اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی
ردیف "ت”
تاک لگانا، تاک میں رہنا
تاک کے معنی ہیں دیکھنا تکنا ہم بولتے ہی ہیں کہ وہ دیر تک تکتا رہا تاک جھانک اسی سے بنا ہے میر تقی میر کا مصرعہ ہے۔
تاکنا جھانکنا کبھو نہ گیا
یعنی جب موقع ملا دیکھ لیا نظر ڈال لی چوری چھپے دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سے سماجی رو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح بعض سوالات خیالات اور تمنائیں ہمارے دل سے الجھی رہتی ہیں اور ہم ان کے نظر بچا کر یا چوری چھُپے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اُردو شاعری میں حسن و عشق کے معاملات کے لئے اس طرح کی باتیں اکثر گفتگو میں آتی رہتی ہیں۔
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی
یہ ایک قدرتی عمل بھی ہے لیکن ہم نے اس کو ایک سماجی عمل کے طور پر دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی اور بظاہر کیا کہ کسی بات کی ذمہ داری بشرطیکہ اس میں خرابی کا کوئی پہلو ہو کسی ایک آدمی پر نہیں ہوتی وہ عمل دو طرفہ ہوتا ہے اور دوسرا کوئی شخص یا فریق بھی اس میں شریک رہتا ہے شرکت کا پیمانہ جو بھی ہو جتنا بھی ہو۔
تجاہلِ عارفانہ
جان بوجھ کر انجان بننا۔ تجاہل کے معنی ہیں لاعلمی ظاہر کرنا اور جانتے بوجھتے ہوئے ظاہر نہ کرنا جو ایک مکار رد عمل ہوتا ہے اور سماج میں اس کی بہت مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ لوگ جانتے ہیں کچھ ہیں لیکن یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ نا واقف ہیں۔
تقدیر پھرنا، تقدیر کا لکھا یوں تھا، تقدیر کا بناؤ، تقدیر کا پلٹا کھانا، تقدیر کا دامن، تقدیر کا کھیل
ہمارا معاشرہ تدبیر منصوبہ بندی اور کاوش میں اتنا یقین نہیں رکھتا جتنا تقدیر کو اسے بھروسہ ہوتا ہے یہ مشرقی قوموں کا ایک عام رویہ ہے۔ اور ہندو مسلمانوں میں نسبتاً زیادہ ہے۔ کہ وہ ہر بات کو تقدیر سے منسوب کرتے ہیں چنانچہ تقدیر سے متعلق بہت محاورات ہیں جو ہماری زبان پر آتے رہتے ہیں۔ اور اس لئے آتے رہتے ہیں کہ ہم غیبی فیصلوں کو مانتے ہیں اور اُن سے باہر آ کر سوچنا سمجھنا نہیں چاہتے اوپر دیئے ہوئے محاورات کا مطالعہ اسی نقطہ نظر سے کرنا چاہیے تقدیر کا لفظ بدل کر کبھی قِسمت کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے قِسمت کا لکھا قِسمت کا کھیل قِسمت کا بننا اور بگڑنا کہا جاتا ہے۔
تمہارے منہ میں کبھی شکر یا گھی کھانڈ
شکر ہویا پھر شکر وہ مٹھاس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پسند یدہ اشیاء ہیں گڑ کھانڈ اور راب بھی اسی ذیل میں آتے ہیں اسی لئے اس طرح کے محاورے بھی ہیں گڑ نہ دبے گڑ جیسی بات کہہ دیئے گڑ اور گھی کا ایک ساتھ استعمال دیہات کی سطح پر بہت پسند کیا جاتا ہے شکرانہ میں خاص طور پر گھی اور کھانڈ یا گھی اور شکر استعمال ہوتے تھے دیہات میں لال شکر اور شہروں میں گھی اور پورا خاص طور پر استعمال میں آتا تھا اور اس کے نیچے چاول ہوتے تھے۔
بہرحال جب ہم ان امور پر غور کرتے ہیں تو گھی اور شکر کی سماجی حیثیت اور معنویت سامنے آتی ہے اور یہ کہاوت ہے تمہارے منہ میں گھی شکر اُسی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس سے مراد ہوتی ہے کہ تمہارا کہنا پورا ہوا اور مراد بر آئے اب بھی ایسے موقع پر ایسی کہاوت اور بولی جاتی ہے اور میٹھا ئی کھلانے یا کھانے کا وعدہ کیا کہا جاتا ہے۔ مقصد اظہارِ خوشی ہے۔
تنگ حال ہونا، تنگ وقت ہونا، تنگ ہاتھ ہونا
یہ محاورات دراصل ہماری سماجی زندگی کا منظر نامہ پیش کرتے ہیں خاص طور پر اُس طبقہ کی جو کم آمدنی اور اخلاص کے ساتھ اپنے زندگی کے دن گزارتا ہے اسی کو تنگی ترشی کہتے ہیں۔ یا ہاتھ کا تنگ ہونا بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اور اس کا ذکر اکثر ہوتا ہے کہ اس کا ہاتھ تنگ رہتا ہے یاوہ تنگ حالی میں اپنا وقت گزارتا ہے تنگ وقت ہونا محاورے کی ایک دوسری صورت ہے یہاں پیسہ مراد نہیں ہوتا بلکہ وقت کا کم رہ جانا مراد ہوتا ہے جیسے نماز کا وقت کم ہو رہا ہے۔ تنگ ہونا تکلیف کی حالت میں ہونا ہے اور تنگ کرنا دوسروں کو پریشان کرنے کے معنی میں آتا ہے اور یہ ہماری سماجی روش ہے کہ جب ہم دوسروں سے کوئی ناچاقی یا اختلاف یا خود غرضانہ اختلاف رکھتے ہیں تو ان کو طرح طرح سے ستاتے اور پریشان کرتے ہیں اسی کو تنگ کرنا کہا جاتا ہے کہ اس نے مجھے تنگ کر رکھا ہے۔
تیوری بدلنا یا چڑھانا تیوری میں بل ڈالنا تیوری کا بل کھلنا۔
تیوری انسان کی پیشانی اور دونوں آنکھوں کے درمیان کے حصّے کو کہتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ ہمارے جذبات و احساسات کا آئینہ ہوتا ہے ہم گفتگو کرتے وقت آنکھ بھون چڑھاتے ہیں نا خوشی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں اسی کو تیوری چڑھانا کہتے ہیں اُردو کا ایک مصرعہ ہے جس سے سماجی رو یہ کی نقش گری ہوتی ہے۔
تیوری چڑھائی تم نے کہ یہاں دم نکل گیا
تیوری کو تیور بھی کہتے ہیں اور اس کے معنی Expirationمیں شامل رہتے ہیں جیسے آج کل ان کے تیور بدلے ہوئے ہیں جس کا یہ مطلب ہے کہ نظریں بدل گئیں ہیں اگر ناگواری ختم ہو گئی تو اسے تیوری کا بل کھلنا کہتے ہیں یہ تیوری کے ہر بل پڑنے کے مقابلہ میں ہوتا ہے۔