انفارمیشن ٹکنالوجی اوراُردو
یہ کائنات ہے۔ یہاں کن فیکون کی صدائیں اب بھی گونجتی رہتی ہیں دنیا ٹوٹتی پھوٹتی رہتی ہے پھرایک نئے جہاں کی تخلیق ہوتی ہے۔ لوگ آتے اور جاتے ہیں ۔حادثات رونما ہوتے ہیں۔ نئے واقعات ترتیب پاتے ہیں اور یہ سب کچھ ’’سلسلہ روز وشب‘‘ کے مصداق چلتا رہتا ہے ۔زندگی کبھی تھمتی نہیں ہے اور اس کے سرمایے میں کمی وبیشی ہوتی رہتی ہے۔ عصر حاضر کے سرمایہ حیات میں انفارمیشن ٹکنالوجی کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
ابلاغ‘ خالق کائینات کی سنّت رہی ہے۔ تبھی تو یہ کائینات اور اس میں موجود ایک ایک شئے میں اسی کاجلوہ نظر آتا ہے۔ اور جب بھی انسانوں کے لیے کوئی خصوصی ہداہتیں دنیا مقصود ہوتا ہے تو وہ اپنے منتخب بندوں پر صحیفے نازل فرماتا ہے اور یہ ترسیل حضرت جبرئیل کے ذمہ تھی گویا حضرت جبرئیل انفارمشین ٹکنالوجی کا سب سے قدیمAccurate اور سریع الرفتار ٹول رہے ہیں۔ جس کا بین ثبو ت ہے کہ پلک جھپکتے میں حضرت ابراہیمؑ کو نارنمرور سے بچانا ہے اور حضرت اسمعیل کی جگہ دنبہ کا حلال ہونا ہے۔
اللہ کی یہی سنت انسانوں کی سرشت میں ودیعت کرگئی ہے اور نقل کرنا تو انسان کی فطرت ثانی ہے۔ ویسے انسان بغیر کچھ کھائے پیئے کچھ دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن بات چیت کئے بغیر ایک دن بھی زندہ رہنا مشکل ہے کوئی اور نہیں تو کم از کم خود سے ہی گفتگو کرکے حیوانِ ناطق ہونے کا حق ادا کرے گا۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ا بھی حرف ولفظ کا وجود عمل میں نہیں آیا تھا مختلف اشکال ‘خاکے اور آوازوں کی مدد سے کامیاب ترسیل کی جاتی تھی پھر حسب ضرورت مختلف آلات بنائے گئے ۔پتھر‘ چرم‘ ڈھول یہ سب کچھ اپنے دور کی انفارمیشن ٹکنالوجی ہی تو ہیں پھر حر ف ولفظ بنے زبان کا ارتقاء ہوا‘ کاغذ ایجاد ہوا ‘پرنٹنگ شروع ہوئی تو ترسیلی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ بیسویں صدی تو سائنسی ایجادات کی صدی ہے اس لیئ معلومات کے حصول میں انسان غیر معمولی خدمات انجام دینے لگا۔
وہ بھی کیا دن تھے جب لوگ سرجوڑ کر بیٹھتے تھے آپس میں تبادلہ خیال ہوتا تھا ‘ حال چال دریافت کرتے تھے اور اپنے معلومات کوایک دوسرے تک پہچاتے تھے۔ ترسیل کا یہ Manual طریقہ مستند بھی تھا اور معتبر بھی ۔۔ آج انسانوں کے بجائے میشن سرجوڑ کر بیٹھتی ہیں اور ایک شخص وقت واحدمیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں کمپیوٹر ز سے جڑجاتا ہے ۔ پھر انفارمشین کا بڑے پیمانے پر تبادلہ عمل میں آتا ہے اس کے باوجود انسان ’’آج شبیر پہ کیاعالم تنہائی ہے‘‘ کے مصداق ہجوم میں بھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے اور کبھی کبھی یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ آفاق میں گم ہے یاگم ہے اس میں آفاق دراصل یہی اقدار انسانوں کو مشینوں سے ممیز کرتی ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی ہے کیا؟ کیا اس کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا؟ ٹکنالوجی دراصل کسی کام کو انجام دینے کا ایک فن ہے اس میں تکنیکی نظام کی کارفرمائی ہوتی ہے تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ابتدء میں انسان نے شکار‘ جنگ‘ زراعت کے لیے جو کچھ اوزار او رہتھیار بنائے ہیں اس کے پیچھے کوئی سائینسی منطق نہیں تھی بلکہ ضرورت ‘ذاتی تجربے اور سعی وخطا کے فارمولے کے تحت وہ اوزار بنائے گئے تھے لیکن آج ہم ٹکنالوجی کی اس صحرا میں بھٹک رہے ہیں جہاں ایک ٹکنالوجی دوسری ٹکنالوجی کو جنم دیتی ہے۔
آج کا دور ٹکنالوجی کا دور ہے۔ میڈیا کا دور ہے اور اس انفارمیشن ٹکنالوجی کا سب سے بڑا ہتھیار کمپوٹر او ر انٹرنیٹ ہے ‘انٹرنیٹ نہ کوئی سوفٹ ویر ہے او رنہ ہی ہارڈویر بلکہ یہ مختلف کمپیوٹروں کے باہمی ربط کا نام ہے۔ انٹرنیٹ کا سب سے پہلے باقاعدہ استعمال امریکہ کے محکمہ دفاع نے کیا تھا جسے انھوں نے Advance Research Project Agency (ARPnet) کا نام دیا تھا یہ کا م بیسویں صدی کے چھٹی دہائی کے آخری حصہ میں انجام دیا گیا پھر1922ء تک انھوں نے چالیس کمپیوٹرنٹ ورکس کو باہم مربوط کردیا اور یہ سلسلہ اس قدر آگے بڑھا کہ یوروپ کے بعد ساری دنیامیں پھیل چکا تھا اور آج کروڑوں لوگ اپنے کمپیوٹروں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابط قائم کیئے ہوئے ہیں۔
کمپیوٹرز کی کئی نسلیں آباد ہوئیں ہر ایک نے اپنی بساط بھر کوشش کی اب لیب ٹاپ بھی قدیم ہونے لگے اب تو ٹیلبیٹ پی سی کا زمانہ ہے۔ یہ ایک ایسا ایڈاونس کمپیوٹر ہے جو وائس چیاٹ کی مکمل ریکارڈنگ بھی کرتا ہے۔ یہ ماوس اور کی بورڈ سے آزاد ہوتا ہے اس میں براہ راست اسکرین پر ڈیجیٹل سیاہی سے لکھا جاتا ہے۔ ٹبلیٹ پی سی کو مارکٹنگ کمپنیاں بڑے پیمانے پر استعمال کرتی ہیں پھر یہ صحافیوں کے لیے بھر بڑی کار آمد چیز ہے۔ اس کے علاوہ موبائل فون نے بھی انفارمیشن ٹکنالوجی میں انقلاب برپا کیا ہے ابھی ہندوستان میں 2G اسکینڈل پر مباحثے جاری ہے جبکہ موبائل 4G مارکٹ میں آنے کو تیار ہے Iphone کیا کسی کمپیونٹر سے کم ہے؟
انفارمیشن ٹکنالوجی نے ہماری سرگرمیوں کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے ۔ تعلیم صحت‘ کامرس‘ صنعتیں‘ سیاحت‘ ادب وثقافت‘ رقص و موسیقی غرض کو ن سا ایسا شعبہ ہے جہاں انفارمشین ٹکنالوجی کی مداخلت نہ ہو۔ بلکہ فرانسیسی فلا سفر ثراک ایلوک کا کہنا ہے کہ ’’ٹیکنالوجی ایک پراسرار قوت ہے اس لیے اس پر قابو حاصل نہیں کیاجاسکتا ٹیکنالوجی تہذیب کی تباہی کا باعث ہے۔ یہ ناقابل عذر اور ناگزیر طورپر انسانی وقار کے ہر پہلو کو تارتار کررہی ہے اور ہر قابل لحاظ قدر کو منع کررہی ہے۔ یہ خدشہ کسی حدتک درست بھی ہے۔
اردوسماج‘ تیز رفتار تبدیلیوں کو قبول کرنے میں بڑی احتیاط برتتا ہے پہلے وہ دورسے دیکھتا ہے ‘ سنتا ہے ‘ پرکھتا ہے ‘چکھتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس جانب آگے بڑھ تا ہے۔ اب انٹرنیٹ اردو کے لیے اجنبی نہیں رہا۔ بیسوں اردو کے ویب سائٹ آسانی سے دستیاب ہیں۔ بیشتر شعرأ اور ادباء کاکلام ‘مضامین‘ مقالے‘ ناول وافسانے اور بے شمار اردو کی کتابیں آپ کو انٹرنیٹ پر مل جائیں گی۔ بلکہ کئی ایک انٹرنیٹ رسائل بھی منظر عام پر آئے ہیں۔دنیا بھر سے شائع ہونے والے اُردو اخبارات اور رسائل کو بالکلیہ مفت‘ انٹرنیٹ پر مطالعہ کیا جاسکتا ہے کئی مشہور شعرأ کاکلام بزبان شاعر انٹرنیٹ پر دستیاب ہے ۔بے شمار ڈرامے خصوصاََ پاکستان کے مشہور کلاسیکل اور مزاحیہ ڈرامے ہمیشہ انٹرنیٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں پاکستان سے ’’کمپیوٹنگ‘‘ نام سے ایک اہم رسالہ اُردو میں شائع ہورہا ہے جوکمپیوٹر اور انفارمشین ٹکنالوجی سے متعلق بھر پور معلومات اردو دنیا تک پہنچا رہا ہے ITQalam.com پر خود کو رجسٹر کیجئے اور اُردو دنیا سے جڑجائیے۔آپ کو ہر قسم کا مطلوبہ مواد آسانی سے مل جائے گا ادب تو Inpage کا نیا Version بالکل مفتdownload کیا جاسکتا ہے اور MSWord میں اسی طرح اردو کمپوز کیجئے جیسے انگریزی میں کرتے آئے ہوں۔اب تو ای میل بھی اردو میں بھیجے جاسکتے ہیں +facebook ‘ twitter‘WhatsApp‘Google اور Hi5 اور کئی ایک سوشیل میڈیا پراردو میں شعر وادب کو بہتر طورپر پیش کیا جاسکتا ہے سچ تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ نے ادب کو جدید عصری امکانات سے روشناس کرایا ہے ادیب وشاعر کے لیے بے شمار موضوعات انٹرنیٹ کے توسط سے مل جائیں گے۔ تحقیق وتنقید کے لیے دو دراز کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ آپ گھر بیٹھے دنیا کی بڑی بڑی لائبرریوں کی کتابیں او رمخطوطات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں آج سے چند سال قبل کافی ہاوس اور چائے خانے اردو ادب کے بڑے مرکز ہوا کرتے تھے آج وہی حیثیت سوشیل نیٹ ورک سائنس کی ہوگئی ہے کیوں کہ سوشیل نیٹ ورک سائٹیوں‘فورم اور بلاگ مائیٹس میں اردو شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے ۔ادبی ویب سائٹس‘ ان لائن رسالے اور لائبریریوں نے اردو ادب کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا ہے اب نہ دوریاں رہی اور نہ سرحدیں باقی ہیں بلکہ صحیح معنوں میں ساری دنیا ایک عالمی گاوں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ google ٹراسلیٹر نے اور بھی آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ کسی بھی زبان کا مواد اُردو میں اور اُردو کا مواد کسی بھی زبان میں محض ایک اشارے پرترجمہ ہوسکتا ہے گوکہ یہ لفظی ترجمہ ہوتا ہے مگر پھر بھی یہ مواد اردو والوں کے لیے نعمت سے کم نہیں۔محض انفارمشین ٹکنالوجی کی بدولت اردو میں فاصلاتی طرز تعلیم بے انتہا مقبول ہورہی ہے بلکہ اب تو eclasses اور etution کا زمانہ آگیا ہے۔
میں اُردو کے طلبہ سے مخاطب ہوں۔ خدارا آپ پست ہمت نہ ہوں اور یہ نہ سوچیں کہ آپ اُردو سے وابستہ ہیں تو دیگر مضامین پڑھنے والوں سے پیچھے ہیں اپنے آپ پر یقین کرنا سیکھئے اپنی مخفی صلاحیتوں کو پہچانئیے اور عصری ٹکنالوجی میں مہارت پیدا کیجئے تخلیقی صلاحیتوں کوفروغ دیجئے تجزیہ اور تنقید کی عادت ڈالیے۔ تقابلی مطالعہ کیجئے ایک سے زائد زبانیں سیکھئے پھر روزگار کے بے شمار دروازے آپ کے منتظرہوں گے۔ آج ہندوستان میں ہندی اور انگریزی کے بعد اُردو اخبارات اور رسائل سب سے زیادہ شائع ہوتے ہیں جن کی تعداد 3186 ہے۔ سینکڑوں ریڈیو اسٹیشن اردو سروس پیش کررہے ہیں ۔FM ریڈیو نے گویا ہنگامہ برپاکر دیا ہے Satlelite Radio بھی دستیاب ہے ٹی وی کے سو سے زائد اُردو چینل ساری دنیامیں ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا ہوکہ الکٹرانک میڈیا اُردو کے بغیر سب ادھورے ہیں۔ فلموں کے مکالمہ اور نغمے اردو زبان کے محتاج ہیں۔ ٹی وی کے مشہور ومقبول سیریل محض اُردو کی چاشنی کے بدولت آگے بڑھ رہے ہیں۔ اشتہارات کی دنیااردو زبان کے بغیر نامکمل ہے۔ اپنی آواز‘ اپنا چہرہ‘ اپنے لفظوں کو سلیقہ سکھائیے اور انفارمنشن ٹکنالوجی سے استفادہ کیجئے پھر بے شمار ملازمتیں آپ کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ اونچے عزائم رکھیئے نگاہ بلند کیجئے پھر کامیابی آپ کے قد م چومے گی۔ میر ا لڑکا ابھی اسکول میں پڑھتا ہے مجھ سے کہیں زیادہ کمپیوٹر کا بہتر استعمال کرناجانتا ہے حالاں کہ میں نے 1986ء میں کمپیوٹرپراگرامنگ سیکھی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ چند برسوں میں ہمیں کمپیوٹر‘ لیاپ ٹیاپ‘ ٹی وی اور فون اٹھاےء پھرنے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ ہم انگلی کے اشارے سے ہوا میں ایک خاکہ بنائیں گے پھر ایک اسکرین نمودار ہوجائے گا جس سے بیک وقت ٹی وی‘ ریڈیو‘ کمپیوٹر اور فون کے کام لیے جائیں گے۔ میری خوشی اور حیرت کو اس وقت تقویت پہنچی جب میکسیکو کے ممتاز فلمساز لوٹس بونیل نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ میرے خیال میں فلم کی موجودہ تکینک اور اس کی نمائش کا طریقہ کار بہت جلد از کاررفتہ ہوجائے گا کیوں کہ فلمیں ٹیکنالوجی پرکچھ زیادہ ہی انحصار کرتی ہیں ۔مستقبل میں ایسی ٹکنالوجی کا امکان دیکھ رہا ہوں جب فلمیں ایک چھوٹی سی گولی کے ذریعہ دیکھی جائیں گی جو آپ کھالیا کریں گے پھر آپ اندھیرے میں بیٹھ جائیں اور خالی دیوار پر اپنی آنکھوں سے وہ فلم پر وجیکٹ کریں جو آپ دکھانا چاہتے ہیں ‘‘ مستقبل کی ایسی ٹکنالوجی کو استعمال کرنے کے لیے کیا آپ تیار ہیں؟؟؟
***
Article:Information Technology and Urdu
Written by Dr.Syed Fazlullah Mukarram