پریس کے پانچ نظریے

Share

press-releases

اختر حسن ناز
پریس کے پانچ نظریے

(1) اسلامی نظریہ ابلاغ (Islamic Concept of Communication)
اسلامی معاشرے میں پریس کا کردار اخلاقی اقدار اور اصولوں کا پابند ہوگا جو فرد، ریاست اور دوسرے ادارے پر عائد کی گئی ہیں۔ پریس امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے تابع ہوگا۔ خیر اور بھلائی کو فروغ دینا اور شر اور برائی کا سدباب کرنا پریس کی ذمہ داری ہوگی۔ اسلام نے تحفظ جان و مال، تحفظ آبرو، نجی اور شخصی آزادی کے تحفظ، ظلم کے خلاف احتجاج، اظہار رائے کی آزادی، حصول انصاف، اجتماعی معاملات میں صلاح و مشورہ اور اسی نوعیت کیدوسرے امور میں حقوق و فرائض کا دائرہ متعین کیا ہے۔ اس کا احترام فرد، ریاست اور پریس سب پر لازم ہوگا۔ اسلامی ریاست میں پریس کا اصل کام یہ ہے کہ وہ رائے عامہ کی تشکیل اور رہنمائی کے لئے ہمیشہ اصلاح اور فلاح و بہبود کی بات کرے۔ وہ معاشرے کی برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے لذت اندوزی کا شکار نہ ہو ورنہ لوگ عبرت حاصل کرنے کی بجائے ان برائیوں میں دلچسپی لیں گے اور نت نئی نفسیاتی امراض کا شکار ہوجائیں گے۔ سماجی برائیاں جیسے جھوٹ، غیبت، افواہ، تہمت، زنا، چوری، ڈکیتی کے خلاف پریس کو کمربستہ ہونا چاہئے۔

(2) مطلق العنانیت (Authoritarian) کانظریہ ابلاغ
پندرہویں صدی عیسوی میں بادشاہوں اور مذہبی پیشواؤں کو دیگر تمام افراد پر عظمت اور برتری حاصل تھی اور ابلاغ کے تمام اداروں پر مذہبی کنٹرول تھا۔ تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے اس نظریہ ابلاغ نے وسیع اور دیرپا اثرات قائم کئے۔ استدلالی طور پر اس نظریہ کی تائید افلاطون، میکاولی، ہابس، ہیگل، ٹرائسکی اور دوسرے سیاسی مفکروں کے علاوہ رومن کیتھولک ازم میں بھی ملتی ہے۔ اس نظریے کو مختلف ادوار میں مختلف مدتوں کے لئے جرمنی، روس، جاپان، افروایشیائی اور لاطینی امریکی ملکوں میں رائج کیا گیا۔
اس نظام میں تمام ذرائع کو کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ ریاست کے قومی حصول کی جدوجہد میں پریس کو مداخلت سے باز رکھا جاتا ہے۔ حکمران کو پورا حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے نظام کو اپنی مرضی کے مطابق چاہئے، کوئی فرد، ادارہ یا پریس اس کے کسی حکم یا عمل پر تنقید نہیں کرسکتا بلکہ اس نظام میں پریس حکمرانوں کی اقتدار پر اجارہ داری کو زیادہ مضبوط بناتا ہے۔ ان حکمرانوں کے لئے ذرائع ابلاغ ایک اہم اور مؤثر ہتھیار ہے۔ آج بھی دنیا کے کئی ممالک بالخصوص مشرق وسطیٰ جہاں آمریت اور بادشاہ نہیں قائم ہیں وہاں کسی نہ کسی صورت میں اس نظریہ ابلاغ پر عمل ہورہا ہے۔ اخبار نجی ملکیت تو ہوسکتا ہے مگر اس کا ایڈیٹر حکومت کی مرضی کے بغیر مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرتی موضوعات پر فیچر یا کالم تو لکھے جاسکتے ہیں مگر حکومت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھا جاسکتا۔ ظلم تو یہ ہے کہ ملک میں ہونے والے کسی سیاسی واقعہ یا نقص امن کے واقعات بھی شائع نہیں ہوسکتے۔ البتہ ان واقعات پر وہی ردعمل شائع ہوسکتا ہے جو حکومت کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔ غرض ہر قسم کے معلومات سے عوام کو آگاہ نہیں کرسکتے۔ ایسے واقعات یا معلومات جو حکومت چاہتی ہے کہ عوام تک پہنچے وہی مواد اخبار کی زینت بن سکتا ہے۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آمرانہ مملکوں میں بھی ذرائع ابلاغ پر گرفت کمزور ہونے لگی۔ دنیا بھر کے صحافی احتجاج کرنے لگے اور آزادی اظہار کا نعرہ گونجنے لگا ور بادشاہت کی جگہ جمہوری اقدار پروان چڑھنے لگے تو اس نظریہکی بنیادیں ہلنے لگیں آخرکار پریس کے آزادانہ نظریہ کو فروغ حاصل ہونے لگا۔ اس کے باوجود آج بھی کئی ایک ملکوں میں کسی نہ کسی لحاظ سے مطلق العنانیت کا نظریہ ابلاغ جزوی طور پر ہی سہی قائم و دائم ہے۔

(3) آزاد پسندی (Liberterian) کا نظریہ ابلاغ
بادشاہت، آمریت اور ظلم و بربریت کے خلاف نفرت نے لوگوں کو آزاد فکر کی طرف متوجہ کیا۔ مغربی ممال میں حریت فکر کا نعرہ گونجا تو مطلق العنانیت کا نظریہ ابلاغ کا خاتمہ ہوا۔ فرد کی اہمیت اجاگر ہونے لگی۔ معاشرے اور ریاست پر فرد کو فوقیت حاصل ہونے لگی۔ آزادی فکر نے مذہبی آزادی اور تقریر و تحریر کا حق فرد کا لازمی اور فطری حق قرار دیا۔ ملؔ ، ملٹن، جیفرسنؔ اور ڈیکارٹس ؔ اس نظریے کے مشہور مفکرین تھے۔ مل (Mill) نے کہا کہ ’’آزادی قدرت کا دیا ہوا حق ہے۔ ہر فرد کو اس وقت تک سوچنے اور عمل کرنے کی آزادی ہونی چاہئے جب تک کہ وہ ایسا کرتے ہوئے دوسرے فرد کو نقصان نہ پہنچائے‘‘۔ کلیسا کے خلاف ردعمل، تحریک انسانیت، سائنسی ایجادات نے آزاد پسندی نظریے کو زبردست پروان چڑھایا اور اس کے تشکیل و استحکام میں اہم کردار ادا کیا۔
پریس کی آزادی کا بنیادی مقصد خبر رسانی اور تفریح کی فراہمی ہے۔ سچ کی دریافت اور تلاش اس کی ذمہ داری ہے۔ پریس خواہ کتنا ہی آزاد کیوں نہ ہو اس پر کچھ نہ کچھ اخلاقی پابندیاں ضرور ہوتی ہیں۔ فحش، غیراخلاقی مواد کی اشاعت اور فرد کی توہین عدالتی دائرہ اختیار میں آتی ہیں۔ ملک کی اہم دفاعی راز کا پردہ چاک کرنا بھی ایک غیر ذمہ دارانہ صحافت کہلاتی ہے۔ اس لئے چند تنگ نظر صحافیوں نے اپنے مطلب کی ’’سچ‘‘ کا خوب ڈھنڈورا پیٹنا شروع کیا۔ مذہبی، علاقائی اور نسلی تعصبیت نے بھی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ قرار دینے کے لئے پریس اور اس کی آزادی کا استحصال کیا۔
آخرکار آزادی پسند نظریہ بھی عوام میں مشکوک ہونے لگا۔ عوام میں تشکیک و انتشار کا ماحول پیدا ہونے لگا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟ ایک ہی واقعہ ایک اخبار کے یہاں سچ اور دوسرے کے یہاں جھوٹ کیوں قرار پاتا ہے۔؟
آزادی پسند نظریہ ابلاغ کے منفی اثرات کو پیٹرسن نے اس طرح بیان کیا ہے:
(1 پریس کی غیرمعمولی قوت خود اس کے اپنے فائدے کے لئے ہے۔ پریس کے مالکان اپنے ذاتی نظریات کی تشہیر کرتے ہیں اور سیاسی اور اقتصادی امور میں مخالفانہ نظریات کو روکتے ہیں۔
(2 پریس عمرانی اور سماجی تبدیلیوں میں مزاحمت کرتا ہے۔
(3 پریس سے عوام کے اخلاق عالیہ کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔
(4 پریس سے بلاجواز فرد کی پرائیویٹ زندگی میں مداخلت کرتا ہے۔
(5 پریس بعض اوقات حالات حاضرہ کی خبر رسانی کے بجائے سطحیت اور جذبات کو زیادہ توجہ اور اہمیت دیتا ہے اور تفریح کا عنصر اکثر جوہر سے عاری ہوتا ہے۔
(6 اشتہارات، ادارتی پالیسیوں اور ادارتی مندرجات پر کنٹرول کے ذریعے پریس کاروبار اور تجارت میں معاونت کرتا ہے۔
(7 فلمیں جنس کے اختلاط کے ساتھ اخلاق کے لئے خطرہ ہیں اور گھٹیا ذوق کی حامل ہیں۔

(4 سماجی ذمہ داری (Social Responsibility) کا نظریہ ابلاغ
اس نظریہ کا جنم آزاد پسندی اور روشن خیالی کے نظریے سے ہی ہوا ہے۔ سائنسی ایجادات اور جدید نظریات زندگی نے عوام کی فکر و سوچ میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ تبدیلی دراصل ڈارون اور آئن سٹائن کے فکری انقلاب کا نتیجہ تھی۔ سماجی ذمہ داری کا نظریہ انسان کو ایک بااخلاق، باشعور اور ذمہ دار شہری تصور کرتا ہے۔ اس نظریے کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ پریس معاشرے کے سامنے اپنی تمام سرگرمیوں کا جوابدہ ہے۔ آزادی صحافت کے کمیشن نے پریس کی سماجی ذمہ داری کے بارے میں جو تجاویز پیش کی ہے وہ قابل عمل ہیں۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ پریس واقعات کی صداقت پر مبنی جامع اور قابل فہم تفصیل پیش کرے۔ پریس تنقید اور مختلف آراء کے تبادلے کے لئے ایک فورم فراہم کرے۔ پریس معاشرے کے تمام گروہوں اور طبقوں کی تصویر پیش کرے۔ پریس کو معاشرے کی اقدار اور مقاصد کا ترجمان ہونا چاہئے۔
اس نظریے کے مطابق آزادی اظہار کو تسلیم کرنے کا اصل مقصد سماجی جھگڑوں کا رخ تشدد کی بجائے باہم مذاکرات اور بحث و مباحثہ کی طرف موڑنا ہے۔ کسی بھی فرد کی آزادی اظہار سے کسی دوسرے فرد کے حقوق اور سماجی مفادات متاثر نہ ہوں۔ اس نظریے کے تحت جو ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا وہ اس طرح ہے:
(1 کسی بھی باعزت اور معزز شہری کا تحفظ کیا جائے۔
(2 کسی بھی شخص پر جب تک عدالت جرم ثابت نہ کردے، اس کی تشہیر نہ کی جائے۔
(3 مسخ شدہ تصویر شائع کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
(4 جرائم کو پھیلانے والی خبریں شائع نہ کی جائیں۔
(5 بلیک میلنگ اور جھوٹی افواہیں پھیلانے سے اجتناب کیا جائے۔
(6 امن عامہ میں خلل ڈالنے سے روکنے کی ترغیب دی جائے۔
یہ وہ اہم نکات ہیں جو آزادی کو ذمہ داری کے ساتھ مشروط کرتے ہیں ان پر عمل پیرا ہوکر صحافت معاشرے میں اپنا ذمہ دار کردار ادا کرسکتی ہے۔

(5) کمیونسٹ نظریہ ابلاغ :
اشتراکی نظریے کی بنیاد مارکس اور لینن کے نظریات پر قائم ہے۔ اشتراکی معاشرے میں صحافت کمیونسٹ پارٹی کی ترجمان ہوتی ہے۔ لینن کے نزدیک پریس ایک مشترک اور متفق مقصد کے حصول میں سماجی تبدیلی اور نظم و ضبط کا ایک آلہ ہے اس کا سب سے بڑا فریضہ عوام میں اشتراکیت کی تعلیم و تبلیغ ہے۔ یہ کمیونزم اور ریاست کی خارجی اور داخلی پالیسیوں نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ اس کا پروپگنڈہ بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونسٹ ممالک یں پریس ریاست اور پارٹی کے لئے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ سوویٹ مینی فیسٹو 1939ء کے مطابق تقریر، تحریر، پریس، اجتماعات اور مظاہروں کی آزادی دی گئی ہے لیکن اس شرط پر کہ اس آزادی کو اشتراکی نظام ہی کی مضبوطی اور محنت کش عوام کے مفاد میں استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونسٹ ممالک میں پریس پر سخت نگرانی رکھی جتی ہے۔ کوئی اخبار بیرونی ممالک کی کوئی خبر کو حکومت کی اجازت کے بغیر شائع نہیں کرسکتا۔ یعنی کمیونسٹ نظریہ ابلاغ آمریت کا دوسرا نام ہے۔ عام آدمی بھی گھٹ گھٹ کر زندگی تو گذار سکتا ہے لیکن اپنی گھٹن کو دوسروں تک نہیں پہنچا سکتا۔(تلخیص)
مشمولہ۔ کتاب ۔ صحافتی ذمہ داریاں

Share
Share
Share