ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی – لکچرر گورنمنٹ جونیر کالج ‘ شاد نگر ‘ اے۔پی
09346651710
آندھراپردیش وتلنگانہ میں ادب اطفال کی صورت حال
اردو زبان کی پیدائش شمالی ہند میں ہوئی‘ لیکن اس کا بچپن دکن میں گزرا‘ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر‘ بانئ شہر حیدرآباد محمد قلی قطب شاہ معانیؔ کو قرار دیا جاتا ہے ‘ اس لحاظ سے منطقی طور پر اردو ادب اطفال کی ابتداء بھی دکن سے ماننی چاہئے‘ لیکن اردو ادب اطفال کے پہلے شاعر کی حیثیت سے امیر خسرو اور ان کی کتاب ’’خالق باری‘‘ کا نام لیا جاتا ہے‘ اسکے بعد میرؔ اور نظیرؔ کا۔
دکنی ادب کے قدیم و جدید محققین نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی‘ ورنہ اردو ادب کی طرح اردو ادب اطفال کی اولیت کا سہرا بھی دکنی ادب کے سر باندھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ بعض حضرات نے بچوں کے شاعرکی حیثیت سے امیر خسرو کے بعد محمد قلی قطب شاہ کا نام لیا ہے۔ (دیکھئے مقدمہ: اردو میں بچوں کے ادب کی اینتھولوجی: ۱۴۔۱۵‘ از: ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی)
محمد قلی قطب شاہ معانیؔ کی موسموں‘ تہواروں‘ پھلوں‘ پھولوں اور کھیل کود وغیرہ سے متعلق رنگا رنگ نظموں اور مثنویوں کو اپنے عہدکے ادب اطفال میں بہ آسانی رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بچوں کے ادب میں سترہویں صدی کے دکنی شاعر شاہ حسین ذوقی کی مثنوی ’’ماں باپ نامہ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ (اردو میں بچوں کا ادب: ۱۶۴‘ از: ڈاکٹر خوشحال زیدی) نیز دکن کے نامعلوم مصنف نے سید محمد قادری کی ۳۵ منتخب کہانیوں کا مجموعہ ’’طوطی نامہ‘‘ کو دکنی زبان میں منتقل کیا‘ اس کا سنہ کتابت ۱۱۴۲ھ مطابق ۱۷۲۹ء ہے۔ (دکنی نثر کا انتخاب: ۱۳۸‘ از: ڈاکٹر سیدہ جعفر)
۱۸۱۲ء میں فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس کا قیام عمل میں آیا‘ ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرپرستی میں یہ کالج دکنی زبان و ادب کا مرکز بن گیا تھا‘ فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی طرح اس کالج کا مقصد بھی انگریزوں کو دیسی زبان سکھانا تھا‘ اس کالج کے مصنفین میں محمد ابراہیم بیجاپوری اور منشی شمس الدین احمدکا نام ملتا ہے‘ محمد ابراہیم بیجاپوری نے ۱۸۲۳ء میں فارسی کہانیوں کا مجموعہ ’’انوار سہیلی‘‘ کا ترجمہ دکنی زبان میں کیا۔ شمس الدین احمد نے عربی ’’الف لیلہ‘‘ (ہزار رات والی داستان) سے سو راتوں کا ترجمہ سلیس اور شستہ دکنی نثر میں ’’حکایات الجلیلہ‘‘کے نام سے کیا۔
دکنی زبان میں ۱۸۶۷ء تک تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا‘ ۱۸۶۷ء میں حیدرآباد کے ایک صوفی فقیر اللہ شاہ حیدر نے نہال چند لاہوری کی تصنیف قصہ ’’گل بکاؤلی‘‘ کے مقابل اپنی تصنیف ’’تناؤلی‘‘ پیش کی‘ حسین علی خاں نے میرامن کی ’’باغ و بہار‘‘ کے طرز پر ’’ہمیشہ بہار‘‘ اور ’’مرغوب الطبع‘‘ پیش کیا۔ اسی زمانہ میں فارسی کی بہت سی داستانوں کو دکنی کا جامہ پہنا یا گیا‘ جن کے مصنف و مترجم کے نام کا تو پتہ نہیں چلتا‘ لیکن ترجمے اور نمونے دستیاب ہیں‘ جیسے: (۱) سنگھاسن بتیسی (۲)بہار دانش (۳) قصۂ ملکۂ زبان و کام کندلا۔ (دیکھئے: دکھنی نثر پارے از: ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ‘ دکنی نثر کا انتخاب از: ڈاکٹر سیدہ جعفر)
آزادی کے بعد حیدرآباد میں بچوں کے ادب پر لکھنے والوں میں خورشید احمد جامی‘ امیر احمد خسرو (مجموعۂ نظم اکھوا)وقار خلیل (حرف حرف نظم) سعادت نظیر (پھول مالا)عابدہ محبوب (چکنی ہانڈی) قیصر سرمست‘ صفدر حسین اور افتخار احمد اقبال کا نام آتا ہے‘ ان حضرات کی کہانیاں‘ مضامین اور نظمیں بچوں کے رسالے: غنچے‘ پھلواری ‘ کھلونا اور مسرت وغیرہ میں شائع ہوا کرتی تھیں‘ جامی صاحب نے نثر اور نظم دونوں لکھی ہیں‘ ان کی کہانیوں اور نظموں کے مجموعے: شمع حیات (1947ء)‘ نشان راہ (1948ء)‘ گاندھی جی (1954ء)‘ ہمارا نہرو (1954ء)‘ منزل کی طرف ( 1949ء) او رتاروں کی دنیا (1952ء) کے عنوان سے شائع ہوچکے ہیں۔
خورشید احمد جامی کے بھائی افتخار احمد اقبال نے بچوں کے لیے کہانیاں خصوصاً جاسوسی‘ مہماتی اور سائنسی کہانیاں لکھنے والے کی حیثیت سے پورے ملک میں شہرت حاصل کی‘ ۱۹۵۷ء میں ان کا جاسوسی ناول ’’خونی دروازہ ‘‘اور سائنس فکشن ’’پاگل ڈاکٹر‘‘ کھلونا بک ڈپو سے شائع ہوئے‘ قبل ازیں یہ دونوں ناول ماہ نامہ کھلونا نئی دہلی میں قسط وار شائع ہوچکے تھے‘ رائل پبلشرز دہلی (پھلواری) نے ان کے دو مجموعے ’’بنی خرگوش‘‘ اور ’’موت کا غار‘‘شائع کئے۔ ماہ نامہ کھلونا‘ پھلواری‘ کلیاں اور ننھا وغیرہ میں ان کی بے شمار کہانیاں شائع ہوئی ہیں۔
دور حاضر میں آندھراپردیش سے بچوں کے لیے نظمیں ‘ کہانیاں اور مضامین لکھنے والوں میں رؤف خیر‘ لطیف آرزو (لطیفی نظمیں) ظفر فاروقی (سچے موتی)‘ محمد مجیب احمد (نئی صبح)‘ ابوالفہم وحید علی‘ مسعود جاوید ہاشمی‘ شبینہ فرشوری‘ ڈاکٹر یوسف کمال‘ پروفیسر مظفر شہ میری‘ ڈاکٹر ایم۔اے۔ قدیر‘ ڈاکٹر م۔ق۔ سلیم‘ ہاجرہ ریاض‘ محمد ادریس‘ قادر علی انور اور ذکیہ تجلی وغیرہ نمایاں ہیں۔
رؤف خیر بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں ۱۹۶۵ء سے اب تک لکھ رہے ہیں‘ ان کی ایک ایک نظم حکومت مہاراشٹرا اور حکومت آندھراپردیش کے اسکولی نصاب میں شامل رہ چکی ہے‘ ابوالفہم وحید علی مرحوم نے بچوں کی نصابی ضرورتوں کی تکمیل و تسہیل پر زیادہ توجہ دی‘ انہوں نے بچوں کے لیے ہمارے نونہال نامی رسالہ جاری کیا تھا‘ جو ان کی وفات کے بعد بند ہوگیا۔ ڈاکٹر م۔ق۔سلیم صاحب نے نصابی ضرورت کے تحت قواعد‘ خطوط نگاری اور مضمون نویسی سے متعلق چھ کتابیں ترتیب دی ہیں‘ ان کے علاوہ وہ بچوں کے لیے مفید معلوماتی مضامین بھی بچوں کے رسائل جیسے ’’گلشن اطفال‘‘ مالیگاؤں اور ’’غبارہ‘‘ بنگلور وغیرہ میں لکھا کرتے ہیں‘ نیز بچوں کا ماہ نامہ ’’شعاراردو‘‘بھی پابندی سے شائع کررہے ہیں‘ مسعود جاوید ہاشمی صاحب بڑوں کے علاوہ بچوں کے لیے بھی نظمیں اور کہانیاں پیش کرتے ہیں‘ وہ ابوالفہم وحید علی موحوم کے ساتھ ’’نونہال‘‘ کی ادارت میں شریک تھے‘ اور اب چار سال سے بچوں کا دو لسانی ماہ نامہ ’’فن کار نو‘‘ اردو اور انگریزی میں نکال رہے ہیں۔
آندھراپردیش میں بچوں کے ادب کی ترویج و اشاعت میں روزنانہ منصف حیدرآباد کا بروز پیر کا ضمیمہ ’’گلدستہ‘‘ کا اہم رول ہے‘ ۱۹۹۸ء سے یہ ہر پیر کو اخبار کے صفحات کے سائز میں چار صفحات کا ضمیمہ پیش کررہا ہے‘ اس میں زیادہ تر کہانیا ں شامل ہوتی ہیں‘ ان کے علاوہ حمد‘ نعت‘ اقوال زریں‘ سیرت‘ تاریخی واقعات‘ سائنسی معلومات‘ لطیفے‘ کارٹون بچوں کے ہاتھوں سے بنی ہوئی تصاویر اور بچوں کے خطوط شائع ہوتے ہیں۔ اس میں کثرت سے کہانیاں لکھنے والوں میں رحمت انجم‘ حسیب مصطفی عرفان‘ عطیہ حبیب‘ وقار محسن‘ سیدہ شہبینہ شاہین‘ نوشین انجم‘ مجید صدیقی‘ ثروت یعقوب‘ معراج النساء بیگم‘ محمد عبدالسلام‘ نیلوفر انجم‘ روبینہ ناز‘ اشتیاق احمد‘ علی اکمل تصور‘ قمر ناز‘ کلثوم بانو اور حسن ذکی کاظمی وغیرہ شامل ہیں‘ جب کہ مضامین لکھنے والوں میں وسیمہ عشرت بیابانی‘ انیس فاطمہ اور متین صدیقی نمایاں ہیں۔
گلدستہ کے طرز پر روزنامہ اعتماد کا ضمیمہ ’’پھلواری‘ ‘ اپنی اشاعت (۲۰۰۴ء) سے ۲۰۰۸ء تک چار اخباری صفحات میں شائع ہوتا رہا‘ لیکن ۲۰۰۸ء میں اچانک اس کو ایک صفحہ تک محدود کردیا گیا‘ ادھر یہ اخبار اتوار سپلیمنٹ میں ایک صفحہ بچوں کے لیے بچپن کے نام سے بھی شائع کررہا ہے‘ جیسا کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا ’’امنگ‘‘ کے نام سے شائع کرتا ہے ۔ روزنامہ منصف کی اشاعت کے بعد روزمانہ سیاست حیدرآباد بھی ۱۹۹۸ء سے تاحال بچوں کے لیے محدود صفحہ میں ضمیمہ؍ کالم شائع کررہا ہے‘ روزنامہ راشٹریہ سہارا حیدرآباد بھی ہفتہ میں ایک دن ایک صفحہ بچوں کے لیے شائع کرتا ہے‘ گویا حیدرآباد کے تمام اردو روزنامے بچوں کا ادب شائع کرنے میں دل چسپی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں‘ ملٹی کلر منفرد عصری اردو پندرہ روزہ ’’وقار ہند‘‘ حیدرآباد سے وقار خلیل مرحوم (بچے اور بڑوں کے شاعر و صحافی) کے فرزندان عظیم الرحمن اور عقیل الرحمن ۲۰۱۱ء سے نکال رہے ہیں‘ اس رسالہ میں چند صفحات بزم اطفال کے عنوان سے بچوں کا گوشہ مختص ہے۔
سرکاری ادارہ راجیو ودیا مشن آندھراپردیش نے ریاست کے اسکولی طلبہ و طالبات میں اردو زبان و ادب سے دل چسپی اور ذوق مطالعہ کو فروغ دینے کے لیے ضلعی سطح پر قائم تعلیمی و تربیتی ادارہ (DIET)کے تعاون سے بچوں کے لیے درج ذیل دل چسپ مواد ترتیب دیا ہے:
۱۔کہانی کتاب باتصویر ۷۵ کتابیں
۲۔کہانی کارڈ باتصویر ۱۰۰ کارڈ
۳۔ہندی سے مترجم کہانیاں باتصویر (شبنم کی بوندیں)۴۰ کتابیں
۴۔رسائل (مختلف اضلاع کے تربیتی ادارہ سے) ۲۵
۵۔خصوصی کتاب (مزاحیہ کہانیاں) ۳
ان مواد کی تیاری میں دس اضلاع کے سرکاری مدارس اور تربیتی کالج کے اساتذہ و طلبہ نے حصہ لیا ہے: ضلع حیدرآباد‘ رنگا ریڈی‘ محبوب نگر‘ میدک‘ ورنگل‘ عادل آباد‘ کریم نگر‘ کرنول‘ کڈپہ اور کرشنا۔ ہرضلع میں ایک مجلس ادارت قائم کی گئی ہے‘ اور ریاستی سطح پر بھی مجلس ادارت قائم ہے‘ جس کے اراکین مندرجہ ذیل ہیں:
سید رؤف ریحان‘ ڈاکٹر طیب پاشا قادری‘ محمود شریف‘ مقصود احمد‘ محمد افتخار الدین‘ سلیم اقبال(حیدرآباد)‘ عبدالمقتدر‘ سید عبدالعلیم (ورنگل)‘ محمد عبدالرحمن شریف(محبوب نگر)‘ محمد عبدالمعز (کریم نگر)‘ تقی حیدر کاشانی (رنگا ریڈی) اور این ایوب حسین (کرنول)۔
ہر ضلعی تربیتی کالج کے تحت بچوں کا ماہ نامہ نکالنے کا بھی پروگرام ہے‘ چنانچہ ضلع رنگا ریڈی سے ’’کھلتی کلیاں‘‘ کے تقریباً دس شمارے نکل چکے ہیں‘ اسی طرح ضلع نظام آباد اور ورنگل سے بھی ماہ نامے کے چند شمارے شائع ہوئے ہیں‘ لیکن اس میں پابندی کی ضرورت ہے۔
چکنے اور موٹے کاغذ پر رنگا رنگ تصاویر کے ساتھ عام فہم اور دل چسپ نظم و نثر‘ لطیفے و پہیلیاں‘ طرح طرح کی معلومات اور من پسند تحریریں اسکول کے بچے‘ بڑے شوق و ذوق سے پڑھ رہے ہیں‘ آندھراپردیش میں بچوں کے ادب کی تاریخ لکھتے وقت راجیو ودیا مشن کی بچوں کے ادب کے تئیں خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح ادارہ پرتھم سنتوش نگر حیدرآباد نے چھوٹے بچوں میں زبان و ادب سے دل چسپی پیدا کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی باتصویر کہانیوں کی سیریز شائع کی ہے‘ اور اسے اردو مدارس میں مفت تقسیم کرکے اردو کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس لحاظ سے ریاست آندھراپردیش بشمول تلنگانہ میں ادب اطفال کو فروغ دینے کی ہرجہت سے کوشش کی جارہی ہے‘ لیکن اس کی رفتار میں تیزی لانے کی ضرورت ہے‘ریاست آندھراپردیش میں بچوں کے لیے مستقل لکھنے والوں کی کمی ہے‘ بچوں کے ادب سے دل چسپی رکھنے والے قلم کاروں سے گذارش ہے کہ وہ صلہ و داد سے بے پرواہ‘ یکسو ہوکر خود کو ادب اطفال کے لیے وقف کردیں‘ اسی میں اردو کی بقا ہے‘ تاکہ نئی نسل میں اردو لکھنے پڑھنے والے زیادہ سے زیادہ پیدا ہوسکیں‘ اور ریاست آندھراپردیش میں بھی خالص بچوں کے ادیب و شاعر جیسے:اسماعیل میرٹھی‘ افسر میرٹھی‘ شفیع الدین نیر‘ وکیل نجیب‘ عادل اسیر دہلوی‘ حشمت کمال پاشا‘ حیدر بیابانی‘ ڈاکٹر بانو سرتاج اور حافظ کرناٹکی وغیرہ جیسی شخصیتیں پیدا ہوں۔