اردو صحافت۔ کل‘ آج اور کل

Share

اردو صحافت

ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز
اردو صحافت۔ کل‘ آج اور کل

اردو صحافت کے آغاز سے متعلق کئی متضاد دعوے کئے گئے ہیں۔ کسی نے مولوی محمد باقر کے سر اس کا سہرا باندھا ہے جو تحریک آزادی کے لئے شہید ہونے والے پہلے صحافی تھے جنہیں انگریزوں نے توپ سے باندھ کر اُڑا دیا تھا۔ مولوی محمد باقر کا اردو اخبار دہلی سے 1836سے 1857ء تک جاری رہا۔ بعض کا یہ دعوی ہے کہ اردو کا پہلا اخبار ’’آگرہ اخبار‘‘ ہے جو اکبرآباد سے 1831ء میں جاری کیا گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اردو کا سب سے پہلا اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ کا ضمیمہ تھا جو27؍مارچ 1823ء کو جاری ہوا اور 1824تک نکلتا رہا اور پھر بند ہوکر دوبارہ 1825میں جاری ہوا۔ جناب یوسف کاظم عارف کا دعویٰ ہے کہ ’’مرأۃ الاخبار‘‘ اردو کا پہلا اخبار ہے جو 1821 میں کلکتہ سے جاری ہوا۔ جس کے روح رواں راجا رام موہن رائے تھے۔ ایک اور دعویٰ یہ بھی ہے کہ 1810ء میں کلکتہ سے کاظم علی نے ’’اردو اخبار‘‘ کے نام سے اردو صحافت کا آغاز کیا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو اخبار کا آغاز ہندوستان کے پہلے مجاہد اور شہید آزادی ٹیپو سلطان شہیدؒ نے کیا تھا۔ جنہوں نے 1794ء میں ایک حکم صادر کیا کہ ایک سرکاری پریس جاری کیا جائے جس میں عربی حروف میں ٹائپ کی چھپائی ہو۔ ان کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ ٹیپو سلطان نے ارشاد فرمایا کہ اس پریس سے اردو زبان کا اخبار جاری کیا جائے جس کا نام ’’فوجی اخبار‘‘ رکھا جائے۔ یہ اخبار شاہی سرپرستی اور سرکاری نگرانی میں جاری ہوا جو اردو زبان کا پہلا اخبار تھا اگرچہ کہ عوام تک اس کی رسائی نہیں تھی بلکہ صرف شاہی فوج کے افسر اور سپائیوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سرکاری زبان فارسی تھی۔ اردو کی ابتدائی حالت تھی۔ مگر ٹیپو سلطان شہید کی دور بین نظروں نے یہ بھانپ لیا تھاکہ آنے والا دور اردو کا ہوگا۔ اس فوجی اخبار میں جو تقطیع پر ہفتہ وار شائع ہوتا تھا اس میں فوج کی نقل و حرکت، افسروں کے تعین اور تبادلے کی اطلاعات درج ہوتی تھیں۔ فوج کے متعلق احکامات بھی شائع کئے جاتے تھے۔ یہ پانچ سال تک پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے پریس اور فوجی اخبار کی تمام فائلوں کو ضبط کرلیا اور اسے آگ لگادی۔

جہاں تک عوامی اخبار کا تعلق ہے‘ ’’جام جہاں نما‘‘ کو اردو کے اولین اخبار کی سند دی جاسکتی ہے جس کے ناشر ہری دت‘ اور ایڈیٹر سدا سکھ لعل تھے۔ ’جام جہاں نما‘ کی مقبولیت اور اس کے مضامین سے پیدا ہونے والے جوش اور ولولہ کے پیش نظر برطانوی حکومت کے اس وقت کے چیف سکریٹری ولیم ورلڈ وتھ بیلے نے ایک خفیہ فائل تیار کی تھی جس میں ’’جام جہاں نما‘‘ پر کنٹرول اور سینسرشپ کی ہدایت تھی۔ ’’جام جہاں نما‘‘ ہی کی وجہ سے 1823ء میں پہلا پریس ایکٹ رائج ہوا۔
جہاں تک مولوی محمد باقر کے دہلی اردو اخبار کا تعلق ہے یہ بھی ایک ہفت روزہ تھا جس نے انگریز سامراج کے خلاف قلمی جہاد کیا وہیں ہندو مسلم اتحاد کا محرک بھی بنا۔ مولوی محمد باقر نے جب اخبار نکالا تو ان کی عمر 57 برس تھی۔ یہ اردو کا لیتھو اساس اولین مطبوعہ اخبار ہونے کی وجہ سے اپنے وقت کا ایک عجوبہ عظیم تھا۔
یہ اخبار دلچسپ اور دلفریب تھا جس میں شیخ ابراہیم ذوق، بہادر شاہ ظفر، مرزا غالب، حافظ غلام سول، مرزا محمد علی بخت مرزا، حیدر شکوہ، مرزا نورالدین کے کلام شائع ہوتے۔ ذوق اور غالب کی نوک جھونک کی خبریں بھی اس میں شامل ہوتیں۔ مگر اس کا اصل مقصد انگریزوں کی غلامی سے ہندوستان کو آزاد کروانا تھا۔ ان کے ہمعصر ساتھیوں میں ماسٹر رام چندر مدیر ’’فوائد الناظرین‘‘، ’’خیر خواہ ہند‘‘ اور محب ہند‘‘۔ پربھو دیال ایڈیٹر ’’فوائد الشائقین‘‘ تھے جن کے اخبارات بھی مولوی باقر کے پریس ہی میں چھپتے تھے۔ ماسٹر رام چندر نے 1845ء میں ’’خیرخواہِ ہند‘‘ بھی شائع کیا۔
مولوی محمد باقر نے 1857ء کی بغاوت کے روز ازل سے رپورٹنگ کی جو دراصل آنکھوں دیکھا حال تھا‘ یہ 17مئی 1857ء کو شائع ہوا۔ ہندوستان کی بغاوت کو انگریز حکمرانوں نے غدر قرار دے کر ایک تنقیح آمیز اشتہار چھاپا اسے جامع مسجد کے دروازوں اور کئی نمایاں مقامات پر چسپاں کیا۔ مولوی باقر نے اس اشتہار کو اپنے اخبار میں بھی شائع کیا۔ جس میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اہانت آمیز الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ مولوی محمد باقر نے اس اشتہار کا دندان شکن جواب دیا۔ اس طرح وہ حاکم انگریزوں کی نگاہوں میں کھٹکنے لگے۔مولوی محمد باقر نے قلمی نام سے بھی ایسے مضامین اپنے اخبار میں شائع کئے جس نے ہندوستانیوں کے حوصلے بلند کئے اور فرنگیوں کو بوکھلاہٹ کا شکار کیا۔ مولوی محمد باقر کو ستمبرء میں گرفتار کیا گیا اور فرنگی جاسوسی محکمہ کے انچارج کیپٹن ہڈسن کے سامنے پیش کیا گیا جس کے حکم سے انہیں 16؍ستمبر 1875ء کو دہلی دروازہ کے باہر خونی دروازہ کے سامنے میدان میں توپ کے گولے سے شہید کردیا گیا۔ جس وقت مولوی محمد باقر کو سزائے موت دی جانے والی تھی ان کے فرزند محمد حسین آزاد بھیس بدل کر ان کے آخری دیدار کے لئے گئے اس وقت مولوی محمد باقر نماز پڑھ رہے تھے۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔ اور مولوی محمد باقر نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھادےئے جو اس بات کا اشارہ تھا کہ آخری ملاقات ہوگئی تم جاسکتے ہو۔ کچھ دیر بعد 77سالہ مولوی محمد باقر کو توپ کے گولے سے اڑا دیا گیا اس طرح اردو کے پہلے صحافی نے جام شہادت نوش کیا۔
عبدالسلام خورشید کے مطابق 1857کے بعد اردو روزناموں کا دور شروع ہوا۔ اردو کا روزنامہ اخبار کلکتہ کا ’’اردو گائیڈ‘‘ تھا جسے مولوی قدیرالدین احمد خان نے 1858ء میں شروع کیا۔ اس کے بعد اردو کا دوسرا روزنامہ 1875ء میں لاہور سے شروع ہوا جس کا نام ’’روزنامچہ پنجاب‘‘ تھا۔ اسی دور میں لاہور سے ایک اخبار ’’رہبر ہند‘‘ بھی شروع ہوا۔
اردو اخبارات کی اشاعت کے سلسلے جاری رہے ۔ تاہم ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال (مرحوم) نے جنوب ہند کی اردو صحافت میں لکھا ہے کہ 1857سے پہلے ہی مدراس(چینائی) میں ایک درجن سے زیادہ (مطابع) پرنٹنگ پریس قائم ہوچکے تھے۔ لیتھو گرافی اگرچہ کہ کلکتہ کے بعد مدراس میں شروع ہوئی مگر دہلی اور لکھنؤ جیسے شمالی ہند کے مراکز سے پہلے یہاں شروع ہوچکی تھی اس لئے اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اردو کا پہلا اخبار مدراس ہی سے شائع ہوا ہوگا اگرچہ کہ ایسی کوئی سند نہیں ملی۔ البتہ مدراس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام اور اس سے پیدا ہونے والے حالات کا بغور جائزہ لیں تو اردو اخبار کے اجراء کے لئے ناگزیر ماحول 1841ء سے بہت پہلے پیدا ہوچکا تھا۔
ڈاکٹر علیم صبا نویدی نے تاملناڈومیں اردو میں صحافتی خدمات کے زیر عنوان اردو صحافت کے معماروں کا ذکر کیا ہے ان میں جنوب کے پہلے اردو اخبار ’’جامع الاخبار‘‘ کے ایڈیٹر سید رحمت اللہ، ’’اعظم الاخبار‘‘ کے ایڈیٹر سید محمد اعظم، ’’شمس الاخبار‘‘ اور ’’عزیز الاخبار‘‘ کے بانی اور ایڈیٹر شاہ عزیز الدین گھٹالا، سید عبدالستار سنین، مولوی نصیرالدین اور گھٹالہ، ’’صبح صادق اور طلسم حیرت‘‘ کے نگران حضرت صادق الحسینی شریف مدراسی، مولانا عبدالمجید شرر آلندوری ایڈیٹر ’’قومی رپورٹ‘‘، علامہ شاکر نائطی ایڈیٹر ’’مصحف‘‘، مولانا ابوالجلال ندوی ایڈیٹر ’’سہیل‘‘، مولانا سید سلطان محی الدین بہمنی مدیر’’ حیات و امام‘‘،مولانا سید عبداللطیف فاروقی ایڈیٹر ’’آزاد ہند اور مسلمان‘‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔
افضل الدین اقبال کے حوالہ سے علیم صبا نویدی نے 1841ء سے 1856ء تک مدراس سے شائع ہونے والے جن اردو اخبارات، جرائد اورر سائل کا ذکر کیا ہے ان میں :
ہفتہ وارجامع الاخبار 1841ء ایڈیٹر سید رحمت اللہ
ہفتہ وار اعظم الاخبار 1848ء ایڈیٹر حکیم سید محمد
ہفتہ وارآفتاب عالم 1849ء ۔۔۔۔۔
ہفتہ وارعمدۃ الاخبار 1849ء محمد انور
ہفتہ وارتعلیم الاخبار 1851ء منشی سید حسین
ہفتہ وارصبح صادق 1855ء سید عبدالرحمن
ہفتہ وارمظہرالاخبار 1856ء محمد خواجہ بادشاہ عبرت
روز نامہ طلسم حیرت 1856ء غلام محی الدین
1857 کے بعد اردو اخبارات یا اردو صحافت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ’’اودھ اخبار(لکھنؤ)‘‘ سائنٹیفک گزٹ اور تہذیب الاخلاق علیگڑھ، اودھ پنچ لکھنؤ، اکمل الاخبار دہلی، پنجاب اخبار لاہور، شمس الاخبار مدراس، کاشف الاخبار ممبئی، قاسم الاخبار بنگلور، آصف الاخبار حیدرآباد۔ ان اخبارات میں اودھ اخبار کو منشی نول کشور نے رتن ناتھ سرشار کی ادارت میں روزنامہ میں تبدیل کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اردو اخبارات نے تحریک آزادی کے ساتھ عوامی مسائل، رشوت خوری، بلدی مسائل، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔اس دوران مدراس سے :
ہفت وار شمس الاخبار 1859ء محمد اعظم گھٹالہ
ماہ نامہ ماہِ نور 1864ء جعفر حسین
روزنامہ نیر اعظم 1864ء محمد عبدالستار صدیقی
ماہنامہ یادگارِ زمانہ 1871ء منشی عبدالرزاق
ہفتہ وار جریدۂ روزگار 1875ء سید محمد مرتضیٰ شاہ قادری
1877ء میں مولوی ناصر علی نے ’’نصرت الاخبار‘‘، ’’نصرت الاسلام‘‘ اور ’’مہر درخشاں‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اودھ پنچ سجاد حسین کی ادارت میں نکلنے والا پہلا طنز و مزاح کا جریدہ تھا جبکہ خواتین کا پہلا جریدہ ’’اخبار النساء‘‘ تھا۔ 1879ء میں روزنامہ ’’مظہرالعجائب‘‘ ایڈیٹر مصطفےٰ حسین شائع ہوا ۔ کلکتہ سے شیخ احسن اللہ سندگری دہلوی نے 1881ء میں ’’دارالسلطنت‘‘کی اشاعت کا آغاز کیا جس کے ایڈیٹر متھورا پرساد سومر تھے۔ پہلے ہفت روزہ پھر سہ روزہ اخبار کی حیثیت سے یہ عام ہوا۔ اسی دور میں ایک نمائندہ روزنامہ ’’اخبارعام‘‘ تھا جو ہفتہ روزہ سے روزنامہ میں تبدیل ہوا۔اسی سال حکیم محمد حسین نے مدراس سے ہفتہ وار ’’احسن الجرائد‘‘ نکالا۔ 1882ء میں شاہ عبدالعزیز گھٹالہ نے ’’عزیز الاخبار‘‘ ، 1884ء میں محمد عظیم الدین نے ’’اتحاد‘‘، سید علی قادر بہار نے ماہنامہ ’’جلوۂ سخن‘‘ 1887ء میں جاری کیا۔ 1893-94ء میں ’’اخبارِ عام‘‘ شائع ہوا۔ اس اخبار کی روزانہ اشاعت دو ہزار سے بھی زائد ہوگئی تھی۔ اس کا ہمعصر انگریزی اخبار ’’سیول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ صرف 1400 چھپتا تھا۔ ’’اخبار عام‘‘ کا جانشین ’’پیسہ‘‘ اخبار تھا جس کے ناشر محبوب عالم تھے۔ آج بھی لاہور میں’’پیسہ اخبار اسٹریٹ‘‘ اسی زمانہ کی یادگار ہے۔ یہ اردو روزناموں میں سرفہرست تھا۔ 1895ء سے 1900ء تک مدراس سے ’’مخبر دکن‘‘ ہفتہ وار ایڈیٹر سید عبدالقادر فقیر، ’’نیر آصفی‘‘ ہفتہ وارایڈیٹر اسدالدین احمد، ’’آفتاب دکن‘‘ ہفتہ وار ایڈیٹر سید جلال الدین گھائل، ہفتہ وار ’’اتفاق‘‘ ایڈیٹر عبدالملک شائع ہوئے۔ 20ویں صدی کے آغاز میں مولانا ظفر علی خان کی زیر ادارت ’’زمیندار‘‘ کی اجرائی سے ’’پیسہ‘‘ اخبار کے وجود کو خطرہ ہونے لگا آخر یہ بند ہوگیا۔ یہ وہ دور تھا جب ’’پیسہ‘‘ کے علاوہ ’’اودھ اخبار‘‘ اور ’’صلح کل‘‘ تین روزنامے شائع ہوتے تھے جو اعتدال پسند صحافت کا نمونہ تھے۔ تاہم انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی نے زمیندار، ’’ہندوستانی‘‘، ’’الہلال‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ جیسے اخبارات کو مقبول عام بنادیا۔ اسی دوران ’’ہندوستان لاہور‘‘، ’’دیپک امرتسر‘‘، ’’دیش لاہور‘‘، ’’اردوئے معلی(کانپور)‘‘، ’’مسلم گزٹ(لکھنؤ)‘‘، ’’مدینہ (بجنور)‘‘، ’’ہمدم (لکھنؤ)‘‘، ’’سوراج (الہ آباد)‘‘ نے عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا اور عوام کو آزادی کی قومی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دی۔ کانگریس، مسلم لیگ، ہندومہاسبھا، آریہ سماج، خلافت کمیٹی اور علی گڑھ تحریک نے اردو اخبارات اور جرائد و رسائل کے فروغ میں حصہ بھی لیا اور ان پر اثر انداز بھی ہوئے۔ اُس دور میں ’’زمیندار‘‘ سب سے مقبول عام اخبار تھا جس کی تعداد اشاعت 30,000 تک پہنچ گئی تھی۔ یہ 1903ء میں لاہور سے جاری کیا گیا تھا۔ اس سے ایک سال پہلے ہی مولوی ثناء اللہ خان نے ہفتہ وار وطن جاری کیا جو 33سال تک شائع ہوتا رہا۔ 1901ء میں شیخ عبدالقادر نے ’’مخزن‘‘ نکالا۔ 1908ء میں خواتین کا سب سے پہلا رسالہ جو دہلی سے نکلا اس کا نام ’’عصمت‘‘ تھا۔ اس کے مدیر شیخ محمد اکرم تھے بعد میں علامہ راشد الخیری اس کے مدیر بنے۔ 1909ء’ میں خواجہ حسن نظامی نے ولی اللہ کے حالات خانقاہوں اور عرسوں کے اصلاحات کے بارے میں ترویج و اشاعت کیلئے جولائی 1909ء میں ’’نظام المشائخ‘‘ نکالا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے ’’غریبوں کا اخبار‘‘ اور ’’منادی‘‘ بھی نکالا۔ ’’منادی‘‘ روزنامہ تھا جو 1974تک شائع ہوتا رہا۔ ان کے صاحبزادے خواجہ حسن ثانی نظامی اس کے مدیر ہیں۔ 1910ء میں مدراس سے ماہنامہ ’’خورشید‘‘ ایڈیٹر سید جلال الدین گھائل، 1911ء میں ماہنامہ ’’المضمون‘‘ ایڈیٹر منشی انصارالدین بے خود، 1912ء میں ماہنامہ ’’مورخ‘‘ ایڈیٹر مولوی محمد بدیع الدین، 1914ء میں روزنامہ ’’قومی رپورٹ‘‘ ایڈیٹر مولانا شرر آلندوری شائع ہوئے۔ رضوان احمد مرحوم کے تحقیقی مقالے ’’بیسویں صدی کی اردو صحافت‘‘ کے مطابق بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں غیر ممالک میں بھی اردو صحافت کا آغاز ہوچکا تھا۔ 1910ء میں ٹوکیو سے اردو رسالہ ’’اسلامک فریٹرنیٹی‘‘ شائع ہوا جس کے مدیر مولانا برکت اللہ بھوپالی تھے۔ یہ جاپان کے علاوہ چین، برما، ہندوستان، سنگاپور اور کولمبو میں بھی جاتا تھا۔ یہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرتا تھا۔ 1912ء میں مولانا محمد علی جوہر نے ’’نقیب ہمدرد‘‘ اور حمید الانصاری نے ’’مدینہ‘‘ کی اشاعت شروع کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ اردو صحافت کا ماہ کامل تھا جس نے مسلمانوں میں سیاسی اور مذہبی شعور بیدار کیا۔ یہ پہلا اردو اخبار تھا جس نے اپنے ڈیزائن، لے آؤٹ اور خبروں کے ساتھ تصاویر کی پیش کشی کو اہمیت دیتے ہوئے جاذبنظراخبار پیش کیا۔ اس اخبار کا مواد اور انداز بیان اس کی اصل روح تھا۔ 1913ء میں میرٹھ سے ’’توحید‘‘ جاری ہوا۔ اسی سال حاجی ساجد احمد کی ادارت میں پٹنہ سے ’’پٹنہ‘‘ اخبار شائع ہوا۔1916ء میں مولانا عبدالمجید شرر آلندوری نے مدراس سے ماہنامہ رسالہ ’’نور‘‘ خواتین کے لئے شائع کیا۔ اکتوبر 1916ء میں لکھنؤ سے ہمدم جاری ہوا جو مسلم لیگ کا ترجمان تھا جس کے ایڈیٹر جالب دہلوی تھے۔ 1919 میں لاہور سے مہاشی کرشنن نے گاندھی جی کی پالیسیوں اور نیشنل کانگریس کی تائید میں ’’پرتاب‘‘ جاری کیا۔ اردو داں ہندوؤں میں اس کا اچھا اثر تھا مگر حکومت وقت کے جبر کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے اشاعت مسدود کرنی پڑی۔ 1920ء میں لاجپت راؤ نے لاہور سے ’’وندے ماترم‘‘ نکالا۔ یہ پہلا اخبار تھا جو کارپوریٹ سیکٹر کے تحت شائع ہوا تھا۔ پہلا ہی شمارہ 10ہزار شائع ہوا۔ یہ صحت مند صحافت کا نمونہ تھا۔ 1921ء میں شاہ امان اللہ نے بجنور سے ’’نگینہ‘‘ اور ’’الامان‘‘ اخبار نکالا۔ حکیم اجمل خان کی ایماء پر یہ اخبار دہلی منتقل ہوگیا۔اسی سال لالہ شام لال کپور نے ’’دسہری‘‘ نکالا۔ اس سے پہلے وہ ’’گروگھنٹال‘‘ کے نام سے بھی اخبار نکال چکے تھے۔1922ء میں محمد عبداللطیف فاروقی نے مدراس سے روزانہ ’’آزادِ ہند‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ 1923ء میں لالہ خوشحال چند خورشید نے ’’ملاپ‘‘ جاری کیا۔ اس سے پہلے وہ ’’آریہ گزٹ‘‘ نکالتے تھے۔ ’’ملاپ‘‘ دہلی، جالندھر، حیدرآباد اور لندن سے شائع ہوتا تھا۔ اب دہلی سے شائع ہورہا ہے۔ 1923ء میں سوامی شردھانند نے لالہ دیش بندھو گپتا کے ساتھ مل کر ’’تیج‘‘ نکالا جس کی راجستھان، یوپی اور دہلی میں اچھی اشاعت تھی۔ جاگیردار ریاستوں کی جانب سے بار بار اسے بند کیاگیا۔1924ء میں ریاست کشمیر کا پہلا اخبار ’’رنبیر‘‘ جاری ہوا جو مہاراجہ گلاب سنگھ کے بیٹے رنبیر سنگھ کے نام سے موسوم تھا۔ ایک سال بعد یہ بند ہوگیا۔ 1925ء میں مولانا عبدالماجد دریابادی نے ’سچ‘‘ نکالا جو 1933ء تک جاری رہا بعد میں اس کا نام ’’صدق‘‘ اور پھر ’’صدق جدید‘‘ کے نام سے جاری رہا۔ 1925ء میں ہفتہ وار ’’الجمعیت‘‘ جاری کیا۔ اس کی ادارت سے مولانا عرفان پھر ابوالاعلیٰ مودودی، بلال احمد زبیری، مولانا عبدالوحید صدیقی اور مولانا محمد عثمان فارقلیط وابستہ رہے۔1927ء میں لاہور سے انقلاب‘‘ عبدالمجید سالک اور مولانا غلام رسول بحر نے جاری کیا۔ یہ دستاویزی اخبار تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔1927ء میں مولانا ابوالجلال ندوی،سید سلطان بہمنی اور نذیر احمد شاکر نے مدراس سے روزنامہ ’’مسلمان‘‘ جاری کیا جو اب بھی جاری ہے اور تا ملناڈو کا واحد اردو اخبار ہے جس نے کتابت کے فن کو زندہ رکھا ہے اور مکمل اخبار کی کتابت کی جاتی ہے۔ 1928ء میں دہلی سے مسلم لیگ کا ترجمان روزنامہ ’’وحدت‘‘ شائع ہوا۔ یہی وہ دور تھا جب علامہ اقبال کی شہرت بام عروج پر تھی۔ انہوں نے لاہور کے کچھ اخبارات کی سرپرستی بھی کی۔ 1929ء میں محمد عبداللطیف فاروقی اور عبدالکریم آزاد نے مدراس سے ’’آزاد نوجوان‘‘ کی اشاعت شروع کی۔مولانا ابوالجلال ندوی نے 1933ء میں ماہنامہ ’’بشریٰ‘‘، محمد اسماعیل سیٹھ نے 1934ء میں ہفتہ روزہ ’’دلچسپ‘‘، قاضی محمد عبدالرحمن نے ماہنامہ ’’رفیق‘‘ شائع کیا۔ مرتضیٰ احمد خان میکش اور چراغ حسن حسرت کی ادارت میں ’’احسان‘‘ 1934ء میں جاری ہوا جو اردو کا پہلا روزنامہ تھا جس کے دفتر میں ٹیلی پرنٹر نصب کیا گیا۔ اس دور کے اخبارات میں ’’احرار، نیشنل کانگریس، زم زم، پاسبان، مساوات اور تریاق‘‘ تھے۔ جبکہ لکھنؤ سے انیس احمد عباسی نے ’’حقیقت‘‘ جاری کیا جو روزنامہ سے ہفتہ وار میں تبدیل ہوا۔ قاضی عبدالغفار نے حیدرآباد سے پیام کی اجرائی کا آغاز کیا۔ 1931ء میں مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے مولانا آزاد کی سرپرستی میں ہفتہ وار ’’پیغام‘‘ نکالا۔ کچھ عرصہ بعد ’’ہند‘‘ جاری کیا۔ شبلی بی کام نے ہفتہ وار ’’خیام‘‘ جاری کیا۔ 1935ء میں علامہ شاکر نائطی نے عمرآباد تاملناڈو سے ماہنامہ ’’مصحف‘‘، محمد کریم الدین نے روزنامہ ’’مسلم گزٹ‘‘ مدراس، غلام محی الدین نے روزنامہ ’’مسلم رپورٹ‘‘ مدراس، ایمان گوپاموی، سید سلطان بہمنی نے 1936ء میں ماہنامہ ’’رسالہ حیات‘‘، مولانا ابوالجلال ندوی ’’سہیل‘‘ روزنامہ، سید سلطان بہمنی نے 1937ء میں ماہنامہ ’’ہمدرد‘‘ شائع کیا۔ 1938ء میں پٹنہ سے نذیر حیدر نے ’’صدائے عام‘‘ جاری کیا۔ سہیل عظیم آبادی نے روزنامہ ’’ساتھی‘‘ کی شروعات کی جسے غلام سرور نے لے لیا تھا۔ 1939ء میں ممبئی سے غلام احمد خان آرزو نے روزنامہ ’’ہندوستان‘‘ جاری کیا جو سرفراز آرزو کی ادارت میں اب بھی شائع ہورہا ہے۔ متحدہ ہندوستان کے مشہور اخبارات میں لاہور سے 1940ء میں ’’شہباز‘‘ کی اجرائی عمل میں آئی۔ اسی سال لاہور سے حمیدنظامی نے ’’نوائے وقت‘‘ نکالا۔ چار سال بعد یہ روزنامہ ہوا۔ یہ پاکستان کا ملٹی ایڈیشن اخبار ہے۔ 1942ء میں دہلی سے میر خلیل الرحمن نے ’’جنگ‘‘ جاری کیا۔ 1947ء میں کراچی منتقل کیا۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا اخبار ہے۔ کئی شہروں سے شائع ہوتا ہے۔ 1944ء میں جواہرلال نہرو نے ’قومی آواز‘‘ کی بنیاد ڈالی جس کے ایڈیٹر ڈاکٹر حیات اللہ انصاری تھے۔ یہ کانگریس کا ترجمان اور نیشنلسٹ اخبار تھا۔ مختلف شہروں سے اس کے ایڈیشن شائع ہونے لگے۔ افسوس کہ اس اخبار نے دم توڑ دیا۔
اپنے دور کے ممتاز صحافی، ادیب جمنا داس اختر نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں جو ماہنامہ ’’آج کل دہلی‘‘ کے ’اردو صحافت نمبر‘ میں شائع ہوا‘ میں لکھا ہے کہ جنگ آزادی میں اردو صحافت کا رول بڑا اہم رہا۔ اس دور کے جید صحافیوں میں جنہوں نے جنگ آزادی کی حمایت کی ان کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ’’مولوی محمد باقر تو جنگ آزادی کے پہلے شہید صحافی رہے ان کے فرزند مولوی محمد حسین آزاد جو خود بھی اخبار نویس تھے انہیں انگریزوں نے اشتہاری مفرور قرار دے کر گرفتاری کے لئے پانچ سو روپئے کے انعام کا اعلان کیا تھا‘‘۔ ’’صادق الاخبار‘‘ کے ایڈیٹر مولوی جمیل الدین، اودھ اخبار‘‘ کے ایڈیٹر منشی نول کشور، تاریخ بغاوت ہند کے مدیر مکند لال، ہفت روزہ ’’خیر خدا خلق‘‘ کے منشی ایودھیا پرشاد، ’’جلوۂ طور میرٹھ‘‘ کے روح رواں سید ظہیرالدین طور، ’’سائنٹیفک سوسائٹی‘‘ علیگڑھ کے ادارتی رکن مولانا محمد اسماعیل علیگڑھی، ’’منشور محمدی‘‘ کے ایڈیٹر محمد شریف، ’’اردو معلی‘‘ کے مدیر محمد حسرت موہانی، ’’خم خانہ ہند‘‘ کے مولوی احمد حسن شوکت، ایڈیٹر ’’پیسہ‘‘ منشی محبوب عالم، ’’شیرپنجاب‘‘ کے ایڈیٹر سردار امر سنگھ، مولانا آزاد، محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان اور سید حبیب، سوامی پرکاشآنند، پنڈت میلارام وفا، مولانا امیر احمد امان (ایڈیٹر ترجمان صحت)، لالہ راج پت رائے، پنڈت کشن چندر موہ(شانتی)، سوامی شردھا نند، لالہ دیش بندو گپتا، رنبیر سنگھ، ڈاکٹرستیہ پال اور ڈاکٹرعالم، شورش کاشمیری ایڈیٹر چٹان، مولانا امداد صابری، منشی گوپی ناتھ امر اور رام لال (سنسار اور روزنامہ ہند کے ایڈیٹر)، عبدالرزاق ملیح آبادی، صوفی انبا پرشاد، بلال احمد زبیری، پنڈت بانکے دیال شرما، مہاشہ کرشن، ویریندر اور نریندر نے اپنے قلم اور صحافتی صلاحیتوں کو تحریک آزادی کے لئے وقف کردیا اس کے لئے ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آزادی کی تاریخ اگر لکھی گئی ہے تو اس میں ان کا خون بھی شامل ہے۔
میرنال چٹرجی (میڈیا ہائیو) کے ایک مقالہ کے مطابق ہندوستان کی تقسیم کے وقت کل 415اردو اخبارات جن میں روزنامے، ہفتہ وار ماہنامے شائع ہوتے تھے تقسیم کے بعد ان میں سے 345 ہندوستان میں رہ گئے۔ 70اخبارات کے مالکین اور مدیران پاکستان کو ہجرت کرگئے۔ آر این آئی کی رپورٹ 1957ء کے مطابق اس وقت 513 اردو اخبارات تھے جن میں مجموعی تعداد اشاعت 7.84لاکھ تھی۔ 2012ء میں یہ تعداد 710اردو روزنامے اور کل تعداد اشاعت دو کروڑ 20لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ آزادی کے بعد کئی نئے اخبارات وجود میں آئے جن میں ’’دعوت‘‘، ’’نئی دنیا‘‘، ’’سیاست‘‘، روزنامہ’’ منصف‘‘، روزنامہ ’’اعتماد‘‘، ’’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘‘، آزاد ہند‘‘، ’’ہندسماچار‘‘، ’’اخبار مشرق‘‘، ’’آبشار‘‘، ’’عکاس‘‘، ’’انقلاب‘‘، ’’اردو ٹائمز،‘‘ سالار‘‘، ’’قومی آواز‘‘، قابل ذکر ہیں۔ روزنامہ رہنمائے دکن سب سے قدیم اخبار ہے جو تقسیم سے پہلے رہبر دکن کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ آزادی کے بعد کے کچھ اور اردو اخبارات، جرائد و رسائل کے نام یہ ہیں ’’اورنگ آباد ٹائمز، ڈیلی آفتاب(سرینگر)، ڈیلی روشنی (سری نگر)، امروز ہند (پٹنہ)، ساحل (بنگلور)، وادی کی آواز (جموں اینڈ کشمیر)، لشکر (لکھنؤ)، ہندوستان ایکسپریس (دہلی)، ہمارا سماج دہلی، انقلاب ہند دہلی)، صحافت (ڈیلی)، کشمیر ٹائمز، قومی رابطہ، جدید خبر( دہلی، مردآباد)، اوصاف (پاکستان)، خبردار جدید دہلی، گواہ (حیدرآباد)، ساز دکن (حیدرآباد)، صدائے حسینی (حیدرآباد)، مسلمان (مدراس) قابل ذکر ہیں۔ علیم صبا نویدی کے بموجب آزادی 1947ء کے بعدمدراس سے کئی اخبارات، جرائد و رسائل شائع ہوئے تاہم اس وقت ’’مسلمان‘‘ واحد اردو اخبار رہ گیا ہے جس کے ایڈیٹر محمد عظمت اللہ ہیں۔ یہ اخبار اپنی صدی کی تکمیل کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اپنی ادارت میں ’’نور جنوب‘‘ ماہنامہ شائع ہوتا ہے۔
جنوبی ہند میں اردو صحافت از ڈاکٹر افضل الدین اقبال۔
تمل ناڈو میں اردو مشاھیر‘ ڈاکٹر علیم صبا نویدی
اردو صحافت کا سفر۔ جی ڈی چندن

Dr Fazil Hussain Parwez
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

Dr Fazil Hussain Parwez
Chief Editor,”Gawah” Urdu weekly
Hyderabad – India

Share

One thought on “اردو صحافت۔ کل‘ آج اور کل”

Comments are closed.

Share
Share