امہات المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا
از۔ ضیاء الدین نقشبندی
نام: خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا- کنیت: ام ہند، لقب: طاہرہ
نسب مبارک یہ ہے: خدیجۃ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ،قصی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جد امجد ہیں-
ماں کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا جو خاندان عامر بن لوئی سے تھیں-
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد بن اسد ایک کامیاب تاجر تھے، اپنے قبیلہ میں بڑی با عظمت شخصیت کے مالک تھے، بلکہ اپنی خوش معاملگی و دیانتداری کی بدولت تمام قریش میں بے حد ہر دلعزیز اور محترم تھے-
حضرت خدیجۃ الکبریٰ عام الفیل سے پندرہ سال قبل 555ء میں پیدا ہوئیں -بچپن ہی سے نہایت نیک اور شریف الطبع تھیں، جب سن شعور کو پہنچیں تو ان کی شادی ابو ہالہ ہند بن نباش تمیمی سے ہوئی- ابو ہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجۃ (رضی اللہ عنہا) کی دوسری شادی عتیق بن عابد مخزومی سے ہوئی، کچھ عرصہ بعد عتیق بن عابد مخزومی بھی فوت ہو گئے- اور عابد مخزومی کے انتقال کے بعد کچھ ایسی دل برداشتہ ہوئیں کہ دنیوی معاملات سے دور رہنے لگیں اور زیادہ وقت خانۂ کعبہ میں گزارنے لگیں ، آپ کی زندگی میں تقدس یہیں سے پیدا ہوا ، اس دوران قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے آپ سے نکاح کا پیغام بھیجا، آپ نے سب کو رد کر دیا، کیونکہ آپ دولت و ثروت کے علاوہ حسن صورت اور حسن سیرت میں بھی ممتاز درجہ رکھتی تھیں، اور زمانۂ جاہلیت میں “طاہرہ” کے لقب سے مشہور تھیں-
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد نکاح
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکاح کی خواہش ظاہر کی اور 40 سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نکاح میں آئیں، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر 25 برس تھی- ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا، 500 درہم کے برابر سونا مہر مقرر ہوا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زوجیت میں آگئیں- ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا وہ لازم تکریم اور لائق تعظیم خاتون تھیں جن کی زندگی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نور ہدایت کی روشنی میں سب سے پہلے منور ہوئی اور خواتین میں سب سے پہلے اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئیں-
حلیۂ نبوی سے متعلق مفصل روایت آپ ہی سے مروی ہے- ابتدائے اسلام میں جب کہ ہر طرف سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مخالفت کا طوفان اٹھ رہا تھا، ایسے کٹھن وقت صرف ان ہی کی وہ ذات تھی جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مونس حیات بن کر آپ کو تسلی دیتی- انہوں نے ایسے خوفناک اور خطرناک اوقات میں جس استقلال اور استقامت کے ساتھ خطرات و مصائب کا مقابلہ کیا اور جس طرح تن ،من، دھن سے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں قربانی پیش کی، اس خصوصیت میں آپ کو تمام ازواج مطہرات پر ایک فوقیت و فضیلت حاصل ہے- اسی وجہ سے بعض علماء نے آپ کو تمام امہات المومنین میں افضل قرار دیا-
آپ کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت جبریل امین علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کی خدمت میں کھانے کا ایک برتن لے کر حاضر ہو رہی ہیں، جب یہ آپ کے پاس آ جائیں تو آپ ان سے ان کے رب کا اور میرا سلام فرمائیں- اور ان کو جنت میں موتی کے ایک عالیشان محل کی خوشخبری سنادیں، جس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ہو گی- (بخاری)
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دریافت کرنے پر ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم خدیجہ (رضی اللہ عنہا) سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی، جب سب لوگوں نے میرےساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں، اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جب لوگ مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہیں تھے، اس وقت حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نے اپنا سارا مال مجھے پیش کر دیا- اور ان ہی کے بطن سے اللہ تعالی نے مجھے اولاد عطا فرمائی جن میں 2 صاحبزادے اور 4 صاحبزادیاں ہیں- (زرقانی)
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی مقدس زندگی کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ شروع ہی سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج شناس تھیں- شاید یہی وجہ تھی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور غار حرا سے واپس لوٹنے کے بعد سارا واقعہ من و عن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کر دیا- اس حیرت انگیز واقعہ کے بعد طبیعت متاثر ہو گئی تھی تو فرمایا: زملونی زملونی، مجھے چادر اڑھاؤ ، مجھے چادر اڑھاؤ، آپ نے حکم کی تعمیل کی اور پوچھا آپ اتنے دنوں سے کہاں تھے؟ آپ کی تلاش میں میں کئی آدمیوں کو بھیج چکی ہوں، اس واقعہ کے بعد آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: آپ سچ فرماتے ہیں، غریبوں کی دستگیری کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، امانت گزار ہیں، دکھیوں کے خبر گیر ہیں، اللہ آپ کو تنہا نہ چھوڑے گا-
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دنیا میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت کا انگور کھلایا تھا- حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت تھی، آپ جب تک بقید حیات رہیں، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں کیا، آپ کے وصال سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بے پناہ صدمہ ہوا اور آپ اکثر ملول رہنے لگے، حضرت خدیجۃ الکبری کے وصال کے بعد بھی آپ کو ان سے اتنی محبت تھی کہ جب کوئی قربانی کرتے تو پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو گوشت بھیجتے اور بعد میں کسی اور کو دیتے، جب کبھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کوئی رشتہ دار آپ کے پاس آتا تو آپ ان کی بے حد خاطر مدارات فرمایا کرتے – حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی رحلت کے بعد مدت تک حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت تک گھر سے باہر تشریف نہ لے جاتے جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اچھی طرح تعریف نہ کر لیتے- اسی طرح جب گھر تشریف لاتے تو ان کا ذکر کر کے بہت کچھ تعریف فرماتے- حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس عمل سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ان پر رشک آتا تھا- حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تا دم آخر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ مثالی کردار پیش کیا اور شکایت کا کوئی موقع نہ دیا-
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے علاج و معالجہ اور تسکین و تشفی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی –
وصال اقدس: حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا 25 سال تک خدمت گزاری کا شرف حاصل کیں اور ہجرت سے 3 برس قبل 65 سال کی عمر پاکر ماہ رمضان المبارک میں مکہ معظمہ کے اندر وفات پائیں- حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جحون (جنت المعلی) میں خود بہ نفس نفیس ان کی قبر میں اتر کر اپنے مقدس ہاتھوں سے ان کو سپرد خاک فرمایا چونکہ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا اس لئے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی- (زرقانی)
http://lib.bazmeurdu.net/