ قریش نے رسول اللہ کی ولادت با سعادت کے 35سال بعد خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔کعبۃاللہ زمین سے تقریباً 49فٹ اونچا ہے۔ حطیم (یعنی نیم دائروی چھوٹی دیوار سے گھرا حصہ جو کبھی کعبۃاللہ کے اندر شامل تھا)کی طرف اور رکن یمانی و رکن حجر اسود کے بیچ کے دیوار کی چوڑائی 33فٹ ہے۔رکن یمانی جنوب مغربی کونہ ہے جو قابل احترام ہے۔حجر اسود سے حطیم کی جانب دیوار 37فٹ ہے، اسی دیوار میں باب کعبہ موجود ہے،جس میں دروازہ لگا ہے اس دروازے کی چابی فرمان رسول ا للہ کے مطابق آج تک بنی شیبہ کے پاس ہے۔ اس دیوار کے بالکل مقابل یعنی مغربی جانب کی دیوار کی لمبائی 39 فٹ ہے ،ویسے یہاں اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ اس پیمائش میں مختلف ادوار میں تبدیلی آتیرہی ہے،کعبۃ اللہ میں جنت کا پتھر’’ حجر اسود‘‘ تقریباً 4 فٹ کی اونچائی پر نصب ہے۔ ویسے 22برس تک حجر اسود کعبۃ اللہ سے قرامطہ کی وجہہ سے دور رہا بعد میں اس کے 15ٹکڑے ہوئے اور انہیں دیوار کعبہ میں ایک جوف کے اندر نصب کیا گیا ۔کعبہ کے چار رکن ہیں جو رکن اسود، رکن عراقی، رکن شامی اور رکن یمانی کہلاتے ہیں۔باب کعبہ اور رکن اسود کے درمیان بیت اللہ کی بیرونی دیوار کو’’ مُلتزَم‘‘ کہا جاتا ہے،رکن یمانی کے قریب دیوار کعبہ کے غربی حصے کو’’ مُستجار‘‘ کہا جاتا ہے،خانہ کعبہ کا سنگی پشتہ ’’شاذ رواں‘‘ کہلاتا ہے، حطیم ( حجر اسماعیل ؑ )کی جانب چھت کے اوپری میں سونے کا ایک پرنالہ لگا ہے جس کو ’’میزاب رحمت‘‘ کہتے ہیں ۔کعبہ پر غلاف چڑھا رہتا ہے ،سن ہجری سے 220برس قبل تبع الحمیری نے ریشم کی یمنی چادروں کا غلاف چڑھایا تھا۔فتح مکہ کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے ایک نیا غلاف کعبہ پر چڑھوایا تھا۔ کعبہ کے اطراف کا حصہ جہاں طواف کیا جاتا ہے ’’مطاف‘‘ کہلاتا ہے، مطاف میں ’’مقام ابراہیم‘‘ رکھا ہے جس کا ذکر قرآن میں دو دفعہ موجود ہے۔(۱) واذ جعلنا البیت مثابۃ للناس و امنا واتخذوامن مقام ابراہیم مصلے(2-125) (۲) فیہ آیات بینات مقام ابراہیم ۔(3-97) ٰ مطاف میں زمزم کا کنواں ہے جو تہہ خانے میں ہونے کی باعث حجاج اکرام کو نظر نہیں آتا ۔زمزم کی حفاظت کی خاطر المہدیؔ نے 160ھ میں اس پر ایک کمرہ بنایا جس کو بعد میں ڈھا دیا گیا اس کے بعد بھی کئی خلفا نے اس کی تزئین کے لئے تعمیرات کروائیں۔سنہ 98 تک زمزم کی نشاندہی کی خاطر اوپر مطاف میں اس جگہ گول سنگ مرمر کا پتھر لگا ہوا تھا جس پر ’’ بیر زم زم‘‘ لکھا ہوا تھا۔ مطاف کے اطراف ترکوں کی تعمیر کردہ قدیم مسجد ہے جس کے اطراف شاہ عبدالعزیز ؔ اور شاہ فہدؔ کی توسیعات موجود ہیں۔فی زمانہ شاہ عبداللہؔ اور ان کے انتقال کے بعد شاہ عبداللہ کے خطوط پر شاہ سلمان ؔ کی توسیعات کا سلسلہ جاری ہے ان تمام توسیعات نے مسجد کو نہایت خوبصورت بنادیا ہے اور اس خوبصورتی کابیان الفاظ میں نہایت مشکل ہے ۔ دروازوں کی تعداد کبھی 112ہوا کرتی تھی لیکن دن بدن ہونے والی تعمیرات نے ان کی تعداد کو بدل دیا ہے ،بڑے دروازوں کی تعداد مختلف ادوار میں بدلتی رہی ہے فی الحال باب عبدالعزیز، باب صفا، باب فتح، باب عمرہ اور باب فہد بڑے دروازے ہیں ہر دروازے پر89 میٹر اونچے دو بڑے مینار ہیں لیکن باب صفا پر صرف ایک مینار ہے اس طرح جملہ میناروں کی تعداد 9 تک پہنچتی ہے۔شاہ عبداللہ کی توسیع میں ایک اور دروازہ باب عبداللہ بنایا جارہا ہے جس کی تعمیر کے بعد بڑے دروازوں کی تعداد 6 اور میناروں کی تعداد 11ہوجائے گی ۔صفا پہاڑی کے اطراف شیشہ لگا دیا گیا ہے کہ اب اس پہاڑ پر کچھ اونچائی تک بھی کوئی نہیں چڑھ سکتا ۔ مروہ تقریباً زمین کے برابر کردیا گیا۔قرآن میں ان نشانیوں کا اللہ نے ذکر کیا ہے۔ان الصفا و الموۃ من شعائر اللہ (البقرہ۔ 158) ۔تعمیر جدید میں صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان مسعیٰ کو تین منزلہ بنایا گیا ہے اور پلان کے مطابق فی الحال مطاف کی وسعت کی جانب توجہہ دی جارہی تاکہ مسجد الحرام میں طواف کے لئے آسانی پیدا ہوسکے،ابتدا میں مسجد الحرام نہایت چھوٹی اور تنگ تھی جو جانب مشرق ’’ بیر زمزم‘‘ تک پہنچتی تھی ،لیکن حضرت عمرؓ(۱۷ ھ) نے بیت اللہ کی پہلی چار دیواری بنوائی،ان کے بعد حضرت عثمانؓ(۲۶ ھ)، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ (۶۵ ھ)، وغیرہ نے مختلف جہتوں میں اس کی توسیع انجام دی ، قریش کی تعمیر کے 82برس بعدعبداللہ بن زبیرؓ نے کعبہ کی تعمیر کی جس کے دس سال بعد حجاجؔ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کروائی ، سعودی توسیع سے قبل ولید بن عبدالملک(۹۱ ھ)، ابو جعفر المنصور(۱۳۷ ھ)کی توسیعات قابل ذکر ہیں لیکن اس دور کی بڑی توسیع مہدی عباس(۱۳۷ ھ ) نے انجام دی جو قبل ازیں کی گئی تمام توسیعات سے زیادہ تھی۔اس کے بعد معتمد با اللہ العباسی(۲۸۱ ھ)، المقتدر (۳۰۶ ھ) نے بھی خانہ کعبہ کی تعمیر انجام دی ، سلطان سلیم ثانی نے 1571میں مشہور معمار سنانؔ کے ذریعہ توسیع کروائی۔1576 میں عثمانی ترکوں نے سفید گنبدوں والے برآمدے بنوائے جو موجودہ توسیع سے قبل تک موجود تھے۔ سعودی تعمیرات سے قبل آخری بڑی توسیع سلطان مراد چہارم نے 1629ء اپنی قوت و ہمت کے مطابق کی، کیونکہ بارش نے خانہ کعبہ اور مسجد کی بنیادوں کو کمزور کردیا تھا۔، جوحَجاج کی تعمیر کے 966برس بعد انجام دی گئی۔اس عظیم الشان اور خوبصورت ترین مسجد کا تعمیری طرز عثمانی ہے،ترکی حرم کے پتھر سے بنائے گئے ستون، کمانیں اور قبے لا جواب ہیں اور سعودی توسیع کے بعد اندرونی حصے میں سفید اور رنگین سنگ مرمر سے مزین عمارت ایک نامعلوم سکون پہنچاتی ہے تاکہ کعبۃ اللہ کا پر سکون انداز میں دیدار ہو سکے۔
تعمیراتی اعتبار سے مسجد الحرام کی سعودی حکومت کی جانب سے کی گئی توسیع تاریخ کی سب سے بڑی اور اہم توسیع قرار دی جاسکتی ہے جس کو ہم چار مرحلوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلی توسیع شاہ عبدالعزیز کی خواہش کے مطابق 1955 میں شروع ہوئی جو مختلف حکمرانوں کی جانب سے1973تک چلتی رہی۔اس زمانے میں مسعیٰ کی تعمیر نو ہوئی، اس کے بعد شاہ فہد ؔ نے دو مرحلوں میں توسیع انجام دی ، پہلی توسیع کا زمانہ 1982 تا 1988 ہے اور شاہ فہد کی دوسری توسیع 1988تا 2005 پر محیط ہے ۔اس کے بعد چوتھی بڑی توسیع شاہ عبداللہ کی جانب سے شروع ہوچکی ہے جو توقع ہے 2020تک چلے گی۔ فی الحال موجودہ احاطہ برائے نماز 356,800 مربع میٹر یعنی تقریباً 88ایکڑ ہے جہاں 820,000 افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ شاہ عبداللہ کی تعمیرات کے بعد توقع ہے کہ عبادت کا رقبہ بڑھ کر چالیسلاکھ مربع میٹر یعنی تقریبا 4,300,000 sq ft ہوجائے گا اور شاہ عبداللہ کے مکمل توسیعی پروگرام کی عمل آوری کے بعد انشا اللہ بیک وقت تقریباً پچیس تا تیس لاکھ سے زائد فرزندان توحید مسجد الحرام میں نماز ادا کرسکیں گے۔توسیعی کام سے قبل مطاف میں 52000حاجی بیک وقت طواف کر سکتے تھے لیکن توسیعی کے امکان ہے کہ فی گھنٹہ 1,30,000حجاج طواف کر سکیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق حرم کی اس توسیع پر 10.6بلین ڈالرس کا خرچ آئے گا۔برطانوی انجینئر Norman Foster اور ایک عراقی انجینئر Zaha Hadid اس پراجکٹ کے اہم معمار ہیں جو دنیا کے دوسرے انجینئرس جیسے Adams Kara Taylor اور Faber Maunsell سے مسلسل ربط میں ہیں تاکہ کئی بلین ڈالرس کے اس پراجکٹ کو بحسن و خوبی مکمل کیا جاسکے۔
گذشتہ دنوں مطاف کی گنجائش میں اضافے کے لئے کئی اقدامات کئے گئے جس میں اہم Modular Concept (یعنی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے بڑی ساخت کی تعمیر) کو اپناتے ہوئے ایک دائروی چھت کی تعمیر ہے جو اپنی نوعیت میں ایک منفرد ساخت ہے۔ اس چھت کی تعمیر عبادت میں مشغول حا جیوں کو تکلیف پہنچائے بغیر انجام دی گئی اور کسی بھی لمحہ کسی حاجی نے یہ شکایت نہیں کی کہ تعمیر کی وجہہ فلاں دن طواف روک دیا گیا۔اس دائروی چھت کا وزن صرف 200ٹن ہے اس چھت کو جس آسانی سے بنایا گیا اسی آسانی سے کھولا بھی جاسکتا ہے لیکن چھت ہلکا ہونے کے باوجود نہایت مضبوط ہے ، اس ’’پل نما دائروی چھت ‘‘ کی وجہہ سے مطاف کے رقبہ میں 3000مربع میٹر کا اضافہ ہوا۔اس دائروی چھت کا بیرونی قطر 94 میٹرس اور اندرونی قطر تقریباً 70 میٹرس ہے۔اس دائروی چھت کی چوڑائی 12میٹر ہے جو مکمل طور پر طواف کے لئے استعمال ہوتی ہے۔اس دائروی چھت پر پہنچنے کے لئے کئی راستے بنائے گئے ہیں جن میں ایک راستہ باب عبد العزیز کے متصل موجود ہے دوسرا راستہ باب العمرہ کے باوز واقع ہے ایک راستہ مسعیٰ کی طرف ہے ۔ یہ چھت زمین سے 2.7میٹر اونچائی پر تعمیر کی گئی ہے جو نیچے سے طواف میں مصروف حاجیوں کی راہ میں مزاحمت پیدا نہیں کرتی ،اس کی تعمیر کا مکمل کام نئی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر کیا گیا۔ مختلف راستوں کے ذریعہ ایک منٹ میں 155 حاجی اس چھت پر اوپر پہنچ سکتے ہیں اور 25منٹوں میں اپنا طواف مکمل کرسکتے ہیں ۔اس چھت پر وقت واحد میں نو تا دس ہزار حاجیوں کے طواف کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن یہ چھت عارضی ہے جو اصل پلان کی تعمیر کے بعد نکال دی جائے گی۔ان دنوں حرم شریف کے تمام عکسی مناظرمیں اس دائروی چھت کو دیکھا جاسکتا ہے۔علاوہ اس کے باب عبد العزیز کی جانب حرم کے صحن میں دارلتوحید، ہلٹن مکہ اور کلاک ٹاور( بیت الابراج) کے سامنے گول وضوخانے تعمیر کئے گئے ہیں جو دراصل صحن حرم کے نیچے سے بہنے والی سڑکوں کی آلودہ ہواؤں کا مخرج ہے لیکن خوبصورتی سے تعمیر کردہ یہ وضو خانے زائرین کے لئے سہولت کا باعث ہیں ، گرما میں موسمی حدت کو کم کرنے کے لئےSprinklers پانی کے فوارے (رشاش میاہ) نصب کئے گئے ہیں۔جو حاجیوں کو مسلسل پہنچائی جانے والی سہولیات میں سے ایک ہے۔گذشتہ دنوں مختلف اعلانات اور احکامات کو پردہ پر بتانے کے لئے کئی الکٹرانک پردے لگائے گئے ہیں جس میں کئی ایک زبانوں میں اہم اعلانات اور تنظیمی احکامات نشر ہوتے رہتے ہیں۔زائرین کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر دی جانے والی یہ سہولیات سعودی عرب کو 66بلین سعودی ریال مالی فائدہ پہنچاتی ہے۔جو 2020 میں ممکن ہے 232بلین سعودی ریال تک پہنچ جائے۔
ایک بڑی تعمیراتی کمپنیAtkins نے توسیع کے سلسلے میں ایک خوبصورت پلان پیش کیا ہے کعبۃ اللہ کی توسیع کا یہ پلان اپنے اندر ندرت رکھتا ہے جو قارئین کی معلومات کے لئے پیش ہے۔یہ توسیع باب العمرہ اور باب الفتح کے درمیان علاقہ شامیہ میں ہوگی۔ ان دو دروازوں کے درمیان ترکی اور سعودی تعمیر کی دو منزلہ عمارت کو نکال دیا جائے گا اور اس عمارت سے تقریباً ایک آدھ کلو میٹر رقبہ پر نمازیوں کی سہولت کے لئے سائبان تعمیر کیا جائے گا۔اس توسیع کا جنوبی حصہ مطاف سے لگا رہے گا، سائبان یا عبادت گاہ کی چھت اپنی نوعیت کی منفرد چھت ہوگی جو محرابی وضع میں بنائی جائے گی۔ اس کی محراب کا راسی حصہ تقریباً 80میٹر بلند ہوگا ، جانب شامیہ ان محرابوں پر مشتمل دس قطاریں بنائی جائیں گی ہر قطار میں ایسی 8محرابیں ہونگی جو بتدریج سائز میں چھوٹی ہوتی جائیں گی۔ ہر محراب دو منزلہ ہوگی جس پر نمازیوں کو عبادت کی تمام تر سہولیات مہیا رہیں گی۔اوپری منزل پر پہنچنے کے لئے خود کار سیڑھیاں نصب کی جائیں گی۔تمام دس قطاریں اندرونی جانب سے اک دوسرے سے ملی ہوئی ہونگی تاکہ صفوں کی ترتیب بلاروکاوٹ انجام پاسکے۔یعنی دس قطاروں پر مشتمل محرابوں کا حصہ نچلی جانب فرش پر ایک دوسرے سے تعلق رکھے گا۔ اسلامی طرز تعمیر کی جدت طرازی سے مزین اس مکمل سائبان کا اصل عمارت سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ لیکن اس سائبان کا فرش اور مطاف کا فرش کچھ اختلاف کے ساتھ ایک ہی سطح رکھے گا۔اس سائبان اور کعبۃاللہ کے درمیان پانچ اونچے دروازے لگائے جائیں گے یہ عظیم الشان اور اونچے دروازے زائد از 80 میٹرسے زائد بلند ہونگے یہ خود کار دروازے وقت ضرورت کھول کر اس سائبان کو اندرونی جانب سے مطاف سے جوڑ دیں گے بالخصوص نماز جمعہ ، رمضان اور حج کے مواقع پر ان دروازوں کو استعمال کیاجائے گا۔ان دروازوں کی وجہہ سے حرم شریف کی اندرونی تعمیری خوبصورتی میں اضافہ ہوگا۔دس قطاروں پر مشتمل ان کمانوں کو اس انداز سے وضع کیا جائے کہ موسم کا راست اثر حاجیوں پر ہونے نہ پائے۔جب زائرین کی تعداد کسی موسم میں گھٹ جائے تو ان دروازوں کو بند کردیا جائے گا۔ سعودی حکومت نے 2050ء تک کعبۃاللہ کے توسیعی پلان کا جو نقشہ دنیا کے سامنے لایا ہے وہ تعمیری خوبصورتی کی انتہا ہے، معماروں کا احساس ہے کہ یہ توسیع ہر لحاظ سے دنیا کی عظیم عمارات سے کہیں زیادہ بڑی اور خوبصورت ترین ہوگی ۔ اس پلان کے مطابق بیان کردہ سائبان کو مکمل حرم شریف کے اطراف دائروی شکل میں بنایا جائے گا جو ساری دنیا کے لئے اسلامی تعمیری خوبصورتی کا ایک نیا معیار ثابت ہوگا۔اس توسیع کے بعد ممکن ہے حرم میں نماز ادا کرنے والوں کی تعداد 50لاکھ ہوجائے گی اس تعداد کا تصور ہی انسانی ذہن کو روحانیت میں ڈبو کر کعبۃ اللہ کے سامنے سر نگوں زائرین کے دلوں میں عقیدت کی نئی شمع روشن کرتا ہے۔یہ جغرافیائی حقیقت ہے کہ کعبۃاللہ ڈھلان میں واقع ہے اسی لئے اس کے اطراف مُدوّر انداز میں بنایا جانے والا سا ئبانوں کا جال کعبۃ اللہ سے جیسے جیسے دور ہوتاجائے گا ویسے ویسے بتدریج اونچا بھی ہوتا جائے تاکہ زائر کوکعبۃ اللہ کسی بھی جانب سے بہ آسانی دکھائی دے،یہ طرز تعمیر معمارانہ صلاحیتوں بہترین استعمال ہے ۔ اس اونچے ہوتے فرش کو بطور خاص ڈیزائن کیا جائے گا تاکہ زائرین کو چلنے میں تکلف اور نماز ادا کرنے میں تکلیف نہ ہو۔ٹیکنالوجی میں دن بدن ترقی ہوتی جارہی ہے پتہ نہیں جب حرم شریف کی یہ عمارت بن جائے گی تو کتنی تبدیلیوں سے گذرے گی لیکن میرا احساس ہے کہ ہر تبدیلی معیار اور خوبصورتی کی قابل تحسین مثال ہوگی ۔
مجوزہ عمارت جب بن جائے گی تو اس کا بیان کسی بھی قلم کار کے لئے نہایت مشکل مرحلہ ہوگا،موجودہ توسیع کے متعلق ایمان اور تقدیس سے ہٹ کر مسجد الحرام کی صرف تعمیری خوبیوں کے متعلق کچھ کہنا اس لئے مشکل ہے کہ
ع جو کچھ کہا تو تیرا حسن ہوگیا محدود۔