پروفیسرمجید بیدارکی تصنیف کے حوالے سے
اردو کی شعری و نثری اصناف
ادبی اصناف کا تذکرہ کرتے ہی استاد محترم پروفیسر گیان چند کی یاد آجاتی ہے جنھوں نے’’ اصنافِ ادب ‘‘ کے نام سے معرکۃ الاآرا تصنیف اپنی یاد گار چھوڑی ہے۔ان ہی کی نگرانی میں میرے ایک سینئر دوست جناب نصرت مہدی اردو میں اصنافِ ادب کے موضوع پر پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ تحریر کررہے تھے۔ایک عرصے سے وہ اپنے کام کو سمیٹ رہے تھے اور ٹائپنگ بھی ہوچکی تھی مگر افسوس ان کا مقالہ داخلہ دفتر بھی نہیں ہوپایا تھا کہ وہ اس دنیا سے اچانک رحلت کرگئے اور ڈاکٹر گیان چند جین بھی نہیں رہے ۔اب بھی یہ مقالہ جناب نصرت مہدی کے گھر پر کہیں پڑا ہوگا۔یہ ایک ضمنی بات تھی جو مجھے پروفیسر مجیدبیدار کی تازہ تصنیف دیکھنے پر یاد آگئی۔
پروفیسر مجید بیدار ایک کہنہ مشق ادیب ‘نامور محقق‘معتبر نقاد اور ایک مشفق استاد ہیں۔ان کی کئی ایک تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔گزشتہ دنوں ان کی تصنیف ’’ اردو کی شعری و نثری اصناف‘‘ منظرِ عام پر آئی جو موضوع اور مواد کے اعتبار سے اہمیت کے حامل نظر آتی ہے۔بلا شبہ اصنافِ ادب پر بہت کم لکھا گیاہے ۔دوچار کتابوں کے علاوہ اور کہیں مواد نہیں ملتا۔مصنف نے اپنی تصنیف کو دو بڑے زمروں یعنی شعری اصناف اور نثری اصناف میں منقسم کیا ہے۔ابتداء میں انھوں نے شاعری کے دو مختلف اندازپربھرپور لیکچر دیا پھر شاعری کے تحت جملہ اکیس اصناف کو پیش کیا جس میں موضوعاتی نظم کے نو ذیلی نظموں کا بھی تعارف کروایا ہے۔وہ نظم کو بھی ایک صنف ہی مانتے ہیں جبکہ شمیم احمداور ڈاکٹر گیان چند کا کہنا ہے کہ’’ نظم کی نہ ہیّت مقرر ہے نہ موضوع پھر اس پر زبردستی صنف کا لبادہ کیوں اُڑھایاجاے؟میری راے میں نئی نظم کوئی صنف نہیں ہے بلکہ ایک زمرہ ہے جس طرح ہم پورے ادب کو دو زمروں نثر اور نظم میں تقسیم کرتے ہیں اور انہیں صنف نہیں کہتے‘‘(اصنافِ ادب۔ص ۲۴)
مصنف نے شعری اصناف کے تحت شاہنامہ ‘مرثیہ‘ رزم نامہ‘ غزل‘مثنوی ‘ قصیدہ ‘ نعتیہ قصیدہ ‘ شخصی مرثیہ ‘موضوعاتی نظم اور اس کے تحت نیچرل نظم ‘ وطنی نظم ‘ قومی نظم ‘ رومانی نظم‘ انقلابی نظم ‘ علامتی نظم ‘ معریٰ نظم اور جدید نظم کو شامل کیا ہے۔ان کے علاوہ قطعہ ‘ رباعی ‘ جدید مثنوی ‘ شہرِآشوب ‘ واسوخت ‘ ریختی ‘ سانیٹ ‘ ماہیا ‘ ترائیلے ‘ دوہا ‘ ہائیکو اور گیت پر سیر حاصل گفتگو کی ہے جبکہ نثری اصناف کے باب میں افسانوی اصناف کے ضمن میں داستان ‘ ناول ‘ افسانہ ‘ ڈرامہ اور ناولٹ شامل ہیں۔جبکہ غیر افسانوی نثری اصناف میں تذکرہ ‘ سفر نامہ ‘ مضمون ‘ خطوط ‘ سوانح ‘ انشائیہ ‘ خود نوشت ‘ آپ بیتی ‘ خاکہ ‘ دیباچہ ‘ رپورتاژ‘ مراسلہ‘ روزنامچہ ‘ تبصرہ ‘ مقالہ ‘ لغت نویسی ‘ اور طنز و ظرافت کو شامل کیا ہے۔
اس تصنیف کی کچھ خوبیاں ایسی ہیں جس کو بیان کرنا لازم ہے۔کتاب کے پیش لفظ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مصنف سترہ جامعات کی نصابی کمیٹیوں کا ممبر رہاہے گویا وہ ’’ماہرِ ترتیب و تدوینِ نصاب‘‘ہیں اس لیے جامعات و کلیات کے نصاب میں شامل اصنافِ ادب سے وہ بخوبی واقف ہیں۔تبھی تو انہوں نے ان اصنافِ ادب کوہی اپنی تصنیف میں جگہ دی ہے جو محتلف جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔اس طرح سینکڑوں طلباء و طالبات کے لیے یہ کتاب’’زندہ طلسمات‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔دوسری بڑی خوبی اصناف سے متعلق مواد ہے۔کسی بھی صنف کی نہ صرف تعریف بیان کی گئی ہے بلکہ اس کی تشریح و توضیح اور صنف کے آغاز و ارتقاء پر روشنی ڈالی گئی ہے نیز ہر صنف کے آخر میں متعلقہ کتابوں کی فہرست بھی دی گئی ہے تاکہ تشنگانِ علم کو قرار آسکے اور یہ سب کچھ اس قدر فرصت و فراغت سے پیش کیا گیا ہے کہ اب کتاب کی گائیڈ تیار کرنے کے لیے دکن ٹریڈرس کو تکلیف اٹھانے کی قطعی ضرورت نہیں رہے گی۔
زیرِ نظر کتاب کی تیسری اور اہم خوبی خود مصنف اور ان کا اسلوبِ بیان ہے چوں کہ مصنف جامعات کا چونتیس سالہ تدریسی تجربہ رکھتا ہے جس کی کچھ جھلکیاں اس کتاب میں بھی دکھائی دیتی ہیں مثلا کسی بھی صنف کا مطالعہ کرنے بیٹھیں تو یوں لگتا ہے جیسے ہم کمرۂ جماعت میں بیٹھے ہوے ہیں اور مصنف کا لیکچر سن رہے ہیں۔پوری کتاب اس ’’تقیریری تحریر‘‘ کی آئینہ دار ہے۔جس کے لیے مصنف مبارکباد کا مستحق ہے۔کتاب کی ایک اور خوبی اس کا ظاہری گیٹ اپ ہے۔خوبصورت ٹائیٹل اور بہترین طباعت لیکن کمپو زنگ کے معاملے میں یوں لگتا ہے کہ مصنف نے ڈیٹا کمپوزر اور پروف ریڈر پر مکمل بھروسہ کیا ہے مگر ان لوگوں نے تساہل سے کام لیا جیسے دوہا کو دوحہ لکھا گیا اور پروف ریڈر نے چپ سادھ لی۔
زیر تبصرہ کتاب میں ایک مضمون کی کمی محسوس ہوتی ہے جس کو مصنف نے دانستہ طور پر شامل نہیں کیا ہے یعنی اصناف کی درجہ بندی کے اصول و ضوابط پرتفصیلی بحث ہونی چاہیے تھی جو یہاں نہیں ہوسکی۔چوں کہ اصناف کی ہیّت ‘ موضوع اور اسلوب کی بنیاد پر درجہ بندی کی جاتی ہے اور یہ بھی بحث کا موضوع ہو کہ عربی ‘ فارسی اور اردو میں اصناف کی درجہ بندی کن اصولوں کو مدِنظر رکھ کر کی گئی ہے؟یقین کامل ہے کہ مصنف نے یہ حصہ بھی تیار کر رکھا ہے جسے کتاب کے دوسرے اڈیشن میں شامل کیا جاسکے تاکہ کتاب کی ڈیمانڈ آگے بھی برقرار رہے۔
بہرحال یہ کتاب جامعات و کلیات کے طلبا کے لیے بے حد ضروری ہے۔(۲۸۰) صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف دو سو روپیے ہے۔طلبا و طالبات کو رعایتی قیمت پر کتاب حاصل کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے جس کے لیے مصنف (09441697072) سے ربط پیدا کیا جاسکتا ہے ویسے یہ کتاب شہر کے بڑے بک اسٹالوں پر دستیاب ہے۔
Book:Urdu ki shairi wa Nasri Asnaf
Author:Prof.Majeed Bedar
Review : Dr. Syed Fazlullah Mukarram
۳ thoughts on “اردوکی شعری ونثری اصناف ۔ ایک مطالعہ”
جنابِ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم، السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ کا نقطہ نظر درست ہے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ ڈاکٹر صاحب! کیا گیان چند کی مذکورہ کتاب کا عکس کہیں سے دستیاب ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کے علم میں ہو تو ویب سائٹ کا اڈریس یا لنک بتا دیجیے۔ مجھے اس کتاب کی ضرورت ہے۔
نیاز مند
خالد ندیم
جناب ڈاکٹر فضل اللہ مکرم! السلام علیکم۔ آپ نے جناب مجید بیدار کی کتاب پر تبصرہ کرنے سے پہلے لکھا :
’’ادبی اصناف کا تذکرہ کرتے ہی استاد محترم پروفیسر گیان چند کی یاد آجاتی ہے جنھوں نے’’ اصنافِ ادب ‘‘ کے نام سے معرکۃ الاآرا تصنیف اپنی یاد گار چھوڑی ہے۔ان ہی کی نگرانی میں میرے ایک سینئر دوست جناب نصرت مہدی اردو میں اصنافِ ادب کے موضوع پر پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ تحریر کررہے تھے۔ایک عرصے سے وہ اپنے کام کو سمیٹ رہے تھے اور ٹائپنگ بھی ہوچکی تھی مگر افسوس ان کا مقالہ داخلہ دفتر بھی نہیں ہوپایا تھا کہ وہ اس دنیا سے اچانک رحلت کرگئے اور ڈاکٹر گیان چند جین بھی نہیں رہے ۔اب بھی یہ مقالہ جناب نصرت مہدی کے گھر پر کہیں پڑا ہوگا۔‘‘
آپ کے طرف سے یہ بات محض بات نہیں رہتی، بلکہ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ غالباً جناب نصرت مہدی مرحوم کا مسودہ اس کتاب کے لیے اساس فراہم کرتا ہے۔ اگر تو آپ کا یہی مطلب تھا کہ یقینا پورا ہوا، لیکن اگر واقعی آپ نے ضمنی بات کی ہے تو ایک مبصر کے لیے یہ بات انتہائی نامناسب ہے کہ وہ کسی کتاب کو بلاوجہ بے وقعت کر دے۔
اللہ آپ کو خوش رکھے۔ اگر ممکن ہو تو اس بات کی وضاھت ضرور کر دیجیے گا۔
خالد ندیم
انچارج شبہ اردو
یونی ورسٹی آف سرگودھا
سب کیمپس بھکر (پاکستان)
00923214433155
محترم !آپ نے یہ تبصرہ تفصیل سے پڑھا جس کے لیے ممنون ہوں۔دیگر کتابوں کے حوالے دینے کا مقصد موجودہ کتاب کی اہمیت کو کم کرنا ہرگزنہیں ہے‘میں نے تبصرے کے حوالے سے بھی قارئین کو تمام معلومات مہیا کرنے کی کوشش کی ہے۔اس موضوع سے متعلق دیگر کتابوں سے واقفیت بھی لازمی ہے نا۔
پروفیسر گیان چند کی ایک خالص تحقیقی کتاب ہے۔جبکہ نئی کتاب کلاس روم کے نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے۔بہر حال یہ تبصرہ خود مصنف کو بہت پسند آیا۔
آپ کی تخلیقات کا انتیظار رہے گا۔