عالمی یوم خواتین کے موقع پروین شاکر کا کلام حاضر خدمت ہے۔
۱۔ غزل
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے سیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل کو چمک سکے گا کیا، پھر بھی ترش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھئیے، بات تھی کچہ محال بھی
مری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں مرے لئے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
گاہ قریب شاہ رگ، گاہ امید دائم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات، ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہش پہ تھے روح کے اور جال بھی
شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار، کچھ تو مرا خیال بھی
۲۔غزل
شاید اُس نے مجھ کو تنہا دیکھ لیا ہے
دُکھ نے میرے گھر کا رستا دیکھ لیا ہے
اپنے آپ سے آنکھ چُرائے پھرتی ہُوں میں
آئینے میں کِس کا چہرہ دیکھ لیا ہے
اب بھی سپنے بوئے تو ایمان ہے اُس کا
اُس نے ان آنکھوں میں صحرا دیکھ لیا ہے
اُس نے مجھے دراصل کبھی چاہا ہی نہیں تھا
خود کو دے کر یہ بھی دھوکا، دیکھ لیا ہے
اُس سے ملتے وقت کا رونا کچھ فطری تھا
اُس سے بچھڑ جانے کا نتیجہ دیکھ لیا ہے
رخصت کرنے کے آداب نبھانے ہی تھے
بند آنکھوں سے اُس کا جاتا دیکھ لیا ہے
۳۔غزل
بہت رویا وہ ہم کو یاد کرکے
ہماری زندگی برباد کرکے
پلٹ کر پھر یہیں آجائیں گے
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کرکے
رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے
مگر ہاں منتِ صیاد کرکے
بدن میرا چُھوا تھا اُس نے لیکن
گیا ہے روح کو آباد کرکے
ہر آمر طول دینا چاہتا ہے
مقرر ظلم کی معیاد کرکے
۴۔ غزل
پورا دُکھ او ر آدھا چاند!
ہجر کی شب اور ایسا چاند!
دن میں وحشت بہل گئی تھی
رات ہوئی اور نکلا چاند
کس مقتل سے گزرا ہوگا
اِتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میری کروٹ پر جاگ اُٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند
میرے منہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند
اِتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند
آنسو روکے نور نہائے
دل دریا ، تن صحرا چاند
اِتنے روشن چہرے پر بھی
سورج کا ہے سایا چاند
جب پانی میں چہرا دیکھا
تو نے کس کو سوچا چاند
برگد کی ایک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند
بادل کے ریشم جھولے میں
بھور سمے تک سویا چاند
رات کے شانوں پر سر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند
سوکھے پتّوں کے جھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننّھا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہوگا
اُس کی صورت ہجر کا چاند
صحرا صحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق میں سچّا چاند
رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہوگا میرا چاند
۵۔ غزل
عکسِ خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بِکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اُٹھتی ہوں مَیں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی
جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اِس طرح سے نہ کبھی ٹُوٹ کے بکھرے کوئی
مَیں تو اُس دِن سے ہراساں ہوں کہ جب حُکم مِلے
خشک پھُولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی
اب تو اِس راہ سے وہ شخص گذرتا بھی نہیں
اَب کِس اُمید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ، کوئی آواز، کوئی چاپ نہیں
دل کی گلیاں بڑی سُنسان ہیں۔۔آئے کوئی
۶ ۔ قطعہ
نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر
کس طرح کٹتی ہیں راتیں اُس کی
دُور رہ کر بھی سدا رہتی ہیں
مُجھ کو تھامے ہُوئے باہیں اُس کی
۷۔ غزل
مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
لوگ تھرّا گئے جس وقت منادی آئی
آج پیغام نیا ظلّ الہی دیں گے
جھونکے کچھ ایسے تھپکتے ہیں گلوں کے رخسار
جیسے اس بار تو پت جھڑ سے بچا ہی دیں گے
ہم وہ شب زاد کہ سورج کی عنایات میں بھی
اپنے بچوں کو فقط کور نگاہی دیں گے
آستیں سانپوں کی پہنیں گے گلے میں مالا
اہل کوفہ کو نئی شہر پناہی دیں گے
شہر کی چابیاں اعدا کے حوالے کرکے
تحفتا پھر انہیں مقتول سپاہی دیں گے
۸ ۔ قطعہ
فیصلہ موجِ ہَوا نے لکھا!
آندھیاں میری ، بہاریں اُس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوئی ہُوئی سانسیں اُس کی
۹۔ نظم
میں اُس کے سامنے
چپ رہ کے بھی یوں بات کرتی ہوں
کہ آنکھوں کا کوئی حرفِ بدن ناآشنا
آلودۂ پیکر نہیں ہوتا
خواہ موسم پہ مرا اظہار ہو
یا ٹیلی ویژن پر
وہ میرے لمحہ موجود کا دُکھ جان لیتا ہے
مجھے پہچان لیتا ہے
مری ہر بات کا چہرہ نہ چھوکر دیکھنے پر بھی
وہ صورت آشنا میرا
مرے لہجوں کے پس منظر سمجھتا ہے
۱۰ ۔ ایک شعر
گئے برس کی عید کا دن کیا اچھا تھا
چاند کو دیکھ کے اس کا چہرہ دیکھا تھا
۔۔۔۔
اب یاد نہیں کہ زندگی میں
میں آخری بار کب ہنسی تھی
۔۔۔۔
وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی اک بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی
۔۔۔۔۔
لو ! میں آنکھیں بند کیے لیتی ہوں ، اب تم رخصت ہو
دل تو جانے کیا کہتا ہے ، لیکن دل کا کہنا کیا !
۔۔۔۔۔
میں سچ کہوں گی، مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا، اور لاجواب کر دے گا