صوفیائے گولکنڈہ کی علمی اورادبی خدمات

Share
صوفیائے گولکنڈہ
قلعہ گولکنڈہ

پروفیسر محمد علی اثر
صوفیائے گولکنڈہ کی علمی اورادبی خدمات

اُردو زبان وادب کے آغاز اور اس کی ابتدائی نشوونما میں سلاطین دہلی یادکن کا حصہ برائے نام رہا ہے۔ کیو ں کہ بیشتر سلاطین فارسی زبان کے دلدادہ تھے اور یہی ان کی سرکاری زبان بھی تھی۔ اس لیے اردو نے شاہی درباروں کے بجائے گلی کوچوں اور بازاروں میں جنم لیا اور یہیں اس کی ابتدائی پرورش بھی ہوئی۔ محلاتِ شاہی میں اسے باریابی حاصل نہیں تھی تاہم درویشوں‘ صوفیوں اوراولیاء اللہ کی خانقاہوں میں اسی کا بول بالا تھا۔
سرزمین ہندپرجتنے صوفیاء اور مذہبی مبلغین رونق افروزہوئے وہ عربی‘فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں کے بھی علماء اورفضلاء تھے لیکن خواص کے بجائے وہ عوام سے سروکاررکھتے تھے۔ انھیں کی بول چال کی زبان میں گفت وشنید کرتے اور تعلیم وتلقین کے لیے بھی عوامی زبان کا استعمال کرتے۔ یہ بڑا گُر تھا اور صوفیائے کرام اسے بخوبی جانتے تھے(۱)۔
بقول ڈاکٹر انور سدید ’’یہ لوگ حُبّ دنیا‘ حُبِّ جاہ اور حّب دولت سے آزاد تھے۔ دنیا پرستوں کو حق کی راہ دکھانا ان کا مقصدِ حیات تھا۔ چنانچہ درویشانِ ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے اردو زبان کا سہارا لیا اور قربت اور اپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیا جو سلاطین ہند اپنی دولت و ثروت کے باوجودپیدا نہ کرسکے۔ ہمہ زبانی کے اس عمل نے اردو زبان کی ابتدائی نشوونما کو گراں قدر فائدہ پہنچایا (۲) ۔

سرزمین گولکنڈہ میں تصوف کے کم وبیش تمام سلاسل کو رواج وقبول نصیب ہوا۔ اس خطے پر مذہبی رہنماؤں اور صوفیائے کرام کی آمد کا سلسلہ مملکتِ گولکنڈہ کے قیام سے سیکڑوں برس پہلے شروع ہوچکا تھا اس لیے گولکنڈہ کے صاحب تصنیف صوفیاء کے تذکرے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگانِ دین پر بھی سرسری نگاہ ڈالی جائے جن کی کوئی تحریر یا تصنیف ہم تک نہیں پہنچی۔
اس سرزمین کو سب سے پہلے حضرت بابا شرف الدین ؒ (۵۸۵۔۶۸۷ھ) نے اپنے بابرکت قدموں سے تقدس اور وقار عطا کیا۔ آپ اپنے مرشد شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کی ہدایت پر عراق سے ہندوستان تشریف لائے اور نوبرس تک یہاں کے مختلف شہروں میں قیام کرنے کے بعد قطب شاہی سلطنت کے قیام سے پہلے۶۵۴ھ میں دکن پہنچے(۳)۔ حضرت بابا شرف الدین کے ساتھ آپ کے دوبھائیوں بابا شہاب الدین(۴) اور بابا فخرالدین (۵) کے علاوہ ستّر مریدین بھی شامل تھے۔ آپ نے اپنے قیام کے لیے ایک بلند پہاڑی کا انتخاب فرمایا تھا جو آج بھی آپ ہی کے نام سے موسوم ہے۔ حضرت باباشرف الدین نے کم وبیش۳۷ سال تک باشندگانِ دکن کو اپنے روحانی فیض سے مالا مال کیا۔ آج بھی آپ کا آستانۂ مبارک حیدرآباد اور اس کے اطراف واکناف کے مسلمانوں اور ہندوؤں کی زیارت گاہ بناہوا ہے۔
حضرت بابا شرف الدین کے بعد سرزمین دکن کو حضرت شاہ چراغ نے اپنے قدومِ مینت افروز سے رونق بخشی۔ آپ قطب شاہی سلطنت کے ابتدائی زمانے میں نجف اشرف سے دکن تشریف لائے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ کو عالم رؤیا میں سرزمین دکن پر چراغ ہدایت روشن کرنے کا حکم دیا تھا(۵)۔حضرت شاہ چراغ کے زہد وتقویٰ اور پاکیزہ کردار سے متاثر ہوکر یہاں کے باشندے آپ کے معتقد ہوگئے تھے۔ شاہ چراغ نے اس مقام پر قیام فرمایا‘ جہاں آج دائرہ میر مومن واقع ہے۔ ایک مختصر سے عرصے کے بعد اسی جگہ پر سید نور الہدیٰ نامی ایک خدا رسیدہ بزرگ اپنے چند مریدوں اور معتقدوں کے ساتھ قیام پذیر ہوگئے تھے‘جس کی وجہ سے یہ مقام اور زیادہ آباد اور آئندہ بسنے والے شہر حیدرآباد کا نقطۂ آغاز بن گیا۔ بعدازاں عہد محمدقلی قطب شاہ کے پیشوا ئے سلطنت میر محمد مومن نے شہر کے اسی مقام پر کربلائے معلی کی مٹی منگوا کربکھیردی اور خود اپنے اور اپنے خانوادے کے لیے مقبرے تعمیر کروائے(۶)۔ حضرت میر محمد مومن بھی ایک پاکیزہ کردار اورصوفی سیرت بزرگ تھے۔
عہِدابراہیم قطب شاہ کے ایک برگزیدہ ولی اور مذہبی رہنما حضرت سید حسین شاہ ؒ ہیں۔آپ حضرت خواجہ بند نوازؒ کی اولاد سے تھے۔ ابراہیم قطب شاہ نے حضرت کو ریاست کے صیغۂ تعمیرات کا معتمد اور دس ہزار فوج کا سپہ سالار مقررکیا تھا ۔خیرت آباد کی مسجد اور حسین ساگر آپ ہی کی نگرانی میں تعمیر ہوا تھا(۷)۔
اسی زمانے میں چشتیہ سلسلہ کے میر مومن نامی ایک اور صوفی بزرگ اپنے چالیس مریدوں کے ساتھ حیدرآباد آئے تھے۔ آپ نے بیرونِ دروازہ علی آباد میں قیام فرمایا ۔چوں کہ آپ زیادہ تر ذکر و شغل میں مصروف رہتے تھے اور کسی سے بات نہیں کرتے تھے اس لیے عوام میں’’مومن چپ صاحب‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ محمد قلی قطب شاہ کے دورِحکومت میں ایک صوفی درویش سید میراں حسین الحموی جو حضرت غوث عظم ؒ کی اولاد سے تھے‘ حیدرآباد تشریف لائے۔آپ شاہ ابدال کے لقب سے مشہور تھے۔ حضرت اپنے ایک سومریدوں کے ساتھ گولکنڈے کے قریب ایک مسجد میں مقیم تھے۔ شاہ ابدال سلسلہ قادریہ کے پیرِ طریقت تھے۔ آپ کا وصال ۱۰۴۹ھ میں ہوا۔ مزار شریف گولکنڈہ کے قریب لنگر حوض میں واقع ہے۔
قطب شاہی دور کے کم وبیش اسی زمانے میں شاہ زین الدین شبلی ؒ نامی ایک بزرگ بغداد سے گولکنڈہ تشریف لائے تھے۔ آپ محلہ کاروان کے قریب ایک چھوٹی سی پہاڑی پر سکونت پذیر ہوئے تھے۔ یہ پہاڑی آج بھی شاہ شبلی کی پہاڑی کے نام سے شہرت رکھتی ہے۔ شاہ شبلی ؒ ‘ خواجہ ابوبکر عبداللہ شبلی ؒ کی اولاد سے تھے اور آپ کاسلسلہ بھی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے ملتا ہے۔ آپ کا وصال ۱۰۵۰ھ میں ہوا۔عبداللہ قطب شاہ کے دور میں بیجاپور کے ایک صاحب کشف وکرامت بزرگ حضرت سید بہود علی شاہ ؒ حیدرآباد میں رونق افروز ہوئے۔ آپ نے ۱۰۶۰ھ میں انتقال فرمایا۔ محلہ عثمان پورہ میں آج بھی آپ کا آستانۂ مبارک مرجع خلائق ہے (۸) ۔
عہد عبد اللہ قطب شاہ ہی میں بغداد سے ایک صوفی بزرگ شاہ عبدالرزاق ثانی ؒ گولکنڈہ تشریف لائے تھے۔ آپ کا مزار حیدرآباد سے ۴ میل کے فاصلے پر ’’ پیرلا گوڑہ‘‘ میں واقع ہے۔ آپ نے ۱۰۶۱ھ میں انتقال فرمایا۔ اسی دور میں حضرت صوفی سرمد ؒ کے مرید اور خلیفہ حضرت سید حسن برہنہ شاہ دلّی سے حیدرآباد آئے تھے۔ آپ دراصل عراق کے متوطن تھے۔ وہاں سے دلی پہنچ کر حضرت صوفی سرمد ؒ سے بیعت ہوئے اور پھر حیدرآباد میں پھسل بنڈہ کے قریب سکونت پذیر ہوئے جہاں آج بھی آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ عبداللہ قطب شاہ کے ایک امیر مالک پرست خاں نے مزار پرایک خوبصورت گنبد تعمیر کروایا (۹)۔حضرت برہنہ شاہ ؒ نے ۱۶/ جمادی الثانی ۱۶۶۴ء میں انتقال کیا۔
سلاطین گولکنڈہ بڑے اولو العزم‘ صاحب سیف وقلم‘ صوفی دوست اور رعایا پرور حکمراں گزرے ہیں‘ جنھوں نے مملکتِ گولکنڈہ کے چپہ چپہ پراپنی عظیم الشان یادگاریں چھوڑی ہیں۔ قطب شاہی عہد حکومت میں اس علاقہ کو خوب پھلنے پھولنے او رپروان چڑھنے کاموقع ملا۔ اس دور میں ایک طرف سلاطین دکن کی دینداری اور علم دوستی کی وجہ سے مسجدوں‘ مدرسوں‘ خانقاہوں‘ کتب خانوں‘ لنگر خانوں اور کاروان سراؤں سے کوئی مرکزی مقام خالی نہیں رہا۔ غرض گولکنڈہ میں علوم ظاہر وباطنی کا ایک تازہ جہاں آباد ہوا۔ گولکنڈے کے کم وبیش تمام سلاطین صوفیاء ومشائخ ‘صالحین اور ابرار کے ارادت مند تھے ۔ان بزرگوں کی خانقاہیں طالبین وسالکین کے لیے باعث تقدیس وعظمت بنی ہوئی تھیں۔
گولکنڈہ کے پہلے حکمراں سلطان قلی قطب الملک کو حضرت شاہ نورالدین ثانی ؒ سے ارادت تھی۔(۱۰) ۔شاہ نورالدین ؒ نے سلطان قلی کے بادشاہ بننے کی پیشین گوئی کی تھی۔ ابراہیم قطب شاہ اپنے باپ اور بھائیوں کے قتل کے بعد جمشید قلی سے گھبراکر وجیا نگر میں پناہ حاصل کرنے سے پہلے شاہ بدرالدین ملتانی ؒ کی خدمت میں حاضری دی تھی۔ حضرت نے اسے فی الفور کو ئی جواب نہیں دیا لیکن بعد میں آپ نے جمشید کے تخت کے خالی ہونے اور ابراہیم کے بادشاہ بننے کی بشارت دی تھی(۱۱)۔
محمد قلی قطب شاہ ‘ محمد قطب شاہ اور عبد اللہ قطب شاہ نے بھی دیگر قطب شاہی سلاطین کی طرح صوفیاء اوراولیاء اللہ سے حسنِ سلوک اور عقیدت کی روایات کو باقی رکھا۔ گولکنڈہ کا آخری فرماں رواابوالحسن تانا شاہ‘ حضرت شاہ راجو ثانی ؒ کا معتقد اور مرید تھا۔ جنھو ں نے اس کے بادشاہ بننے کی قبل از وقت پیش گوئی کی تھی ۔
جہاں تک قطب شاہی دور کے صوفی شعرا اور ادیبوں کا تعلق ہے ‘ان میں قطب الدین قادری فیروزؔ ‘ سید محمودؔ ‘ اسد اللہ وجہیؔ ‘ملا عبداللطیف غواصیؔ ‘میراں جی حسن خدانما‘ میراں یعقوب‘شاہ عابد اور شاہ راجو حسینی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے بعض اہلِ قلم اپنے عہد کے مشاہیر صوفیاء کرام کے مریدین کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں اور بعض باعمل صوفی بھی ہیں۔ ذیل میں ان کی خدمات پرروشنی ڈالی جاتی ہے۔
قطب الدین قادری فیروز بیدر کے مشہور صوفی حضرت شیخ محمد ابراہیم‘مخدوم جی‘‘ کا مریدتھا۔ مخدوم جی ؒ کی شہرت دکن کے علاقے میں دور دور تک پھیل چکی تھی۔ ابراہیم قطب شاہ نے حضرت مخدوم جی ؒ کو گولکنڈہ آنے کی دعوت دی تھی۔ مخدوم جی ؒ نے کہلا بھیجا کہ :
’’سلاطین درویشوں کی دعا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو تمام مسلمانوں کے ساتھ دعا میں شریک کرتا ہوں‘‘ (۱۲)۔
مخدوم جی ؒ خود تو گولکنڈہ نہیں آئے لیکن اپنے بھائی حضرت شیخ بدر الدین ملتانی ؒ اور اپنے مرید قطب الدین قادری فیروز کوگولکنڈہ روانہ کیا۔ فیروزؔ کی ایک مثنوی’’پرِت نامہ‘‘ اور چند غزلیں دریافت ہوئی ہیں۔ مثنوی پرِت نامہ میں فیروزؔ نے ابتداءً حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی مدح کی ہے اور بعد میں اپنے پیر ومرشد حضرت مخدوم جی ؒ کی مدح سرائی کی ہے۔ مخدوم جیؒ کو فیروز نے ’’محی الدین ثانی‘‘ کہہ کر اس طرح مخاطب کیا ہے؂
محی الدین ثانی سو مخدوم جیو
ارے جیو اس ہت پرم مدپیو
براہیم مخدوم جی جیؤ نا
مئے صرف وحدت سدا پئیونا
بڑا پیر مخدوم جی جگ منے
منگے نعمتاں معتقد اس کنے
فیروزؔ کے مریدوں میں مثنوی’’ بھوگ بل‘‘ اور ’’ولایت نامہ‘‘ کے مصنف پیار محمد بن عیسیٰ خاں قریشیؔ بیدری کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ فیروز کا ایک ہم عصر شاعر سید محمود ہے۔اس کے درج ذیل اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ملک شرف الدین شہباز ؒ کا مرید تھا؂
کہے شاہ شہباز محمود کوں
قدم رَک تو ہر فن میانے ثبوت
محمود کو ں شہباز بولے صریح کھول
مَن خصلتاں کوں چھوڑ جوپاوے وصال کوں
سید محمود کے کلام کاایک قلمی نسخہ انجمن ترقی اردو‘ کراچی کے کتب خانے میں محفوظ ہے جس میں زیادہ تر غزلیں ہیں تاہم اس نے کبت‘ دوہرے‘ مرثیہ اور جھولنا پر بھی طبع آزائی کی ہے۔ محمود کے کلام میں عشقیہ جذبات کی حرارت کے ساتھ ساتھ متوفانہ مضامین‘ بے ثباتی دنیا اور نیکی کے اقدار کو اپنانے کی تلقین بھی ملتی ہے؂
ہے باٹ یو د و روز کا توشہ کمرکوں باندھ چل
مغرور ہوبیٹھا ہے کی‘ اونچے طلاکاری چھجے
آج ہورکل میں اپس کی زندگی ناگھال توں
جو توکرنا ہے سوکرلے حق کاماں کو ں شتاب
لکڑی ستی حیات ہے دنیا میںآگ کوں
منصور کوں ملا حظ کچھ نئیں ہے دار کا
ملک الشعراء اسد اللہ وجہیؔ دکنی اردو کا عظیم المرتبت شاعر اور باکمال نثرنگار ہی نہیں تھا بلکہ اپنے عہد کا ایک بلند پایہ عالم‘ فلسفی اور حکیم بھی۔ اس نے چار بادشاہوں ابراہیم قطب شاہ ‘محمد قلی قطب شاہ‘محمد قطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ کا زمانہ دیکھا۔وجہیؔ نے مثنوی قطب مشتری‘ تاج الحقائق ‘سب رس اور فارسی دیوان کے علاوہ چند دکنی غزلیں اور مرثیے بھی اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ سب رس کے ایک قلمی نسخے کے درج ذیل ترقیمے سے پتہ چلتا ہے کہ وجہیؔ سلسلہ چشتیہ کے ایک صوفی بزرگ حضرت شاہ علی متقی ؒ کا مرید تھا۔
’’ مولانا وجہیؔ چشتی کے پیر شاہ علی متقی ؒ کے پیر شاہ شہباز ؒ ایں ہمہ چشتی گزراست‘‘ (۱۳)
مذکورہ بالا عبارت سے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ حضرت شاہ علی متقی ؒ کا سلسلہ ایک واسطے سے سید محمود کے پیر حضرت شاہ شہباز چشتی ؒ سے بھی ملتا ہے۔ وجہیؔ ایک رند مشرب انسان تھا لیکن اس کی نثری تصانیف’’تاج الحقائق‘‘ اور’’سب رس‘‘ کا موضوع تصوف ہے‘ تاہم اسکی غزلوں کے اشعار میں بھی متصوفانہ مضامین کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ چنداشعار ملاحظہ کیجئے؂
دکھا تا میں کچہ تجُھے یار دیکھ
تو جیو تے اپس کو ں اپے ماردیکھ
خدا تجھ میں تیر یچ جیسا اہے
تودیدار میں اپنے دیدار دیکھ
معیّن نَکّو کر اُسے ایک ٹھار
وہ ہرٹھارہے اس کوں ہرٹھار دیکھ
تاج الحقائق کے مصنف کے بارے میں محققین میں اختلافات پایاجاتا ہے ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اس تصنیف کو وجہیؔ سے منسوب کرنا تحقیقی اندھیر سمجھتے ہیں‘ تاہم ڈاکٹر جاوید وششٹ اور ڈاکٹر نورالسعید اختر اُسے وجہیؔ کی تصنیف کہتے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید وششٹ’’تاج الحقائق‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ یہ رسالۂ نثر وجہیؔ کانقشِ اوّل اور’’سب رس‘‘نقش ثانی ہے۔ سب رس کے نقطۂ عروج تک پہنچنے کے لیے وجہیؔ کو تاج الحقائق کی منزل سے گزرنا لازمی تھا۔سب رس میں جو متصوفانہ انشائیے مثلاََ خدا‘ نماز‘ خدا کی خدائی‘ مومن‘ اناالحق‘اناالعشق‘طالب اور طلب‘نفس‘ نیکی‘ فقر‘ شکر اور صبر‘ عشق اور عرفان‘ معراج ‘قطرہ اور دریا‘ ذات اورصفات عاشق اور عابد وغیرہ حقیقت میں لفظی ومعنوعی اعتبار سے تاج الحقائق کے تراشیدہ ہیرے ہیں‘‘ (۱۴)۔
ملک الشعراء ملاعبداللطیف غواصی قطب شاہی دور کا ایک بلند پایہ شاعر تھا۔ وہ حضرت میراں سید شاہ حیدر ولی اللہ قادری (متوفی ۱۰۳۳ھ) کا مرید تھا‘جن کی مدح میں متعدد اشعار کے علاوہ اس نے دو مستقل نظمیں بھی کہی ہیں۔
چند اشعار ملاحظہ ہوں؂
حیدر جو میرا پیرہے کر سرفرازی کی نظر
ہو آپ تیزی سار مجھ غواص کو ں تیزی کیا
اے پیر دستگیر جو حیدر ترا ہے نانوں
مجھ کوں کہاں وہ جیب جو ہے تیوں تجھے سرانوں
سارے موحداں میں سزاور ہے مجھے
جو تجھ کہوں خدا ومحمد ؐ کہہ تجھ بلا دوں
حضرت حیدر ولی اللہ ؒ غوث اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی اولاد سے تھے۔ غواصی نے غالباََ چار سلاطین گولکنڈہ ابرہیم قطب شاہ‘ محمد قلی قطب شاہ ‘ محمد قطب شاہ اور عبداللہ قطب کا زمانہ دیکھا ۔ عبداللہ قطب شاہ نے اس کو نہ صرف اپنے دربار کا ملک الشعر امقرر کیا اور شاہی سفیر کی حیثیت سے بیجاپور روانہ کیا تھا بلکہ’’ فصاحت آثار‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا۔ غواصی نے تین مثنویوں’’میناست ونتی‘‘ ’’سیف الملوک وبدیع الجمال اور’’طوطی نامہ‘‘ کے علاوہ غزلوں‘ نظموں ‘قصیدوں رباعیوں اور مرثیوں پرمشتمل ایک دیوان بھی اپنی یادگار چھوڑا ہے۔حالیہ تحقیق کے مطابق تصوف کے موضوع پرغواصی کی ایک اور مثنوی’’مثنوی طریقت‘‘ بھی دستیاب ہوئی ہے جس کا ایک قلمی نسخہ قومی عجائب گھر کراچی کے کتب خانہ کی زینت ہے(۱۵)۔
غواصی ایک مرد قلندر تھا۔ مثنوی طوطی نامہ کے آخر میں اس نے دنیاوی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور خدا سے لولگانے تذکرہ کیا ہے۔ اس کی متعدد غزلوں اور رباعیوں میں متصوفانہ مضامین ملتے ہیں۔ بعض اشعار میں وہ روحانی تعلیمات کی تلقین کرتا نظر آتا ہے اور مادیت کی برائیوں سے بچنے اور اخلاقی اقدار کو اپنا نے کی تعلیم بھی دیتا ہے۔
چند اشعار ملا حظہ کیجئے؂
دنیا کے طمطراق تے درمندگی بھلی
یعنی زمین کے سار سرافندگی بھلی
گر زندگی کی مجھ کوں خبر پوچھتا ہے تو
جس زندگی کو ں مرگ نئیں وہ زندگی بھلی
توعارف ہے تو سرکش نفس کوں اپنے کنے میں لیا
کہ پھر نانفس کے لئے میں خرابی کی نشانی ہے
ہمن عاشق دوا نیاں کو ں چھبیلے کسوتاں کیا کام
ہمن دبلے فقیراں کو ں دنیا ہوں دولتاں کیاکام
یہ دنیا وو دیس ہے مہماں اسے کچھ ٹھیر نئیں
دل نہ باند اس سات توں خوش حال اچھ یاں غم نہ کھا
غوّاص تو حق باج کسے منگ نکو
گرہے توں موحّد توکسوں سنگ نکّو
مارگ میں محبت کے ہیں کانٹے کانٹے
کانٹیاں پہ چلیانیٹ سوں جالنگ نکو
عبداللہ قطب شاہ کے دور کے صاحب تصنیف صوفیاء میں حضرت میراں جی حسن خدانما ؒ (متوفی ۱۰۷۴ھ) ایک نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کے سلسلۂ فیض سے تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت خدانما ؒ سلطان عبداللہ کی سرکار میں سواروں کے جمعدار تھے(۱۶)۔
عبد اللہ قطب شاہ نے آپ کو بعض امور سلطنت کے سلسلہ میں بیجاپور روانہ کیا تھا۔ جہاں آپ نے حضرت امین الدین اعلی ؒ کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ حضرت خدانما ؒ نے اپنے آپ کو رشد وہدایت کے کام کے لیے وقف کردیا تھا۔ آپ نے اپنے مریدوں اورمعتقدوں کی تعلیم وفہیم کے سلسلہ میں دکنی نظم ونثر میں چند رسالے بھی تصنیف کیے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
حصہ نثر: (۱)شرح شرحِ تمہیدات عین القضات(۲)رسالہ وجودیہ(۳) رسالہ مرغوب القلوب
حصہ نظم: (۱) بشارت الانوار (۲)دومثنویاں(۳) دوغزلیں(۱۷)
مذکورہ بالا تینوں نثری رسائل میں تصوف کے مسائل پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ ’’تمہیدات ہمدانی‘‘ دراصل ابوالفضائل بن عبداللہ بن محمد عین القضات کی فارسی تصنیف ہے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ نے اس کتاب کی تقریباََ ۳۰۰ سال بعد(۸۲۵ھ) فارسی شرح لکھی اور اس شرحِ کا ترجمہ میراں جی خدانماؒ نے دکنی نثر میں ’’شرح شرحِ تمہیدات عین القضات‘‘ کے نام سے کیا۔ پوری کتاب میں سلوک ومعرفت کے مسائل کی قرآن کریم اور حدیث نبوی ؐ کی روشنی میں تشریح وتوضیح کی گئی ہے۔
رسالۂوجودیہ تصوف کے موضوع پرایک مختصر رسالہ ہے جس میں میراجی خدانما نے حضرت برہان الدین جانم اور امین الدین اعلیٰ کے مخصوص فلسفہ تصوف کی تشریح اور وضاحت کی ہے۔
میرا ں جی خدانما کا تیسرا نثری رسالہ ’’شرح مرغوب القلوب‘‘دراصل شمس تبریزی ؒ سے منسوب ’’مرغوب القلوب ‘‘نامی ایک فارسی نظم کی دکنی شرح ہے۔ خدانماؒ نے فارسی منظوم رسالے کوپیش نظر رکھتے ہوئے اس کتاب میں تصوف وعرفان کے مسائل کی توضیح وتشریح نثر میں کی ہے۔
بشارت الانوار ۷۴ ابیات پر مشتمل ایک طویل نظم ہے جوغزل کی ہیئت میں ہے۔ اس میں میراں جی خدانماؒ نے اپنے آپ کو مخاطب کرکے سلوک ومعرفت کے مسائل پر روشنی ڈالی ہے اور میراں جی کی دومثنویاں علی الترتیب(۵۲) اور(۱۵) ابیات پر مشتمل ہیں‘ جن میں تصوف کے انھیں مسائل کو نظم کیا ہے‘جنھیں خدانما نے اپنے نثری رسالے ’’رسالۂ وجودیہ‘‘ میں بیان کیا ہے۔ ان منظومات کے علاوہ میراں جی کی دوغزلوں کا بھی پتہ چلاہے جن کے اشعار کی تعداد بالترتیب پانچ(۵) اور چار(۴) ہے۔ غزلوں میں بھی حضرت نے متصوفانہ مضامین باندھے ہیں۔ دوسری غزل کا مقطع ایک تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’’گلزار آصفیہ‘‘ کے مؤ لف غلام حسن خاں کا بیان ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے حضرت میراں جی سے دریافت کیا تھا’’کیا آپ خدانما‘ ہیں‘‘ تو حضرت نے جو اباََ کہا تھا ’’اگر میں خدانما ؒ نہ رہوں توکیا خود نمارہوں؟‘‘ شعر درج ذیل ہے؂
مجھ کو ں خد انما نہ ککر سب کیے ہیں رو کیا میں خدا نما نہ اچھوں خود نما اچھوں(۱۸)۔
میراں یعقوب ‘حضرت میراں جی خدانما کے تربیت یافتہ مرید اور خلیفہ تھے۔ وہ بیک وقت شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی انھوں نے حضرت خدا نما ؒ کے انتقال (۱۰۷۴ھ) کے چوتھے سال(۱۰۷۸ھ) میں جب کہ حضرت کے فرزند علی امین الدین سجادہ نشیں تھے۔ ان ہی کی فرمائش پر حضرت برہان الدین غریبؒ کے خلیفہ اور اپنے زمانے کے بلند پایہ عالم حضرت رکن الدین عماد کی فارسی تصنیف شمائل الاتقیاء کا اسی نام سے دکنی نثر میں ترجمہ کیاتھا۔ میراں یعقوب نے اس میں قارئین کی دلچسپی کی خاطر فارسی اشعار کا ترجمہ بھی کیا ہے اور جگہ جگہ ایسے اشعار بھی درج کیے ہیں جن سے اصل متن کے موضوعات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ شمائل الاتقیاء اوّل تا آخر متصوفانہ مضامین کی ترجمانی کرتی ہے۔ اس کتاب میں تصوف کے مسائل کو نہات سیدھی سادی زبان اور دلچسپ انداز بیان میں پیش کیا گیا ہے۔ میراں یعقوب نے شریعت وطریقت اور حقیقت ومعرفت کی وضاحت کے سلسلہ میں تشبیہوں اور تمثیلوں سے بھی کام لیا ہے اور بعض مقامات پر مسجّع ومقفّیٰ جملے بھی استعمال کیے ہیں۔ نیز فارسی اصطلاحات تصوف کا عام فہم دکنی اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے جیسے وحدت کے لیے’’ایک پنا‘‘ دوئی کے لیے’’دوپنا‘‘ کثرت کے لیے’’ بھوت پنا‘‘ عدم کے لیے’’ نئیں پنا‘‘ آدمیت کے لیے’’ادمی پنا‘‘ اور خود کے لیے’’ میں پنا‘‘
حضرت شاہ راجو حسینی ؒ قطب شاہی عہد کے ایک نامور صوفی تھے۔ آپ بیجاپور کے متوطن تھے اور سِن شعور کو پہنچنے کے بعد گولکنڈہ تشریف لائے تھے(۱۹)۔
آپ نے اپنے قیام کے لیے بیرون فتح دروازہ محلہ مصری گنج کے اس مقام کو منتخب فرمایا جہاں آج آپ کا گنبد ہے۔ حضرت کی خانقاہ میں ہروقت کثیر تعداد میں فقرا مصروف ریاضت رہتے تھے(۲۰)۔گولکنڈہ کا آخر ی تاجدار ابوالحسن تانا شاہ آپ کا مرید اور معتقد تھا۔ حضرت شاہ راجو حسینی ؒ کا سلسلۂ نسب حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ سے ملتا ہے۔ انھوں نے اس خانوادے کے دیگر مشائخین کی طرح رُشد وہدایت کے سلسلے میں تصنیف وتالیف کاکام بھی انجام دیا۔ شاہ راجو ثانی ؒ اپنے عہد کے ایک برگزیدہ صوفی تھے۔’’زاد المومنین‘‘ کے عنوان سے آپ کے ملفوظات کا ایک مجموعہ ادارۂ ادبیات اردو کے کتب خانۂمیں محفوظ ہے(۲۱)۔
شاہ راجو ؒ نے اپنے مریدوں‘ معتقدوں اور خصوصاََ گھریلو خواتین کی تلقین وہدایت کے سلسلے میں دکنی میں’’ سہاگن نامہ‘‘ اور ’چکی نامہ‘ کے علاوہ چند دیگر منظومات بھی تصنیف کی ہیں۔ ’’چکی نامہ‘ اور’’سہاگن نامہ‘‘ میں حضرت شاہ راجو ؒ نے گھریلو کام کاج میں مصروف خواتین کی تعلیم وتفہیم کے لیے مذہبی احکام اور تصوف کے مسائل کو سیدھی سادی زبان اور عام فہم انداز میں پیش کیا ہے۔ ان منظومات کا مقصد عورتوں کو مذہب واخلاق کی تعلیم کے علاوہ برائیوں سے بچنے اور نیکی وسچائی کے راستے کو اپنانے کی تلقین کرنا ہے۔ راقم الحروف نے حضرت شاہ راجو ؒ کا ایک غیر مطبوعہ مرثیہ اپنی کتاب انکشافات میں شائع کیا ہے۔حضرت شاہ راجوؒ کے ارادت مندوں کا حلقہ کافی وسیع تھا۔ آج بھی آپ کا آستانۂ مبارک مرجع خلائق ہے ۔شاہ راجوؒ نے۱۰۹۳ھ میں انتقال فرمایا۔ ابوالحسن تانا شاہ نے آپ کے مزار پرایک عالی نشان گنبد تعمیر کروایا تھا۔ شاہ راجو ؒ کے مریدوں میں دکنی اردو کے باکمال شعرا اور ادیب بھی شامل ہیں‘جن میں طبعی ؔ ‘عابد شاہ اور ابوالحسن تانا شاہ کے نام قابل ذکر ہیں۔طبعیؔ نے اپنی مثنوی ’’بہرام وگل اندام‘‘ میں اپنے پیرو مرشد کواس طرح خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
ولی توں بڑا ہے ککر شاہ راجوؒ
چل آیا ہے شہہ تیرے گھر شاہ راجوؒ
خبر تیری معلوم نئیں بے خبر کوں
خبردار جانے خبر شاہ راجوؒ
توں مخدوم سید محمد کے گھن کا
بہت بے بدل ہے گہر شاہ راجوؒ
دکن کا کیا بادشاہ بوالحسن کوں
بڑا تخت دے کر چھتر شاہ راجوؒ
خدا پاس اُچاہات کرتا ہے طبعیؔ
دعا تجھ کوں شام وسحر شاہ راجوؒ
قطب شاہی عہد کے آخری زمانے کے ایک اور صاحب تصنیف صوفی بزرگ عابد شاہ تھے۔ آپ کا نام نواب الدین اور تخلص عابد تھا۔ وہ شاہ راجو ؒ کے مرید اور طبعیؔ کے پیربھائی تھے۔ شاہ راجو ؒ نے انھیں’’ عابد شاہ‘‘ کے لقب سے نوازا تھا۔ عابد شاہ بیک وقت شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی ۔انھوں نے ’’گلزار السالکین‘‘ ’’مراء ۃ السالکین‘‘ ’’کنزالمومنین‘‘ اور ’’معالجات بند نواز ؒ ‘‘ کے نام سے چار دکنی رسالے اپنی یاد گار چھوڑے ہیں۔ آخر الذکر کتاب حضرت خواجہ بند ہ نواز ؒ کی فارسی تصنیف’’ معالجات بند نواز ‘‘ کا دکنی ترجمہ ہے جس میں بقول ڈاکٹر زورؔ ترسٹھ(۶۳) امراض کے نسخے درج کیے گئے ہیں۔ ’’کنزالمومنین‘‘ کا موضوع فقہ ہے۔ ’’مراء ۃ السالکین‘‘ میں متصوفانہ مسائل کو عام فہم دکنی نثر میں بیان کیا گیا ہے ’’گلزار السالکین‘‘ جس کادوسرا نام’’مخزن السالکین‘‘ بھی ہے۔ تصوف کے موضوع پر ایک نثری رسالہ ہے۔ ڈاکٹر زورؔ اور مولوی نصیر الدین ہاشمی نے اسے سہواََ ایک منظوم تصنیف قرار دیا ہے۔ اس رسالے میں مصنف نے اپنے پیرومرشد شاہ راجو ؒ کی منظوم مدح کے علاوہ جگہ جگہ اپنے اشعار بھی شامل کردیے ہیں۔اس رسالے میں فلسفہ وتصوف اور حکمت وعرفان کے بعض مسائل جیسے روح‘ عقل‘ نفس‘ وحدت‘ سلوک وغیرہ کو سیدھی سادی زبان اورسوال وجوابات کے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

حوالے وحواشی
(۱) مولوی عبدالحق۔ اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ‘ ص۸۔
(۲) ڈاکٹر انور سدید۔ اردو ادب کی مختصر تاریخ‘ اسلام آباد‘ ص۶۸
(۳) پروفیسرسید محمد۔قطب شاہی عہد کے چند بزرگانِ دین‘ مشمولہ دبستان گولکنڈہ ‘مرتبہ ڈاکٹر محمد علی اثر‘ ص ۱۹۶
(۴) آپ کا مزار شمس آباد کے قریب ایک پہاڑی پر واقع ہے اور آپ ہی کے نام سے مشہور ہے ‘ دبستان گولکنڈہ ‘ ص۱۹۶ء
(۵) آپ کا مزار محلہ درگاہ حسین شاہ ولی ؒ سے کچھ فاصلے پر ایک بلند پہاڑی پر ہے ‘دبستان گولکنڈہ‘ص ۱۹۸۷ء
(۶) دبستان گولکنڈہ‘ ص ۱۹۸ ۷) ایضاََ ‘ ص ۲۰۰ ۸) ایضاََ ‘ ص۲۰۳ ۹)ایضاََ ‘ ص ۲۰۵
(۱۰) مجید صدیقی‘ تاریخ گولکنڈ ‘ص ۲۷‘۲۸
(۱۱) ڈاکٹر سلیمان صدیقی۔ صوفیائے گولکنڈہ ‘مشمولہ دبستان گولکنڈہ ‘مرتبہ محمد علی اثر ‘ص ۲۴۹
(۱۲) ڈاکٹر زور۔ اردو قطب شاہی دور میں ‘مشمولہ علی گڑھ تاریخ ادب اردو‘ پہلی جلد‘ ص۳۵۸
(۱۳) ڈاکٹر زور۔ علی گڑھ تاریخ ادب اردو‘ ص ۳۸۱
(۱۴) ڈاکٹر جاوید وششٹ۔ ملاّ وجہی‘ ص ۶۴
(۱۵) ڈاکٹر ظفر اقبال‘ فہرست مخطوطات اردو قومی عجائب گھر ‘کراچی ‘ص۸۳
(۱۶) ڈاکٹر حفیظ قتیل‘ میراں جی خدا نما‘ ص ۱۳ ۱۷) ایضاََ ص ‘ ۴۱
(۱۸) ڈاکٹر حفیظ قتیل‘ میراں جی خدا نما‘ ص ‘۱۲۲
(۱۹) حضرت علی امین الدین کا سنہ وفات ۱۰۷۸ھ ہے۔
(۲۰) پروفیسرسید محمد۔ قطب شاہی عہد کے چند بزرگانِ دین مشمولہ دبستان گولکنڈہ‘ص ۲۰۷
(۲۱) ایضاََ

محمد علی اثر
پروفیسر محمد علی اثر

Prof Md Ali Asar
H.No. 20-4-226/9 , Mahboob Chowk
Hyderabad. Deccan. 500002
mobile:09848740484

Share

One thought on “صوفیائے گولکنڈہ کی علمی اورادبی خدمات”

Comments are closed.

Share
Share