جدید دکنی شاعری
ڈاکٹرمحمد عظمت اللہ
لیکچرر۔ گورنمنٹ جونئیرکالج۔
اردو زبان کی تر قی میں عر بی اور فا ر سی زبانوں کا قا بلِ قدر حصہ رہا ہے ۔ ان دو نوں زبانو ں کے امتزاج سے ار دو زبا ن کا دامن لسا نی اعتبار سے و سیع ہو گیا ۔ صر ف عر بی اور فا رسی ہی نہیں اردو کی پیشتر و دکنی زبان نے بھی کئی صدیوں تک ار دو کی خدمت کی ہے ۔ دکنی زبان نے اردو کا ڈھا نچہ اور لب و لہجہ متعین کیا نہ صر ف دکنی زبان بلکہ یہاں کی تہذیب و ثقا فت نے بھی اردو پر احسان کیا ہے اسی بنا پر اس کو اردو ئے قدیم، کہا جا تا ہے ۔ شما لی ہندوستا کے شعراء کو گوار نہ تھا کہ وہ ایک مقامی بولی میں اپنے جذبات و احسات کا اظہار کر یں ۔ لیکن و لیؔ کے سفرِ دہلی کے بعد انہیں احساس ہو ا کہ اردو ئے قدیم میں بھی اعلیٰ در جہ کی شاعر ی ممکن ہے ۔ اس دور کے
فا ر سی شعرا ء خود چا ہتے تھے کہ وہ فا رسی کے علاوہ ایک ایسی زبان میں شاعر ی کر یں جس سے عوام کے دلو ں تک ان کی رسائی ہو سکے ۔ ولیؔ کا یہ ادبی سفر اردو زبان کے لئے جتنا سُود مند تھا دکنی زبان کے لئے وہ اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ ثا بت ہو ا۔
ہندوستان کے سیاسی اور سما جی حالات تیزی سے بدل رہے تھے ۔ عوام کے تقا ضے اور ان کی دلچسپیاں بدل رہی تھیں۔
لو گ فار سی اور اردو کے امتزاج سے بننے والی نئی زبان کا استقبال کر رہے تھے لہذا شعراء اور ادبا ء نے بھی عوام کے ذو ق کے مطابق اپنی زبان تبدیل کر دی ۔ مقامی اور دکنی زبانوں کے الفا ظ متروک ہو گئے ۔ مثنوی کا دور ختم ہو گیا ۔ زبان صاف اور سشتہ ہو گئی ۔ دکن کے شعرا ء نے بھی اپنی مادری زبان میں شاعری تر ک کر دی ۔پو رے بر صغیر میں تہذیبی و ثقافتی تغیر اّت رو نما ہو ئے ۔ شعر و شا عری میں اسکا اثر واضح طورپر دکھا ئی دینے لگا ۔ اردو شاعری میں مقامی مو ضو عات ، مقامی رسم ورو اج اور روایت کو پیش کر نا اب قدامت پسندی تھی ۔ دھیرے دھیرے اردو شاعری پر ایرانی اور عر بی زبانوں کی روایت اور غیر ملکی تہذیبوں کا اثر گہرا ہو تا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فارسی اور عر بی زبانوں کے اثرات کی و جہ سے اردو کو بے پناہ تر قی ملی اور ار دو زبان صرف چند سالوں کے اندر اس قا بل ہو گئی کہ اس زبان میں دیگر زبانوں کے مختلف علوم و فنون کی کتا بو ں کے تر جمے کئے جا نے لگے جس کی ابتداء فور ٹ ولیم کا لج سے ہو تی ہے ۔ دہلی میں مظہر جا نجاناں اور لکھؤو میں شیخ اما م بخش نا سخؔ کی اصلا حِ زبان کی تحریکوں نے اردو ئے قدیم اور اس کی سا کھ کو نقصان پہنچا یا ۔ دکنی زبان کو دیہاتی زبان کا در جہ دے کر اس زبان کی عظیم روایات اور خدمات کے ساتھ بد دیانتی کی گئی ۔ متو سط دور کے چند بلند پا یہ شعراء نے دکنی زبان کی خدما ت کا اعتراف بھی کیا ہے ۔ با لخصوص ولیؔ اور نگ آبادی کی شاعری اور ان کی زبان کی شمالی ہندو ستان کے کئی شعراء نے تعریف کی ہے ۔ ستر ھویں صدی کے وسط سے آہستہ آہستہ دکنی زبان ادب کے افق سے معدوم ہو نے لگی ۔
تقر یباً دیڑھ سو سال بعد دوبار ہ اسکا احیاء شہر حیدر آباد اور تلنگانہ کے اضلا ع میں عمل میں آیا ۔ حالانکہ زبان بطور بولی کے دکنی میں کبھی ختم نہیں ہو ئی تھی ، یہ زبان دکن کے لو گوں کے خمیر میں پیوست ہو چکی تھی۔جس کو علحدہ کرنا نا ممکن ہے ۔ اسی طرح دکنی زبان اور تہذیب اردو زبان کے خمیر میں بھی شامل ہے ۔ دورِ جدید میں دکنی زبان اور اردو زبانوں کی اپنی الگ الگ شنا خت ہے ۔ اور یہی ان زبانوں کی خصو صیت ہے۔
آندھرا پر دیش ،تلنگانہ‘ کرنا ٹک ، تامل نا ڈو، مہاراشٹرا اور کیرلا کے بیشتر علاقوں میں بول چال کا وسیلۂِ اظہار دکنی زبان ہی ہے ۔ نہ صرف بول چال کے لئے بلکہ خطو ط کتابت کے لئے بھی عمو ماً یہی زبان استعمال کی جا تی ہے ۔ دکن کے با شندے انپی تجارت و کار وباد ، رسم و رو اج، و عظ و نصیحت ، مختلف اجتما عی جلسوں اور محفلوں میں بلا جھجک اور بلا تکلف یہی زبان بولتے ہیں ۔ دکن کا غیر مسلم طبقہ بھی اکثر و بیشتر دکنی کو استعما ل کر تا ہے ۔ شہر حیدر آباد ، اور نگ آباد ، بیدر ، گلبر گہ، شعلہ پور اور محبو ب نگر کے بعض غیر مسلم خاندانوں کی مادری زبان بھی یہی ہے ۔آج کے دور میں دکنی کی شناخت ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے ۔ بعض اہلِ قلم اس بات کو ما ننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ بیسویں صدی میں بھی دکنی زبان اور ادب زندہ ہے ۔ میں نے کر نا ٹک ، کیرلا، تملنا ڈو ، تلنگا نہ کے چند اضلا ع کا سفر کیا ہے اس میں سے چند ریا ستوں میں کچھ عر صد میر ا قیام بھی رہا اور یہ میر ا ذاتی مشاہدہ ہے کہ دکنی زبان آج بھی دکن کے عوام کی ایک بڑ ی زبان ہے ۔اور کئی صدیوں سے یہ زبان دکن کے عوام کی مادری زبان بھی ہے ۔
شہر حیدر آباد کی زبان دکن کے دوسرے تمام علاقوں کی بہ نسبت کا فی نکھرگئی ہے ۔ یہا ں کے مشاعروں اور ادبی محفلوں کی زبان دکنی نہیں رہی لیکن آپکو یہ جا ن کر حیرت ہو گی کہ دورِ جدید میں دکنی شاعری کا احیاء حیدرآباد میں عملمیں آیا۔شہر حیدرآباد کی زبان بھی صدیوں تک دکنی تھی لیکن اردو زبان و ادب کے ار تقاء نے اس کے لب و لہجہ کو کا فی بدل دیا ہے ۔ دکن کے بعض علاقوں میں مو جو دہ اردو اور دکنی کے امتزاج سے ایک مخصو ص زبان بنتی ہے جس کو ہم دکنی نہیں کہہ سکتے ۔ بازاروں کی عام بول چا ل اور بگڑی ہو ئی زبان دکنی سے بالکل لگ ہے ۔ اگر اس زبان کا ہم تجزیہ نہ کر یں گے تو یہ دکنی زبان کے لئے اور اس کی بقاء کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن جا ئے گا ۔ اسکا تجزیہ ہم دکنی قواعد، دکنی لغت کے مطالعہ کے بعد کر سکتے ہیں۔
بیسویں صدی میں دکنی شاعر ی کا احیا ء عمل میں آیا ۔ دکنی زبان و ادب کا استعما ل ابتداء میں مشاعروں اور محفلوں میں بقول ڈاکٹر سلیمان اطہر جاو ید ، کا ن کا ذائقہ ، بدلنے کے لئے ہو تا تھا ۔ اس دور میں دکنی زبان کو زیادہ تر طنزو مزاج کے پیر ائیہ میں بر تا گیا جس کی و جہ سے دکنی زبان کو شہرت بھی ملی ۔ لیکن اس دور کے شعراء کا مقصد محض ہنسنا ہنسا نا نہیں تھا بلکہ ان کے طنزو مزاج کا اوّلین مقصد سما جی اصلا ح تھا ۔ ان کے یہاں دکنی زبان ایک لہجہ ، ایک اسلوب، طر زادا ، تہذیبی قدر ، صرف و نحو کے ایک مخصو ص ڈھنگ اور ایک لسانی رویہ کا نام ہے ۔ ابتداء ہی سے دکنی شاعری کے اپنے محا سن اور خوبیاں بھی ہیں جو دورِ جدید کی دکنی شاعری میں بھی نظر آتی ہیں ۔ مو جو دہ دور کے سماجی ، سیاسی ، معا شی اور معا شر تی مسا ئل کے علا وہ عشق بھی ایک ہم مو ضوع ہے ۔ دورِ جد ید کے دکنی شعراء نے غمِ ذات اور غمِ کا ئنا ت کو متوازن اور مخصوص انداز میں پیش کیا ہے ۔
قدیم دکنی شاعری کی اہم خصوصیا ت حقیقت ، ساگی ، بر جستگی اور روانی تھیں۔ ان قدیم شعرء کے پا س ہمیں تصنع ، تکلّف اور صنعتوں کا بے جا استعمال نظر نہیں آتا ۔بیسویں صدی کے جدید دکنی شعرا اور ان کی شاعری کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنے متقدین کی تقلید کی ہے ۔ قدیم دکنی شاعری کی وہ تما م خصوصیات ہمیں جدید دکنی شاعری میں بھی ملتی ہیں ۔ مقامی رسوم و رواج اور تہذیب و ثقافت کا احترام ہمیں نظر آتا ہے ۔ سیدھے سادے انداز میں اپنا مدعا بیان کر تے ہیں ۔
بیسویں صدی کی دکنی شاعری میں ہمیں سب سے پہلا نا رحیم صاحب میاں کا ملتا ہے ۔ ان سے قبل کسی شاعر کا کلام دستیا ب نہیں
ہو سکا ۔ رحیم صاب میاں کی شخصیت متنوع خصو صیات کی حا مل تھی ۔ وہ اپنی گفتگو ، اپنے لطا ئف اور حر کات و سکنات کے ذریعہ جا نِ محفل بنے رہتے ۔ بس ان کی شاعری کا بھی یہی حال تھا کوئی معاشرتی یا اصلا حی مقصد نہیں ہو اکر تا ۔ تفریحِ طبع اور و قت گزاری ان کی شاعری کا مقصد تھا ۔ جہاں تک لسانی حیثیت کا تعلق ہے ان کی دکنی با غنیمت تھی ۔ سونے پر سہا گا ان کا لہجہ ۔ تحریری شکل میں ان کا کلام بہت کو دستیا ب ہے ۔ ان کا ایک ’’ سہر ا ‘‘ ملا ہے جس کے چند اشعار اسطرح ہیں۔ ع
ع۔ کیوں ۱کٹر کو بیٹھا ہے دُلہا یہ مہماناں کے بیچ
زر کے تاراں دِس رہے ہیں سہرے کے لڑیا ں کے بیچ
دیکھ کو مکھڑے کودولھا یہ بولیا دوُلن سے بات
اب رہا پرداچ نئیں ہمنا اور تمناں کے بیچ
نذیر احمد دہقا نی ؔ کی شاعری کا دائر ہ نسبتاً و سیع ہے ۔ ان کے ہا تفکر بھی ہے اور تخیّل بھی ۔ دکنی زبان پر جو سکوت طاری تھا دہقانی ؔ نے اس کو توڑا ۔ ان کے کلام کا مجوعہ ’’ نوائے دہقانی ‘‘ سے قبل کو ئی دکنی شعری مجموعہ نہیں ملتا ۔ انہوں نے اپنی زندگی کا کچھ
عر صہ دیہات میں گزارا تھا اسلئے ان کی شاعری میں دیہی زندگی اور اس کے مسائل کی عکاّ سی بلتی ہے ۔انہیں منظر نگاری پر بھی قدرت حا صل تھی ۔ مو ٹ چلا نے کے بارے میں یہ دو شعر ملاحظ ہو ں ۔۔۔ع
جب لو گاں رسہتےءں نیندان میں ہا تھ میں لمبا لٹ لے کو موٹ چلانے جاتا ہوں کھاندے پو کمبل سٹ لے کو
میں موٹ چلاتے رہتا ہو جب ہو کر مست خیالاں میں
شو نم کے مو تھیا ں پر و تے ہو ئے تو میرے سر کے بالاں میں
نذیر دہقا نی کے بعد علی صائب میاں نے دکنی شاعری کا آغاز کیا وہ دہقانی کے دکنی کلام سے متاثر تھے۔ علی صائب میاں دکنی کے معتبر شاعر ما نے جا تے ہیں ۔ ۱۹۶۸ ء میں انکا دکنی مجمو عہ کلام گھوکروکے کانٹے شا ئع ہو ا ۔ لسانی اعتبار سے ان کی شاعری خاص اہمیت کی حامل ہے ۔ ان کی شاعر ی کو ہم قدیم دکنی زبان کا مسلسل اور جدید دکنی میں آغا ز کہہ سکتے ہیں ۔ ان کی زیادہ تر نظمیں سما ج کی آئینہ دار ہیں ۔ نظم ’’ لیو خطبہ ‘‘ میں ا نہو ں نے سما ج کے ہر طبقہ کی عکاّ سی کی ہے ۔۔ ع
با غ لگا رۂو ں محنت سے پھل دوسرے کھار ئیں لیو خطبہ
آنکھ میں مٹّھی ڈالے سو ڈالے منہہ میں بھی بھار ئیں لیو خطبہ
رشوت سے سب کٹہّ چھلنی کتّےِ سُراخاں بند کرنا
لانڈ گے بن کو ساؤ ستّے بکریاں چرارئیں لے خطبہ
اعجا ز حسین کھٹا ؔ نے دکنی زبان کے ساتھ انصاف کیا ہے ۔ انہیں دکنی زبان اور دکنی تہذیب سے محبت تھی ۔ ان کی شاعری
مسا ئلی شاعری ہے ۔ معاشرے کی عام با تیں سیدھے سا دھے انداز میں بیان کر دیتے ہیں ۔ انہوں نے انسانی کو تا ہیوں اور ان کی اخلاقی پستی پر طنزکیا ہے ۔ وہ انسان میں خود اعتما دی اور خود داری کے جو ہر دیکھنا چا ہتے ہیں ۔
ع
املی کے جھاڑ کی مجھے بس بس ہے چھا وءں یہ
کھٹّے کی لا ش کھڈّ ے میں ننگی گا ڑ و
غیراں کے او نچے محل یہ چھپّر نکوّ چ نکوّ
اس کے کفن کو غیر کی چدّر نکو چ نکوّ
جدید دکنی شاعر کا ایک پر و قار نا سر ور ڈنڈا ؔ ہے ۔ ڈنڈا کی عظمت اس میں ہے کہ ان کی شاعری غیر معمولی حد تک دکنی ہے ۔ ان کا معاشر تی و سیاسی شعور غیر معمولی تیز تھا ۔ انہوں نے طنز و ظر افت کا سہار ا لے کر ہنستے ہنسا تے انسا نیت کی دکھتی رگوں کو چھیڑا ہے ۔ شاہ پور واڑ ی ، سنجیواریڈی ما ما اور ادے نا ما دیشم ان کے سیاسی و سما جی شعور کی بے مثا ل نظمیں ہیں ۔۔
ع۔
سداں میرے گاؤں پو غیربت کا موسم
نہ فاقوں سے فرصت نہ دمسّچ ہے دم
یا لنگی بی گت نئیں واں ان کو ہے ریشم
اِدے نا مایشم! اِدے نا مادیشم
بڑا پاپ ہے یاں کو ہنسنا ، ہنسانا
سدا ریت ہے یاں کو رونا رلانا
چپُیچ لڑکو مررئیں وینکٹ یشم
اِدے نا ما دیشم! اِدے نا ما دیشم
دکنی کو سلیمان خطیب ؔ کی دین بہت زیادہ ہے ۔ انہوں نے مو جو دہ اردو اور دکنی کے امتزاج سے کا م لیا ہے ۔یہی امتزاج ان کی شاعری کو پہچا ن ہے ۔ ان کی زبان میں وہ ساری خصو صیات مو جو د ہیں جو ہمیں قدیم دکنی شعراء کے ہا ں نظر آتی ہیں ۔ انکا شعری مجمو عہ ’’ کیو ڑے کا بن ‘‘ کا فی اہمیت رکھتا ہے۔
اس ایک شعری مجمو عہ میں انہوں نے پو ری ایک صدی کے معا شرہ کی تصو یر کھینچ دی ہے ۔ انسا نی جذبات ، معاشر تی ٹکر اؤ ، تصو رِحیات ، منا ظر قدرت ، حب الو طنی ،مزدور وں اور کسانوں کے مظالم غر ض ہر مو ضو ع پو رے آب وتاب کے ساتھ ان کی شاعری میں جلوہ گرہے۔ اپنی نظم ’’پڑوسن‘‘ میں سلیمان خطیبؔ نے دیہاتی رومان کانقشہ کھینچا ہے۔ ع
میں چھلّے کا کنکر بناکو رکھوّں گا
کلیجے کے اندر چھپا کو رکھوں گا
یہ بھیدان دلوں کے میں کھلُنا کتوں گے
میں انکھیاں پو اپنے بٹھاکو رکھوّں گا
اندھارے کی چمُنی بناکر رکھوّں گا
میں سنپڑا کو رستے میں بُلنا کوں گا
تو گمّت ہے گمّت ہماری پڑوسن
گِلّی نلگنڈوی بھی دکنی کے جا نے پہچا نے شاعری ہیں ۔ معاشرتی زندگی کے عا م مسا ئل ان کی شاعری کے مو ضو عات ہیں ۔ لب و لہجہ دھیما لیکن اشارے معنی خیز ہو تے ہیں ۔طنزو ظر افت کے پیر ائیہ میں عمدہ اشعار کہہ جا تے ہیں ۔ ان کا ایک شعری مجمو عہ
’’ تا ڑبن ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ دکنی زبان اور لب و لہجہ ان کی شاعری کے حسن کو دو با لا کر دیتا ہے۔ع
کٹر کی میں بھی چھو ڑ ئیں نےءں آخر منجے جھاڑے نا
اُپّر اُپّر سے میں خوش تھا زندہ منجے گاڑے نا
حمایت اللہؔ نے اپنے پیشر وؤں کی روایات کا احترام کیا ہے ۔ ان کی زبان بھی ٹھیٹ دکنی ہے ۔ دکنی مو ضو عات کو انہوں نے دلچسپ پیرا ئیہ میں بیان کیا ہے ۔ دورِ جدید کے دکنی کے بلند پا یہ شاعر ہیں ۔ انہوں نے غزلیں بھی کہیں ہیں اور نظمیں بھی دھنٹری انکا شعری محموع ہے ہے جس میں سیاسی ، سما جی اور عشقیہ مضا مین زیا دہ نظر آتے ہیں ۔ع
و ئیدہ تو کر ر ئیں پن کی آتیپں کی نےءں آتےءں کی !
مھاڑیوں کو غم کے میرے ڈھا تےءں کی نےءں ڈھا تےءں کی
’’میک اپ کا ڈبہّ‘‘ ’’نا نی اماّ ں کیا ہے کی کیا نےءں کی ‘‘اور عید مبارک ان کی مشہور نظمیں ہیں۔
دو سری نظم میں لیڈروں کی ڈپلو میںی کو مو ضو ع بنا بیا گیا ہے ۔ سیا ستدانوں پر اس نظم میں گہر ا طنز ملتا ہے ۔ چندا شعار
ملا حظہ ہو ں ۔
ہم کب بھی نےءں دیکھے یہ کیسے باتاں
اجی کیسے لیڈر تھے نانی تمارے
ہمارے بھی لیڈر ہے گبرو نرالے
الیکشن میں آنے پلاناں بنارئیں
مرگئے سو مردوں کے کررئیں علاجاں
جی نانی ماں کیا ہے کی کیانےءں کی
فکر کر کو جنتا کی مرگے و بچارے
ڈبا ڈالے جنتا کو خود ہیں کنارے
کمیٹیاں بٹھا کو دلوں کو ملارئیں
جی نانی ماں کیا ہے کی کیانہءں کی
آزادی کے بعد دکنی شاعری کا ایک اور معتبر نا م پا گلؔ عادل آبادی کا ہے ۔ جنکی شہرت عالمگیر سطح پر تھی ۔ ان کے جملہ ۵ شعری مجمو عے شائع ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے مو جو دہ اردو میں شاعری کی ہے ۔ ان کے کلام کا ایک بڑا حصہ دکنی پر مشتمل ہے ۔ انہوں نے دکنی زبان میں اعلیٰ در جہ کی شاعری کی ہے ۔ انہوں نے اپنے مزاج کی مناست سے طنزیہ و مزاحیہ پہلو اختیار کیا ۔
سما جی و معاشر تی اصلا ح ان کی شاعری کا اصل مقصد رہے ۔ع
وہ ہا نڈی کہاں ہے کی ، وہ چولہا کدھر ہے کی
گھر والی کلب میں ہے، گھر والا کدھر ہے کی
بیگم تو دکھائی دے ، پر برقع کدھر ہے کی
تعمیر کمیٹی کے پھارے سو رسیدیں ہیں
مسجد تو ہے نقشہ میں پر چندہ کدھر ہے کی
غو ث خواہ ؔ مخواہ جدید دکنی زبان کے بلندپا یہ شاعر ہیں۔ انہوں نے مو جو دہ اردو زبان میں اور دکنی زبان دونوں میں شاعری کی ہے ۔ سما ج کی برائیاں اور گر تے ہو ئے اقدار کو انہو ں نے طنز کا ،نشا نہ بنا یا ۔انکا دکنی کلا م مختصر ، ہی سہی بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ انہوں نے دکنی زبان میں نظمیں، غزلیں لکھیں ، دکنی چوّے بھی لکھئے ۔ جدید دکنی شاعری میں انکا ایک کا ر نا مہ یہ ہے کہ انہوں نے ہئیت کے اعتبار سے بھی تجر بے کئے ۔ جو کسی اور شاعر کے ہا ں نظر نہیں آتا ۔ انہوں نے قیامت کے دن کے منظر کو اپنی ایک طویل آزاد نظم میں اسطرح پیش کیا ہے ۔ ع
قیامت آئینگی اک دن
سوا نیزے پو سورج دھوپ کی انکار برسئینگا
پڑ یں گے پیاس سے حلق میں کا نٹے
اسی دن میں سُنون کہ
سارے لوگاں کا حساب ہو ئینگا
ثواباں جب ملیں گے نیک لو گوں کو
بُرے لو گوں کو بھی
ان کے گناہوں کو سزا مل جا ئینگی اس دن
اسر ف خو ند میری بھی دور جدید کے قد آور شاعر ہیں ۔ اہنوں نے دکنی زبان مے ں نظمیں ، عزلیں لکھیں ۔ انہوں نے سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں قسم کی شاعری کی ہے ۔ ان کی شاعری میں دکنی زبان کو روایا ت اور مو ضو عا دونوں ابھر کر آتے ہیں ۔ لوری، اٹّھا
چمّا ں ، جھّمک جھّکا ، پیار کی رو تری ، پھگٹ کا ما ل دیدے لا ل ان کی بہتر ین دکنی نظمیں ہیں ۔ جس میں مختلف سما جی مسا ئل کو مو ضو ع بنا یا گیا ہے ۔ ایک اور نظم ’’ چان کی بُڈّی ‘‘ میں ہندو ستان کی حا لتِ زار کا نقشہ کھینچا ہے ۔ جس کا اندا.ڈرا مائی ہے اور بہت دلچسپ بھی ۔ اشعار ملا حظہ ہوئے ۔ع
چان کی بڈی کان پکڑ کو سچی سچی بول
میرے ملک کی قسمت کئیکو ہو گئی علی خول
چیل کی نیت مردار اں پو کئیکو ہے کنڈول
ہم لوگوں کی حالت کئیو ہوگئی جتتپچ ڈھول
تیرے رکھّے پیٹوں میں دالو نو من تیل
بول بڈی اگے بھی کئیں دیکھی ایسا کھیل
ڈھکّن رائچوری کی شاعری میں دکنی کی لطافت اور نزاکت ہے ان کے پا س زندگی کا غم ہے ۔ ان کے مو ضو عا ت جما لیا تی حس کو متا ثر کر تے ہیں انہیں دکنی زبان اور انداز بیان پر عبور حا صل ہے ۔ انکا ایک شعری مجموعہ ’ ’ گلیر کے پھو ل ‘‘ شائع
ہو چکا ہے۔ اس کے بعد بھی انہوں نے دکنی میں مزید عمدہ شاعری کی ہے ۔ ان کی مشہور نظم ’’ گا ؤ ں کی چھوری ‘‘ ہے ۔
نکوّ ما ں گے نکوّ ماں گے نکوّ ما ں
نکوّ ماں گے نکوّ ماں گے نکوّ ما ں
منجے شہر کی چھوری نکوّ منجے بہت وہ گوری نکوّ
گاؤں کی خیرون بھلی ہے رنگ میں بن سانولی ہے
منجے سو نے کی ڈو ری نکوّ منجے پیسو ں کی بو ری نکوّ
موگرے کی کچی کلی ہے ڈھکنّ کو لگتی بھلی ہے
وئسیچ ہونا وئسیچ ہونا وئسیچ ہونا ماں وئسیچ ہونا
بگٹرؔ رائچوری کا دکنی کلام بہت مختصر ہے ۔ لیکن ان کے کلام کو نظر اندا ز نہیں کیا جا تا ۔ انہوں نے اپنی منظو مات میں معا شی ، معا شرتی اور تہذیبی زوال کی خوب عکاّ سی کی ہے ۔ اس خصو ت میں ان کی نظم ’’ حیدر آباد نگینہ ۔ اندر مٹیّ اوپر چونا ‘‘ اہمیت کی حا مل ہے ۔ ع۔
امرایاں تک بیچ کو کھائے
تھے سو زمیناں رہن رکھائے
اللہ ایسا وقت نہ لائے!
باقی نےءں ہے گھر کے پائے
حیدرآباد نگینہ ، اندر مٹی اوپر چونا
شمشیر ؔ کو ڑ نگل کا تعلق ضلع محبو ب نگر سے تھا ۔ انہو ں نے بھی اپنی شاعری میں ٹھیٹ دکنی کا استعمال کیا ہے ۔ وہ اپنی شاعری کا مو اد گر دو پیش کے ماحول میں اکٹھاکرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام میں سماجی زوال اور نظم ونسق کے انتشار کو پیش کیا ہے۔ ملک میں پھیلی غریبی اور بے روزگاری کا ذکر کیا ہے۔ ع
کھانے کو نےءں ہے کھا نا ، تندانا تا نا تا نا
رہنے کو نےءں ٹھا نہ تندانا تا نا تا نا
جل بھن کو بُھکیّ پیا سے فٹ پا تھ پو پڑ ے تھے
پولیں بائیں تھانہ تن دانا تا نا تا نا
رو رو کو گھر میں بچیّ مر داں کو تنگ کر رئیں
دفتر میں ہے زنا نہ تندانا تا نا تا نا
محبو ب نگر کے ایک اور مقبول عا شاعر دچچا ؔ پالو ری ہیں ۔ انہوں نے دیہا توں کا اور وہا ں کے مسا ئل کا قریب سے مشا ہدہ کیا ہے ۔ انہوں نے مجبور و بے کس لو گوں کو حما یت میں شاعری کی اور ان کی دکھتی رگوں پر ہا تھ رکھا ۔ یہ دور حاضر کے صفِ اول کے دکنی شاعر ہیں ۔ انکا ایک شعری مجمو عہ ’’ دکھتی رگ پر ‘‘ ۲۰۱۲ ء میں شا ئع ہو ا ۔ انہو ں نے سما جی بر ائیوں پر طنز کیا ہے ۔ جو ڑے کی رقم اور جہیز کے خلاف انکا صرف ایک شعر بلا حظہ فر ما ئیے جس سے ان کے سما جی شعور سے آگہی ہو گی ۔ع
ان بھئی پوٹیاں گھر میں سڑرئیں کیا ہوتا کی کیانےءں کی
پوٹوں کے بھی ریٹاں بڑرئیں کیا ہوتا کی کیانےءں کی
حفیظ خاں سپاٹؔ (مذاقؔ ) نے بھی دکنی کے وسیلہ سے طنز ومزاح پیدا کر نے کی سعی کی ۔ ان کے ہاں سنجیدہ کلام بہت کم ملتا ہے ۔ ان کی مشہور نظم ’’ فیشن کی گڑ یاں ‘‘ ہے جس میں انہوں نے مغر بی تہذیب کی بے جا جا تقلید پر طنز کیا ہے ۔ع
کررئیں سلام باوا کو ہائے! ہائے ! کتے !!
پڑھنے کو جارئیں تو بس بائے بائے کتے
بچپن سے ان کے آنگ پو انگریزاں آئے کتے
انگریزوں کے پلیتوں کا پانی پلائے کتے
جدید دور میں دکنی میں شعرکہنے والے ایک اور شاعر فر ید انجمؔ ہیں ۔ بقول ڈاکٹر مجتبیٰ حسین ’’ انہیں دکنی زبان اس کے لب و لہجہ اور اس کے مخصو ص محاوروں پر گہر ی قدرت ہے ‘‘ ہمارے معاشرہ کی کمزور یوں کو فنکا رانہ انداز میں طنز و مزاح کے پیرائیہ میں پیش کر نا انکا کمال ہے ۔ع-
گھر کے کاموں سے دور ہے بڈّی
بیل باٹم کبھی تو میکسی میں
ڈب کو فیشن میں چور ہے بڈّی
جیسے فلموں کی حور ہے بڈّی
اس بڑھاپے میں بھی اُتانی ہے
اُن امیتابھ کی دِوانی ہے !
قاری ساطان اختر صاحب کی دکنی شاعری خا لص اصلاحی شاعری ہے ۔ انکا مجمو عہ کلام کلا مِ اختر کے نا م سے شائع
ہو چکا ہے ۔ ان کی نظمو ں میں مسلمانوں کی بے دینی پر گہرا طنز ملتا ہے ۔ ع
ٹوٹنکل ٹوئکل ِ لٹل اسٹار
ہویّ و نڈر واٹ یوُ آر
اُنے پڑنا پڑئیے بھوٹ بڑا
اس لئے مذہب چھوڑنا پڑا
تھا ’’ دین ‘‘ رکاوٹ بن کے کھڑا
ہر ’’ حکم ‘‘ اُسے لگتا تھا کڑا
بیسویں صدی کے ابتداء اور با لخصو ص آزادی کے بعد دکنی زبان میں شعر کہنے والوں کی فہر ست طویل ہے ۔بعض مخص شہرت کی غرض سے ’’ بگڑی ہو ئی اردو ‘‘ کو دکنی کا نا م دے کر اسٹیج پر آجا تے ہیں ۔ بعض کو واقع دکنی سے دلچپی ہے ۔ گلیم ؔ میدکی ،
نیا ز الدین احمد کر یمنگری کے پا س بھی کچھ دکنی غزلیں ہمیں ملتی ہیں ۔ ان جدید دکنی شعرا ، کے کلام میں وہ ساری خصوصیات مو جو د ہیں جو کبھی قدیم شعرا ء کے ہا ں ہو ا کر تی تھیں۔ امید ہے کہ مستقبل میں چند اور شعرا ء ابھر کر آئیں گے جو ضرور اپنے دکنی کلام سے دکنی زبان کا معیار بلند کر یں گے۔
***
Dr. G. Azmatullah
Mob- 09491549259