دارالمصنفین اور علامہ شبلی نعمانی سے تعلق کی بنا پر مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلقات سید سلیمان ندوی سے بہت دیرینہ تھے۔ اس تعلق کی وجہ سے دونوں کے بیچ خطوط کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ خطوط علمی، ادبی اور تاریخی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ زندگی کے آخری مرحلہ میں آزادکو یہ درد ستانے لگا کہ ان کے بعد ”الہلال“ کو کون سنبھالے گا، چنانچہ اسی قلق واضطراب میں انہوں نے ےہ خط سید سلیمان کو لکھا۔
نو جنوری 1914 ، کلکتہ
صدیقی الجلیل الاعز،
افسوس کہ میں جس خط کا منتظر تھاوہ باوجود وعدہ آپ نے نہیں لکھا، بہرحال آج میں اپنے شورش قلبی سے مجبور ہوکر ایک بار اور کوشش وصل کرتا ہوں۔ آپ نے پونہ میں پروفیسری قبول کرلی، حالانکہ خدانے آپ کو درس وتعلیم سے زیادہ عظیم الشان کاموں کے لئے بنایا ہے۔کیا حاصل اس سے کہ آپ نے چند طالب علموں کو فارسی وعربی سکھا دی، آپ میں وہ قابلیت ہے کہ لاکھوں نفوس کو زندگی سکھلاسکتے ہیں۔
میرے تازہ حالات آپ کو معلوم نہیں، خدا شاہد ہے مسلسل چار گھنٹے کام نہیں کر سکتا، ورنہ آنکھوں میں تاریکی چھا جاتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ’الہلال‘ ایک تحریک تھی جس نے استعداد پیدا کی لیکن اس استعداد سے معاً کام لینا چاہئے، اور میں نے قطعی ارادہ کر لیا ہے کہ خواہ الہلال کی کچھ ہی حالت کیوں نہ ہو لیکن کام شروع کر دیا جائے، چنانچہ شروع بھی کر دیا ہے، ایسی حالت میں قباحت ہے، اگرچہ آپ باوجود استطاعت و طاقت رکھنے کے میری اعانت سے انکار کر دیں۔ آپ یاد رکھئے کہ اگر ان مصائب و موانع کی وجہ سے میں مجبور رہ گیا تو قیامت کے دن یقینا آپ اس کے ذمہ دار ہوں گے کہ آپ نے ایک بہت بڑے وقت کے رد عمل کو اپنی علیحدگی سے ضائع کر دیا۔ آپ آ کر الہلال بالکل لے لیجئے، جس طرح جی چاہئے اسے ایڈٹ کیجئے، مجھے سوا اس کے اصول و پالیسی کے (جن میں آپ مجھ سے متفق ہیں) اور کسی بات سے تعلق نہیں، میں بالکل آپ پر چھوڑتا ہوں اور خود اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہوں، صرف اپنے مضامین دے دیا کروں گا، اور کچھ تعلق نہ ہوگا۔
ایک وقت یہ ہے کہ ہر کام کے لئے شرائط کا اظہار ضروری ہے، اور ایسا کیجئے تو آپ کہتے ہیں کہ طمع دلاتے ہو، استغفراللہ، لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ بغیر کسی ایسی نیت کے محض شرائط معاملہ کے طور پر چند امور عرض کرتا ہوں۔
یہ ایک بہتر کام ہے جو الہلال کی گرفتاریوں کی وجہ سے میں شروع نہیں کر سکتا۔ اب اگر اور دیر ہو گئی تو سخت نقصان ہوگا اور اسی لئے میں نے آخری فیصلہ اس کی نسبت کر لیا ہے۔ میں آپ کو پابند نہیں کرنا چاہتا لیکن اگر آپ خود چاہیں تو جتنی مدت کے لئے کہیں معاہدہ قانونی بھی ہو سکتا ہے۔
مجھ کو پوری امید ہے کہ میری یہ سعی بے کار نہ جائے گی کیونکہ میں سچے دل سے آپ کا طالب ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ سچی طلب و مودت ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔
ابوالکلام
ماخوذ ’’دی سنڈے ایڈیشن ۲۱ ڈسمبر۱۴