بنارس کی تخلیقی صبح
حقانی القاسمی
شہر بنارس مابعد الطبیعاتی شعور کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ تقدیسی مرکزیت نے اسے روحانی وجود کا روشن محور بنادیا ہے۔ یہ شہر مشرق کی ایک بڑی آبادی کے رگ وپے میں شامل ہے۔ نجات دیدہ و دل کا شہر، عرفان و آگہی کے نور سے اتنا سرشار تھا کہ غالب نے بھی اس کی مرجعیت کو محسوس کیا۔ یہ ایک مقدس شہر ہے جسے ہندو کاسمولوجی میں قلب ارض یا مرکز زمین کا شرف حاصل ہے۔ ساحل گنگا پہ واقع یہ سرزمین روشنیوں کا شہر کہلاتی ہے۔
شیو کا بسایا ہوا پانچ ہزار سال پرانا یہ وہ شہر ہے جس کا ذکر ہندوؤں کے مقدس صحیفوں رگ وید، اسکند پران، رامائن اور مہا بھارت میں بھی ہے۔ شاد عباسی نے نبی احمد سندیلوی کی کتاب مرقع بنارس کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک انگریز کا خیال ہے کہ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ بنارس کب آباد ہوا تھا تو ہمالیہ پہاڑ کے عالم وجود میں آنے کا زمانہ معلوم کرنا آسان ہو گا اور یہ بھی کہ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ طوفان نوح میں اس شہر کو وشو ناتھ جی نے اپنے ترشول پر اٹھا لیا تھا اور جب قیامت آئے گی تو یہ شہر محفوظ رہے گا۔
سات مقدس شہروں میں سے ایک شہر بنارس شیو کا شاہی محل تھا جس کے کئی نام ہیں۔ اوی مکتک، آنندکنن، مہاس مسن، سرن دھن، سدرسن، برہما وردھ۔ اس کے ہر نام میں ایک مذہبی رمزیت اور اسطوری معنویت ہے۔
وارانسی میں بھی ایک رمزہے، رمزاتصال کہ یہ دو دریاؤں ورن اور اسی کا سنگم ہے۔ اور صرف دریاؤں نہیں بلکہ دو دھاراؤں شیو ازم اور وشنو ازم کا بھی امتزاج ہے۔ مذہبی لسانی امتزاجیت کا مظہر یہ شہر ہندوؤں کے لئے ہی نہیں، جین اور بودھ دھرم کے ماننے والوں کے لئے بھی مقدس ہے کہ بودھ ازم کا نقطہ آغاز یہی مقام ہے۔ گوتم بدھ نے پہلا خطاب یہیں سارناتھ میں کیا تھا اور یہ بودھ کی چار زیارت گاہوں (کشی نگر، بودھ گیا، لمبنی، سارناتھ ) میں سے ایک ہے۔ سپر شیو ناتھ، شرینسناتھ، اور پرشوناتھ کی جنم بھومی ہونے کی وجہ سے جین دھرم ماننے والوں کی نگاہوں میں بھی یہ متبرک مقام ہے۔
وشوناتھ مندر کے اس شہر میں ڈھائی کنگورہ کی قدیم مسجد، عالم گیری گیان واپی مسجدیں بھی ہیں۔
کبیر، روی داس، سوامی رامانند، تریلنگا سوامی جیسے صوفی سنتوں کی اس سرزمین پر علوم و فنون اور ادب و آرٹ کی تمام دیویاں مہر بان رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے فنون لطیفہ کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ رائے کرشن داس، روی شنکر، گرجا دیوی، سدھیشوری دیوی، نینا دیوی، کشن مہاراج، بسم اﷲ خاں اور وہ کتھک ڈانسر ستارہ دیوی نرتیہ سم راگنی جس کے رقص پہ کائنات بھی ایک لمحے کے لئے ٹھہر جاتی ہے ۔
اسطوری اور استعاراتی گھاٹوں کا شہر بنارس شکتی پیٹھ بھی ہے یہاں گنگا میں نہانے سے گناہ دھل جاتے ہیں اور روح کو تسکین ملتی ہے یہ ہندوؤں کا شہر نجات ہے۔ کے کے کھلر نے لکھا ہے کہ ’’اپنی طویل نظم لائٹ آف ایشیا‘‘ میں آرنالڈ کہتا ہے کہ ہندوؤں کے نزدیک بنارس کی وہی اہمیت ہے جو یہودیوں کے نزدیک یروشلم اور مسلمانوں کے لیے مکہ مدینہ کی (دائمی گنگا غیر ملکی سیاحوں کی نظر میں‘ ہندوستانی تناظر نئی دہلی، اپریل2002)
روشنی کا شہر ہے کاشی جہاں بارہ جیوتی لنگوں میں سے ایک جیوتی لنگ ہے، جس کا انعکاس مختلف شکلوں میں ہوا ہے کبھی یہ جیوتی تلسی داس کے رام چرت مانس کی صورت میں سامنے آئی ہے تو کبھی ان پانڈولیپیوں کی شکل میں جن میں حکمت و دانش کا خزانہ عامرہ ہے۔ سنسکرت کا ایک ایسا مرجع و مرکز کہ جہاں ابو ریحان البیرونی نے اس زبان کے رموز و نکات سیکھے۔ ہندوستانی علوم سے آگہی حاصل کی۔ فیضی نے بھی یہیں سے فیض پایا اور اپنے لسانی دائرے کو وسعت بخشی۔
پریم چند، منو سمرتی کے مفسر کلوکا بھٹ،بھار تیندو ہرش چندر، جے شنکر پرشاد،اچاریہ شکلا، ہزاری پرساد دیویدی، دیویکی نندن کھتری کی تخلیقی عظمتوں سے یہاں کی صبح درخشاں ہے۔
یہی وہ سرزمین ہے جس کی دامن گیر مٹی سے للا پورہ فاطمان میں مدفون شیخ علی حزیں کی مودت اتنی بڑھ گئی کہ انہوں نے اپنی عقیدت کا اس طرح اظہار کیا :
از بنارس نروم معبد عام است اینجا
ہر برہمن پسرے لچھمن و رام است اینجا
اور یہی وہ ’’فردوس معمور‘’ ہے جس کے تقدس کا چراغ غالب نے دلوں میں یوں روشن کردیا :
تعالی اللہ بنارس چشم بد دور
بہشت خرم و فردوس معمور
اسی سرزمین میں منڈواڈیہہ میں شاہ طیب بنارسی کا مزار، خانقاہ شریعت آباد اور سارناتھ کے بودھی کھنڈرات میں روحانیت کی قندیلیں روشن ہیں۔ اور اسی شہر کے بارے میں Mark Twain نے کہا تھا :
older than history ‘older than tradition ‘older even than legend
عظیم ہندوستانی رزمیہ مہابھارت کے خالق وید ویاس نے کچھ دنوں کے لئے یہیں کے رام نگر قلعہ میں قیام کیا تھا۔جسے کاشی نریش مہاراجہ بلونت سنگھ نے اٹھارویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ اسی قلعے کے سرسوتی بھون میں نادر اور بیش بہا مخطوطات بھی ہیں خاص طور پر تلسی داس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی پانڈولیپی یہاں محفوظ ہے۔
یہ دانش گاہوں کا بھی شہر ہے کہ یہیں بنارس ہندو یونیورسٹی ہے جس کی تاسیس 1916 میں مدن موہن مالویہ نے کی تھی، جس میں اردو کے پہلے لکچرر مرزا محمد حسن فائز بنارسی تھے۔ اس کے عربی، فارسی، اردو کے شعبوں سے خطوط غالب کے مرتب مولوی مہیش پرساد، پروفیسر بدر الحسن عابدی، حکم چند نیر، نسیمہ فاروقی، حنیف نقوی جیسی شخصیتیں وابستہ رہی ہیں۔ سمپورنانند سنسکرت یونیورسٹی ہے جسے گورنر جنرل لارڈکارن ویلس نے 1791۱ میز قائم کیا تھا۔ مہاتما گاندھی کاشی ودیا پیٹھ بھی یہاں کا مشہور ادارہ ہے اسکے علاوہ جامعہ سلفیہ ریوڑی تالاب، جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب، جامعہ مظہر العلوم پیلی کوٹھی، مدرسہ مطلع العلوم کمن گڈھا، جامعہ فاروقیہ، جوادیہ، ایمانیہ وہاں کے مشہور دینی ادارے ہیں۔ فلسفہ، سنسکرت، نجوم کی تعلیم کے لئے یہاں تشنگان علوم کا قافلہ آتا تھا اسی لئے یہ شہر سرو ودیا کی راجدھانی بھی کہلاتا تھا۔ عرب سے ابومعشر فلکی بھی ہےئت و نجوم اور سنسکرت سیکھنے کے لئے یہاں آئے۔ مولوی مہیش پرساد، امرت لال عشرت اور حکم چند نیر جیسی شخصیتوں کے شہر میں اردو کی شمع روشن تھی جس کے پروانوں میں نظیر اکبر آبادی کے شاگرد راجہ بلوان تھے، فارسی اور اردو کے قادر الکلام شاعر، ونائک پرشاد طالب بنارسی، اردو تہذیب کی یہ وہ روشن علامتیں تھیں جہاں لسانی تفریق کی ساری منطقیں دم توڑ دیتی تھیں۔ ذہنوں میں زبانوں کی تقسیم نہیں تھی اور نہ ہی زبانیں مذہب سے مشروط تھیں۔
موضع مڑھوا لمہی متصل پانڈے پور کے پریم چند کا تعلق بھی ہندی ساہتیہ کے مرکز بنارس سے تھا مگر ان کی ذہنی مناسبت اردو سے زیادہ تھی جس کا اظہار انہوں نے مدراس میں منعقدہ ہندی پرچار سبھا کے چوتھے سالانہ اجلاس مورخہ 29نومبر 1934 میں کیا تھا :
’’۔۔نہ میں نے ہندی ادب پڑھا ہے اور نہ اس کا اتہاس نہ اس کی رفتار ترقی کے بارے میں جانتا ہوں۔ ۔میری ساری زندگی اردو کی خدمت کرتے گزری ہے اور آج بھی میں جتنی اردو لکھتا ہوں اتنی ہندی نہیں لکھتا۔ اور کائستھ ہونے اور بچپن سے فارسی کی مشق کرنے کے باعث اردو میرے لئے جتنی فطری ہے اتنی ہندی نہیں ‘‘ صفدر آہ مرحوم کے مضمون سے بھی کچھ ایسا ہی اندازہ ہوتا ہے :
’’پریم چند اول سے آخر تک صرف اردو کے ادیب رہے۔ اردو کے علاوہ کوئی دوسری زبان ادیب کی طرح نہیں لکھ سکتے تھے۔ اقتصادی ضروریات اور ماحول کے اثرات سے انہوں نے ہندی سیکھی۔ لیکن ان کی ہندی ہمیشہ ناقص رہی۔ بہت دن ہوئے ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک ناگری مسودہ میں نے بنارس میں دیکھا تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس مسودے میں املے کی غلطیاں موجود تھیں۔ وہ بہت سے بہت ہندی کے ایک خواندہ آدمی تھے ادیب وہ صرف اردو کے تھے ‘’(بحوالہ مانک ٹالا، پریم چند کا سیکولر کردار اور دیگر مضامین ص(30
اردو فکشن کے بنیاد گزار یہ وہی پریم چند تھے جنہوں نے نبی کا نیتی نرواہ جیسا افسانہ اور اسلامی تہذیب جیسا مضمون لکھا۔ اور ببانگ دہل یہ بھی لکھا کہ ’’یہ بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کی طاقت سے پھیلا۔ تلوار کی طاقت سے کوئی مذہب نہیں پھیلتا۔ بھارت میں اسلام پھیلنے کی وجہ اونچی جاتیوں کے ہندؤوں کا نیچی جاتی کے ہندؤوں پر مظالم تھے۔ ‘‘
پریم چند کے بہت بعد اردو فکشن کو بنارس کا ا یک اور گوہر ملا۔ علیم مسرور جن کے ناول ’بہت دیر کر دی‘ پر طوائف نامی فلم بھی بنی مگر ہندی فکشن میں بہت سے نام تھے، دویدی اور جے شنکر جیسی شخصیتیں بھی تھیں۔
ہزاری پرساد دویدی
بنارس کی ثقافت کی ایک روشن علامت ہزاری پرساد دویدی بھی تھے جن کی جنم بھومی تو بلیا کا گاؤں اوجھولیا ہے مگر انہیں گیان کی روشنی کاشی سے ملی ہے۔ کاشی ہندو وشوودیالیہ سے سنسکرت اور جیوتش کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ایک کثیر الجہات ادیب تھے جنہوں نے تنقید، تخلیق اور تحقیق کو وسعتوں کے نئے آسماں عطا کئے ہیں۔ کبیر اور سور ساہتیہ جیسی کتابیں لکھنے والا معمولی فہم و ادراک کا انسان نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے تاریخی ثقافت کو بنیاد بناکر بان بھٹ کی آتم کتھا، چارو چند لیکھ، پنروا، انام داس کا پوتھا جیسے ناول لکھے جس میں تاریخ کے کئی اہم ادوار اور تہذیبی نقوش محفوظ ہو گئے ہیں۔ دویدی جی کا ایک اہم کام ہے کبیر کا نئی نظر، نظریے سے مطالعہ اور کبیر کی ایک نئی شخصیت کا اکتشاف۔ اس تعلق سے وشوناتھ پرساد تواری لکھتے ہیں :
’’دویدی جی پہلی بار کبیر کی شخصیت کو ان کی شاعری کو ان کی زبان کو اور ان کے طنزو مزاح کو سامنے لائے اور انہیں ہندی ادب میں نمایاں کیا کہ وہ آج کے نئے سے نئے شاعر کے بھی آدرش بنے ہوئے ہیں۔ کبیر کے انقلابی روپ کو سب سے پہلے ہزاری پرساد دویدی نے ہی پہچانا۔ یہ کبیر لٹریچر کو ان کی دین ہے ‘‘(وشوناتھ پرساد تواری، ہزاری پرساد دویدی مترجم ایس اے رحمن مطبوعہ ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی )
اس کے علاوہ تلسی داس، کالی داس، رویندر ناتھ ٹھاکر پر ان کا تنقیدی کام مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ سور داس کی رادھا کا تجزیہ بھی انہوں نے نئے زاوئے سے کیا ہے تواری جی کے بقول ’’دویدی جی نے جے دیو، ودیاپتی اور چنڈی داس کی رادھا کے ساتھ سور داس کی رادھا کو رکھ کر عشق و محبت کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہندوستان کے کسی بھی شاعر نے رادھا کا تذکرہ اتنی تفصیل سے نہیں کیا ہے عالمی ادب میں سور کی رادھا جیسی محبوبہ نہیں ہے۔ دویدی جی کے ہی لفظوں میں : ’’سور ساگر کی دو تصویریں عالمی ادب میں بے مثل ہیں۔ ۔۔یشودھا اور رادھا۔ یشودھا کی شخصیت میں وہ سب کچھ ہے جو ماں لفظ کو با عظمت بنائے ہوئے ہے رادھا کے کردار میں محبت کے سب ہی روپ نہاں ہیں ‘‘(ہزاری پرساد دویدی ص 83-84)۔
جے شنکر پرساد
غیر معمولی ذہانت اور عبقری صفات کے حامل جے شنکر پرساد (1889-1937 )کا تعلق بھی بنارس کے ’’سنگھنی ساہو ‘’خاندان سے تھا۔ انہوں نے ہندی کو چھایا واد کی حسیت سے متعارف کرایا۔ آنند واد ان کا مخصوص فلسفہ حیات تھا۔ نشاط فی الوجود کے اس طرز فکر کے حوالے سے رمیش چندر شاہ نے لکھا ہے کہ ’’پرساد کی زندگی المناک واقعات سے پر تھی۔ وہ المیہ سے ہی شروع ہوئی اور المیہ پر ہی ختم ہو گئی۔ جب وہ اپنی تخلیقی قوتوں کی معراج پر تھے تو ایک مہلک مرض نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور انہوں نے راضی برضا ہو کر خود کو اس کے حوالے کر دیا اور علاج کی غرض سے کسی سینی ٹوریم میں جانے کے لئے اپنے محبوب وطن کاشی کو چھوڑنا گوارہ نہ کیا۔ جب ہم اس شاعر کی پر آلام زندگی کے بارے میں غور کرتے ہیں تو کیٹس کے بارے میں ایٹس کا یہ قول ہمارے دماغ میں گونجنے لگتا ہے ’’اس کا فن نشاطیہ ہے لیکن اس کے دل کا حال کون جانتا ہے ‘‘جہاں تک پرساد کے دل کا تعلق ہے تو اس کی کچھ جھلک ہمیں ضرور نظر آسکتی ہے بشرطیکہ ہم نہ صرف ان کی شاعری کو اس کے نشاطیہ فن کی سطح کے نیچے اتر کر دیکھیں بلکہ ان کے نثری افسانوی ادب کا بھی، جو اتنا نشاطیہ نہیں ہے گہرائی میں جا کر مطالعہ کریں‘‘(رمیش چندر شاہ، جے شنکر پرساد مترجم حنیف کیفی ص 26)
آستھا اور عقیدے کی سر زمین سے رشتہ ہونے کے باوجود ان کے یہاں عقلیت اور تشکیک کی رو نمایاں تھی۔ رمیش چندر کے مطابق ’’پرساد نے کبھی کسی شے کے آگے سر نہیں جھکایا۔ انہوں نے ہر مفروضے کو، چاہے وہ اخلاقی ہو، مذہبی ہو، فلسفیانہ ہو، یا سیاسی ہو ایک بڑے سوالیہ نشان کے ساتھ قبول کیا۔ ان کی نظر میں کوئی بھی شے حتمی اور بدیہی نہیں تھی۔ ‘‘
کامائنی، کانن کسم، پریم پتھک، کے شاعر، کنکال، تتلی، اراوتی کے ناول نگار، آکاش دیپ، اندر جال، آندھی کے افسانہ نگار، اجات شترو، اسکند گپت، چندر گپت، دھرو سوامنی کے ڈرامہ نگار جے شنکر پرساد نے ہندی کو نئے آفاق عطا کئے۔
آغاحشر کاشمیری
لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں مدفون ہندوستان کے شکسپیر آغا حشر کاشمیری (م 28اپریل1935 ) کی زاد گاہ یہی بنارس ہے۔ ناریل بازار گوبند کلاں بنارس میں یکم اپریل 1879میں پیدا ہوئے، نام محمد شاہ رکھا گیا۔ جنہوں نے، ڈرامہ کی دنیا میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔ آفتاب محبت 1897) یہودی کی لڑکی (1915 خوبصورت بلا ( 1909)، شہید ناز، رستم و سہراب ( 1930)، سفید خون، سلور کنگ عرف نیک پروین ( 1910)،جیسے ڈرامے اردو دنیا کو دئے۔
شاعری کے باب میں بھی ذہانت کے جوہر دکھائے۔ فائز بنارسی کے شاگرد آغا حشر کا یہ شعر تو اتنا مشہور ہے کہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے :
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
اور انہی کی نظم کے یہ بند بھی ہیں :
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
حق پرستوں کی اگر کی تونے دلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں
(بحوالہ انجمن آرا انجم، آغاحشر کاشمیری ص 26)
بے پناہ قوت اظہار کے حامل آغا حشر کاشمیری نے ڈرامہ کو نئے نقش و نگار عطا کئے۔ مگر پاکستان کے معروف ناقد ڈاکٹر سلیم اختر کا خیال اس سے ذرا مختلف ہے۔ وہ آغا حشر کو انڈین شکسپیر ماننے سے انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’آغا حشر کو عقیدت یا تنقیدی بصیرت کے فقدان کی بنا پر انڈین شکسپیر کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حشر کا شکسپیر تو کجا یورپ کے بعض اور چھوٹے ڈرامہ نگاروں سے بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے ہاں اس گہرائی اور ژرف نگاہی کا فقدان ہے جو کسی بھی عظیم ڈرامہ نگار کے لئے ضروری ہے۔ ‘‘(اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ۔ کتابی دنیا دہلی ص(397
شیخ محمود احمد رونق بنارسی ( 1825-1886)اور طالب بنارسی ( 1852-1922) کا شمار اہم ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ رونق پارسی تھیٹر سے وابستہ تھے۔ ان کے والدین دکن میں اقامت پذیر ہو گئے تھے۔ انہوں نے بمبئی کے کاٹن مل میں بھی کام کیا پھر وکٹوریہ کمپنی سے وابستگی رہی۔ ان کا اہم شاہکار بے نظیر و بدر منیر ہے۔ لیلیٰ مجنوں، عاشق کا خون، بہارستان اشک، خوابگاہ عشق ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ امتیاز علی تاج نے ان کے ڈرامے مرتب کر کے شائع کیے تھے۔ انہوں نے عاشق کا خون میں ایک المیہ کردار ادا کرتے ہوئے خود کشی کر لی تھی۔ طالب نے لیل و نہار، ہریش چندر، نگاہ غفلت، وکرم ولاس، دلیر دل شیر، نازاں جیسے ڈرامے لکھے شعر وادب کا عمدہ مذاق رکھتے تھے، ان کے مضامین مخزن میں اشاعت پذیر ہوتے تھے۔ طالب بنارسی کے تعلق سے عشرت رحمانی کا خیال ہے کہ ’’ان کی زبان فصیح و شستہ ہے۔ گو ڈراموں کے پلاٹ عام روش سے ہٹ کر نہیں اور ان میں سماجی زندگی کے کسی پہلو کی موثر عکاسی نظر نہیں آتی۔‘‘ (اردو ڈرامہ کا ارتقا۔ ص172)
کچھ اسی طرح کا تاثر ڈاکٹر عطیہ نشاط کا بھی ہے ’’طالب کے ڈراموں کے پلاٹ ڈھیلے ڈھالے ہیں اور کم و بیش وہی طرز ہے جو حافظ عبداﷲ اور نظیر بیگ وغیرہ کا ہے۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے پرانے قصوں پر مبنی ہیں۔‘‘ (اردو ڈرامہ: روایت اور تجربہ۔ ص 150)
امتیاز علی تاج نے 1975 میں لاہور سے طالب بنارسی کے ڈرامے کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کر کے شائع کی تھی۔ طالب بنارسی کے بارے میں ڈاکٹر محمد قمر تبریز صدیقی نے بہت پتے کی بات کہی ہے کہ ’’طالب بنارسی کے متعلق جس نقاد نے بھی خامہ فرسائی کی ہے سب سے صرف ایک ہی بات پر زور دیا ہے کہ اردو ڈرامے میں پہلی بار طالب نے سادہ اور قافیہ سے پاک زبان استعمال کی۔ اس سے زیادہ ان کا اور کوئی کارنامہ نہیں ہے۔‘‘ (اردو ڈرامے کی تنقید کا تجزیاتی مطالعہ۔ ص 93)
بنارس کی شعری فضا بھی تابناک تھی۔ خوش گو، فائز بنارسی، بھارتیندو ہریش چندر رسا، نظیر، حفیظ، مسلم الحریری، ناظم جعفری، تاج الدین اشعر، طرب صدیقی، شمیم طارق، راشد بنارسی، شاد عباسی، روشن لال روشن، نرائن سریواستو، کبیر اجمل، غفران امجد، جوہر صدیقی، آزر حفیظ، خالد جمال، عارف ہندی، جاوید انور جیسے شاعروں کی موجودگی سے وہاں تخلیقی توانائی ہے۔ مرزا مظہر تاجدار ضمیری بھی قدیم شعرا میں سے ہیں۔ گلستان سخن میں یہ چند اشعار درج ہیں:
ہم نہ کہتے تھے ضمیری بے وفاؤں سے نہ مل
اپنے کاموں کا نتیجہ تجھ کو حاصل ہو گیا
یوں عادتوں کو تیرے کیا کیا نہ جانتے تھے
لیکن تجھے ستمگر ایسا نہ جانتے تھے
ہائے مطعون شیخ و شاب ہوئے
تجھ سے مل کر بہت خراب ہوئے
اسی کعبہ ہندوستان میں محبت کی اذان دینے والا شاعر نذیر بنارسی تھا شیو کی راجدھانی کا سفیر، جس کی رگوں میں لہو کی جگہ شیوشنکر کی جٹاؤں کی حسینہ گنگا کی لہریں تھیں۔ جس کی شاعری میں ایک ہی راگ تھا۔ ۔دیش راگ، منافرت کی آندھی بھی جسے بے اثر نہ کرسکی۔ بنارس کی بانسری کا یہی راگ شعروں میں ڈھلتا ہے تو محبت اور عقیدت کا شبنمی احساس بہت سے ذہنوں کا حصہ بن جاتا ہے اور خیمہ منافرت کو خس و خاشاک کر ڈالتا ہے۔ کاشی، نذیر کی آتما میں اس طرح تحلیل ہو گئی تھی کہ اپنے احساس کی ہر خوشبو کاشی کی سانسوں کے حوالے کردی :
میں بنارس کا نواسی کاشی نگری کا فقیر
ہند کا شاعر ہوں شیو کی راجدھانی کا سفیر
لے کے اپنی گود میں گنگا نے پالا ہے مجھے
نام ہے میرا نذیر اور میری نگری بے نظیر
نذیر نے مذہب اور عقیدے سے جڑی ہوئی ساری زنجیروں کو توڑتے ہوئے اس وحدت کا نغمہ الاپا جو تمام مذاہب کی اساس میں نہاں ہے :
میرے بعد اے بتان شہر کاشی
مجھ ایسا اہل ایماں کون ہوگا
کرے ہے سجدہ حق بتکدے میں
نذیر ایسا مسلماں کون ہوگا
ہم نے تو نمازیں بھی پڑھی ہیں اکثر
گنگا ترے پانی سے وضو کرکر کے
نذیر جیسے کشادہ ذہن میں ہی یہ اشعار جنم لے سکتے ہیں :
آواز گم ہے مسجد و مندر کے شور میں
اب سوچتے ہیں ان کو پکاریں کہاں سے ہم
مندر بنا بنا کے مسجد بنا بنا کے
سب گھیرتے ہیں اس کو دیوار اٹھا اٹھا کے
آدرنیہ مہاراج اور اے شیخ مکرم
جے ہند اجازت ہو تو کچھ عرض کریں ہم
مذہب کی حرارت کو ذرا کیجئے اب کم
ہے ایکتا بھارت کی بری طرح سے برہم
نذیر نے اتحاد اور یکجہتی کے لئے پوری زندگی وقف کردی مگر انہیں بھی فرقہ پرستی کے عفریت نے نہیں بخشا، جو یہ کہتا رہا کہ
خون اب کسی انسان کا پینے نہیں دوں گا
اے فرقہ پرستی تجھے جینے نہیں دوں گا
خود ہی فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
نذیر، اس کبیر کی توسیع تھے جنہوں نے گنگا کی سیڑھیوں پہ بیٹھ کر اور مسجد کے مناروں کو دیکھ کر یہ شعر کہے تھے
نہائے دھوئے کیا بھیا جو من میل نے جائے
من سدا جل میں رہے دھوئے باس نہ جائے
کانکر پاتھر جوڑ کے مسجد لئے چنائے
تا چڑھ ملا بانگ دے کیا بہرا ہوا خدائے
برہم دیو مدھر کے تخلیقی مزاج کی تشکیل میں ہندی شعریات کا عمل دخل زیادہ ہے مگر اردو کی تہذیبی روایت اور بوطیقا سے والہانہ شیفتگی نے ان کے تخلیقی ذہن کو نیا تحرک بخشا اور ان کے تخلیقی نظام کو تازگی، رعنائی، نزاکت اور نفاست عطا کی ہے۔ اردو غزلیہ شاعری کی ایمائیت، رمزیت اور تہ داری نے ان کے تخلیقی باطن کو مہمیز کیا ہے۔
’’اور بھی غم ہیں ‘‘مدھر جی کا خوبصورت شعری مجموعہ ہے۔ اشعار کی قراْت کے طریق کار اور تفہیمی تناظر کو ذرا بدل کر دیکھیں اور ایک نئے نہج سے نظر ڈالیں تو اس شعری مجموعہ میں بہت سی معنوی خوبیاں نظر آئیں گی۔ اردو ہندی کا تہذیبی، لسانی وصال خوش جمال آنکھوں کو بھائے گا اور شاعری کے باطن میں جو زیریں لہریں ہیں وہ ذہنی وجود کو تابندگی بخشیں گی۔
برہم دیو مدھر کے تخلیقی باطن میں گنگا، جمنا، سرسوتی، گداوری، نرمدا، سندھو، اور کاویری جیسی مقدس ندیاں بہتی نظر آتی ہیں اور ان دریاؤں کی لہروں کا ملن بھی۔ اسی نقطہ وصال سے ان کے تخلیقی جمال کا چشمہ پھوٹتا ہے۔ ان سات دریاؤں کے ساتھ ان کی تخلیقی کائنات میں ایودھیا، متھرا، ہری دوار، کاشی، کانچی، اونتیکا (اجین )دوارکا جیسے شہر اپنے تہذیبی استعاروں اور امیجز کے ساتھ آباد نظر آتے ہیں۔ انسان کے باطن میں یہی سات مقامات بستے ہیں اور انہی مقامات سے انسانی جذبات، احساسات، تخیلات و تحیرات کا انسلاک ہے۔ سات کے طلسمی حصار ہی میں سارے جذبے، احساس اور اظہار قید ہیں۔
ہری دوار جو تلاش ذات کا نقطہ آغاز ہے، وہ شہر اپنے اسطوری تخیل اور تہذیبی تفاعل کے ساتھ اس شعر میں ہے :
تری تلاش میں نکلا تو کھو گیا ہوں میں
عجیب بات ہے اب خود کو ڈھونڈتا ہوں میں
متھرا اپنے تقدیسی صفات کے ساتھ کرشن کے لئے گوپیکاؤں کی محبت اور کنس کے لئے نفرت اور خوف کے جذبات سمیت ان کی شاعری میں یوں منور نظر آتا ہے :
بچوں کو ماں کی کوکھ ہی میں چن دیا گیا
چارہ گروں کو قاتلوں کا گن دیا گیا
آئے مدھر کو یاد نہ کیوں اپنی رادھکا
بنسی میں کوئی درد جو ٹیرے کبھی کبھی
ایودھیا امن، عدل، فراق و وصال، رام کے ایثار اور کیکئی کی سازش کی علامتوں کے ساتھ ان کے بہت سے شعروں میں نمایاں ہے :
ملن بھی اک اوستھا ہے ورہ بھی اک اوستھا ہے
پھر اس کے بعد دل سنتا ہے انہد ناد جیون
ذہن بن باسی بنا ہے سارے رشتے توڑ کر
میرے سائے کے نکٹ پھر جنگلوں میں کون تھا
کاشی اپنے دھیان، گیان اور روحانی ریاضت کے ساتھ مدھر جی کے ان شعروں میں نظر آتا ہے :
جانے کتنے جنم کے ہیں بھٹکے ہوئے
ہم نے بدلے تیرے واسطے تن کئی
باہر ندی کی پھیلی ہوئی ریت کال ہے
پانی بھی مچھلیوں کے لئے ایک جال ہے
اسے اچھی طرح معلوم ہے آنند پیڑا کا
دیکھا ہے پیار میں جس نے ورہ کا سواد آجیون
کانچی نشاط زیست کے تصور اور کام دیوی کامکشی کے ساتھ ان اشعار میں مصور ہے :
خواہشوں کے سانپ مجھ سے لپٹے رہتے ہیں مدھر
آپ نے ناحق بنایا نیم سے صندل مجھے
وصل کے لمحات میری سوچ میں آتے ہیں جب
ایسا لگتا ہے کھجراہو کے بت خانے میں ہوں
کالی داس اور وکرمادتیہ کی سرزمین اجین اپنے ارفع تخیل، تہذیب، ثقافت اور آرٹ کے امیج کے ساتھ مدھر جی کے ان ان شعروں میں روشن ہے :
کبھی تو آئے گی تیرے بدن کو چھوکے ادھر
کھلا کواڑ میں رکھتا ہوں اس پون کے لئے
جو خود ہے آگ اس کو جلائے گی آگ کیا
مجھ کو ڈر ہے کہ وہ کہیں پانی سے جل نہ جائے
دوارکا جو آزادی اور نجات کا نقطہ اختتام ہے۔ جہاں کرشن جی نے اپنا جسم تیاگ دیا تھا۔ ان شعروں میں کتنی خوبصورتی کے ساتھ visualiseہوا ہے :
زندگی گر نہ ہوتی شو سادھنا
ہم کو مرگھٹ کے سائے نگلتے نہیں
موت جب آئی نظر مجھ کو دکھی
میں نے اپنی زندگانی سونپ دی
آتما سے ملی آتما اس طرح
خود ہی درشن ہوا خود نین ہو گیا
یہ ساتوں شہر اپنے تمدنی تلمیحات، تہذیبی اشارات کے ساتھ مدھر جی کے شعروں میں نظر آتے ہیں۔ بس تلاش و جستجو شرط ہے۔ یہ شاعری ان کے شخصی اکتشاف کی اوڈیسی ہے۔ انہوں نے کچھ نئی تلمیحات، علامتیں اور تراکیب بھی استعمال کی ہیں اور اظہار و احساس کے نئے در وا کئے ہیں :
میٹنی شو دیکھ کر آئی ہوا
گاؤں میں کرتی ہے ڈسکو رات بھر
جگنوؤں نے لے لیا بن باس اب
ٹیوب لائٹ کے لگے جب سے شجر
ان کی غزلوں میں ہندی تلمیحات اور استعارات کا حسن بھی ہے اور لفظیات کا جمال بھی :
بھسم جیون کا ہر آورن ہو گیا
آگ من میں لگی تن ہون ہو گیا
دیکھا ہے اپنے آپ کو درپن میں نروسن
ٹوٹے ہیں جب بھی عکس کے گھیرے کبھی کبھی
عصری صورت حال، مذہبی جنون و تشدد، منافقت مکاری، عیاری، آتنک واد کے تعلق سے بھی بہت سے اشعار ان کے یہاں ملتے ہیں جن سے ان کے انقلابی تیور کا پتہ چلتا ہے اور ان کی آتما کی خوبصورتی کا بھی :
ہر سمت ایک غول ہے آتنک واد کا
مجھ کو کہیں بھی پیار کا سنسد نہیں ملا
اس شعری مجموعہ میں برہم دیو مدھر جی کی پوئٹک جینئس کے ڈائمنشن منور ہیں۔ ان کی شعری قوت اور تخیل کی بلندی سے انکار کسی طور پر ممکن نہیں۔ مدھر کی شاعری کومل، نرمل، شفاف اور سوکچھ ہے۔ اس شعری تخلیق کے باطن کی سیر کریں تو اس میں تلسی داس، رادھا، رے داس، رحیم، رس کھان، رمن، سدامہ، شبری، میرا اور کبیر کی آنکھیں نظر آئیں گی۔ اور یہ آنکھیں بہت ہی پاک و صاف، پر سوز اور درد مند ہیں اور یہی شفافیت اور درد مندی مدھر جی کی تخلیق کے آئینہ خانہ میں تمام تر جمالیاتی زاویوں کے ساتھ روشن ہیں۔
فریاد آزر بھی بنارس کے ہیں جن کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تخلیق کو نیا سیاق وسباق، نیا مفہوم اور نیا تناظرعطا کرنے کی جدو جہد میں اس فکری اور اظہاری منطقہ تک رسائی میں کامیاب ہوئے ہیں جو بہت حد تک کنوارا اورقدرے غیرمستعمل ہے۔ ان کی تخلیق میں وہ مرکزی نقطہ اور محوری نکتہ بھی موجود ہے جو عصرِ حا ضر کی بیشتر تخلیق سے غائب ہوگیاہے۔
آزر کا تعلق تخلیق کے اس تلازماتی نظام اور تناظر سے ہے جس سے تخلیق میں تازگی، تحیر اور تابندگی آتی ہے۔ انہوں نے’ تخلیقی اجتہاد‘سے کام لیا ہے اور تقلیدِ جامد سے گریز کیا ہے اور ایک نئی تخلیقی سمت کی تلاش نے ان کی شاعری کو اس بھیڑسے بھی بچالیا ہے جس میں اکثر فن پارے اپنے نام و پتہ کی تلاش میں مدتوں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ ولی دکنی نے بہت پہلے کہا تھا ‘‘ تاقیا مت کھلا ہے باب سخن……….فریاد آزر کی شاعری میں بابِ سخن کے نئے نئے در کھلے جا تے ہیں اور ہمیں تحیرات سے ہم کنار کرتے ہیں۔ خوشی ہوتی ہے کہ صنعتی ومشینی عہد میںآزر کے اندر کا احساس اور اضطراب زندہ ہے اور اس کی لہریں ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہیں۔فریاد آزر کی شاعری میں جو احساس و اظہار ہے، وہ ’آج‘ سے عبارت ہے جس میں‘گذشتہ‘مکمل طور پر نہ شریک ہے اور نہ ہی مکمل طور پر متروک کہ ان کا حال ماضی سے مستعار نہیں مگر مستنیر ضرور ہے۔ آزر کا تخلیقی احساس منفرد اور مختلف ہے۔ زندگی کے تعلق سے ان کا Dynamic Approachہے۔ آج کی زندگی کی صورت حال اور انسانی متعلقات کے حوالے سے ان کا زاویہ نظر جداگانہ ہے۔ ان کے یہاں اس انسان کی جستجو ملتی ہے جو ‘گلوبل گاؤں‘ میں اپنی شناخت کھو چکاہے اور بے چہرگی جس کی پہچان ہے۔بنیادی انسانی اقدار سے منحرف اور ٹکڑوں میں بٹے ہوئے انسانی وجود کے ذہنی و فکری بحران اور انتشار و اختلال کو انہوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی شاعری کے ذریعہ انسان کی دا خلی ‘ خارجی صورتحال سے آگہی ہوتی ہے۔ Globalised Society اور ملٹی کلچر ایج میں سماجی، سیاسی اقدار میں تبدیلیاں آئی ہیں اور انسانوں کے ذہنی زاویے بھی بدلے ہیں۔ ایسی بدلتی ہوئی صورتحال میں ان کی تخلیق نہ صرف آج کے مسائل پر نگاہ ڈالتی ہے بلکہ آج کے معاشی‘ اقتصادی‘ سماجی‘تہذیبی نظام سے بھی بے خوف مکالمہ کرتی ہے۔
جدید غزل کے منظر نامے پر فریاد آزر کا نام اس اعتبار سے بھی اہمیت کاحامل ہے کہ روایتی حصار سے باہر نکل کر عصری حالات‘ تغیرات اور تموجات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ اور آج کے عہد کی تفہیم بالکل نئے زاویے سے کی ہے اور اس انسانی ضمیر اور روح کی بازیافت بھی کی ہے جو تینوں زمانوں پر محیط ہے۔
فریاد آزر کی تخلیقی اڑان کے زاویے الگ ہیں انہوں نے احساس و اظہار کے جو صنم کدے تعمیر کئے ہیں‘ اس میں ان کے خونِ جگر کی نمود ہے۔ وہ اپنی ذات میں گم نہیں ہیں بلکہ گردو پیش پہ ان کی گہری نظر ہے:
۔۔۔
اچھا ہو ا کہ لوگ بیاں سے مکر گئے
بھن جاتے ورنہ وہ بھی کسی ’بیکری‘کے ساتھ
۔۔۔
خون مشرق کے بہاتے ہی رہیں گے ناحق
اور کرسکتے ہیں کیامغربی آقاؤں کے لوگ
۔۔۔
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطحِ’ اوزون‘ کو فضلات سے آزادی دے
۔۔۔
فضائے آتشِ گجرات سے جوبچ نکلے
پرندے پھرنہ گئے لوٹ کر جہنم میں
۔۔۔
دفن کردیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں ماردیتا ہے اسے دورِ جدید
۔۔۔
رواج گاؤں میں پردے کا اس قدر نہ تھا
مگر مزاج میں بے پردگی بہت کم تھی
۔۔۔
یہ اور بات کہ سب جنگلوں میں رہتے تھے
مگر فضاؤں میں آلودگی بہت کم تھی
۔۔۔
یہ ان کے تخلیقی ذہن کی ارتعاشی لہریں ہیں۔ سیاست ‘سماج اور دیگر مختلف سطحوں پر ان کے ذہنی تحرک کے ثبوت کے لئے یہ اشعار کافی ہیں۔ ان کی نگاہ کسی خاص نقطہ پر محدود نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری ایک طرح سے ’جامِ جہاں نما‘ ہے جس میں پوری انسانی کائنات کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ اکثر شعروں میں حیرتوں کی نئی قندیل جلاتے ہیں‘ ان کی شاعری کی مجموعی قرأت سے پتہ چلتا ہے ان کے یہاں تخلیق کی علمی ‘عرفانی ‘وجدانی سطح بہت بلند ہے اور سماجی ‘ سیاسی‘سائنسی شعور بالیدہ۔
فکریات کی سطحُ پر جہاں انہوں نے بہت سے نئے تجربے کئے ہیںیا پرانے تجربوں کی ’تقلیب ‘کی ہے ‘وہیں لفظیات کی سطح پر بھی وہ ایک نئے آب و رنگ میں نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں لسانی جبر کا وجود نہیں ہے۔ ہر وہ لفظ جو ان کے احساس کی ترسیل کردے خواہ اس کا تعلق کسی زبان ‘ مذہب‘ملک سے ہو اس کے استعمال سے حذر نہیں کرتے‘ یہی لسانی اور فکری جمہوریت فریاد آزر کا فکری شناس نامہ ہے۔ ان کی شاعری میں وہ جمہوری آوازیں ہیں جو جلجا میش‘ سقراط‘ سرمد‘ اور منصور کے’ حلق بریدہ‘ سے بلند ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے سیاسی ‘سماجی ‘سفاکیت‘آمریت‘ مطلق العنانیت کے خلاف اپنی شاعری کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے اور عالمی استعماری نظام کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے۔ فرقہ واریت‘فسطائیت کے خلاف بھی انہوں نے اپنی تخلیقی توانائی کا استعمال کیا ہے:
بھر رہا تھا زہر وہ معصوم ذہنوں میں مگر
ہم پہ نفرت گھولنے کا جرم عائد ہوگیا
۔۔۔
ہندو کوئی تو کوئی مسلمان بن گیا
انسانیت بھی مذہبی خانہ میں بٹ گئی
۔۔۔
بچوں پہ ایسا جادو چلا ہے نصاب کا
اکبر کا نام لینے لگے غزنوی کے ساتھ
۔۔۔
کہیں بھی قتل ہو کیسی عجیب سازش ہے
لہو میں ڈوبی ہوئی مری آستین لگے
ان کی تخلیق کا توانائی نظام انتہائی متحرک اور فعال ہے۔ ان کے یہاں بصیرت اور آگہی کی وہ بلند سطح ہے جو ماضی اور مستقبل پر نگاہ رکھتی ہے۔ ان کا آئینہ ادراک روشن ہے جس میں وہ ماضی کے کے ساتھ مستقبل کی آہٹوں کو بھی محسوس کرتے ہیں۔
فریاد آزر کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کا اظہار ادراک ہے اور یہی عصری حسیت اور آگہی ان کی شاعری کو نقطہ انفراد یت عطا کرتی ہے۔ اس میں ایک آفاقی شعوربھی ہے‘ ژرف نگاہی اور باطنی روشنی(Inner Light)بھی جو آج کی تخلیق میں کم نظر آتی ہے۔ معاشرہ کی تمام متضاد اور متخالف لہروں کو انہوں نے اپنی شاعری میں سمولیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں ایسے نقوش مرتسم کردئے ہیں جو سماج اورسیاست کی راہوں میں بھٹکنے والوں کو بھی صحیح سمت کا اشارہ دیں گے اور انہیں منزل مراد تک پہنچادیں گے۔
فریاد آزر کا تہذیبی ‘سماجی ‘ سیاسی‘شعور پختہ ہے اور شعور کی مختلف سطحیں ان کے تخلیقی نظام سے مربوط اور منسلک ہیں۔ اسکا ئی اسکر یپر کلچر کے اس عہد میں چھوٹی چھوٹی زمینی حقیقتوں اور ارضی صداقتوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کرنا اور قاری کے احساس و ضمیر کو مرتعش کرنا بہت بڑی بات ہے:
۔۔۔
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
۔۔۔
مجھے اب اور سیاروں پہ لے چل
میں گلو بل گانوں سے اکتا گیاہوں
۔۔۔
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوگئے
۔۔۔
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
۔۔۔
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
۔۔۔
سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے
میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ مری ایجاد ہے
۔۔۔
تخلیق کی سطح پر ایقاظ اور بیداری کا جو فریضہ فریاد آزر انجام دے رہے ہیں، آج کی بے حسی کے دور میں بہت سے فنکار اپنی ذ مہ داری کے احساس تک سے محروم ہیں۔ انہیں’احساسِ زیاں‘ ہی نہیں تو پھر معاشرتی ‘ سماجی‘ اقدار کے تحفظ کا خیال کہاں سے آئے گا۔ فریاد آزر تخلیق کے منصب سے باخبر ہیں اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ۔ اس لئے وہ اپنی تخلیق کے ذریعہ ہر سطح پر ابنِ آدم کو کائنات کے مسائل اور اس کی پیچید گیوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کی پوری شاعری مقصدیت سے معمور ہے وہ گل و بلبل کی داستاں‘یا فسانہء شب ہائے دراز‘پر یقین نہیں رکھتے بلکہ آج کی سفاک جاں گسل حقیقتوں کو اپنی شاعری کا موضوع اور تخلیق کا مرکزی نقطہ قرار دیتے ہیں اور اسی محور پر ان کی شاعری حیات و کائنات کے مختلف مسائل اور موضوعات کا طواف کرتی رہتی ہے’۔ طوافِ کوچہء جاناں‘کے بجائے’ غم دوراں‘ سے ہی آج کی شاعری معتبر اور منفرد قرار پاتی ہے۔
فریاد آزر کی شاعری میںیہی ’’ غم دوراں‘ عذاب جاں‘ آشوب عصر اپنی تمام تر تخلیقی منطق‘معروضیت اور فنی ‘فکری ہنر مندی کے ساتھ موجود ہے۔
عتیق انظر
بنارس سے تعلق رکھنے والے عتیق انظر اپنے مختلف تیور کی وجہ سے معاصر شعری منظرنامہ میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ ان کی تخلیق میں تازگی، اچھوتاپن اور ندرت ہے۔ ان کا جو طرز اظہار ہے اس میں کلاسیکی رنگ کے ساتھ جدت کا بھی امتزاج ہے۔ انہیں زبان و بیان پر عبور ہے اور فقہ اللسان سے بھی باخبر ہیں۔ اس لئے لسانی ندرتوں کے اعتبار سے بھی ان کی غزلیہ شاعری مختلف ہے۔ جہاں تک فکر کی بات ہے تو ان کی فکر میں قدیم و جدید دونوں دنیائیں ہیں اور دونوں کے بحران سے بھی وہ آشنا ہیں۔ جدید انسان کے بحران، وجودیاتی کشمکش اور انسانی اضطراب و التہاب کو انہوں نے اپنے تخلیقی قالب میں ڈھالا ہے اور آج کے انسان کے مسائل و مشکلات، دکھ، درد کی لہروں کو مس کیا ہے۔ عتیق انظر کا شعری مجموعہ ’’پہچان‘‘کے عنوان سے ادبی حلقہ میں اعتبار حاصل کر چکا ہے۔ راشد آذر نے ان کے اظہاری اختصاص کا اعتراف یوں کیا ہے :
’’بڑی خوشی کی بات ہے کہ عتیق انظر اپنے لہجے کی شناخت بنانے کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ ان کو ان کے انداز بیاں کی تازگی اور اچھوتے پن سے پہچانا جا سکتا ہے۔ آگے چل کر یہ وصف ان کے انفرادی لہجے کی تشکیل میں معاون ثابت ہوگا ‘‘(ماہنامہ سب رس حیدر آباد، جنوری 1996)
عتیق انظر کے تخلیقی جلال و جزالت کا جلوہ اس غزل میں موجود ہے :
سب کو نفرت میں تری جوڑ دیا ہے میں نے
تجھ کو دنیا میں الگ چھوڑ دیا ہے میں نے
جس کی ہیبت سے سبھی سہمے ہوئے رہتے ہیں
ایک تیر اس کی طرف چھوڑ دیا ہے میں نے
میں رہوں یا نہ رہوں تیرے مقابل آکر
تیری طاقت کا بھرم توڑدیا ہے میں نے
ڈال کر ہاتھ گریباں پہ اک ظالم کے
آج تاریخ کو ایک موڑ دیا ہے میں نے
میری تلوار کی زد میں مرا دشمن تھا مگر
یاد کچھ کرکے اسے چھوڑ دیا ہے میں نے
اس غزل میں عصری شعور کی گونج ہے اور اس میں جرات مندی اور پامردی کا جو جذبہ ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ خلیجی جنگ کے پس منظر میں اس غزل کی تفہیم کئی زاویوں کو روشن کر سکتی ہے۔ غزل کا لہجہ اور اس کا آہنگ بھی اس کیفیت سے ہم آہنگ ہے جس سے مسلم دنیا دوچار ہے۔ تخلیقی جرات اور حوصلہ مندی کی یہ ایک نمایاں مثال ہے۔ غزل کے ہر ایک شعر میں ایک رجزیہ کیفیت، عنتری، مرحبی لہجہ ہے اور اس تخلیقی پیرہن سے بوئے اسد اللہی بھی آرہی ہے۔ ستم کی سیاہ رات میں سروں کے جلتے چراغ کا منظر اس غزل میں منور ہے۔ یہ ہم عصری صداقت کا جرات مندانہ اظہار ہے۔
سیاسی، عصری رمزیت سے بھر پور اس غزل کا سیاق و سباق ہر با شعور قاری پر فورا واضح ہو جاتا ہے۔ غزل کا ڈکشن اور اس کا ethos فیض احمد فیض، مجروح اور ناظم حکمت کی یاددلاتا ہے۔
نسیم اختر
نسیم اختر کا وطنی تعلق تو اس شہر سے نہیں ہے مگر ان کا میدان عمل وہ شہر ہے، جس سے میری پہلی شناسائی ہوئی
عبادت خانہ ناقوسیاں است
ہمناں کعبہ ہندوستاں است
قیامت قامتاں مژگاں درازاں
ز مژگاں برصف خوں بندہ بازاں
بیاباں در بیاباں لالہ زارش
گلستاں در گلستاں نو بہارش
اس شہر میں پہلی بار میں نے دریادیکھا۔ نہایت وسیع اور وشال- – -!
برسوں بعد نسیم اختر کی شاعری میں مجھے وہی دریا موجزن نظر آیا، جس کے طرز دلربائی اور جاں فزائی کے سحر میں اب تک گم ہوں۔ نسیم اختر کی شاعری اس گنگاسے وصال کا سبب بنی، جو میری آنکھوں میں جانے کب سے بہ رہی تھی۔
مجھے محسوس ہوا کہ گنگا کے گھاٹ کی جس سیڑھی پہ کبیر نے گیان پراپت کیاتھا، اس سیڑھی سے اس شاعری کا کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہے۔ اُس سیڑھی کی سرشاری اور سکر،اِس شاعری میں شامل ہے، تبھی تو نسیم اختر کے شعروں میں کبیر کی آتما کی سگندھ اور گنگا کا سوندریہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں گیان دھیان کی بڑی بڑی باتیں ہیں۔قونیہ کے مولانا رومی،یونان کے ایسوپ کی تمثیلی حکایات اور شیخ سعدی کے نصیحت آموز واقعات کی طرح اس میں بھی بڑی گہری اخلاقیات ہے۔ وہی صوفیانہ راگ، سہاگ اور آگہی کی آگ ہے جو صوفیوں، سنتوں کے دلوں میں روشن ہے۔ نسیم اختر نے اسی ’نروان جل‘ کی انگیٹھی میں اپنے احساس کو سلگایا ہے:
نہ ترانے کی اور نہ کہانی کی طرح
میری باتیں ہیں کسی سنت کی بانی کی طرح
میرے نغمے بھی ہیں پیغام محبت اختر
دیونانک کی طرح، شیخ جیلانی کی طرح
انہی ابرار واخیار کی طرح نسیم اختر کی محبت میں پوری دنیا شامل ہے۔ ان کی سوچ ایک Cosmic Citizenکی طرح ہے۔ ان کی دردمندی اور نظام اخلاقیات میں حافظ شیرازی کی فکر جلیل کا نور وجمال بھی ہے۔ حافظ شیرازی کہتے ہیں:
مباش در پئے آزار دہر چہ خواہی کن
کہ در شریعت ما غیر ازیں گناہے نیست
درخت دوستی بنشاں کہ کام دل ببار آرد
نہال دشمنی برکن کہ رنج بے شمار آرد
تونسیم اختر بھی کچھ اس طرح سے شبدوں کے چراغ جلاتے ہیں:
پھول سی باتوں سے بن جاتی ہیں بگڑی باتیں
یہ ضروری تو نہیں لفظوں میں نشتر رکھئے
جلائیں مل کے چلو یوں مسرتوں کے چراغ
کہ رہ نہ جائیں کسی در پہ بھی غموں کے چراغ
یہی تو وہ شاعری ہے جو تزکیہ نفس اور تطہیر جذبات کرتی ہے۔ ایسی شاعری میں وہ قوت تاثیر ہوتی ہے کہ دل کی دنیا بدلتے دیر نہیں لگتی۔ فوائد الفوائد میں مرقوم ہے کہ حضرت شیخ شرف الدین باخزری فرماتے تھے کہ میں خواجہ حکیم سنائی طیب اللہ ثراہ کے ایک قصیدے کا مسلمان کیا ہوا ہوں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جس شاعری میں داخلی جذبے کی آمیزش ہوتی ہے، وہ باطن کو مرتعش کردیتی ہے۔
نسیم اختر کی شاعری میں بھی ویسی ہی تاثیر ہے کہ اس میں حافظ کی حلاوت اور کبیر کی صبوحی شامل ہے۔ یہ شاعری منقذ من الضلال اور مسبعات عشر(وہ دس دُعائیں جو روزانہ سات بار پڑھی جاتی ہیں) کی طرح ڈھال ہے۔ اس شاعری کی آنکھوں میں وہ ’’اشک عنابی‘‘ بھی ہے جس کی ایک کلچرل ہسٹری ہے، اور وہ درد بھی، کائنات کے جگر کا درد، جس کا ایک قطرہ پہاڑوں پہ رکھ دیا جائے تو پہاڑ پگھل کرریزہ ریزہ ہوجائیں، ایک انسان یا تخلیق کار کا سینہ ہی ایسے درد کو سہار سکتا ہے۔ انسانی وجود کا یہی درد ہے جو قطرہ قطرہ دریا بن جاتاہے اور پھر اسی درد اور آگ کے دریا کو ڈوب کر پار کرنا ہوتاہے۔
نسیم اختر کی شاعری میں آگ کا یہی دریا ہے جسے اہل دل عشق کہتے ہیں اور عشق نہایت جلیل وجمیل ہوتاہے۔ ان کی شاعری میں اسی عشق کی آگ کا سہاگ ہے۔ انہی عشق لہروں سے ان کی شاعری کی تشکیل ہوئی ہے اور اسی سے ان کے لہجے کو شناخت ملی ہے۔ ایک دردمند، مدھم، معصوم لہجہ، دریا کے آب رواں کی طرح صاف، شفاف۔ ان کی سوچ کی شفافیت، خیال کی معصومیت اور لہجے کی محبوبیت، ان شعروں میں منور ہے:
برہمن کرتا ہے پوجا یہاں اور شیخ وضو
کس کو کب غیر سمجھتا ہے ہمارا دریا
موج قرآں بھی ہے گیتا کا دھارا بھی ہے
گاہے نانک کا ہے بانی کبھی گرجا دریا
یہی دریا، اپنے تلازمات کے ساتھ نسیم اختر کا فکری اور تخلیقی شناس نامہ ہے۔
دریا، جس طرح تازہ لہروں کے امتزاج سے رواں دواں ہے، اسی طرح نسیم اختر کی شاعری بھی تازہ لہروں کے ساتھ مسلسل سفر میں ہے۔ زندگی اور سماج کے چہرے سے لپٹی ہوئی، فسطائیت، تنگ نظری، انسانیت کشی اور تنگ نظری کی تاریک لہروں سے جہاں ان کی شاعری برسرپیکار ہے، وہیں زندگی کے ’’ریگ سوزاں‘‘ کو بھی انہوں نے اپنے تخلیقی اظہار میں شامل رکھاہے۔ سیلف اور سچویشن کے امتزاج سے ان کے تخلیقی بیانیہ کا دریا، اس انسانی وجود کے سمندر میں مدغم ہوگیاہے، جہاں بے کراں مسائل اور موجوں کا انبوہ ہے:
محافظ قتل کی خاطر ہمارے
یہاں ترشول خنجر بانٹتا ہے
اہل گجرات سے ملے ہو میاں!
ہاں! فسردہ مزار کی صورت
ہاں فلسطین کا بدن ہوں میں
ہاں وطن میں بھی بے وطن ہوں میں
پھر یزیدوں نے کاٹ لی گردن
پھر سے مقتل میں بے کفن ہوں میں
انہی عصری سفّاک لہروں سے ہمارا وجود لرزاں ہے۔ اور انہی سے کائنات کے مستقبل کو خطرہ درپیش ہے۔
ڈاکٹر نسیم اختر نے اپنی شاعری میں اس Pathosاور Passionکو پیش کیاہے جو انسانی وجود کا لازمہ ہیں۔
نسیم اختر سہل شعر کہتے ہیں، قاری کے شعور سے ان کے شعور کا مخاطبہ بآسانی ممکن ہے۔ ان کے لہجے کا جمال وکمال اکثر شعروں میں نہاں ہے۔ کبیر اور نظیر کے امتزاجی لہروں کا یہ ایک خوب صورت تخلیقی طنبورہ ہے۔
ان کے اسلوب کی طرح ان کا شعری کردار بھی پاکیزہ اور صاف ستھرا ہے۔ ان کے ہاں کامنی، کنہیا کے جذبوں کا مدھ ملن تو ہے مگر رمبھا، بھانومتی اور وروتھنی جیسی روپ وتی ماوک اداؤں والی اپسراؤں کا زہد شکن جذبہ نہیں ہے۔ یہ تمجید فضائل اور تندید بالرذائل کی شاعری ہے۔ اس میں نرگس، یاسمن، چمیلی،موگرا جوہی کی وہ خوشبو ہے جو انسانی روح کو معطر کرتی ہے۔ یہ شریں طلعت شاعری، ایسی ہے جیسے پانی میں آگ جل رہی ہو یا آگ میں پانی بہ رہا ہو !
نسیم اختر کی شاعری مثل دریاہے مگر اس میں وہ بنات البحر (سمندر کی بیٹیاں) نہیں ہیں جن کی خوش آوازی سے راستے بھول کر ملاح، موجوں میں مدغم ہوجاتے تھے بلکہ یہ توخواب گراں سے خیز کرنے والی شاعری ہے۔ یہ انسانی جذبوں کو بیدار اور حواس خمسہ میں ارتعاش پیدا کرنے والی شاعری ہے۔
نسیم اختر کے پاؤں یقیناًتحت الثریٰ میں ہیں مگر ان کے ارادوں کی چوٹی ثریا کو چھوتی ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ یہ گنگا جمال شاعری سات مقدّس دریاؤں کے سنسرگ سے زندہ وتابندہ رہے گی کہ برہما نے گنگا کو سداسہاگن کا وردان دیاہے اور یہ شاعری بھی تو گنگا کی طرح اپنے اندر تقدیسی شعور اور نسخہ نجات سموئے ہوئے ہے۔
سحر ہندوستانی
سحر ہندوستانی بنارس کے ایسے شاعر ہیں جو ہندی اور انگریزی ادبیات میں ڈاکٹریٹ یافتہ ہیں، اردو میں اچھی شاعری کرتے ہیں مگر نہ اردو لکھنا جانتے ہیں اور نہ ہی پڑھنا۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ’’حسرت کی نظر ‘’کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس پر عالمی رنگ ادب کتابی سلسلہ 17-18 میں تبصرہ کرتے ہوئے شاعر علی شاعر نے لکھا ہے :
’’جدید تر علوم سے واقفیت رکھنے والا ایک شخص اردو شاعری کا نہ صرف دلدادہ ہے بلکہ اس کے اندر جمالیاتی ذوق کی فراوانی ہے اور وہ اردو میں شعر کہتا ہے۔ جبکہ وہ اردو پڑھ سکتا ہے اور نہ لکھ سکتا ہے۔ ۔ یہ حیرانی کی بات ضرور ہے مگر ممکنات میں شامل ہے کیونکہ دنیائے ادب میں بے شمار ایسے شعراء گزرے ہیں جو پڑھے لکھے نہیں تھے مگر شعروادب میں انہوں نے نہ صرف اپنا نام پیدا کیا بلکہ ایک منفرد مقام بھی بنایا۔ امی شعراء کے نام سے ایک ایک کتاب بھی مرتب ہو چکی ہے جس میں ایسے سینکڑوں شعراء کے نام شامل ہیں جو پڑھے لکھے نہیں تھے۔ مگر ہم سحر ہندوستانی کو امی شاعر نہیں کہیں گے کیونکہ وہ اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ بس انہیں اردو زبان لکھنا اور پڑھنا نہیں آتی۔ مگر ان کے اشعار میں نہ صرف اردو کا تاریخی پس منظر ملتا ہے بلکہ اردو زبان کا تہذیبی ارتقاء بھی نظر آتا ہے اور زبان کی چاشنی بھی۔ یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
بس تمہاری وفا کے طلب گار ہیں
عشق ہوگا نہ کامل تمہارے بغیر
عالمی رنگ ادب کراچی
بنارس میں ایسے شاعروں کی تعداد رہی ہے جو امی تھے، فدا علی خنجر نے انجمن ترقی اردو ہند کے رسالہ اردو میں اردو کے ان پڑھ شعراء کے عنوان سے جو مضامین لکھے ہیں، ان میں شیخ سبحان علی طالب بنارسی اور کبیر داس بنارسی کے نام لکھے ہیں۔ طالب کا تذکرہ جنوری 1932اور کبیر داس کا جولائی 1932 کے شمارے میں ہے۔
بنارس کے کچھ شعراء جن کے نام رسائل و جرائد کے وسیلے سے سامنے آئے ہیں ان میں سلام اللہ صدیقی بنارسی بھی ہیں جن کی نظم ترانہ اردو ہماری زبان یکم اگست 1946 میں شائع ہوئی ہے اور دوسرے شاعر عبد الرفیق زاہد بنارسی ہیں جن کی نظم ہماری زبان 16 دسمبر 1945میں دشمنان اردو سے خطاب کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ سید واجد علی فرخ بنارسی بھی قابل ذکر ہیں جن کی کتاب تجلیات فرخ پر رسالہ اردو جنوری 1932 میں تبصرہ چھپا ہے۔
علمی و فکری سطح پر بنارس کو جن شخصیات نے اعتبار و وقار عطا کیاان میں حافظ ابو محمد امام الدین رام نگری کا نام نمایاں ہے۔ انہوں نے نہ صرف عربی، ہندی، سنسکرت کا گیان حاصل کیا بلکہ ہندو ازم کا خاص طور پر مطالعہ کیا۔ سوامی دیانند سرسوتی کے اعتراضات کے جوابات لکھے اور اسلامی ساہتیہ سدن کی ہندی مطبوعات کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ کی۔ ان کا ایک اہم کارنامہ ’ہندی۔اردو شبدکوش‘ ہے جو شاید سب سے پہلا ہندی لغت ہے، جس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ’ہر طبقہ کی ضرورتوں کے مطابق پارلیمنٹری، دفتری، عدالتی، سیاسی، صنعتی، علمی، ادبی، تعلیمی، مذہبی، سائینٹیفک غرض تمام اصناف کے الفاظ موجود ہیں۔‘‘
یہاں نواب عنایت حسین خاں مہجور بنارسی کا ذکر بھی ضروری ہے جن کا تذکرہ ’مداح الشعرا‘ پاکستان سے افسر امروہوی نے اپنی تعلیقات اور مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔ بنارس کے قدیم تذکرہ نگاروں میں بنداربن داس خوشگو کا نام نہایت اہمیت کا حامل ہے جو بارہویں صدی کے اوائل کے ہیں۔ مرزا عبدالقادر بیدل، شیخ سعد اﷲ گلشن سے اکتساب فیض کا شرف حاصل ہے ان کا تذکرہ ’سفینہ خوشگو‘ تین جلدوں پر محیط ہے۔ یہ تذکرہ 1147ھ میں مکمل ہوا تھا۔
شمیم طارق
نئے موضوعاتی جزیروں کی جستجو شمیم طارق کا وصف خاص ہے۔ انہوں نے جن موضوعات کو مس کیا ہے ان پر لکھنے کے لیے گہرے علم و عرفان کی ضرورت پڑتی ہے۔ تقابلی مطالعے اور حوالے پر مشتمل تخلیقی اور تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’تقابل اور تناظر‘ میں شامل لسانی دہشت گردی، شعر و ادب میں سریت کے نفوذ و اثرات، غزل میں سائنس کے اشارے، کلاسیکی غزل میں شہر جیسی تحریروں سے اس کی تائید و توثیق ہو سکتی ہے۔ اسی کتاب میں شبلی اور اقبال کا مشترکہ عطیہ بھی ایک ایسا مضمون ہے جس کی ستائش یوں بھی کی جانی چاہئے کہ شمیم طارق نے دونوں کے مابین تفاوت عمر کے باوجود بہت سی مشترکات ہیں۔ ان مماثلتوں میں بعض یہ ہیں:
(الف) دونوں کے جد اعلیٰ غیر مسلم تھے۔ شبلی راجپوت نسل سے تھے اور اقبال کشمیری برہمن۔ (ب) دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں تھی۔ شبلی نے دو شادیاں کیں اور اقبال نے تین بیویوں سے چار نکاح کئے۔۔۔ (ت) دونوں اپنے بڑے بیٹوں سے نالاں تھے۔ شبلی کے بڑے بیٹے حامد نے ناخوشگوار ماحول سے تنگ آکر ایک خانقاہ میں پناہ لی تھی۔ اقبال نے اپنے بڑے بیٹے آفتاب کو عاق کر دیا تھا۔
اور یہ کہ شبلی اور اقبال دونوں کی جمالیاتی حس بہت بیدار تھی۔ عطیہ کے لیے ان دونوں کے دلوں میں محبت کی جو چنگاری تھی‘ اس سے انکار ممکن نہیں۔
غالب اور ہماری تحریک آزادی، صوفیہ کی شعری بصیرت میں شری کرشن اور صوفیا کا بھگتی راگ ان کی اہم تصنیفات ہیں۔ آخر الذکر کتاب تو موضوعی اعتبار سے نہایت اہم ہے کہ تصوف اور بھگتی کا موضوع نیا تو نہیں ہے مگرمحنت اور مشقت طلب ضرور ہے۔ تصوف اور بھگتی کے تعلق سے مختلف تناظرات ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ کون سا تناظر صحیح ہے، اس کا تعین بھی دشوار ہے۔ یہ موضوع اس قدر ژولیدہ ہے کہ ذرا سی لغزش اسفل سافلین تک پہچادیتی ہے۔ ایسے موضوع پر قلم اٹھانے کے لئے حد درجہ حزم و احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لئے جنون، جدوجہد اور کڑی ریاضت درکار ہے۔
ادھر کچھ عرصے سے تصوف پر مطالعاتی سلسلے کا جو آغاز ہوا ہے اس سے کچھ گرہیں ضرور کھلی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ تصوف کی بنیادی ماہیت اور مزاج کی تفہیم میں بہتوں سے لغزشیں بھی سر زد ہوئی ہیں۔ مستشرقین نے بھی تصوف کے تئیں خاصی دلچسپی دکھائی ہے اور کچھ نئے انکشافاف بھی کئے ہیں۔ ای اچہامر، ایم اسمتھ، تور آندرائی، آرہارٹ مان، ایم ہارٹن، اسکائڈر، ایچ ریٹر نکلسن اور دیگر مستشرقین نے تصوف کے منبع، مصدر، اور ماہیت بہت سی اہم باتیں تحریر کی ہیں تاہم مسئلہ تصوف اس قدر گہرے اسرار و رموز میں گتھا ہوا ہے کہ ایک سرا ہاتھ آتا ہے تو دوسرا چھوٹ جاتا ہے۔
شمیم طارق کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کے موضوع پر مستند اور معتبر مصادر و مراجع سے رجوع کیا ہے اور مشرقی تصوف کے تمام تر پہلوؤں پر تدبر و تفکر کیا ہے اور تقابلی مطالعہ کی بنیاد پر نتائج کا استخراج کیا ہے۔ ان کے اندر وہ قیسیت اور فرہادیت ہے کہ وہ موضوع کے مالہ و ما علیہ کا کلی عرفان حاصل کرتے ہیں تب اپنے تصور یا فکر کی ایک مضبوط اساس تشکیل دیتے ہیں۔
سلسلہ تصوف اور بھگتی پر لکھے گئے ان مضامین سے بھی ان کی عرق ریزی اور محنت مترشح ہے۔ انہوں نے شیخ محمد غوث گوالیاری، مجدد الف ثانی، امام قشیری، شاہ ولی اللہ، جنید بغدادی، شیخ عبد القادر جیلانی، شیخ شہاب الدین سہر وردی، خواجہ بہاء الدین نقشبندی، شرف الدین یحیی منیری، شیخ عبد الواحد بلگرامی، فرید الدین عطار اور دیگر ارباب علم و تصوف کے حوالے سے تصوف کے مفہوم کو آئینہ کر دیا ہے، اس کی تشکیلی صورتوں اور اس کے مثبت پہلوؤں پر مبسوط روشنی ڈالی ہے۔
بھگتی :مزاج و پس منظرمیں انہوں نے مکمل آگہی اور عرفان کا ثبوت دیا ہے اور بھگتی کے مزاج کی تفہیم شریمد بھگوت گیتا، رامانج اچاریہ اور دیگر مفکرین کے حوالے سے کی ہے۔ بھگتی کال کے بارے میں بہت سی انکشافی معلومات بھی درج کی ہیں۔ کبیر، سرمد، کرشن، مرزا مظہر جان جاناں، تلسی داس، کے بارے میں وہ معلومات بہم پہچائی ہیں کہ ان کی علمیت پہ رشک آتا ہے۔ سرمد کے یہودی اور ملحد ہونے کی بات اور پھر ان کے عشق باطن کی کیفیت کا ادراک بھی کرایا ہے۔ کبیر کی ہندو بھگتی کے حوالے سے یہ معلومات بھی دلچسپ ہے کہ وہ حضرت تقی سہروردی کے خلیفہ تھے۔ اور حضرت ہیکا چشتی سے خرقہ خلافت حاصل کیا تھا۔ بھگتی کا باب بہت عالمانہ اور عارفانہ ہے۔ اس باب کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے تو ذہن کی بہت سی گرہیں کھل جائیں گی۔
تصوف اور بھگتی :مماثلت اور مغائرت میں انہوں نے بڑی دیدہ ریزی اور دقیقہ سنجی کے ساتھ دونوں پہلو تلاش کئے ہیں اور دونوں کے مابین ایک حد فاصل بھی قائم کیا ہے۔ جمع، جمع الجمع، اور عین الجمع کی کیفیات کے حوالے سے بھی روشنی ڈالی ہے۔ سکر اور صحو کی کیفیت کا بھی عرفان کرایا ہے۔ شطحیات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مجموعی طور پر اس انتہائی ادق مسئلہ پر بہت اچھی گفتگو کی ہے۔
صاحب سر شاہ محمد کاظم قلندر کے حوالے سے مولانا شاہ مجتبی حیدر قلندر کے مضامین بھی علم و معرفت کے باب وا کرتے ہیں۔
شمیم طارق کا مطالعہ وسیع ہے، انہوں نے ان موضوعات کو اپنی تحقیق کا مطاف بنایا ہے جن کے بارے میں ہمارے سہل طلب ناقدین اور تساہل پسند ادباء سوچ بھی نہیں سکتے۔
شمیم طارق اردو ادب کے وہ کوکب دری ہیں جس کی قدر مابعد کے زمانوں میں بھی ہوگی۔ شمیم طارق کا علمی انہماک، لگن اور مطالعہ بہتوں کے لئے قابل رشک ہے۔ اس علمی زوال کے دور میں شمیم طارق کا دم غنیمت ہے بالخصوص اردو زبان جس زوال کی گھڑی میں ہے اس میں شمیم طارق جیسے جید عالم، فاضل ادیب لبیب کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
یونس غازی
اونچی حویلیوں میں بھی ہیں بے قرار لوگ
اور دولت سکون مری جھونپڑی میں ہے
شاید اشکوں میں آگ بہتی ہے
میرے چہرے کے آبلے دیکھو
یہاں سے گزرے گا کیسے بچا کے سر کوئی
ہر ایک ہاتھ میں پتھر دکھائی دیتا ہے
سرشار ان کی یاد سے غازی ہے دل مرا
صحرا کو پر بہار کئے جا رہا ہوں میں
صحرا کو پر بہار بنانے والے اس شاعر کا تعلق بھی بنارس کے موضع نودر سے ہے۔ جن کا میدان عمل اب میرٹھ ہے :
ہے میرٹھ شہر جو علم و ادب کا گہوارہ
جناب غازی اسی مستقر میں رہتے ہیں
لمحات ان کا شعری مجموعہ ہے جس میں وہ ماضی کی آہٹوں اور حال کی اشارتوں کے ساتھ ذہنوں پر دستک دیتے نظر آتے ہیں۔
بھوکے بچوں نے سمندر رو دیا اور سو گئے
ہاں مگر چہرے پہ ماں کے درد کی لہریں ملیں
وہ خشک پھول دیکھ کے یاد آگیا کوئی
ماضی نے جس کو رکھا تھا میری کتاب میں
اس دور الم خیز میں سچ بولنے والے
تونے ابھی شاید در زنداں نہیں دیکھا
ان کو بھولے ہوئے زمانہ ہوا
پھر یہ پہلو میں درد سا کیا ہے
بھول جاتے اپنی صناعی کا وہ سارا ہنر
اس بت کافر کو گر اک بار آزر دیکھتے
اساتذہ کے زمین شعر میں گل کھلانے والے غازی کے یہاں فکری اور لسانی سطح پر جدتیں بھی نمایاں ہیں۔
ہر گل کو چومتا ہوں بصد شوق بار بار
یوں شغل وصل یار کئے جا رہا ہوں میں
شاعری ان کی داخلی شخصیت کا اظہار ہے تو تحقیق ان کے فاعلی عنصر کا شناس نامہ ہے۔انجمن ترقی اردو ہند تاریخ اور خدمات 1947 تک )ان کی اہم تحقیقی کتاب ہے جو کتابوں کی بھیڑ میں اپنی امتیازی شناخت کے ساتھ نمایاں نظر آتی ہے۔ کتاب کی سطروں سے محنت شاقہ مترشح ہے۔ اپنی تلاش اور جستجو سے اس منزل تک رسائی حاصل کی ہے جو تحقیق کا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ ایک دشوار گزار راہ تھی۔ جس میں لہو لہان ہوئے بغیر قدم بڑھانا ناممکن تھا۔ مگر یہ آبلہ پا وادی پرخار سے گل افشانی میں کامیاب رہا۔ صعوبتوں کا یہ سفر کیسے طے ہوا، اس کی بابت یونس غازی خود لکھتے ہیں :
’’کسی انجمن کی کار گزاری کی روداد مرتب کرنا آسان بھی ہے اور دشوار بھی۔ اگر انجمن کا اپنا کوئی مستحکم دفتر ہوتا اور سارے ریکارڈ کہیں ایک جگہ محفوظ ہوتے تو یہ کام سہل سے سہل تر ہو جاتا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ صورت حال برعکس ہے۔ ایک طرف انجمن کی کار گزاریوں کا دائرہ نصف صدی کو محیط ہے اور دوسری جانب اس کی تفصیلات منتشر اور پراگندہ ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ میں نے جب کام کا آغاز کیا تو مجھے دریا کی گہرائیوں کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ لیکن جب کشتی موجوں کے حوالے کی تو سمجھ میں آیا کہ کشتی کا ساحل تک پہنچنا کچھ آسان نہیں تاہم میں مایوس و دل شکستہ نہیں ہوا بلکہ امنگوں اور حوصلوں کے سائے میں سفر کا آغاز کیا ’’
یونس غازی نے اس تحقیقی کتاب میں انجمن کی تاریخ، مطبوعات اور اخبار ہماری زبان کے حوالے سے جو معلومات فراہم کی ہیں وہ بیش قیمت ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کی ترویج و توسیع کیلئے ہمارے اکابر نے کتنی جدو جہد کی ہے اور اردو کے علمی سرمایہ میں گراں قدراضافہ کیا ہے۔ ان کی کوششیں نہ ہوتیں تو اردو ایک سمٹی اور سکڑی ہوئی زبان ہوتی۔ انجمن ترقی اردو کی وجہ سے اردو کا رشتہ مختلف علوم و فنون سے جڑا۔ دوسری زبانوں کا اہم علمی و ثقافتی سرمایہ اردو میں منتقل ہوا۔ بالخصوص سائنسی علوم کے جو ترجمے ہوئے، اس سے اردو کا ایک بڑا طبقہ مستفید ہوا۔ طبیعات، طبقات الارض، کیمیا، حیوانات، ریاضیات پر باضابطہ اردو میں کتابیں مرتب کی گئیں۔ مولوی مرزا مہدی خاں کوکب کی مقدمات الطبیعات، طبقات الارض، محمد یوسف صدیقی کا رسالہ علم نباتات، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کی اضافیت، داستان ریاضی، ابرار حسین قادری کی فرہنگ اصطلاحات جغرافیہ اور رضی الدین صدیقی، اکبر علی کی فرہنگ اصطلاحات علم فلکیات ایسی کتابیں ہیں جو سائنس کے جملہ جہات اور زاویوں سے روشناس کراتی ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ فلسفہ، نفسیات، معاشیات پر بھی انجمن نے نہایت مفید کتابیں شائع کی ہیں۔ مشاہیر یونان و رومہ (سید ہاشمی فرید آبادی)علم المعیشت ( محمد الیاس برنی )تاریخ ملل قدیمہ (سید محمود اعظم فہمی )۔ انجمن کا ایک بڑا کارنامہ ان تذکروں کی اشاعت بھی ہے جن سے اردو ادب کی تاریخ کی تدوین میں بڑی مدد ملی، ایسے تذکروں میں نکات الشعراء(میر تقی میر مرتبہ مولانا حبیب الرحمن خان شروانی )تذکرہ شعرائے اردو (میر حسن دہلوی ) تذکرہ ہندی ( غلام ہمدانی مصحفی )مخزن شعراء یعنی تذکرہ شعراء گجرات (قاضی نور الدین حسین خاں رضوی فائق )تذکرہ گلزار ابراہیم ( علی ابراہیم خاں خلیل، مرزا علی لطف )تذکرہ ریختہ گویاں (سید فتح علی حسینی گر ویزی ) ریاض الفصحاء (غلام ہمدانی مصحفی ) عقد ثریا (مصحفی) گل عجائب (اسد علی خان تمنا ) چمنستان شعراء ( رائے لچھمی نراین شفیق ) مخزن نکات ( شیخ محمد قیام الدین قائم ) قابل ذکر ہیں۔ مختلف ادبیات، موضوعات پر محیط انجمن کی مطبوعات سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ انجمن کس قدر متحرک اور مستعد تھی اور اس نے تاسیسی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے موانع کی پرواہ نہیں کی۔ مطبوعات کی سطح پر انجمن کی اہمیت اور معنویت کا ادراک بھی یونس صاحب کی اسی کتاب سے ہوا کہ انہوں نے بڑی محنت سے دستیاب مطبوعات کی پوری تفصیل درج کردی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام عرق ریزی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ اور یہی محنت دیگر ابواب میں بھی نظر آتی ہے۔ خاص طور پر انجمن کے تین رسالوں اردو، سائنس اور معاشیات کی فہرست سازی میں ان کی ریاضت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
انجمن ترقی اردو ہند کے رسالہ اردو کا پہلا شمارہ تعویق کی وجہ سے اکتوبر1920 کے بجائے جنوری 1921 میں شائع ہوا اور پہلے ہی شمارے سے اس نے اپنی جو منفرد شناخت قائم کی، اس کی نظیر ادبی مجلاتی صحافت میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین اتنے بلند پایہ ہوتے تھے کہ مولوی غلام ربانی نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ’’ہندوستان کا تو ذکر کیا ہے یورپ اور امریکہ میں بھی بہت کم رسالے ہیں جن کا معیار اتنا بلند اور مذاق اتنا پاکیزہ ہو جیسا اردو کا ہے ‘‘رسالہ اردو نے ہمیشہ اہم گوشے ہی روشن کئے خاص طور پر بعض سلسلہ مضامین تو نہایت مفید اور معلوماتی تھے۔ اس ذیل میں مرزا فدا علی خنجر کے مضامین ’’اردو کے ان پڑھ شعراء‘‘قابل ذکر ہے۔ منظوم و منثور تخلیقات اور تبصرے اتنے جامع ہوتے تھے کہ آج کے رسائل نہایت پھیکے نظر آنے لگتے ہیں اور یہ خیال بھی سر اٹھانے لگتا ہے کہ آجکل کے نئے مضامین کے بجائے رسالہ اردو کے مقالات بازدید کے طور پر شائع کئے جائیں تو آگہی میں تخفیف اور گمرہی کے بجائے معلومات میں اضافہ ہی ہو گا۔ موضوعاتی ترتیب کے اعتبار سے رسالہ اردو کا انتخاب شائع ہوجائے تو اردو کے طلباء کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر یونس نے مشتملات کی فہرست پیش کرکے رسالہ اردو میں موجود خزینے سے نہ صرف واقف کرادیا ہے بلکہ یہ احساس کرادیا ہے کہ آج کے رسالوں کی حیثیت کشکول سے زیادہ نہیں ہے۔
انجمن کا دائرہ صرف ادبیات تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس نے سائنس سے بھی اردو کا رشتہ جوڑ دیا۔ اور اس رشتہ کی مضبوط شکل سہ ماہی سائنس کی صورت میں سامنے آئی۔جس کا پہلا شمارہ ڈاکٹر مظفر الدین قریشی صدر شعبہ کیمیا جامعہ عثمانیہ کی ادارت میں جنوری 1928میں شائع ہوا۔ اس میں نہایت اعلی پائے کے سائنسی مضامین کی شمولیت ہوتی تھی۔ ڈاکٹر یونس نے ان مضامین کی فہرست درج کی ہے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائنسی علوم کا کوئی بھی زاویہ ایسا نہیں ہے جس کا احاطہ کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ سائنسی رسائل آج بھی نکل رہے ہیں، مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
انجمن نے جنوری 1946 میں طفیل احمد خاں کی ادارت میں رسالہ معاشیات بھی شائع کیا جس کی مجلس نظارت میں ماہرین معاشیات کے علاوہ دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔ اس میں معیشت سے متعلق گراں قدر تحریریں اور تبصرے شائع ہوتے تھے
انجمن نے اپنے دائرہ کار کو وسعت دیتے ہوئے ہماری زبان کے نام سے پندرہ روزہ اخبار یکم اپریل 1939 سے ریاض الحسن کی ادارت میں جاری کیا۔ بعد میں اس کی ادارت سے رفیق الدین اور پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی وابستہ رہے۔ ڈاکٹر یونس نے اس اخبار کے مضامین کی بھی فہرست سازی کی ہے جو یقیناًدشوار طلب کام تھا۔
ڈاکٹر یونس نے اس انجمن ترقی اردو ہند کی 45 سالہ تاریخ کا پورا منظرنامہ ہماری آنکھوں کے روبرو کردیا ہے۔ جس کا قیام 4جنوری 1903 میں عمل میں آیا تھا، جس کے پہلے صدر پروفیسر ٹامس آرنلڈ ( 19اپریل 1864 ۔10جون 1930) اور سکریٹری مولوی محمد شبلی نعمانی 1857-1914)) تھے بعد میں ڈبلیو بیل، نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی ( 1844-1926)سید راس مسعود جنگ بہادر (15 فروری 1889-۔30 جولائی 1937)سر تیج بہادر سپرو ( 1872-1949)جیسے عمائدین بحیثیت صدور، مولوی نذیر احمد 6 دسمبر1831 -1912 -)مولوی ذکا ء اللہ ( یکم اپریل 1832 7نومبر 1910 )مولانا الطاف حسین حالی ( 1837-1914 )نائب صدور، مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی (5 جنوری1846۔11اگست1950 )مولوی عزیز مرزا ( 1864-1912) اور۔ مولوی عبد الحق ( 20اگست 1870۔ 16 اگست 1961۱)اس کے معتمد رہے جن کے زمانے میں انجمن نے خوب ترقی کی۔ انجمن کے دور کمال کی یہ وہ تصویر ہے جو ہمیں حالیہ زوال پر آنسو بہانے کے لئے مجبور کر رہی ہے۔ ماضی اور حال کا موازنہ کرتے ہوئے بس ایک شعر ذہن میں آتا ہے :
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
ہوگئے خاک انتہا یہ ہے
بنارس کا صحافتی افق
یہاں صحافت کا افق بھی درخشاں رہا ہے۔ 1837میں پادری شرسن کی ادارت میں خیر خواہ ہند شائع ہوتا تھا۔ 1849 میں ہربنس لال کی ادارت میں مراۃ العلوم نکلتا تھا۔ راجہ شو پرشاد ستارہ ہند کا بنارس اخبار دیو ناگری میں چھپتا تھا مگر اس کی خوبی یہ تھی کہ الفاظ فارسی کے ہوتے تھے اور اس کے پیچھے مدیر کی منطق بحوالہ مانک ٹالا یہ تھی کہ ’ راجہ کے خیال میں ’ہندی ایک گنوارو زبان تھی اور اسے زیادہ شائستہ بنانے کے لئے عربی، فارسی الفاظ کے دخول کی ضرورت تھی ‘’(پریم چند کا سیکولر کردار اور دیگر مضامین ص 216)
ہفت روزہ آواز خلق بھی بنارس کا اخبار تھا،جس میں پریم چند کا ناول’اسرار معابد‘8 اکتوبر1903 سے یکم فروری1905 تک قسط وار چھپتا رہا۔
جاگرن ونود شنکر ویاس کا پندرہ روزہ اخبار تھا جسے پریم چند نے ہفت روزہ کی شکل میں نکالا۔ 22اگست 1932 میں اس کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ ہنس کا بھی نقطہ آغاز بنارس ہی ہے۔ ’آفتاب ہند‘ بابو کاشی داس مشر کا رسالہ تھا۔ ایک رسالہ اضطراب بھی نکلتا تھا جس کے جولائی اگست 1941 کے مشترکہ شمارے پر رسالہ اردو اکتوبر 1941 میں تبصرہ شائع ہوئے۔ قومی مورچہ اور آواز ملک یہاں کے اہم اخبارات ہیں۔
قومی مورچہ بنارس کا مشہور و مقبول اخبار ہے جس کی ادارت سے تاج الدین اشعر رام نگری جیسی علمی، ادبی شخصیت وابستہ رہی ہے، جو صاحب نظر صحافی کے علاوہ صاحب سوز شاعر بھی ہیں، جن کے کئے شعری مجموعے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں اور صاحبان علم و دانش نے ان کی ستائش بھی کی ہے۔ نالہ ساز (1972)، متاع عقیدت (1997)، موج نسیم حجاز (2009) ان کے مجموعے ہیں۔ ان کے تعارف کے لیے پروفیسر ایم اے حفیظ بنارسی مرحوم سابق صدر شعبہ انگریزی مہاراجہ کالج آگرہ کی یہ سطریں زیادہ موزوں ہوں گی۔ اشعر کی تخلیقی شخصیت کے پس منظر کو جاننا بھی ضروری ہے:
’’تاج الدین اشعر رام نگری بنارس کے اس خاندان کے چشم و چراغ ہیں جو ایک عرصہ دراز سے جہاں ایک طرف علم دین کی تبلیغ و اشاعت میں سرگرم عمل ہے وہیں شعر و سخن اور ادب و صحافت کی بھی گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ جناب اشعر، حضرت مولانا ابومحمد امام الدین رام نگری کے صاحبزادے، آسی رام نگری کے بھتیجے اور شاہد رام نگری کے برادر خورد ہیں۔ یہ تمام حضرات علمی، ادبی دنیا میں اس قدر مشہور و معروف ہیں کہ ان کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا۔‘‘
نعت گوئی جیسی مشکل صنف سخن میں اشعر نے اپنے تخلیقی جوہر دکھائے ہیں۔ چند نعتیہ اشعار سے ان کی فکری طلعت اور اظہاری ندرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
دکھوں کی ماری ہوئی خستہ آدمیت کو
نوید امن و سکون و سلام آپ کا نام
غموں کی دھند میں امید کی چمکتی کرن
بشارت دل ناشاد کام آپ کا نام
سواد لشکر شب سے میں ڈر رہا تھا معاً
چمک اٹھا سر سیمائے شام آپ کا نام
فتح مبین کا نہیں کثرت پہ انحصار
اس کا ثبوت بدر کے میدان سے ملا
ہے بزم تصور میں ضیا بار وہ ہستی
آنکھوں نے جمال رخ انور نہیں دیکھا
ادبی مجلاتی صحافت میں نئی صدی، تحریک ادب اور سبق اردو بھدوئی، سابق ضلع بنارس کے نام لئے جا سکتے ہیں۔
نئی صدی نے عارف ہندی کی ادارت میں جہاں نئی بلندیاں طے کی ہیں وہیں جاوید انور نے تحریک ادب کو اپنی مسلسل محنت سے نیا تحرک بخشا ہے۔ دانش الہ آبادی نے ’سبق اردو‘ کو نئی شناخت عطا کی ہے۔ پہلے یہ رسالہ جدیدیت کے زیر سایہ تھا مگر اب تحویل قبلہ کر کے مابعد جدیدیت کی آغوش میں چلا گیا ہے۔ یہ تمام رسالے ادب کے نئے مسائل و موضوعات کے ذریعہ قاری کے دلوں میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ بنارس جیسی سرزمین میں جو ادبی جمود و تعطل تھا ان رسالوں کی وجہ سے وہ ٹوٹا ہے اور بنارس صحافتی منظرنامے پر اپنی تخلیقی رعنائیاں بکھیرنے میں اب کامیاب نظر آتا ہے۔
بنارس میں جانے کیسی مقناطیسی کشش تھی کہ علی حزیں کی طرح بہتوں نے اس کو اپنی کرم بھومی بنایا اور یہاں کی شام و سحر سے اپنے قلب و نظر کا رشتہ جوڑا ایسی شخصیتوں میں منشی غلام غوث بے خبر بھی تھے جو مرزا غالب کے دوستوں میں تھے۔ فغان بے خبر اور خوننابہ جگر جن کی اہم تصنیفات میں سے ہیں۔ رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ ’’یہ اپنے والدین کے ساتھ بہت کمسنی میں، جبکہ ان کی عمر چار برس کی تھی، بنارس آئے۔‘‘
تذکرہ گلزار ابراہیم کے مصنف نواب علی ابراہیم خاں خلیل اسی شہر میں جج کے منصب پر فائز تھے۔ حیدر بخش حیدری کی پرورش بھی اسی شہر میں ہوئی، جنہوں نے ’’قصہ مہر و ماہ‘‘ لکھا۔
’فسانہ عجائب‘ والے رجب علی بیگ سرور مہاراجہ ایشور پرساد نارائن سنگھ کی طلبی پر بنارس آئے اور یہیں شبستان سرور، فسانہ عبرت، گلزار سرور (فارسی کتاب حدائق العشاق) جیسی کتابیں لکھیں اور بنارس ہی میں 1867 میں فاطمان میں دفن ہوئے۔
بنارس وہ شہر ہے جس کی عظمتوں کو مثنویوں اور فلموں کی شکل میں بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ غالب نے چراغ دیر، لالہ متن لال آفریں نے کاشی استت اور ہدایت نے طویل مثنوی لکھی۔
Banaras A Mystic Love story کے نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی جس میں ارملا ماتونڈکر نے ایک مالدار برہمن والدین کی بیٹی کا کردار ادا کیا ہے جو نچلی ذات کے ایک لڑکے کی محبت میں گرفتار ہے۔
Article:Banaras ki takhleeqi subha
Written by:Haqani al Qasmi
Cell 09891726444:
email :