ہر مقام پر خواتین کا احترام ہونا چاہئے۔ سوچ کی تبدیلی پر بھی زور
اردو یونیورسٹی میں بین الاقوامی یوم خواتین پر مباحثہ
حیدرآباد، 10؍ مارچ(پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے مرکز برائے مطالعات نسواں کی جانب سے بین الاقوامی یوم خواتین کے سلسلہ میں سنٹرل لائبریری، آڈیٹوریم میں پینل مباحثہ کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس کا عنوان ’’ہندوستان میں خواتین کا تحفظ ۔ مسائل اور حل‘‘ تھا۔ مباحثہ کا افتتاحی خطبہ ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد، نائب شیخ الجامعہ نے دیا جس میں انہوں نے اس طرح کے پروگرام منعقد کرنے پر مرکز کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ گھر ہو یا دفتر یا تعلیم گاہ ہر مقام پر خواتین کا احترام کرنا چاہئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر چیز کی شروعات ذہن اور سوچ سے ہوتی ہے۔ انسان کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، رجسٹرار انچارج و ڈین اسکول آف آرٹس اینڈ سوشیل سائنسس نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیئے۔ مباحثہ 3 مرحلوں پر مشتمل تھا۔ پہلا مرحلہ مسائل، دوسرا غور و فکر اور اس کا حل اور تیسرے مرحلے میں شرکاء کو اپنے خیال پیش کرنے کی اجازت تھی۔ اس مباحثہ میں جناب باشاہ نواز خان، اسپیشل میٹروپولیٹن مجسٹریٹ، کریمنل کورٹ، محترمہ رما راجیشوری، ڈی سی پی، ملکاجگری و سربراہ ’’شی ٹیم‘‘ ، حیدرآباد اور محترمہ زہرہ بیگم، ایڈوکیٹ کریمنل کورٹ نے حصہ لیا۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر محمد فہیم اختر، صدر شعبۂ اسلامک
اسٹڈیز، ڈاکٹر شاہدہ، صدر شعبۂ تعلیمات نسواں بھی مباحثہ میں شریک تھے۔ باشا نواز خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ عورت خود کو کمزور سمجھتی ہے۔ اسے اپنا ذہن تبدیل کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عورت کا احترام ہمارا فرض ہے۔ محترمہ رما راجیشوری نے کہا کہ خواتین پر ہو رہے مظالم میں اضافہ کی وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی پولیس اسٹیشن میں شکایت نہیں کرتی۔ حالانکہ اب پولیس نے نئی ٹکنالوجی کا استعمال شروع کردیا ہے جس سے سراغ لگانا آسان ہوگیا ہے۔ کسی بھی ناگہانی صورت حال میں 100 ڈائل کرتے ہوئے پولیس کو اطلاع دی جاسکتی ہے اور پولیس کے فیس بک پیج پر بھی اس کی خبر کی جاسکتی ہے۔ محترمہ زہرہ بیگم نے کہا کہ تعلیم اپنے گھر سے شروع ہونی چاہئے۔ اس لیے گھریلو تربیت بے حد ضروری ہے۔ ڈاکٹر شاہدہ نے کہا کہ آج سماج میں مشترکہ خاندان کی کمی ہی ہمارے سماج میں خواتین پر ظلم کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ سابق میں تمام افراد خاندان مل کر رہتے تھے اور بڑے بوڑھے تعلیم دیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے بچوں میں بہتر تعلیم کی نشو و نما ہوتی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ عورت آج بھی مظلوم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی تعلیم ماں باپ کے لیے آج سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی He and She کی ٹیم کو ہم بھی آگے بڑھائیں۔ انہوں نے کہا کہ عورت اکیلی کچھ نہیں کرسکتی۔ جب تک کہ مرد ساتھ نہ دیں۔ ڈاکٹر فہیم اختر نے اسلامی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نبی کریمؐ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں خواتین پر مظالم نہیں ہوتے تھے۔ یہ آج کے دور کی دین ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم معلومات کے حصول کا نام ہے اور تربیت گھر سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد کھلے مباحثہ میں شرکا نے مختلف سوالات کیے اور اپنی رائے بھی پیش کی۔ آخر میں ڈاکٹر آمنہ تحسین، انچارج مرکز نے شکریہ ادا کیا۔ ابتداء میں سنٹرل لائبریری کی پہلی منزل پر پوسٹر نمائش کا ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد نے افتتاح کیا۔ شام میں ثقافتی پروگرام ’’ایک شام عظمتِ نسواں کے نام‘‘ منعقد ہوا۔ پروفیسر ایچ خدیجہ بیگم، ڈین اسکول آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ نے صدارت کی۔ محترمہ لکشمی دیوی راج سماجی جہد کار مہمانِ خصوصی تھیں ۔ پروگرام میں طلبہ نے نظم، گیت اور ڈرامہ پیش کیے۔
**مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، شعبۂ سوشیل ورک کی جانب سے بین الاقوامی یوم خواتین کے سلسلہ میں 5؍ مارچ کو ثقافتی اور تعلیمی پروگرام ’’اسے ممکن بنائیں‘‘ (Make it Happen) منعقد ہوا۔ اس موقع پر طلبہ نے تحریری و تقریری مقابلہ اور کوئزمیں حصہ لیا۔ ڈاکٹر محمد شاہد رضا، انچارج صدر شعبہ نے صدارت کی۔ انہوں نے طلبہ کے اس طرح کے مقابلوں میں حصہ لینے پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر محمد آفتاب عالم، اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ سماج کو بہتر شکل دینے میں خواتین کا مساوی کردار ہے۔ انہوں نے صنفی مساوات کے لیے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا۔ محمد اسرار عالم، اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ صنفی عدم مساوات کے انسداد کے لیے آواز بھی اٹھانی چاہئے اور ضروری اقدامات بھی کیے جانے چاہئیں۔ اس موقع پر طلبہ نے بھی خواتین کے متعلق مختلف مسائل پر اظہار خیال کیا۔ جناب نوید انجم نے شکریہ ادا کیا۔ جناب شاہ نیر اختر نے کاروائی چلائی۔
عابد عبدالواسع
پبلک ریلیشنز آفیسر