دکنی میں سیرت النبیؐ کے منظوم ماخذات@پروفیسر مجید بیدار

Share

 دکنی میں سیرت النبی

پروفیسر مجید بیدار، سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد
دکنی میں سیرت النبیؐ کے منظوم ماخذات

سیرتِ محمدیؐ کے مختلف گوشوں کو نمایاں کرنے کا وصف دنیا کی ہر زبان میں جاری و ساری ہے۔ اہلِ زبان ہونے کی حیثیت سے سب سے پہلے عربی کے شاعروں اور ادیبوں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فن کی طرف خصوصی توجہ دی، جس کے بعد دیگر ایشیائی زبانوں میں فارسی کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ اس زبان کے مصنّفین نے سیرت النبیؐ کی بھرپور نمائندگی انجام دی، پھر ایشیائی زبانوں سے سیرت النبیؐ کا فن ترقی کرتا ہوا یوروپی زبانوں میں پھیلنے لگا اور آج کی ترقی یافتہ دنیا میں یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سیرت النبیؐ پر جتنی کتابیں عالمی زبانوں میں تحریر کی گئی ہیں اتنا بڑا ذخیرہ شاید ہی کسی عالمی شخصیت کی سوانح کے لیے مختص کیا گیا ہو۔ ہندوستان کی سرزمین میں مسلمانوں کے قافلے جن جن علاقوں سے گذرتے گئے ان علاقوں میں سیرت کی خوشبو اپنی مہک پھیلاتے ہوئے انسانی دل و دماغ کو مسخر کرتی رہی۔ سرزمین ہندوستان میں طویل عرصہ تک فارسی کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل رہا، لیکن مسلمان علماء اور صوفیائے کرام کے قافلے جب دکن کی سرزمین میں اپنے قدم مضبوط کرچکے تو اس علاقہ میں مقامی باشندوں سے مسلمانوں کی بھائی چارگی کے نتیجہ میں ایک نئی زبان عالمِ وجود میں آئی، جسے دکنی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ دکنی زبان سارے جنوبی ہند میں علاء الدین خلجی کے دکن پر حملے ۱۲۹۴ء سے شروع ہوکر دکن کی پانچ سلطنتوں کے اختتام یعنی ۱۶۸۹ء تک جاری و ساری رہی اور اسی زبان میں شاعری ہی نہیں ،

بلکہ نثر نگاری کے مختلف گوشوں کو پیش کرکے دکنی شاعروں اور ادیبوں نے اردو زبان میں دکنی کی اوّلیت کا جھنڈا گاڑ دیا۔ لازمی طور پر دکنی میں ابتدائی طور پر شاعری کرنے والے شاعر اور ادیب، صوفیائے کرام اور بزرگانِ دین تھے، جنہوں نے اپنے عہد میں شاعری کی مختلف ہیئتوں جیسے مثنوی، غزل ، مرثیہ، قصیدہ اور شہادت نامے کی روایت کو فروغ ہی نہیں دیا، بلکہ پوری توجہ کے ساتھ سیرت النبیؐ کی پیشکشی کے لیے منظوم مثنویوں کے اظہار کی طرف بھی خصوصی توجہ دی۔ دکنی ادبیات کا سب سے بھاری ذخیرہ میں سیرت النبیؐ کی منظوم مدحتوں کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ حقیقت یوں واضح ہوتی ہے کہ اردو کے اِس ابتدائی دور میں شعرائے کرام نے تمام شعری ندرتوں کے ذریعہ سیرت النبیؐ کی مختلف کیفیتوں کو نمایاں کرنے کے لیے مثنوی جیسی صنف کو وسیلہ کا درجہ بنایا اور سیرت کے مختلف پہلوؤں کو مختلف ناموں سے وابستہ کرکے ثابت کردیا کہ ہندوستان کی سرزمین میں سیرت النبیؐ کے اظہار کے لیے جتنے موضوعات کا امکان دکن کے شعراء نے اپنے ماخذات میں پیش کیا ہے، اتنا شاندار موضوعاتی تنوع کے ساتھ سیرت النبیؐ لکھنے کی روایت سارے ہندوستان میں کسی بھی زبان میں دکھائی نہیں دیتی۔ اِس اعتبار سے دکنی زبان میں سیرت النبیؐ کے منظوم ماخذات کے ذریعہ شاعری کی ہنرمندی ہی نہیں، بلکہ عقیدت کی بے ساختگی کو بھی پیش کرنے کا موقع دستیاب ہوگیا۔ دکنی زبان میں سیرت النبیؐ کے منظوم ماخذات میں بیشتر کا تعلق مطبوعات سے نہیں، بلکہ یہ منظومات مخطوطات کی حیثیت سے بکھرے پڑے ہیں۔ ایسے بے شمار سیرت النبیؐ کی نمائندگی کرنے والے منظوم ماخذات کے قلمی نسخے کتب خانوں کی زینت بنے ہوئے ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے نادر نسخوں کی اشاعت پر توجہ دی جائے۔ سالار جنگ میوزیم کے قلمی کتب خانہ میں بھی دکنی منظوم سیرت النبیؐ کے نسخے موجود ہیں، جن کا تفصیل سے ذکر کیا جائے گا۔
دکنی زبان کے شاعروں نے منظوم سیرت النبیؐ کے رویہ کو اختیار کرتے ہوئے اس کی موضوعاتی ندرت کو بھی ملحوظ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ سالار جنگ میوزیم کے قلمی کتب خانے، آندھرا پردیش مینو اسکرپٹ لائبریری کے علاوہ ادارۂ ادبیات اردو کے قلمی ذخیروں میں موجود نسخے فنی اعتبار سے مثنوی کی ہیئت کے نمائندہ اور ان مثنویوں کے دوران دکنی شاعروں نے سیرت النبیؐ کے مختلف موضوعات کو شاعرانہ ندرت کے ساتھ نمایاں کرکے صنف مثنوی کو سیرت النبیؐ کی طرح حیاتِ جاودانی بخشی۔ دکنی شاعری میں سیرت النبیؐ کی ہمہ جہت کیفیتوں کو سات موضوعات سے یاد یاد کیا گیا ہے، جن میں (۱) نور نامے (۲) مولود نامے (۳) معراج نامے (۴) شمائل نامے (۵) ولادت نامے (۶) وفات نامے اور (۷) تولد نامے کی عنوانی صفات اہمیت کے حامل ہیں، جن میں شعر گوئی کا حسن اور عقیدت کے جوہر نمایاں ہیں۔ اس طرح دکنی زبان میں سیرت النبیؐ کے منظوم ماخذات ی وجہ سے کئی اہم موضوعات کی نمائندگی ہی نہیں ہوتی، بلکہ ان موضوعات کی وجہ سے سیرت النبیؐ کے بے شمار عملی گوشوں کی عقدہ کشائی بھی عمل میں آتی ہے۔ آج کے دَور میں سیرت کے مختلف پہلوؤں کو نثر میں نمایاں کرنے کے آداب نمایاں ہوگئے ہیں، لیکن دکنی شاعروں کی طرح سیرت کو منظوم انداز سے موضوعات کا علمبردار بنانا صرف اور صرف دکنی شاعروں کا کمال ہے۔ ذیل میں دکنی شاعروں کے کلام میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوعاتی اظہار کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
(۱) نور نامہ
مثنوی کی طرز میں لکھے ہوئے دکنی نور نامے اپنی انفرادیت کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ انفرادیت ایسی ہے کہ جس کے بارے میں سیرت کی مختلف کتابوں میں تفصیلات موجود ہیں۔ دکنی شاعری میں نور نامہ ایک ایسا طرزِ اظہار ہے، جس کے ذریعہ شاعر نورِ محمدیؐ کا بیان کرتے ہوئے اُس کی حقیقت اور کلیت کو واضح کرتا ہے۔ چوں کہ نور نامہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا ذکر قصہ کے روپ میں بیان کیا جاتا ہے اور اس ذکر کے دوران عقیدت کے پھول بھی نچھاور ہوں گے، اس لیے نور نامہ کے ذریعہ سیرت النبیؐ کے اظہار کے سلسلہ میں عقیدت کے پہلوؤں کو بھرپور نمائندگی ملتی ہے۔ اس عقیدت میں بھی فطری اور حقیقی واقعات کی پیشکشی کے لیے شاعر کے تخیل میں سیرت کا پرتو جلوہ گر نظر آتا ہے۔ دکنی شاعری میں نور نامہ لکھنے کی روایت فارسی کے زیر اثر عام ہوئی۔ فارسی میں بھی نور ناموں کی روایت موجود ہونے کا ثبوت ملتا ہے، چوں کہ موضوع کا راست تعلق دکنی میں سیرت النبیؐ کے نور کی عملی اور کیفیاتی پرتو سے ہے۔ جب قلمی کتب خانوں کی چھان بین کی گئی تو مخطوطات اردو کی مطبوعہ فہرستوں میں کئی نور نامے دستیاب ہیں۔ دکنی میں لکھے ہوئے ان تمام نور ناموں کی فہرست سازی اور اس کی تفصیلات پیش کرنا سخت دشوار ہے، اس لیے چند شعراء کے نور ناموں کی تفصیلات پیش کی جارہی ہیں، جس کے مطابق عبدالمحمدکریم جیسے شاعر نے اپنے منظوم نور نامے کی تصنیف ۱۱۰۰ھ ؁ میں انجام دی۔ جب اس سنہ ہجری کو عیسوی میں منتقل کیا جاتا ہے تو ۱۶۸۸ء ؁ برآمد ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک اور قلمی نور نامہ حضرت عنایت شاہ کا لکھا ہوا کتب خانہ میں موجود ہے، جس کی سنہ تحریر ۱۱۱۱ھ ؁ مطابق ۱۶۹۹ء ؁ قرار پاتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک خوشنود کا نور نامہ اور احمد جیسے شاعر کا نور نامہ بھی قلمی کتابوں میں دستیاب ہے، جس کی تاریخ تصنیف ۱۱۳۶ھ ؁ مطابق ۱۷۲۳ء ؁ قرار پاتی ہے۔ اس طرح یہ ثبوت ملتا ہے کہ دکنی میں نور نامے کے ذریعہ سیرت النبیؐ کے حیات پرور گوشوں کو عوام کے روبرو پیش کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ اس وقت قطب شاہی سلطنت روبہ زوال تھی اور مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے دکنیسلطنتوں کا خاتمہ کردیا تھا۔ دکن میں آباد پانچ مسلم سلطنتوں کے بادشاہوں کے سر سے تاج اتار کر مغل شہنشاہ نے سارے علاقہ کو مغلیہ تسلط میں شامل کرلیا۔ مغلیہ تابعداری میں لکھے جانے والے نور نامے دکنی زبان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
(۲) مولود نامہ
دکنی زبان میں سیرت النبیؐ کے مختلف گوشوں کی نمائندگی مختلف انداز سے کی گئی ہے، چنانچہ ولادتِ نبویؐ کے بیان کو ’’مولود نامہ‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہوئے دکنی شاعروں نے ولادتِ محمدیؐ کو منظوم انداز سے پیش کیا۔ دکن کے بعض مولود ناموں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو پیدائش سے لے کر وفات تک کے حالات پر مبنی رکھا گیا ہے۔ اس طرح بسااوقات شاعروں نے ولادتِ نبویؐ کا تفصیلی بیان پیش کرنے کے دوران سیرت النبیؐ کے مختلف گوشوں کو پیدائش سے دنیا سے پردہ فرمانے تک ے مراحل کو بھی مولود نامہ میں شامل کیا ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ سیرت النبیؐ کے دکنی ماخذات کا بیشتر ذخیرہ قلمی کتب کی شکل میں ہے، چنانچہ سب سے قدیم دستیاب دکنی مولود نامہ مختار نامی شاعر کا تحریر کردہ ہے، جو ۱۰۹۰ھ ؁ مطابق ۱۶۷۹ء ؁ میں تحریر کیا یا۔ اس مولود نامہ کا نام ’’مولود نامۂ محمد مصطفیؐ ‘‘ ہے۔ مختار جیسے شاعر نے اس مولود نامہ میں سیرت النبیؐ کی پابندی کی ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے حالات قلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ آپؐ کا سراپا اور چہرۂ مبارک کو بھی شاعری میں ظاہر کردیا ہے۔ اس طرح مختار کا مولود نامہ دکنی میں سیرت النبیؐ کی نمائندگی کرنے والا پہلی موضوعی اظہار ہے، جس کے بعد ۱۰۹۵ھ ؁ مطابق ۱۶۸۳ء ؁ میں محی الدین فتاحی نے ’’مولود نامہ‘‘ لکھا اور اس ’’مولود نامہ‘‘ کو عام طور پر ’’مفید الیقین‘‘ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ ولادتِ نبویؐ پر دکنی میں ایک اور تصنیف ’’تولد نامہ‘‘ ۱۱۰۰ھ ؁ مطابق ۱۶۸۸ء ؁ دستیاب ہے، جس کے مصنف کا نام دریافت نہ ہوسکا۔ قاسم جیسے دکنی شاعر نے ’’مولود النبیؐ‘‘ ۱۲۰۰ھ ؁ مطابق ۱۷۸۵ء ؁ میں تحریر کیا اور مزید ایک تولد نامہ اسی سن کا دریافت ہوا ہے، جس کے مصنف کا نام عدم دستیاب ہے، البتہ فضل رسول نامی شاعر نے ۱۲۵۰ھ ؁ مطابق ۱۸۳۴ء ؁ میں ’’رسالۂ مولود‘‘ تحریر کیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دکنی شاعروں نے سیرت النبیؐ کے مختلف پہلوؤں کے اظہار کے لیے شعری موضوعی اظہار کے طور پر مولود نامے کی تحریر پر توجہ دی اور یہ تحریریں مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے آخری دور ی نمائندگی کرتی ہیں۔
(۳) معراج نامہ
دکن کے شاعروں کا یہ امتیاز ہے کہ انہوں نے سیرتِ نبویؐ کے مختلف گوشوں کو اظہار کا ذریعہ بنانے کے لیے مختلف موضوعات کا سہارا لیا اور شاعری کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت کو وسیلۂ اظہار بنایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کو روانگی اور واقعاتِ معراج کے توسط سے براق اور پلک جھپکنے تک دوبارہ دنیا میں واپسی ے مرحلہ کو اہم سیرت کے حصہ کے روپ میں بیان کرتے ہوئے دکنی شاعروں نے معراج نامے تحریر کیے۔ دکن کی مختلف قلمی لائبریریوں میں موجود معراج ناموں کے مخطوطوں سے چند ایک کی تفصیل پیش کی جارہی ہے، جس کے مطابق سید مظفر حسین ضمیر نے ۱۲۴۷ھ ؁ مطابق ۱۸۳۱ء ؁ میں ’’ریحانِ معراج‘‘ تحریر کیا۔ حضرت کمال کا لکھا ہوا ’’معراج نامہ‘‘ ۱۱۹۱ھ ؁ مطابق ۱۷۷۷ء ؁ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی طرح فتاحی کا لکھا ہوا منظوم معراج نامہ ۱۰۹۵ھ ؁ مطابق ۱۶۸۳ء ؁ کی نمائندگی کرتا ہے۔ مختار کا معراج نامہ ۱۰۹۵ھ ؁ مطابق ۱۶۸۳ء ؁ اور سید بلاقی کا معراج نامہ ۱۰۶۵ھ ؁ مطابق ۱۶۵۴ء ؁ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس طرحدکنی میں لکھے گئے بیشتر معراج نامے سیرت النبیؐ کی نمائندگی کرتے ہوئے سولہویں اور سترہویں صدی کے دوران کی شاعری میں سیرت النبیؐ کے پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
(۴) شمائل نامہ
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ، عادات و اطوار اور آپؐ کے جنگی معرکے ، صلح جات اور انسانیت دوستی کے واقعات کو دکنی شاعروں نے منظوم کرتے ہوئے ایسی شاعری کی بنیاد رکھی ، جس میں خصائل نبویؐ کا تمام تر دروبست دکھائی دیتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیۂ مبارک، آپؐ کے سر کا بال اور دیگر تمام نوعیتوں کو شمائل ناموں میں یکجا کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شمائل نامہ میں سیرت النبیؐ کے اظہار کے دوران مبالغہ کا عنصر نمایاں ہے۔ دکنی کی قلمی کتابوں میں عبدالمحمد کریم کا شمائل نامہ ۱۱۰۰ھ مطابق ۱۶۸۸ء ؁ اور کسی نامعلوم مصنف کا ’’شمائل نبیؐ‘‘ اسی دور کی یادگار ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دکنی شاعروں نے سیرت النبیؐ کے اظہار کے لیے ایک اور موضوع کو بطورِ خاص اظہار کا ذریعہ بنایا۔
(۵) وفات نامہ
دکنی شاعری میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا سے رخصت کو ’’وفات نامہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت کے تمام احوال اور واقعات کو مثنوی کے انداز میں نظم کرتے ہوئے دکنی شاعروں نے ’’وفات نامے‘‘ تحریر کیے۔ مخطوطات میں دستیاب وفات ناموں کی بڑی طویل فہرست ہے۔ سب سے پہلا وفات نامہ مصنف محمد دریا کا لکھا ہوا ہے، جو ۱۱۱۱ھ ؁ مطابق ۱۶۹۹ء ؁ کے عہد کی نمائندگی کرتا ہے۔ ولی ویلوری نے ۱۱۵۰ھ ؁ مطابق ۱۷۳۷ء ؁ کے بعد ’’وفات نامۂ نبیؐ ‘‘ تحریر کیا۔ بارہویں صدی کے شاہر افصحی نے ’’وفات نامہ‘‘ تحریر کیا ، ۱۲۰۰ھ ؁ مطابق ۱۷۸۵ء ؁ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی سال سوز نامی شاعر کا ’’وفات نامہ‘‘ اور راحت جیسے شاعر کا بھی ’’وفات نامہ‘‘ مرتب ہوا۔ غلام اعزاز الدین نامیؔ المخاطب بہ مستقیم جنگ نے ۱۲۱۳ھ ؁ مطابق ۱۷۹۸ء ؁ میں ’’مدینۃ الانوار‘‘ کے زیرعنوان ’’وفات نامۂ نبیؐ‘‘ تحریر کیا۔ ۱۲۵۰ھ ؁ مطابق ۱۸۳۴ء ؁ میں دکن کے مشہور صوفی شاعر شاہ تجلی علی تجلی کا وفات نامہ ’’روضۃ الانوار ‘‘ کے عنوان سے ضبطِ تحریر میں لایا گیا۔ اس طرح سیرت النبیؐ کی موضوعاتی نمائندگی کے لیے دکنی شاعروں نے کبھی نور نامہ ، کبھی مولود نامہ ، کبھی معراج نامہ اور کبھی شمائل نامہ اور بسااوقات وفات نامہ لکھ کر سیرتِ نبویؐ کے مختلف گوشوں کی نمائندگی کے لیے شاعرانہ روش کا اہتمام کیا۔
مثنوی کی صنف کو دکن میں اعتبار کا درجہ حاصل تھا اور سیرت النبیؐ کے مختلف پہلوؤں کے اظہار کے لیے اسی شاعری و بطورِ شعری وسیلہ استعمال کیا جاتا رہا۔ غلام محمود حسرت نے ۱۲۴۷ھ ؁ مطابق ۱۸۳۱ء ؁ میں منظوم سیرت ’’ریاض السیر‘‘ کے عنوان سے تحریر کی، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مفصل حالات اور شمائل کے علاوہ اسوۂ حسنہ کو بڑے در و بست کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ دکن کے شاعروں میں محمد باقر آگاہ کو یہ افضلیت حاصل ہے کہ انہوں نے سیرت النبیؐ کے مختلف گوشوں کو نمایاں کرنے کے لیے ۱۱۴۷ھ ؁ مطابق ۱۷۳۴ء ؁ میں منظوم رسالہ ’’ہشت بہشت‘‘ آٹھ حصوں میں تحریر کیا، جن کی تفصیلات درجِ ذیل ہیں:
۱۔ من دیپک: اس میں نورِ محمدیؐ کا تذکرہ ہے، جو ۱۱۸۴ھ ؁ مطابق ۱۷۷۰ء ؁ میں شائع ہوا۔
۲۔ من ہرن: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے متعلق بشارتیں منظوم کی گئی ہیں۔ ۱۱۸۵ھ ؁ مطابق ۱۷۷۱ء ؁
۳۔ من موہن: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے آٹھ سال تک کی عمر کا حال ۔ ۱۱۸۶ھ ؁ مطابق ۱۷۷۲ء ؁
۴۔ جگ سوہن: آٹھ سال سے وفات تک کے احوال۔ ۱۱۸۶ھ ؁ مطابق ۱۷۷۲ء ؁
۵۔ آرام دل: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و شمائل کی صراحت۔ ۱۱۸۵ھ ؁ مطابق ۱۷۷۱ء ؁
۶ ۔ راحتِ جاں: اس میں خصائص اور سیرتِ حسنہ کا تذکرہ ہے۔ ۱۱۸۵ھ ؁ مطابق ۱۷۷۱ء ؁
۷۔ من درپن: معجزاتِ نبویؐ کا تذکرہ۔ ۱۲۰۶ھ ؁ مطابق ۱۷۹۱ء ؁
۸۔ من جیون: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے کا بیان ۱۲۰۷ھ ؁ مطابق ۱۷۹۲ء ؁
سیرت النبیؐ کے اِن منظوم اظہارات کے علاوہ دکنی زبان میں بے شمار سیرت کی خصوصیات کو منظوم کرنے کا پتہ بھی چلتا ہے۔ نوازش علی شیدا کی تصنیف ’’اعجاز احمد‘‘ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب میں شاعر نے ’’معجزاتِ نبویؐ‘‘ کو منظوم کیا ہے۔ سیرتِ محمدیؐ کے مختلف گوشوں کی نمائندگی کے لیے مثنوی کی صنف کو اظہار کا ذریعہ بنایا گیا اور مثنوی کے موضوعات کو سیرت کی ہمہ جہت خصوصیات سے وابستہ رکھنے کے لیے دکنی شاعروں نے موضوعاتی شاعری کی بنیاد رکھ کر یہ ثابت کیا کہ دکن کے شاعر وہ منفرد شعر گو ہیں، جنہوں نے سیرت النبیؐ کے پہلوؤں کی نشاندہی کے لیے عنوانات کا انتخاب کرتے ہوئے ایسے ہمہ جہت اظہار کو سیرت کی تفصیل کے لیے استعمال کیا جو شعری حسیت رکھنے کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی اصلیت کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ غرض سیرت النبیؐ کے منظوم دکنی ماخذات کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے توسط سے شاعروں نے عقیدت کے پرچم کو بلند کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی سیرت النبیؐ کے بے شمار گوشے نمایاں ہونے کی وجہ سے دکنی زبان کے منظوم رسالوں کو سیرت کی مؤثر نمائندگی کے آئینہ دار قرار دینا ضروری ہے۔

پروفیسر مجید بیدار
پروفیسر مجید بیدار

ُProf Majeed Bedar
Mob:09441697072

Share
Share
Share