یقیں محکم ‘ عمل پیہم ‘محبت فاتح عالم
امتحانات کے زمانے میں اکثر طلبا عجیب و غریب حرکت کرتے ہیں۔انہیں اس بات کا خوف کھاے جاتا ہے کہ اگر ہم اچھے گریڈ سے کامیابی حاصل نہیں کرپاے تو؟ہم ناکام ہوگئے تو؟ہمارے کیریر کا کیا ہوگا؟میرے والدین کیا سوچیں گے؟خاندان میں ہماری ناک کٹ جاے گی۔یہ خوف دراصل ان طلبا کو ہوتا ہے جو سال بھر پڑھائی نہیں کرتے لیکن امتحانات سے عین قبل وہ پڑھائی شروع کردیتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ امتحانات کے زمانے میں مسجدوں میں طلبا کی کثیر تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔ مندروں اور گرجا گھروں میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ہم عبادات کے خلاف نہیں مگر صرف امتحان میں امتیازی کامیابی حاصل کرنے کے لیے عبادت کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
بچے ‘اپنے گھر سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔گھر میں جس سوچ و خیال کے بڑے لوگ ہوں گے‘ بچوں میں بھی وہی خیالات پنپنے لگیں گے۔ماں نے منت مانگی کہ اگر بچہ امتحان میں پاس ہوگیا تو وہ فلاں بابا کی درگاہ پر چادر گل چڑھاے گی۔باپ اپنے مرشد سے تعویذ بنا لاے گا اور بچے کے گلے میں باندھ دے گا اور اطمینا ن دلاے گا کہ ببچے کی کامیابی کو کوئی روک نہیں سکتا۔ذرا غور کیجیے کہ اگر اس طرح سے بچے کی ہمت افزائی کی جاے گی تو کیا بچہ امتحان میں بغیر پڑھے لکھے کامیاب ہوجاے گا ؟ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچوں کو حقیقت سے آگاہ کریں اور یہ بتائیں کہ امتحان میں صرف پرچہ صحیح حل کرنے سے ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
اوپر کی تصویر کو ذرا غور سے دیکھیں ۔یہ ایک درگاہ کی تصویر ہے۔ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر نے یہ تصویر کھینچی ہے۔درگاہ شریف کے دروازے کے سامنے طلبا کے امتحانی ہال ٹکٹس کی زیراکس کاپیاں لٹک رہی ہیں۔ان معصوم بچوں کو یہ امید ہے کہ ان بزرگ کی دعا اور برکت سے ان کے امتحانات اچھے گزر جائیں گے اس لیے انہوں نے اپنے ہال ٹکٹ یہاں باندھ رکھا ہے۔رپورٹر نے لکھا ہے کہ یہ کیسی بے وقوفی ہے کہ یہاں مدفون بزرگ ان ہال ٹکٹس کو دیکھیں گے اور ان طلبا کو امتیازی کامیابی عطا کریں گے۔۔۔! حد تو یہ ہے کہ میرے طالب علمی کے زمانے میں میرے ہاسٹل کے احاطہ میں ایک درگاہ تھی۔انجینیرنگ پڑھنے والے کچھ طلباء رات میں اپنی کتابیں درگاہ کے اندر اس امید سے رکھتے تھے کہ بزرگ کی برکت سے ان کا پڑھا ہوا یاد رہے گا۔اس درگا کا متولی ایک نان میٹرک نوجوان تھا‘اس سے امتحان میں آنے والے سوالات دریافت کیا کرتے تھے اور وہ اندھا دھند کتاب کے مشقی سوالات کی نشاندہی کرتا تھا اور وہ ان ہی سوالات کی تیاری کیا کرتے تھے۔۔۔نتیجہ یہ ہوا کہ چار سال کا انجینرنگ کورس آٹھ آٹھ سال میں بھی مکمل نہیں ہو پاتا تھا۔
ہم یہاں مسلکی بحث میں الجھنا نہیں چاہتے مگر بڑے بزرگوں سے ایک گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کی اس طرح ذہن سازی نہ کریں۔بچوں میں سائنٹفک اپروچ کو بڑھاوا دیں۔انہیں سمجھائیں کہ کامیابی محنت کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔پڑھنا لکھنا ہی صحیح طریقہ کار ہے۔جب تک وہ پڑھے لکھیں گے نہیں اس وقت تک وہ کامیابی کے منازل طئے نہیں کرسکتے۔آج کا دور مسابقت کا دور ہے۔ہم محنت نہیں کرکے صرف یہ الزام نہیں لگا سکتے کہ میرے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے‘مسلمانوں کو ناکام کیا جاتا ہے‘ہماری کون سنتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہ سب بہانے ہیں ۔میں نے ایک کالج کے ذمہ داروں سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کے کالج سے غیر مسلم طلبا ہی اعلیٰ ترین رینک حاصل کرتے ہیں ۔کبھی کسی مسلم بچے نے ٹاپ کیوں نہیں کیا؟۔پرنسپل نے مجھے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ’’مسلم بچے محنت نہیں کرتے‘‘۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ پرنسپل جان بوجھ کر مسلم بچوں کی ہمت شکنی کررہا ہو۔۔۔۔لیکن یہ توحقیقت ہے۔ ہمارے بچے تعلیم و تربیت میں دیگر قوم کے بچوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔جب ہم مقابلے کی سکت نہیں ہے تو ہم دعاوں ‘ تعویذوں‘گنڈوں اور دیگر ذرائعوں پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔۔۔ظاہر ہے کہ ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔طلباء و طالبات سے استدعا ہے کہ وہ صرف پڑھائی پر توجہ دیں۔صبح تڑکے اٹھیں ‘نماز پڑھیں پھر اپنی پڑھائی شروع کردیں۔جس طرح ایک جانباز سپہ سالار اپنی قوت بازو سے جنگ جیتتا ہے اسی طرح امتحان میں کامیابی صرف اور صرف پڑھائی کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے کامیابی کی کلید حاصل کرنے کا بہت خوب صورت نسخہ بتایا ہے۔
یقیں محکم‘ عمل پیہم‘ محبت فاتح عالم
جہادِزندگانی میں یہ ہے مردوں کی شمشیریں