تخلیق کیا ہے ؟@ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم

Share

تخلیق کیا ہے؟

تخلیق کیا ہے ؟

ادب کی مکمل تعریف کرناآسان نہیں ہے۔ آج تک ادب کی جامع تعریف نہیں کی گئی کیوں کہ ادب تین حرفوں کا لفظ ہے جو لامحیط ہے۔ کوئی ادب کو سماج کاآئینہ قراردیتا ہے تو کوئی دستور حیات، کوئی ادب کو تفسیر حیات کہتا ہے تو کسی کے یہاں آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ادب ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ ادب کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ادب۔۔۔ ایک فن لطیف ہے جس کا موضوع زندگی ہے اس کا مقصد اظہارو ترجمانی اور تنقید ہے اس کا سرچشمہ تحریک احساس ہے اس کا معاون اظہار خیال ہے اور اس کے خارجی روپ وہ حسین ہےئت اور خوبصورت پیرایہ ہائے اظہار ہیں جو لفظوں کی مدد سے تحریک کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ اسی فن لطیف میں اظہار مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور یہی چیز اس کو باقی فنون لطیفہ سے جدا کرتی ہے ورنہ شدت تاثر اور تخیل کی مصوری اور تخلیق واختراع کا عمل دوسرے فنون میں بھی ہے‘‘۔ (جدید اردو تنقید، اصول و نظریات از شارب ردولوی، ص: 32 )

ادب کی عمارت کے تین اہم ستون ہیں۔ یعنی تخلیق، تحقیق اور تنقید پر ادب کی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ ان تینوں میں گہرا تعلق ہے۔ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل اور دوسرے کے بغیر تیسرا ادھورا رہے گا ہم تحقیق کے پہلو کونظرانداز کرتے ہوئے دیکھیں کہ تخلیق کار اور نقاد میں وہ کیا مشترک پہلو ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے میں مدغم نظرآتے ہیں اور وہ کیا فرق ہے جس کی بنا پر ہم فلاں کو تخلیق کار اور فلاں کو نقاد کہتے ہیں۔
انسانی زندگی صرف یہی نہیں جو باہری دنیا میں سماجی روابط اور شب وروز کی سرگرمیوں سے عبارت ہے انسان کا خارجی کردار، معاشرے کے مختلف افراد سے مختلف قسم کے آغاز اختلاط اس کی دوستی، اس کی دشمنی، آرزوئیں، تمنائیں، صدمے اور خوشیاں اور نہ جانے سلسلہ در سلسلہ کتنے ہی عنصر مل کر اس کی باطنی زندگی کے تشکیل کرتے ہیں۔ ایک فنکار بھی معاشرے کے اس نظام کے ارتباط سے آزاد نہیں اور معاشرے کے شدید اور گہرے اثرات سے وہ بھی ایک عام آدمی کی طرح نہیں بچ سکتا چوں کہ وہ عام آدمیوں کی طرح ہوتے ہوئے بھی اس کے بطون کی زندگی عام لوگوں سے منفرد بلکہ ان سے ارفع ہوتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ایک عظیم روح کامالک ہوتا ہے اور یہی عظیم روح اس کی تخلیق کو عظیم بناتی ہے۔
ہماری باطنی زندگی کا ایک سرا پردہ طلسمات ہے جس میں لاتعداد مبہم لطیف اور ناقابل ادراک احساسات و جذبات کی باریک رو پہلو بہ پہلو چلتی رہتی ہے لاشعور اور تحت الشعور میں ان گنت ذہنی و جذباتی اور حسی تجربات محفوظ رہتے ہیں اور کتنے ی وہم وطلسمات تخلیق کا پس منظر بنتے ہیں اور جیسا کہ تخلیق کار ایک عظیم روح کا مالک ہوتا ہے اور اس روح کی مہمات اور اس کے تجربات عام انسانوں سے کہیں زیاد بلند اور ان سے کہیں زیادہ عمیق اور بدرجہالطیف تر ہوتے ہیں۔ اس لیے تخلیق کار ان مبہم احساسات اور جذبات کو تخلیق میں منتقل کردیتا ہے اوایک عظیم تخلیق کا وجود عمل میں آتا ہے۔افلاطون فلسفہ تخلیق پر یوں کہتا ہے جس کا مفہوم ہے۔
’’تخلیق دراصل نقل ہے اور یہ نقل، نقل کی نقل ہے۔ ہر نقل کی اصل عالم تمثال یعنی WORLD OF IDEAS ہے‘‘۔
ارسطو نے اس فلسفے کو غلط قراردیا اس کا کہنا ہے کہ تجربات اور مشاہدات سے جو کچھ خلق کیا جاتا ہے وہ نقل نہیں ہے۔ شئے کی نقل ہوسکتی ہے گر عمل خود اپنا ہوتاہے۔ تخلیقی فعلیت خود کی ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ حسن ابدی ہے اسے ارتقا ہے نہ زوال، حسن نام ہے ترتیب تنظیم و تعین کا غیرمتحرک کو متحرک بنانا حسن ہے۔ ہر وہ حسن فنا ہوجاتا ہے جو جذبات و محسوسات سے عاری ہوتا ہے وہ حسن باقی رہتا ہے جس میں احساسات و جذبات ہوں ۔ جمالیات اس تخلیقی فعلیت کا نام ہے جو جذبات و احساساتِ انسانی کے ذریعہ ہمیں تسکین مہیا کرتے ہیں۔ کاڈویل کے یہاں تخلیق کا مقصد زندگی کو حسین بنانا ہے جب کہ کانٹ نے تخلیقی فن کو مقصدیت کا عمل قراردیا ہے وہ کہتا ہے کہ مسرت یا مصیبت ، کامیابی یا ناکامی کے احساس سے وابستہ ہیں لیکن حسن کی تخلیق خود ہی ایک مقصد ہے اس کے خیال میں حسن انداز نظر کا نام ہے انسان کے لیے وہی حسن ہے جو اسے تسکین و مسرت بخشتی ہے۔ ہیڈگر کے نزدیک تخلیق میں ایک غیرمعمولی شئے ہوتی ہے وہ اشیاء کو نئی روشنی میں دیکھتی ہے۔ وہ ہر اجنبی شئے کو ہر بیگانہ کو یگانہ اور مانوس بناتی ہے۔ وہ ایک نئی دنیا کا راستہ کھولتی ہے کسی شئے کی تخلیق میں کچھ دوسری اشیا مل کر اسے علامت بنادیتی ہے۔
عموماً تخلیق کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ اظہار ذات ہے انکشافِ ذات ہے اور عرفانِ ذات ہے۔ اظہار ذات میں تمام کائنات ہوتی ہے مگر تخلیق کار کا زوایہ نگاہ ہوتا ہے۔ تخلیق کار اپنی ذات کا انکشاف نہیں کرتا کیوں کہ وہ جو لکھتا ہے وہ کرتا نہیں ویسے پوری شخصیت کا انکشاف ممکن بھی نہیں ہے اور عرفان ذات بغیر مشاہدے کے ناممکن ہے۔ انسان دوسروں کو دیکھ کر خود تعین کرتاہے کیوں کہ انسان خود کو نہیں دیکھ سکتا دوسروں کو دیکھ کر اپنے تجربات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش، تخلیق کی پہلی منزل ہے دراصل انکشافِ ذات اظہارِ ذات اور عرفانِ ذات کو ملانے سے تخلیقِ ذات سامنے آتی ہے۔
جو انتشار میں ربط پیدا کرے وہ تخیل ہے اور جس میں تخلیق کار کا عکس ہو اور وہ اپنے سے ہٹ کر ایک نئی بات پیش کرے وہ تخلیق ہے۔ زمانہ اپنی گرفت میں لینے کا دوسرا نام ادبی تخلیق ہے۔
ٹی ایس ایلیٹ نے کہا کہ ’’شاعری شخصیت اور جذبات کے اظہار کا نام نہیں ہے بلکہ شخصیت اور جذبات سے گریز اور فرار کا نام ہے‘‘۔ یہ نظریہ کسی حد تک صحیح ہے اور کسی حد تک غلط بھی۔ کیوں کہ دوسروں کو ہم خود سے فرار حاصل نہیں کرتے بلکہ ایک اور رخ پیش کرتے ہیں جس میں دوسرے بھی ہوتے ہیں اور ہم بھی ہوتے ہیں۔ بس یہی تخلیق ہے۔
کروچے کا خیال ہے کہ فن نام ہے اظہار کار اور حسن نام ہے اظہار کا‘‘۔ ویسے کائنات کی ہر شئے اپنے وجود کااظہار کرتی ہے اور ہر اظہار سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ اظہارکا انتخاب اہم ہے یہیں سے عمل تخلیق شروع ہوتا ہے اور اس انتخابیت کے بعد رویہ اہم ہے اور اس رویہ کا تعین قلم کار کرتا ہے۔
اعلیٰ ترین ادب وہی ہے جو الفاظ کے ذریعے مجرات کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ مثلاً خوشبو، آواز، رنگ وغیرہ۔ اعلیٰ تخلیق کی دو قسمیں ہیں۔ تاثراتی تخلیق اور اظہاری تخلیق۔ بقول کروچے تخلیق بذات خود تاثر کا اظہار ہے۔
تاثر کی تخلیق پہلے ہے اور اظہار ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ ویسے سب کچھ اظہار ہے جب تک اس چیز کا وجود نہ ہو بغیر اظہار کے تخلیق بے کار ہوجاتی ہے۔ تخلیق نام ہے تاثر اواظہار کے ہم آہنگ ہونے کا۔
ادبی تخلیق کے سلسلے میں ایک اور بات قابل غور ہے کہ تصور اپنے ساتھ ہےئت لے کر شعور میں آتا ہے یا لفظ؟ سچ بات تو یہ ہے کہ تخلیقی عمل کے دوران الفاظ کے یکجا ہونے سے ہےئت وجود میں آتی ہے۔ کروچے کہتا ہے کہ اظہار کی ناگزیر شرط تصور ہے۔ یہی تصور شعور کے اندر ایک ہیولیٰ تیار کرتا ہے جسے الفاظ کا لبادہ ایک معروض وجود عطا کرتا ہے لیکن کروچے کے اس خیال سے اختلاف کی گنجائش کانٹ کے اس نظریہ سے پیدا ہوتی ہے کہ انسانی شعور خالی میز نہیں ہوتا بلکہ ہر شئے کا تصور لفظ اور ہےئت کے ساتھ شعور میں پہلے سے موجود رہتا ہے اس کا مطلب ہوا کہ تخلیقی عمل اور تخلیقی اظہار تصور، موضوع، لفظ اور ہےئت کی ہم آہنگی اور ترتیب کا مرہون منت ہے اور ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دی جاتی۔
تخلیق کار کا امکانی اشیاء کو زمانی تصورات دے کر ان کا رشتہ ماضی کی روشنی میں حال سے وابستہ کرکے مستقبل تک لے جاتا ہے یعنی تخلیق کار صرف وہی پیش نہیں کرتا جو کچھ ہوچکا ہے یا ہونے والا ہے بلکہ وہ مستقبل کے دھندلکوں میں چھپے ہوئے ان واقعات کی بھی نشان دہی کرتا ہے جنہیں دیکھنے کے لیے بصارت کی نہیں بصیرت کی ضرورت ہے۔ یہی وہ بصیرت ہے جس کی کھوج تحقیق اور تنقید تک لے جاتی ہے۔

Share
Share
Share