ذوقی کے ناول’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا ایک تنقیدی جائزہ

Share

le saans bhi ahista

zauqi

syed ahmed

ذوقی کے ناول’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا ایک تنقیدی جائزہ
ڈاکٹر سید احمد قادری
مشرف عالم ذوقی کا یہ نیا ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایک ایسا ناول ہے جو سبک روی سے شروع ہوتا ہے اور ایک لرزہ خیز دھماکہ پر ختم ہوتا ہے۔ دھماکہ بھی ایسا کہ ہمارا پورا سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ دہل جائے اوراہم بات یہ ہے کہ دھماکہ کرنے والے اورپور ے تہذیبی نظام حیات کو جھنجھوڑ کررکھ دینے والے اس شخص سے شدید نفرت کی جائے یا ہمدردی، یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے ۔ قاری تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے—دھماکہ کرنے والے اس کردار کی ایسی ہی دھماکہ خیز کہانی کا اشارہ ذوقی نے ناول کے ابتدائی صفحات میں دیا ہے۔
’’اور یہ خط مجھے ایسے موقع پر ملا ہے جب ماحولیات کو لے کر کوپن ہیگن میں ہونے والا ڈرامہ پوری طرح ناکام ثابت ہوچکا ہے۔۔۔ انتظار کیجئے۔ اس بیحد بے رحم وقت میں میں آپ کو ایک ایسی ہی بے رحم کہانی یا کردار سے ملانے لے جارہاہوں۔ ممکن ہے، جسے سننے کے لیے آپ کے کان آشنا نہ ہوں۔ یا جسے محسوس کرنے کے لیے آپ کے دل کی حرکتیں رک جائیں۔ یا جسے آنکھوں کے پردے پر دیکھنے کی عجلت آپ کی آنکھوں کی بینائی چھین لے۔۔۔‘‘(لے سانس بھی آہستہ، صفحہ ۲۲)

اس مختصر سی تحریرمیں خط کا ملنا پورے ناول میں تجسس بنائے رکھتا ہے، آخر اس خط میں کیا ہے؟ ماحولیات کو لے کر کوپن ہیگن میں ہونے والے ڈرامہ کی ناکامی اورپھر بے رحم کردار کی بے رحم کہانی— تجسس ہی تجسس— آج کے جدید سائنسی دور میں جو جدید سہولیات انسانی زندگی کو میسر ہورہی ہیں، ان کی کس قدر قیمتیں چکانی پڑرہی ہیں اس کا احساس صرف ان لوگوں کو ہے جو پرانی قدروں اورتہذیبوں کو دیکھ چکے ہیں۔ ذوقی نے صرف ایک جملہ میں ماحولیات کی ناکامی کا ذکر کیا ہے۔ دراصل ذوقی نے عصر حاضر کے Social and cultural environmental dis-balance کی جانب اشارہ کیا ہے۔ کس طرح آج کے ترقیاتی دور میں ہمارا سماج ہماری تہذیب Polluted ہوکر رہ گئی ہے۔ ان ہی بنیادی نکتوں کو لے کر اس ناول کا پورا تانا بانا بنا گیا ہے۔
لیکن بے رحم کہانی کے بے رحم کردار کے تئیں ناول نگار اپنے رحم کے جذبہ کو شعوری یا لاشعوری طور پر چھپا نہیں سکا ہے، یہی وجہ ہے کہ ناول نگار نے ناول کے ابتدائی تقریبا تیس صفحات میں بے رحم کردار کی حیوانیت کے لیے طرح طرح کی تاویلیں پیش کی ہیں— مثلاً —
’’Man is a social animal انسان ایک سماجی جانور ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے سماج کی شناخت کرتا ہے۔ مگر اس جانور کو کچھ لمحے کے لیے بھول جاتا ہے، جو اب نصاب کی کتابوں سے نکل کر اس کے جسم میں پرورش پا رہا ہے۔ وقفے وقفے سے وہ جانور اس کے اندر سے باہر نکلنے کی کوشش کرتاہے مگر ہر بار سماجیات کے ریشمی غلاف میں وہ اس جانور کو چھپا لیتا ہے—
مگر کیا سچ مچ وہ اس جانور کو اپنے اندر چھپانے میں کامیاب ہے؟ اخلاقیات اور سماجیات کی ہر کہانی اس جانور سے ہو کر گزرتی ہے — مگر ایک وقت آتا ہے جب مذہب سے لے کر اخلاقیات کی ایک عظیم الشان دیوار ہم اپنے آگے کھڑی کر دیتے ہیں۔ ایک بیحد آسان خط مستقیم پر چلنے والی زندگی، معاشرہ کا خیال’ مذہب کا خوف’ ایک چھوٹا سا دائرہ— اور اس دائرے میں خود کو سمیٹ کر ہم ایک پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۱۴)
’’مثال کے لیے جیسے کسی ایک بے رحم لمحے میں وہ ابتدائی قدیم معاشرے کا انسان کسی میں زندہ ہوجاتا ہے۔۔۔ ایک بھوک جو رشتوں کے فاصلے مٹا دیتی ہے— مہذب ترین دنیا میں ایسی ہزاروں لاکھوں مثالیں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۱۵)
اس طرح کی کئی مثالیں دے کر ناول نگار نے اپنے بے رحم کردار نور محمد کی ہولناک، عبرتناک، ہیبت ناک ، خوفناک اور دلدوزواقعات کے لیے میدان ہموار کیا ہے— تمہید اور تاویلوں کی یہ تفصیل تقریبا ۳۳ صفحات تک موجود ہے اور اصل واقعہ شروع ہوتا ہے صفحہ ۳۵ سے— جس کی ابتداء اس طرح ہے—
’’بلند شہر (یوپی)
۱۴؍ اگست، ۱۹۴۷ء رات گیارہ بجے— ابھی ملک کو آزاد ہونے میں پورے ایک گھنٹہ کی تاخیر تھی اور ٹھیک یہی وقت تھا، اور جیسا کہ مجھے بتایا گیا، میں نے اس عالم فانی میں قدم رکھا’ باہر جشن کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ سارا شہر جگمگ، جگمگ کر رہا تھا۔۔۔ یقیناًملک کے دوحصے ہونے کا دکھ بھی شامل تھا۔ مگر برسوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے احساس نے لوگوں میں نیا جوش و خروش بھر دیا تھا۔۔۔ اور جیسا کہ ابّا ہنستے ہوئے بتاتے ہیں”–کم بخت نے ایک گھنٹہ بھی انتظار نہیں کیا۔ ارے کم سے کم آزاد ملک میں تو آنکھیں کھولتا—
’پھر سے اللہ کی ناشکری151‘ دادا ٹھہاکا مار کر ہنس پڑے— اللہ کا شکر ادا کر— بلند شہر کی اس بلند حویلی کو اس کا وارث مل گیا اور وہ بھی تب، جب تیری عمر ۴۵ سال کی ہوگئی ہے۔ ہم تو نا امید ہوگئے تھے۔ لیکن اللہ سچ مچ بڑا کارساز ہے۔۔۔ دیکھ اس نے دعائیں قبول کرلیں— اور وہ بھی ایسے وقت جب ملک کو بدترین غلامی سے آزادی کا تحفہ ملا ہے۔ سن وسیع— اس کی قدر کر– یہ آزادی کا تحفہ لے کر آیا ہے—‘‘
(ایضاً صفحہ : ۳۵)
ابتدائی ان چند جملوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قصہ بلند شہر کا اور آزادئ ہند کے بعد کا ہے اوراس میں تین نسل سامنے ہے— باپ، دادا اور پوتا۔ آگے چل کر ان کے نام سامنے آتے ہیں۔وسیع الرحمن کاردار، ان کے والد اوران کا بیٹا عبدالرحمن کاردار۔ آزادی ہند کے بعد قدریں بدل رہی تھیں— ملک کی سیاسی، سماجی، معاشرتی، تہذیبی سطح پر تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ یہ تبدیلیاں یقینی طور پر روح فرسا اور جاں گسل تھیں۔ اس بے یقینی، بے سمتی اور بے اعتمادی کی مسموم فضا نے ان کی زندگی میں انتشار اور بے چینی پیدا کردی تھی۔ تلخی وقت نے وسیع الرحمن کاردار اور ان کے والد کے دل ودماغ پر جو اثرات مرتسم کیے اس کا اظہار اپنے اپنے انداز میں ان دونوں نے بڑے ہی اعتماد سے کیے ہیں۔ مثلاً
’’وقت کی آندھی دادا جان کو بھی اڑاکر اپنے ساتھ لے گئی۔ ایک شب جو سوئے تو پھر سوئے رہ گئے— صبح اُن کی موت کا پتہ چلا۔ دادا جان کے انتقال سے جاگیردارانہ نظام کا آخری بت بھی ٹوٹ گیا۔ اب ساری ذمہ داری ابّا جان پر تھی— مگر ابّا جان کے کندھے بھی وقت سے پہلے ہی کمزور ہو چکے تھے— بلند حویلی کے در و دیوار خستہ اور اپنی چمک کھو چکے تھے۔ دادا جان آزادی کے نئے سویرے سے خوش نہیں تھے۔ یا اُنہیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ماحول بدل رہا ہے۔ یا نئی نئی آزادی نے اچانک جاگیردار اور مزارع سب کو ایک زمین پر لاکر کھڑا کر دیا ہے— وہ بدلتے وقت کی اس آہٹ سے خوفزدہ تھے۔ اور دبی زبان میں ابّا حضور کو سمجھایا کرتے۔۔۔
’سب چھوٹے بڑے ہوجائیں گے۔ جو کل تک ہمارے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کرتے تھے‘ دیکھو آج کیسے سینہ تان کر چل رہے ہیں۔ یہی آزادی کی سوغات ہے۔ جس نے بڑے چھوٹے کے فرق کو ہی ختم کردیا ہے— اس آہٹ کو سنو وسیع، ورنہ یہ برا وقت تمہیں نگل جائے گا—‘
ابّا قرآن شریف اور حدیث لے کر بیٹھ جاتے— ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز— کہاں ہے کوئی چھوٹا یا بڑا؟ جو محنت کرے گا، فصل اسی کی ہے—
’کرسکو گے محنت؟‘
’کیوں نہیں—‘
’سوچ لو— اسی جاگیردارانہ نظام میں پلے بڑھے ہو۔ سونے کا چمچہ لے کر—‘
’اب اس چمچے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
’کہنا آسان ہے— کرنا مشکل—‘
’میرے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔‘
’پرنی یادیں بھولی نہیں جاتیں— نئے مسائل بہت دکھ دیں گے۔ ٹھہر ٹھہر کے پرانی یادیں چوٹ پہنچاتی رہیں گی۔‘
’دیکھا جائے گا—‘
’حکومت کرنے والے رہے ہو— ابھی بھی کون سی حکومت چلی گئی۔ گھر میں یہ حکومت اب بھی ہے۔ نوکر چاکر— پانی بھرنے والا بھشتی۔ کتنے ہی خاندان ہیں جو اس کاردار گھرانے سے وابستہ رہے۔ ہم نے انہیں بھر بھر جھولیاں خیرات بانٹیں—
’خیرات نہیں— محنت کی کمائی—‘
’یہ تمہاری سمجھ پر منحصر ہے۔ میرے لیے خیرات— جو آیا خالی ہاتھ نہیں گیا— ہم دینے والے ہاتھ رہے ہیں۔‘
’لیکن یہ دینے والے ہاتھ تو کب کے کٹ گئے—‘ ابّا بھی کب ہار ماننے والے تھے— اب یہ دینے والے ہاتھ نہیں ہیں۔ کمزور ہاتھ ہیں—‘
’تمہارے ہوں گے۔ میرے ہاتھ تو اب بھی مضبوط ہیں۔ اچھا ہے جو اس منحوس وقت کے ستم دیکھنے سے پہلے ہی آنکھیں بند ہوجاتیں‘ دادا جذباتی ہوجاتے—
ابّاکاایک ہی جواب تھا— آخر وقت کو بدلنے کا حق حاصل کیوں نہیں ہے؟ کیوں غلامی پسند ہے آپ کو— اب کوئی غلام نہیں— فرنگیوں نے آپ کو وفاداری کے بدلے سہولتیں دیں— لیکن ذہن کو غلام بنا دیا— اس آزاد فضا میں اس ذہن کو آزاد کیجئے ابّا حضور— نیا سورج ہے۔ نیا سویرا ہے— اس سویرے کو خوش آمدید کہیے— اب یہاں سب کو کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا— ملک کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا۔‘
’کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے اس ملک سے جو مانگو گے‘ مل جائے گا۔ ابّا جناح کی مثال دیتے تھے۔ کیوں الگ ہوا پاکستان۔ تم بھی تو یہی کہتے تھے جو قائد اعظم کہہ رہے تھے۔ یعنی جو قوم آپ کے ہاتھ سے ایک گلاس پانی نہیں پی سکتی‘ وہ آپ کو آپ کا حق کہاں دے سکتی ہے—‘
’حق ملے گا—‘
’ نہیں ملے گا— میری بات یاد رکھنا۔‘ دادا حضور کی آنکھوں میں نمی لہراتی— ’تم زندگی بھر پاکستان کا طعنہ سنتے رہو گے۔ یہاں کی نسلیں پاکستان کے طعنے سنتی ہوئی بڑی ہوں گی۔ تمہیں کیا لگتا ہے، تمہارے ملک کے لوگ کبھی یہ حادثہ بھول پائیں گے کہ ایک دن تم لوگوں نے اسی ملک سے اپنا ایک ملک الگ کرلیا تھا— پاکستان۔ نیا ملک، جہاں سارے مسلمان ایک ساتھ رہیں گے۔ تمہیں کیا لگتا ہے آنے والے وقتوں میں تمہیں اس جرم کے لیے معاف کر دیا جائے گا—؟ نہیں میاں کاردار— قطعی نہیں۔ یہ دنگے دیکھ رہے ہو۔ ابھی تو نفرت کی شروعات ہے۔ ابھی تو نفرت کی یہ تہذیب شروع ہوئی ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا— سچ کہوں تو میں بھی پاکستان جانے کے حق میں تھا۔ مگر میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ شاید وہاں اس سے زیادہ پریشانیوں کا سامناکرنا پڑے۔ کئی بار میرے ارادوں نے مجھے کمزور کیا، کہ تم ٹھیک کہتے ہو— پاکستان چلا جانا ہی ٹھیک ہے۔ سب جا رہے ہیں۔ کہہ سکتے ہو، کہیں نہ کہیں وہ آسائشیں اور سہولتیں بھی تھیں، ہم جن میں جینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس لیے پاکستان نہیں گیا— یہ حویلی— یہ گھر‘ گھرانہ— یہاں کی مٹی، یہاں کی خمیر نے روک لیا مجھے— لیکن اب دوبارہ تمہیں لے کر یہ شک میرے رگ و پے میں سرایت کرتا جارہا ہے کہ یہاں سے نہیں جاکر میں نے کوئی بھول تو نہیں کی وسیع کاردار؟ ہم تو اپنی عمر گزار چکے — مگر اب تم ہو۔ تمہارے بعد کی نسلیں ہیں۔ یہ سوچ سوچ کر دل ڈرتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں بار بار تمہیں تقسیم کے نام پر شرمندہ ہونا پڑے گا—تمہیں بار بار اپنی صفائی دینی ہوگی— اور اس طرح یہ ملک، یہ خطہ، یہ زمین تمہاری ہو کر بھی تمہاری نہیں ہوگی — اور کتنی عجیب بات— اپنے ملک کو اپنا ملک کہنے کے لیے بھی تم صفائی دو گے— جیسے اپنے گھر کو اپنا گھر بتانے کے لیے— اور اسی صفائی دینے میں تمہاری عمر نکل جائے گی۔۔۔‘
’ایسا نہیں ہوگا—‘
ابّا کے لفظ کمزور تھے۔‘‘
(ایضاً صفحہ ۴۲ تا ۴۵)
وقت کے سفاک ہاتھوں نے بلند حویلی کی بلندی چھین لی۔ ٹوٹتے لمحوں اور بکھرتی قدروں نے احتجاج کی گویائی سلب کردی۔ یقینی اور غیر یقینی حالات کی ستم ظریفی کے بے رحم تھپیڑوں نے زندگی کی تلخ و تند حقیقتوں سے آنکھیں چارکرنے کی قوت چھین لی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ —
’’ابّا حضور اس سچ کو سمجھتے ہوئے بھی مجبور تھے—
میں نے ہوش سنبھالا توبلند شہر کی اس بلند حویلی کے درو دیوار پوری طرح اپنی آن بان شان کھو چکے تھے— مگر کسی طرح اس شان کو قائم رکھنے کی کوشش جارہی تھی۔ نوکر چاکروں کی فوج ہٹا دی گئی— باہر جو جگہ ان کے رہنے کے لیے دی گئی تھی، اس جگہ تین چار دکانیں نکل آئیں— دکانیں اس طرح نکالی گئیں کہ حویلی کے مین دروازے سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو— اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ کاردار خاندان اب ان دکانوں کے کرائے کے بھروسے زندہ ہے— پانی بھرنے والے پرانے خادم عبدل بھشتی کو بھی جواب دے دیا گیا— اب لے دے کر ایک خانسامہ تھا، ایک مریم بوا تھیں— اور حویلی کی عزت و ناموس کو بچائے رکھنے کی ذمہ داری ابا حضور کے ناتواں کندھے پر تھی—‘‘
(ایضاً صفحہ ۴۶)
وقت کی تیز آندھی نے دادا ابا کو سفر آخرت پرروانہ کردیا— ابا حضور بدلتے وقت ،حالات اورحادثات کے آگے خود کو بے بس، لاچار اور مجبور پارہے تھے— پرانی حویلی کی آن بان شان میں پرورش پانے والے اباحضور خود سپردگی کے لیے بھی تیارنہیں تھے، عزت وناموس ،خاندانی وقار اور جاہ وجلال اس بات کی اجازت نہیں دے رہے تھے کہ وہ تبدیلی وقت کے آگے سپر ڈال دیں۔ ایک طرف زمانے کا بدلتا مزاج، لوگوں کے رویوں میں تبدیلی اور دوسری طرف خود ان کی بیگم کی طعن وتشنیہ کا یہ انداز—
’’اماں کی آواز اچانک بلند ہوگئی تھی۔ ’منہ مت کھلوائیے— میں کچھ نہیں بھولتی۔ جب پہلی بار ڈولی چڑھ کر یہاں آئی تھی‘ تب سے لے کر آج تک کی ساری بات یاد ہے۔ بلند حویلی۔ ارے خاک بلند حویلی—کبھی شان رہی ہوگی۔ اب شان مٹی میں مل چکی ہے— درو دیوار کو دیمک چاٹ رہے ہیں۔ کبھی اس حویلی کی چھتیں دیکھی ہیں— کھوکھلی ہوچکی ہیں— بارش اور طوفان میں ڈر لگا رہتا ہے کہ خدا نخواستہ حویلی کی کوئی دیوار بیٹھ نہ جائے۔ آپ کو تو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ آج سے پہلے کب اس حویلی میں چونا گردانی یا پتائی ہوئی ہوگی— خدا قسم کھا کر بولیے۔ یاد ہے—؟ میں نے تو برسوں میں نہیں دیکھا— اور چونا گردانی کرائیں گے کہاں سے— دیواریں جھڑ رہی ہیں۔ محرابیں ٹوٹ رہی ہیں— چھت بیٹھ رہی ہے— اورنام ہے بلند حویلی— اور سن لیجئے— بڑے بول نہیں بولتی— ذرا حویلی کے دروازے سے باہر نکل کر دیکھے۔ یہ موچی اپو، چچو تھے— جو کل تک آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے— اب ذرا ان کی ٹھس، ان کی اکڑ، ان کی شان دیکھیے— اللہ بھی اُن کی مدد کرتا ہے جو محنت کرتے ہیں۔ آپ لوگوں نے کیا کیا—؟ بس ساری زندگی حویلی حویلی کرتے رہے— حویلی حویلی چاٹتے رہے— اب چاٹنے کے لیے بھی حویلی نہیں بچی— محلے کے بنیوں، چماروں نے دو منزلہ، چار منزلہ مکان بنا لیے۔ اُن کے بچے بھی شان سے انگریزی اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں— اور آپ کے پرکھے—؟ بس جاگیردارانہ نظام پر چلتے رہے— لوگوں پر ظلم کرتے رہے— کہتے تھے، خیرات کرتے ہیں— اب خیرات کر کے دیکھئے— خیرات کرنے کے لیے بھی بچا کیا ہے—؟‘‘
(ایضاً صفحہ ۸۵)
اس وقت تک وسیع الرحمن کاردار اوران کی بیگم کی اکلوتی اولاد عبدالرحمن کاردارسن شعور کو پہنچ رہا تھا اور اماں ،ابا کی گفتگو سے نکلے الفاظ اب پہچاننے لگاتھا۔
’’گھر کی اداسی، خاموشی، بلند حویلی میں پھیلا ہوا سنّاٹا— میں اکثر سوچتا تھا، اماں اتنی چڑچڑی کیوں ہیں—؟ مریم بوا سے لے کر ابّا تک کی ہربات اُنہیں ناگوار کیوں گزرتی ہے۔
مگر اب میں ان تمام باتوں کا تجزیہ بڑے آرام سے کرسکتا ہوں— اور یہ کہانی اسی جاگیردارانہ نظام سے وابستہ ہے، جس نظام میں اماں پہلی بار دلہن بن کر اس گھر میں آئی تھیں— تب سے لے کر آج تک کے دنوں کا تجزیہ کوئی مشکل کام نہیں کہ اماں نے کس طرح اپنے آپ کو اس گھر کے لیے قربان کر دیا تھا۔ ایک ایسے گھر کے لیے، جسے گہن لگ چکا تھا— اور اماں حویلی سے وابستہ ان تمام لوگوں سے واقف تھیں‘ جن کی اوقات اس نظام میں محض چوسی ہوئی ہڈی سے زیادہ نہیں تھی— جن کے پاس خالی اور بیکار وقتوں کا خزانہ تھا۔ جن کے پاس کوئی خواب نہیں تھے۔ صرف ماضی کی کہانیاں تھیں۔ پدرم سلطان بود— اور اماں کی شکایت بیجا نہیں تھی کہ یہ لوگ اب بھی خود کو اسی نوابی عہد کا ایک حصہ تسلیم کرتے تھے—
اور اسی لیے اماں کے اندر ابّا کو لے کر شاید اتنی شکایتیں جمع ہوگئی تھیں‘ جن کا حساب نہیں کیا جاسکتا۔ ابّا، اس سچ سے واقف تھے۔ مگر مجبور— کیونکہ فیوڈل سسٹم نے ابّا کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ سچ بدل گیا تھا— لوگ بدل گئے تھے— اور بقول ابّا، بڑے چھوٹے ہوتے جا رہے تھے۔ اور چھوٹے ،بڑے—
ہم ایک جنگ سے نکل کر دوسری جنگ کی طرف بڑھتے ہیں۔ جیسے ایک تہذیب سے نکل کر دوسری تہذیب کی طرف۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۸۷۔۸۸)
اس پریشانی کے عالم میں مولوی محفوظ کا ایک کردار سامنے آتا ہے، یہ کردار دراصل عصر حاضر کے ان مولویوں کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے جو معصوم ذہن کی معصومیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آسیب، بھوت، پریت، کی کہانیوں میں الجھا کرتعویذ،گنڈے وغیرہ کے ذریعہ پیسے کماتے ہیں اور لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔حالات کچھ ایسا بنادیتے ہیں کہ اگلا ان کے فریب کے جال میں پھنس ہی جاتا ہے—
وسیع الرحمن کاردار کی معاشی پریشانی کا اندازہ مولوی محفوظ کو بخوبی تھا، اس لیے انہیں اپنے فریب کے جال میں یہ کہہ کر آسانی سے پھنسا لیا کہ آپ یقین کریں گے یا نہیں، لیکن اب بلند حویلی کے دن پلٹنے والے ہیں۔ بیحد اچھے دن آنے والے ہیں، اس حویلی کے۔۔۔ یعنی آپ کی حویلی کے اندر کوئی خزانہ چھپا ہے۔ یہ سن کر وسیع الرحمن کاردار کی باچھیں کھل گئیں— جن مشکل دور سے وہ گزر رہے تھے ایسے وقت میں گھر کے اندر سے نکلنے والے خزانہ کا تصور ہی انہیں نہ صرف ذہنی بلکہ روحانی خوشیوں سے ہمکنار کررہاتھا — لیکن تصور اور خواب حقیقت کاروپ لے لیں، یہ کوئی ضروری نہیں، اور ایسا ہی ہوا، لاکھ تگ ودو کے باوجود خزانہ صرف سہانا سپنا بن کر رہ گیا—یہاں ذوقی نے طلسمی حقیقت نگاری کا سہارا لیا ہے— دیکھا جائے تو یہ کہانی پہلے جملے سے ہی قاری کو باندھ کے رکھتی ہے— پدرم سلطان بود، کے قصے سے آج بھی ہندستانی مسلمان باہر نہیں نکل سکا ہے— اسی لیے خزانہ کی تلاش ایک ایسی علامت بن جاتی ہے جہاں وسیع الرحمن بغیر محنت کیے اس بات سے مطمئن ہیں کہ خزانہ توکسی صورت نکل ہی آئے گا اور وہ پھر سے خوبصورت ماضی کو آواز دے سکیں گے۔ اسی دوران پاکستان سے آئے ایک خط نے تقسیم ہند کے زخم کو کرید دیا—
’’ابّا نے خط چاک کیا— زور سے بولے۔۔۔ ’انّا للہ وانا الیہ راجعون۔ خود کو سنبھالو بیگم— بھائی کی اہلیہ انتقال کر گئیں—‘
اماں نے دہاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا۔ اماں کے ایک ہی بھائی تھے‘ جو تقسیم کے وقت پاکستان چلے گئے تھے۔ لیکن پاکستان اُنہیں بھی راس نہیں آسکا— اس دن خط آنے کے بعد سے اماں مسلسل روتی رہیں— لیکن صبر کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں— وہ اس موت کی ذمہ دار بھی تقسیم کو قرار دیتی تھیں۔
’نوج، نہ تقسیم ہوتی نہ اپنے بچھڑتے— پاگلوں نے ملک کا بٹوارہ کر دیا۔ آدھے ادھر تو آدھے اُدھر— یہ تقسیم ہے یا رشتے کی دیوار کھڑی کرنا— لے دے کر ایک ہی بھائی تھا میرا— وہ بھی تقسیم کے بعد پاکستان چلا گیا— اب کیا ہوگا— ایک چھوٹی سی بچی ہے— نادرہ— نادرہ کا کیا ہوگا— کیسے سنبھالیں گے بچی کو۔۔۔
امی کو سب سے زیادہ فکر نادرہ کی تھی۔۔۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۱۲۷۔۱۲۸)
ایک دن یہی نادرہ اپنے والد سفیان ماموں (حکیم صاحب) کے ساتھ بڑی حویلی میں داخل ہوتی ہے۔ اور دھیرے دھیرے پورے منظر نامے پر چھا جاتی ہے۔ نادرہ نہ صرف اپنے پھوپھا اور پھوپھی کے دل میں جگہ بنالیتی ہے بلکہ پھوپھی کے بھائی عبدالرحمن کاردارکے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔
’’لیکن میرے لیے یہ سمجھنا آسان نہیں تھا کہ آخر وہ دن کب آئے گا جب نادرہ اور میرے درمیان کی یہ خاموشی ٹوٹ جائے گی۔۔۔ اور اس میں شک نہیں کہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے جانے کہاں سے میں اپنے بدن میں ہزاروں انگارے اکٹھے کر لیا کرتا تھا۔۔۔
سرخ انگارے۔۔۔
جیسے میرے جسم میں ایک نا معلوم سی کپکپی چھا جاتی۔ شریانوں میں خون کا دوران تیز ہوجاتا— اور شاید میں نادرہ کی طرف ایسے نہیں دیکھتا تھا، جیسے ایک بھائی اپنی بہن کی طرف دیکھتا ہے— اور مجھے یہ بتانے میں کوئی پریشانی نہیں کہ وہ مجھے اچھی لگتی تھی۔۔۔
اور میں اس کا نازک سا ساتھ پانے کے لیے بیقرار تھا۔۔۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۱۵۹)
آہستہ آہستہ نادرہ اور عبد الرحمن کا پیارپروان چڑھتا ہے— دونوں ایک دوسرے کو شدت سے چاہنے لگتے ہیں۔ اور مستقبل کے حسین خواب سجاتے ہیں۔
’’میں اس کی کانپتی ہتھیلیوں کو سہلا رہا تھا۔۔۔
’کیونکہ سوچنا پڑتا ہے نادرہ— ان کے دن گزر گئے— ہمارے شروع ہو رہے ہیں— ان کے پاس جاگیریں تھیں— ہمارے پاس حویلی کا ڈھانچہ— ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا— ہمارے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے اور اندھیرا— اور ۔۔۔ مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔۔۔‘
’میں ہوں نا۔۔۔‘
وہ مجھ سے لپٹ گئی تھی۔۔۔
میں ایک بار پھر اس کے نوخیز جسم کے سحر میں گم تھا۔۔۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۱۹۰)
نادرہ اور عبد الرحمن کاردار کے عشق کے گل بوٹے کھل رہے تھے تو دوسری طرف پرانی روایات دم توڑ رہی تھیں۔ تہذیبیں ختم ہورہی تھیں، اخلاقی قدریں زوال پذیر تھیں— حویلیوں کی شان وشوکت قصہ پارینہ بنتی جارہی تھیں۔ وسیع وعریض حویلی، ان کے گرد کے باغات، نوکر چاکر، بہشتی، تانگے، گھوڑے، سقہ— یہ سب کے سب اپنا وجود کھو رہے تھے— ان سب کی تفصیلات ناول نگار نے جس طرح بیان کی ہے، انہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ناول نگار نے مٹتی ہوئی ان تہذیبوں، قدروں، رسم ورواج، جاہ وجلال کو بہت قریب سے دیکھا ہے— یہ انداز دیکھیے—
’’کالونی کلچر۔۔۔جہاں چاندنی راتیں نہیں ہوں گی۔۔۔نیلا آسمان نہیں ہوگا۔۔۔جگمگاتے ستاروں کی حسین کہکشاں نہیں ہوگی—لوگ مرغیوں کی طرح دربے میں بند رہیں گے اور صرف اپنے کام سے کام رکھیں گے— یعنی تیز رفتار ترقی جہاں اپنے پنکھ کھول رہی تھی وہیں، زندگی کی دوسری آسائشیں بھی چھن رہی تھی۔
عام دنوں میں گھروں میں جن پھیری کرنے والی عورتوں یا مردوں کا راج تھا، اب ان کے بچے بھی بدل رہے تھے— اور بدلتے وقت کے ساتھ خاندانی غلامی کے پشتینی دھندوں کو چھوڑ کر دوسرے‘ پیسے والے اور آزادانہ دھندوں کی طرف بھاگ رہے تھے— جس میں کسی کی غلامی نہ لکھی ہو— ایک زمانے میں جہاں سڑکوں پر تانگے والے اور گھوڑ سواروں کی ریل پیل ہوا کرتی تھی اب وہاں نئے رکشے اور ٹیمپو آگئے تھے— اس وقت تک ایسی کوٹھیوں یا حویلیوں میں پانی بھرنے یا اس طرح کے کاموں کے لیے مشک سے پانی بھرنے والے رکھے جاتے تھے— ایسا ہی ایک سقہ بلند حویلی میں تھا۔ عبدل— عبد ل کی پشتوں نے کاردار خاندان کے ساتھ اپنی وفاداریاں نبھائی تھیں۔ لیکن عبدل کے بچے اب رکشہ چلاتے تھے— اور آہستہ آہستہ عبدل کا رشتہ بھی بلند حویلی سے ختم ہی ہوگیا— ہاں کبھی کبھی وہ حویلی والوں کی خیریت پوچھنے آ جاتا— وہ کبھی آنکھیں ملا کر نہیں بات کرتاتھا— آتے ہی زمین پر بیٹھ جاتا۔ گھر بھر کی خیریت پوچھتا— اماں چائے کے لیے پوچھتیں تو سیدھے منع کر دیتا—
ان کام والیوں میں حجامنوں کا خاص بول بالا تھا— شادی کی تقریب ہو یا دکھ یا کسی کے انتقال کی خبر— ایک گھر سے دوسرے گھر انہیں پہنچانے کا کام انہی حجامنوں کا ہوا کرتا تھا— یہ دروازے سے ہی آوازیں لگاتیں— بھولا بہو کے لڑکا ہوا ہے— ندیم بابو کے ابّا انتقال کر گئے— دوپہر بعد مٹی منزل ہے— خوشی کے موقع پر یہ طشت میں مٹھائیاں، بتاشے، امرتی، برفی لے کر آیا کرتیں— اور پھر اس کے بدلے ہر گھر سے انہیں دس سے پچیس پیسے تک نذرانے مل جاتے— ان حجامنوں کا اصل کام ہوتا تھا، ایک گھر کی خبر کو دوسرے گھر پہنچانا— اور اس کام میں یہ ماہر ہوا کرتی تھیں— در اصل یہ حجامنیں اسی کام کے نذرانے وصول کیا کرتیں— چائے بھی پیتیں— پھر مزے لے لے کر پڑوس کے قصے سنا جاتیں—
شہر میں تانگوں کا رواج ہی ختم نہیں ہوا بلکہ روایت اور تہذیب سے وابستہ اخلاقیات کو بھی زوال آگیا— تانگے والوں کی مہذب زبان ان رکشے والوں کے یہاں مفقود تھی— زیادہ تر حجامنوں نے اب یہ پیشہ چھوڑ دیا تھا— بولن بوا، جمیلہ اور گھر گھر پھیری کرنے والی عورتوں کی تعداد میں بھی کمی آگئی تھی— لیکن ابھی یہ سلسلہ پوری طرح منقطع نہیں ہوا تھا—‘‘
(ایضاًً صفحہ ۲۳۲۔۲۳۴)
ان پرانی روایتوں، قدروں، تہذیبوں کی اہمیت ختم ہوتی جارہی تھی— ایک نئی تہذیب اور قدریں اپنے پاؤں پورے سماج اورمعاشرے میں پھیلا رہی تھیں— اور ظاہر ہے کہ نئی نسل کو یہی بدلتی ہوئی تہذیب اور قدریں پسند آرہی تھیں۔
مشرف عالم ذوقی نے جس خوبصورت انداز اور جس گہرائی وگیرائی سے بعض پرانی روایتوں کا ذکر کیا ہے، میرا دعویٰ ہے کہ ذوقی اور ان کی نسل کے بعد تہذیبی ان روایات کا کوئی ذکر کرنے والا نہیں ملے گا۔ آج کی نسل نے سقہ، بہشتی، دربے، میراثن وغیرہ کانام بھی نہیں سنا ہوگا— ذوقی کا یہ ناول، جس طرح پرانی روایات کو اپنے اندر پوری شدت سے سمیٹے ہوا ہے یہ سب تاریخ کے اہم اوراق ہیں اور ماضی کی بہترین یادیں ہیں۔
ماضی کی یادیں، جن سے وابستہ ہوں اور جن میں صدیوں کی تہذیبیں پوشیدہ ہوں، ان کی اہمیت وہی سمجھ سکتا ہے، جوان گزرگاہوں سے گزرا ہے— نئی نسل ان کی قدر کیا جانیں—
ناول میں بڑی حویلی کے اندر اور باہر تہذیبی ،ثقافتی تصادم کے ساتھ ساتھ ایک دوسری حویلی کے قصے بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ وسیع الرحمن کاردار کے دوست نظر محمد کی کوٹھی —ایک زمانے میں اس کوٹھی کی شان نرالی تھی—کہتے ہیں بڑا دروازہ اتنا بڑا تھا کہ ہاتھی گزر جائے۔۔۔اس کوٹھی کو لے کر طرح کی باتیں مشہور تھیں— جیسے یہ کہ اس کوٹھی میں جنات کا بسیرا ہے بعد میں یہ آسیبی کوٹھی کے نام سے مشہور ہوگئی— نظر محمد کا بیٹا نور محمد، عبدالرحمن کاردار کا اسکول کے زمانے کا دوست ہے— گر چہ وہ عبدالرحمن سے دو تین سال چھوٹا ہے، پھر بھی عبدالرحمن ،نور محمد کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ نورمحمد کی ماں ہمیشہ بیمار رہتی ہے اور یہ شک نظر محمد کو بھی تھا کہ ان کی بیوی پر کسی جنات کا سایہ ہے(صفحہ ۴۹) مولوی محفوظ نے یہاں بھی جنات بھگانے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نہیں ملی— نظر محمد اپنی بیوی کے علاج کے بجائے، جنات بھگانے کی کوشش میں لگے رہے۔ مرض بڑھتا گیا اور ایک دن نور محمد کی ماں چل بسیں۔ جیسے ہی یہ خبر بلند حویلی پہنچی، یہاں کہرام مچ گیا۔ تعلقات کشیدہ ہونے کے باوجود رسمی تعلقات تو تھے، جس نے گھر کے سارے افراد کو تعزیت کے لیے جانے پر مجبور کیا اور یہاں پہنچ کر سبھوں کے آنسو نکل پڑے۔ نظرمحمد وسیع الرحمن کاردار سے گلے لگ کر رو رہے تھے تو نور محمد، عبدالرحمن کاردار کے گلے لگ کر—
’’کوٹھی کے محراب نما دروازے سے ملحق ایک چھوٹی سی راہداری تھی— یہاں اچانک میں نے نادرہ اور نور محمد کو ایک ساتھ دیکھا— میں دبے پاؤں ان کی باتیں سننے آگے بڑھا— میں دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا—
نادرہ پوچھ رہی تھی— تمہاری امی کیسی تھیں؟
نور محمد بتا رہا تھا—
نادرہ نے پھر کہا— تمہیں پتہ ہے— میری امی بھی ختم ہوگئیں، تبھی تو میں ابو کے ساتھ بلند حویلی آگئی—
’اچھا۔۔۔‘ مجھے اچھی طرح احساس تھا، ان لمحات میں نور محمد اپنا مکمل دکھ بھول چکا تھا—
’تم گھبرانا مت— میں بھی نہیں گھبرائی تھی— ابو کہتے تھے۔ رونے سے روحیں ناراض ہوجاتی ہیں۔۔۔‘
’اچھا۔۔۔‘
لیکن دیکھو— تم پریشان بالکل مت ہونا— اور ہاں پریشان ہوجاؤ تو بلند حویلی آجانا— سمجھے— میں تمہیں وہاں مل جاؤں گی—
اس ماحول میں بھی نور محمد کے چہرے پر چمک تھی جیسے اچانک اس کی زندگی میں نئی دوستی کا سورج طلوع ہوا ہو—‘‘
ناول کا یہ ایک Turring Point ہے۔ نادرہ کا نورمحمد سے مل کر تعزیت کے دو بول بولنا، ناول نگار کے لیے ایک دھماکہ محسوس ہوتا ہے— یہی وہ Turring Point ہے جہاں سے عبدالرحمن کے دل میں نادرہ کے لیے نفرت پیدا ہوتی ہے اور اس نفرت کی خلیج اتنی بڑھتی ہے کہ عبدالرحمن نے نہ صرف برسوں کی اپنی محبت کو کچل دیا بلکہ وہ ایک دوسری لڑکی رقیہ کو اپنی شریک حیات بنالیتا ہے۔ اور نادرہ اپنے دل میں رحمن کی محبت کا طوفان لیے رحمن کے دوست نورمحمد سے شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہے۔ شادی کے بعد بھی رحمن اور نادرہ ایک دوسرے کے لیے بے چین اور بے قرار رہتے ہیں، لیکن وقت آگے نکل چکاتھا— نادرہ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتی رہتی ہے اور اس عمل میں وہ بیمار رہنے لگتی ہے۔ اس کی بیماری بڑھتی جاتی ہے۔ اسی دوران رحمن جہاں ایک بیٹا شان الرحمن کا باپ بن جاتا ہے وہیں بیماری کے عالم میں نادرہ نے ایک بیٹی نگار کو جنم دیا— آٹھویں مہینے میں پیدا ہونے والی نگار نہ صرف جسم وجان سے نحیف تھی بلکہ سیزریا دورہ میں بھی مبتلا تھی۔ ہر وقت روتی رہتی تھی—
ادھر پے در پے صدموں اور گھٹن نے نادرہ کو بے جان کردیا اورآخر کار ایک دن وہ ان تمام دردوکرب کے ساتھ سفر آخرت پرروانہ ہوگئی۔Mental disorderمیں مبتلا نگار نے نورمحمد کے ساتھ ساتھ رحمن کے دل ودماغ کو بھی پریشان کردیاتھا— لیکن قدرت کے اس فعل کے آگے سپر ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا—
’’میرے دماغ میں مسلسل ایک فلم چل رہی تھی۔۔۔ کوٹھی میں آسیب اور جنات کا ہنگامہ— بلند حویلی کے زوال کی دردناک داستان— ماضی سے لپٹے ہوئے لوگ— گمشدہ خزانے کی تلاش— آسمان پر منڈلانے والے جنگی طیارے— ہندستان اور پاکستان کی جنگ— آنکھوں میں سمائی ہوئی نفرت— پاکستان کی تقسیم— دونوں ملکوں کے آپسی رشتوں کا تکلیف دہ حد تک خراب ہوجانا— سفیان ماموں کا آنا— نادرہ کی شادی اور۔۔۔ نگار کا جنم۔۔۔ مسلسل خوف کی بارش۔۔۔ جنگیں۔۔۔ تباہیاں۔۔۔ اور ایک نئے انسان کی آمد۔۔۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۳۳۰)
نورمحمد نے نادرہ کو جس طرح دل کی گہرائیوں سے چاہا تھا، وہی چاہت، وہی انسیت، اور وہی پیار، نادرہ کی اس چھوڑی ہوئی نشانی اورامانت سے تھی، نورمحمد کسی بھی قیمت پر نگار کو کھونا نہیں چاہتاتھا— نگار کی بیماری بڑھتی گئی۔ نورمحمد نے کوشش کی لیکن تمام جگہوں سے مایوسیاں ہی ملیں— کچھ عرصہ تک نگار کو ایک آیا بانو نے سنبھالا۔ لیکن نگار جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اس کا دورہ بڑھتا گیا۔ تنگ آکر ایک دن بانو نے بھی نگار کو اس کے حال پر چھوڑ دیا— شاید وہ بھی بہت ہار گئی تھی— لیکن نورمحمد نے ہمت نہیں ہاری، وہ سارے زمانے ،سماج، خاندان کو فراموش کرکے اپنے پیار کی امانت نگار کی دیکھ ریکھ میں ہمہ وقت مشغول رہتا—
’’بھیا، میں نگار کو نہیں کھو سکتا—‘
اس کا گلہ پسیج گیا تھا— ’نادرہ کی یاد گار ہے— میرے لیے اب یہی میری زندگی ہے۔ میں ساری ساری رات اللہ کے حضور میں نگار کی زندگی کے لیے دعا مانگتا ہوں— میں جانتا ہوں، اس کی موجودگی، نہ ہونے کے برابر ہے۔ نہ وہ پڑھ سکتی ہے، نہ کسی کام کی ہے۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ بڑی ہوگی تو کیا ہوگا؟ شادی تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں جانتا ہوں اس کی موجودگی کسی بیکار کل پرزے کی طرح ہے۔۔۔ مگر آخر ہے تو انسان۔ گوشت پوست کی انسان۔ میری نادرہ کی نشانی— اب اس بیکار کل پرزے کو پھینک تونہیں سکتا بھیّا—‘
’اس کی آنکھوں میں آنسو تھے—‘
’اب میں ہی اس کا سب کچھ ہوں۔ باپ بھی— ماں بھی— گائیڈ بھی۔۔۔ دوست بھی، آیا بھی اور ڈاکٹر بھی۔۔۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۳۸۸)
دیکھتے دیکھتے وقت نے انگڑائیاں لیں— نگار اپنی بیماری کے ساتھ ساتھ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے۔ گرچہ اس کی ساری ضروریات اس کا باپ نورمحمد پوری کرتا ہے— نورمحمد کیسے ایک لاچار بنے ہیں اور ذہنی طور پر مفلوج بیٹی کی روز مرہ کی ضروریات پوری کرتا ہے یہ سوال نورمحمد کے دوست رحمن کے ساتھ ساتھ قاری کو بھی بے چین کرتا ہے—
’’کیسے کرتا ہوگا نور محمد یہ سب— نگار جوان ہوگئی ہے۔ ایک جوان بیٹی کا باپ کے ساتھ سونا— باپ کا اسے نہلانا۔ جسم میں صابن ملنا— باپ کے سامنے ایک معذور بیٹی کا ننگا ہوجانا۔۔۔ اسے لے کر ٹوائلٹ جانا۔۔۔ اور اس کے جسم کے ہر حصے کا نمایا ں ہونا۔۔۔ سانپ سرسرا رہے تھے۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۳۹۳)
نگار جوان ہوجاتی ہے۔ ایک بے بس اور کمزور لڑکی جس میں جوانی کے کوئی احساس اورجذبات نہ تھے۔ مگر ایک دن نورمحمد کا ایک رشتہ دار آتا ہے اور کسی ایک لمحہ نگار میں ایک سوئی ہوئی مانگ جاگ جاتی ہے۔ ایک ایسی مانگ جسے نگار سمجھنے سے قاصر ہے۔ حالات اور وقت نورمحمد کا امتحان لینا چاہتے ہیں۔ یہ ناول کا ایسا موڑ ہے جو نہ صرف چونکاتا ہے بلکہ رونگٹے کھڑے کردیتا ہے— اردو ناول کی تاریخ میں بھی یہ ناول اس انوکھے موڑ کے لیے یاد رکھا جائے گا—
’’میں نے طلب پوری کردی۔۔۔ پوری کردی۔۔۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۴۴۶)
یہ چند الفاظ ایسے تھے جو دھماکے سے کم نہیں تھے اور یہ دھماکہ ناگا سا کی میں ہونے والے بموں کے دھماکوں سے بھی زیادہ لرزہ خیز تھا۔ پوری انسانیت، پوری تہذیب، پوری ثقافت کے مضبوط ستون ایک پل میں ڈھ گئے۔
’’پروفیسر نیلے چیخ رہے تھے— ’گلوبل وارمنگ کے خطروں کی دہائیاں دینے والے کیا اس سچ سے واقف نہیں کہ تہذیبیں گم ہو چکی ہیں؟ کوپین ہیگن میں ماحولیات کی عالمی کانفرنس ناکام ہو جاتی ہے— اور یہاں ایک نئی ماحولیات کا جنم ہو رہا ہے۔۔۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۴۳۶)
’’اس کے کچھ ہی دنوں بعد ایک دھماکہ اور ہوا تھا—
6دسمبر 1992 بابری مسجد شہید کر دی گئی—‘‘
(ایضاًً صفحہ ۴۴۸)
یعنی پرانی روایات، مسجد کی حرمت، اس کی پاکیزگی اس کے تقدس کو روند ڈالا گیا— ایک طرف تہذیبوں کا تصادم ہے، دوسری طرف ناول نگار بابری مسجد شہادت کا اشارہ دیتا ہے— غور کیجئے تو دونوں میں اتنی مماثلت کہ عقل حیران رہ جاتی ہے— بابری مسجد سانحہ نے یقیناًتہذیب وروایات کے پرزے بکھیرے تھے—نگار حاملہ ہوجاتی ہے اور نور محمد اپنی کوٹھی کو فروخت کرکے ایک گاؤں ولاس پور میں جاتا ہے۔ یہ گاؤں جہاں شہر کی بہت ساری کثافتیں ابھی نہیں پہنچی ہیں— صاف ستھرا ماحول، پر بہار فضا، تازہ ہوائیں— لہلہاتی فصلیں— ایک روشن دنیا ہے۔یہاں نگار اپنی ایک بیٹی جینی کو جنم دیتی ہے۔ اور دوسال بعد وہ جینی جیسی بیٹی کویادگار کے طور پر چھوڑ کردنیا سے رخصت ہوجاتی ہے بلکہ وہ نورمحمد کو جہنم کی آگ میں جھلستے رہنے کے لیے مجبور کردیتی ہے۔ نورمحمد اپنے گناہوں کا پرائشچت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھتا ہے۔ لمبی اور گھنی داڑھی چہرے پر ہے— اور گاؤں والوں کے درمیان ملا کہلاتا ہے۔تہذیب وتمدن، ثقافت، روایات اور رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے والے کردار نورمحمد آخر آخر لمحوں میں بھی ناول نگار کی ہمدردی قائم رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔
نور محمد ایک ایسے راستے پر چلا جہاں اس کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ مجبوری تھی— (صفحہ ۴۶۵) تو کیا مجبوری انسان کو حیوان بنادیتی ہے؟ میری رائے میں بہرحال نور محمد نے باپ بیٹی کے پاکیزہ رشتہ کو پامال کیا ہے بلکہ پوری انسانیت کو شرمسار کیا ہے—
مشرف عالم ذوقی نے اس بے حد نازک موضوع کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مخصوص اسلوب میں بیان کیا ہے— اس ناول کی خاص بات یہ بھی ہے ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ سے لے کر عہد حاضر تک کے کئی اہم واقعات کو بڑی تفصیل سے اور خوبصورت انداز میں ناول کا حصہ بنایا ہے۔ آزادئ ہند، تقسیم ہند، فرقہ وارانہ فسادات، سقوط بنگلہ دیش، ہندستان میں مسلمانوں پر ظلم وزیادتی اور پھر بابری مسجد کا انہدام— ان تمام حادثات کے ساتھ ساتھ کس طرح پرانی روایات نے دم توڑا، انسانی رشتوں کا بکھراؤ ہوا، قدریں پامال ہوئیں، تہذیب وتمدن کا انداز بدلا ان سب کو ذوقی نے چونکہ بہت قریب سے دیکھا اور بھوگا ہے اور ان تبدیلیوں کے وہ خود ایک کردار رہ چکے ہیں، اس لیے یہ تمام منظر نامے صداقت سے بہت قریب ہیں— ناول کے تمام کردار اور واقعات ایسے ہیں جو اپنے ا پنے نقوش چھوڑ جانے میں کامیاب ہیں— ایک طرف وسیع الرحمن اوران کی بیگم کے کردار ہیں تو دوسری طرف بالکل نئے زمانے اور جدید عہد کی نمائندگی کرنے والی ان کی پرپوتی سارہ ہے۔ جسے گزرے زمانے کی تہذیبیں، ثقافتیں، قدریں سب کی سب Fantacy لگتی ہیں—
’’’ہاں ددّو— کتنے انوکھے قصے۔ پاپا کی بات پر یقین کرنے کی خواہش نہیں ہوتی۔ وہ۔۔۔ پاپا بتا رہے تھے۔۔۔ گھومتا خزانہ۔۔۔ سمتھنگ سمتھنگ۔۔۔ حویلی۔۔۔ کوٹھی۔۔۔ خزانہ۔ مائی گاڈ۔۔۔ آپ لوگوں کی تو پرورش ہی Fantacy کے ماحول میں ہوئی۔ تب کتنا ایڈونچر ہوگا ددّو— کھلا آسمان۔۔۔ کبوتر۔۔۔ مرغیاں— راجے مہاراجوں کی طرح کوٹھیاں اور خزانے کی تلاش۔۔۔ دل نہیں مانتا ددّو کہ انسانی تہذیب میں، بس کچھ سال پہلے تک ایسا بھی ہوتا ہوگا— اچھا۔۔۔ آپ کو ان دنوں کی یاد آتی ہے ددّو۔۔۔‘‘
(ایضاًً صفحہ ۳۸۲۔۳۸۳)
یہ نوسٹلجیاکسی کے لیے فنٹاسی ہے تو کسی کے لیے ان یادوں کے روشن چراغ سے روح کی گہرائیوں میں اترنے والی روشنی اور جینے کا سہارا— ذوقی کے ان احساسات وجذبات میں جو گہرائی وگیرائی ہے اور مطالعہ ومشاہدہ میں جو وسعت ہے وہ بے شک فکری وفنی بلندیوں کو چھونے میں کامیاب ہے—قرۃ العین حیدر نے جس طرح عام ڈگر سے ہٹ کر بالکل اپنے ماحول اور اس کے گرد وپیش کے واقعات پیش کئے ہیں، کچھ ایسی ہی کامیاب کوشش مشرف عالم ذوقی نے کی ہے— یہ ناول اپنی نوعیت کا منفرد ناول ہے جو تہذیب وتاریخ کی داستانوں کو سناتاہوا عہد حاضر سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے—
**********
Emialid :
Mob.09934839110

Share
Share
Share