شرحِ دیوانِ غالب کا تجزیہ@پروفیسر مجید بیدار

Share

غالبشرحِ دیوانِ غالب۔ از۔علامہ ضامن کنتوری

مرتبہ : پروفیسر اشرف رفیع

تجزیہ : پروفیسر مجید بیدار

سابق صدر شعبۂ اردو ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد

تحقیقاتی ادب میں تدوین متن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تدوین کا ایک مرحلہ شرح و بسط کے ساتھ تفہیم کا ادا کرنا بھی اہم ہے، جسے شرح نگاری کہا جاتا ہے۔ متصوفانہ خیالات اور شعری نزاکتوں کے ذریعہ دکن میں شرح نویسی کا آغاز ہوا۔ شرح نگاری میں ایجاز و اختصار ہی نہیں، بلکہ کم سے کم الفاظ میں معنی و مفہوم کی پیش کشی کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اردو دنیا میں شرح لکھنے والے مصنّفین کی کمی نہیں۔ دکنی دور سے وابستہ صوفیائے کرام اور بزرگانِ دین نے اسلام اور تصوف کے اہم نکات کی تشریح کے لیے شرح نگاری کی بنیاد رکھی، جس کا ثبوت دکن کی سرزمین میں لکھی جانے والی کتاب ’’شرحِ تمہیداتِ ہمدانی‘‘ سے ملتا ہے۔ غرض شرح نویسی کی بنیادیں دکن کی سرزمین میں مستحکم ہوئیں۔ دکنی دَور کے بعد اٹھارہویں صدی میں شرح نویسی کو خصوصی وصف حاصل ہوا۔ آج کے دور میں بھی فکر و فراست سے وابستہ افراد ، پیچیدہ اور غیرمعروف معاملات کی وضاحت کے لیے شرح کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ اردو شاعری میں

مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا کلام افکار کی ہمہ گیری اور معنویت کی بے شمار جہتوں سے مالامال ہے۔ غالب کا کمال یہی ہے کہ انہوں نے شاعری کے توسط سے لفظوں کی بندشوں پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ معنویت کے اسرار و رموز کو اشعار کی روح میں شامل کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ایک ایک مصرعے اور ایک ایک شعر میں معنی کی بے شمار دنیائیں آباد ہیں۔ مختلف ادوار میں مختلف فکر و دانش سے وابستہ حضرات نے غالب کی شاعری کے ہمہ جہتی پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے شرحِ دیوانِ غالب کی تحریر پر خصوصی توجہ دی اور یہ سلسلہ عصر حاضر تک جاری و ساری ہے۔ شہر حیدرآباد سے وابستہ ہونے کے بعد دو اہم
شاعروں نے غالب کے کلام کی شرح لکھنے کی طرف توجہ دی۔ ایسے ہی اہم شارح حیدرآباد میں سپردِ خاک ہونے والے حضرت علامہ ضامن کنتوری ہیں، جن کی لکھی ہوئی کلامِ غالب کی تشریحات کو مربوط و منضبط انداز سے یکجا کرکے پروفیسر اشرف رفیع نے شائع کیا ہے۔ ’’شرحِ دیوانِ غالب‘‘ کا یہ نسخہ حد درجہ ضخیم ہے، جو خوبصورت جلد اور معنوی پرتوں کو کھولنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس ضخیم شرح میں پروفیسر اشرف رفیع نے سید محمد ضامن کنتوری کے مکمل سوانحی حالات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیقی پس منظر میں اس شرح کی اشاعت سے قبل دیوانِ غالب پر لکھی جانے والی تمام شروحات کے عنوانات اور ان کے لکھنے والوں کے ناموں کی تفصیلات درج کرتے ہوئے ان کے عہد کا بھی تعین کیا ہے۔ دکن کی نامور محقق خواتین میں پروفیسر اشرف رفیع کا شمار ہوتا ہے، جن کے شاگردوں کے تحقیقی کارنامے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو سے وابستگی کے دوران انھوں نے دو مرتبہ صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے اردو ادب کی تحقیقی خدمت انجام دی۔ علمی و ادبی تحقیقات میں پروفیسر اشرف مستند اپنے کارناموں کی وجہ سے شناخت رکھتے ہیں۔ ’’شرحِ دیوانِ غالب‘‘ کیا یہ ایڈیشن ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیا ہے۔ سرورق کے بعد ضامن کنتوری کی تصویر اور ان کی تاریخ پیدائش ۱۸۷۵ء ؁ اور تاریخ وفات ۱۹۴۶ء ؁ درج کی گئی ہے۔ سید محمد ضامن کنتوری کی پوتی سیدہ مجیدہ ضامن اور ان کے ماموں رکن الدین احمد کے نام کتاب معنون کی گئی ہے، جو غلام دستگیر ابر کے صاحبزادے ہیں۔ مشمولات کے بعد ایک صفحہ پر ضامن کنتوری کی تحریر کے نقش کی نقل شامل ہے، جس کے بعد پروفیسر اشرف رفیع کا جامع مقدمہ ضامن کنتوری کے دور کی ادبی سرگرمیوں کے احاطہ کے پس میں تحریر کیا گیا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر محمد ضیاء الدین شکیب کے توسط سے ضامن کنتوری کی ’’شرح دیوانِ غالب‘‘ تک رسائی اور ان سے قبل غالب کے کلام پر لکھی ہوئی گیارہ شرحوں کے تعارف کے ساتھ بتایا ہے کہ ضامن کنتوری بذاتِ خود اچھے شاعر تھے۔ وہ ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ ناسخ کے شاگرد سے مشورہ سخن کیا اور حیدرآباد آئے تو اس دور کے سرمدِ دکن احمد حسین امجد سے مشورۂ سخن کیا۔ حیدرآباد میں ۱۸۸۳ء ؁ میں آمد کے بعد ادبی صحافت کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ غزلوں اور نظموں کے علامہ انگریزی کی کئی نظموں کے رواں ترجمے پیش کیے۔ ان کی انگریزی نظموں کا ترجمہ ’’ارمغانِ فرنگ‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ شعری ترجمہ کے دوران ضامن کنتوری کی فنی مہارت کے ذکر کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں کے تعارف کو بھی اشرف رفیع نے مقدمہ میں شامل کیا ہے۔ ضامن کنتوری کی شرح نگاری پر گرفت اور غالب کے اشعار میں لفظوں کے ذریعہ مفہوم کی ترسیل پر توجہ دیتے ہوئے پروفیسر اشرف رفیع نے مختلف ادوار کے شارحین نے غالب کی ترسیل کے لیے جن محاسن کا سہارا لیا ، اس کا تقابلی جائزہ بھی مقدمہ میں اپنے وقار کا ضامن بنایا ہے۔ پروفیسر اشرف رفیع نے ضامن کنتوری اور نظم طبا طبائی کی تشریحات کے دوران شرحی اصولوں کو بطورِ تقابل پیش کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ نظم طباطبائی نے بعض اشعار کی شرح کے دوران چار صفحات کا احاطہ کیا ہے، جب کہ بعض اشعار کی تشریح صرف دو تین سطروں میں مکمل کردیا ہے، جب کہ ضامن کنتوری کی تحریر کردہ شرحِ دیوانِ غالب کی خوبی یہی ہے کہ شعر کی تشریح کے ساتھ غالب کی فکر کے شعری سانچے میں ڈھلنے کے تمام مراحل کا احاطہ اس شرح میں شامل ہے۔ شاعری میں آمد و آورد کی نمائندگی ہی نہیں، بلکہ فصاحت و بلاغت کے فکرانگیز رویے بھی ضامن کنتوری کی ’’شرحِ دیوانِ غالب‘‘ میں اپنے جلوے دکھانے میں ضامن کنتوری سے قبل دیوانِ غالب کی تحریرکردہ شرحوں میں موجود ترسیلی فقدان کی طرف اشارہ کرکے ضامن کنتوری کی شرح کو مکمل اور واضح شرح کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ضامن کنتوری نے اپنی شرح کے دوران مسودہ کی کاپی کی تبدیلی اور قلم کی تبدیلی کو مصدقہ بنانے کے لیے اختیارکردہ رویے کو بھی مقدمہ میں شامل کیا گیا ہے، کیوں کہ اسی کے توسط سے تحقیق کے لیے اختیار کردہ رویے کا پتہ چلتا ہے۔ چھ سو صفحات پر مشتمل یہ ضخیم اور جامع ’’شرح دیوانِ غالب‘‘ درحقیقت کلامِ غالب کی پیچیدگیوں کو آسان کرنے اور لفظ و معنی کے رشتوں کو قائم کرکے قاری کو معنویت سے وابستہ کرنے والا حددرجہ اہم ذخیرہ ہے۔ ایسے تحقیقی کام کو بلاشبہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ غالب کی غزلوں اور متفرقات کو ہی اس شرح میں شامل نہیں کیا گیا، بلکہ ضامن کنتوری کی شرح نگاری کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے شرح نویسی کے دوران پیچیدہ لفظیات کے معنی کی پذیرائی کے ساتھ غالب کی شاعری میں شامل بعض نامقبول موضوعات کو بھی وضاحت کی حیثیت سے شامل کیا ہے، جیسے ضامن کنتوری نے ’’دعوتِ مژگاں‘‘ جیسی ترکیب کو غالب کی نامقبول ترکیب سے تعبیر کیا ہے اور اس کے بجائے ’’زینتِ مژگاں‘‘ کی ترکیب کو پسند کیا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ’’شرحِ دیوانِ غالب‘‘ میں موجود ہیں، جن کے مطالعہ سے نہ صرف غالب کی شاعری کا فہم و ادراک حاصل ہوتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہی غالب کے استعمال شدہ تراکیب کی معنویت کے رانے بھی کھلتے ہیں۔ غالب کی پیچیدہ تراکب کی ہمہ گیری کے علاوہ ان عصری ضرورت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اردو کے بہت کم شارحین نے غالب کی لفظیات پر گرفت کی ہے۔ ضامن کنتوری نے تراکیب پر گرفت کرکے غالب شکنی کا کام انجام نہیں دیا، بلکہ شاعری میں حسن کاری کے وجود کی نمائندگی کی ہے۔ لفظوں اور تراکیب کی میناکاری سے کام لیا جائے تو خیال کی وسعت اور فہم کی باریکی نمایاں ہوتی ہے۔غرض تفہیم کے لیے شعر میں جس قدر حسن کاری کی جائے گی اسی قدر شعر میں جامعیت اور انفرادیت کی شمولیت ممکن ہے۔ اس پس منظر میں سید ضامن کنتوری نے غالب کی شرح کے دوران کئی مقامات پر ان کے خیال کی تائید و حمایت کی ہے تو کئی جگہوں پر مخالفت بھی انجام دی ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ضامن کنتوری نے یہ شرح پرستارِ غالب ہوکر نہیں لکھی، بلکہ غالب کے ایک نقاد کی حیثیت سے غالب کے کلام کے تجزیہ پر توجہ دی ہے۔ اسی وجہ سے سید ضامن کنتوری کی لکھی ہوئی ’’شرحِ دیوانِ غالب‘‘ کو اردو کی دوسری شرحوں سے بالکل مختلف شرح قرار دیا جائے گا، جس کی ترتیب و تدوین کا فریضہ انجام دے کر پروفیسر اشرف رفیع نے غالب کی شعری تفہیم کو ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ اس طرح غالب کی شرح کے ایک بیش بہا ذخیرے کو ضائع ہونے سے بچالیا ہے، ورنہ وہ قلمی نسخہ اپنی تحریر کے ساٹھ سال بعد بھی اشاعت سے محروم تھا۔ اردو کی محقق اور استاد کی حیثیت سے انہوں نے ایک عظیم فن پارہ کو تباہی و بربادی سے بچاکر تحقیق کی خدمت انجام دی ہے۔ اسی لیے پروفیسر اشرف رفیع کو اس جامع تفہیم و ترسیل کی شرح کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی جانی چاہیے۔ اس ضخیم نسخہ کا پہلا ایڈیشن ۲۰۱۲ء ؁ میں شائع ہوا۔ اس خوبصورت مجلد ایڈیشن کی قیمت طلباء کے لیے آٹھ سو روپئے اور لائبریری ایڈیشن بارہ سو روپئے مقرر ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر اشرف رفیع کی اس خدمت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے سید ضامن کنتوری کے انتقال کے ۶۰ سال بعد ’’شرحِ دیوانِ غالب‘‘ کی اشاعت کی ذمہ داری پوری فرمائی ہے، جسے اردو محققین کے ذمے موجود قرض کی ادائیگی کا پیش خیمہ قرار دیا جائے گا۔ جامعہ عثمانیہ کے نامور سپوت اور خاتون محقق کی جانب سے اس کام کی تکمیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر اردو کے محققین کو جگانے اور سلامت روی کے ساتھ کام کی تکمیل کا جذبہ دکن کے محققین کی خصوصیت ہے اور یہ کارنامے دکن کے مرد حضرات ہی نہیں بلکہ خواتین بھی انجام دینے میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔ ایسی ہی دکنی خواتین میں پروفیسر اشرف رفیع کا شمار ہوتا ہے۔ غرض ’’شرح دیوانِ غالب‘‘ کی تدوین پر وہ سارے اردوداں طبقہ کی جانب سے مبارکباد کی مستحق ہیں۔
bedarM
Article:sharha ghalib ka tajzia
written by Prof Majed Bedar
09441697072

Share
Share
Share