بادشاہی مسجد ، لاہور، پاکستان
Badshahi Masjid, Lahore
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی، ورنگل
بادشاہی مسجددنیا کی ایک خوبصورت اور بڑی مسجد ہے ، دنیا کے بیشتر اداروں نے جب دنیا کی خوبصورت اور وسیع مساجد کی فہرست ترتیب دی تو ہر ادارے کی فہرست میں ہمیں مشترکہ نام بادشاہی مسجد کا نظر آتا ہے جو خود اس مسجد کی تعمیراتی عظمت کا ثبوت ہے ۔قلعہ لاہورکے قریب بنائی گئی یہ مسجد کبھی دنیا کی سب سے بڑی مسجد کہلاتی تھی لیکن آج دنیا میں وسعت کے اعتبار سے کئی ایک مساجد بن چکی ہیں جو اس سے کہیں زیادہ بڑی ہیں، اس کے باوجود اس مسجد کی اپنی ایک اہمیت ہے ۔ یہ مسجد پرفضا مقام پر’’ دریائے راوی‘‘ کے کنارے اقبال پارک میں بنائی گئی ۔بادشاہی مسجدکے اصل ہال میں یعنی مسجد کے اندرونی حصے میں تقریباً پانچ ہزار (5,000) افراد کے نماز ادا کر نے کی گنجائش ہے ،جبکہ نیک انسان کے دل کی طرح بغض و کینے سے پاک صاف و ستھرے کشادہ صحن میں کچھ کم ایک لاکھ افراد نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ اس مسجد کو مغل بادشاہ اورنگ زیبؔ عالمگیر نے 1671ء میں شروع کروایا اور 1673ء میں یہ مسجد مکمل ہوئی۔اس کی تعمیر کا اصل مقصد ’’موئے مبارک‘‘ اور دوسرے تبرکات کی حفاظت کرنی تھی تاکہ لوگوں کو خاص مواقعوں پر اس تبرکات کی زیارت کروائی جاسکے ۔ مسجد کی تعمیر کی نگرانی مظفر حسین فدائی خان کوکہ ؔ نے انجام دی، اس مسجد کا بنیادی تعمیری نقشہ شاہ جہانؔ کی تعمیر کردہ شہرہ آفاق جامع مسجد دہلی سے بہت حد تک ملتا جلتا ہے۔ ویسے اس کا ڈیزائن ایرانی طریقہ تعمیر سے مستعار ہے جس میں ہندوستانی اور اسلامی طرز کو شامل کر کے ایک انوکھی دیدہ زیب اور دلکش نیرنگی پیدا کردی گئی ہے مغل تعمیرات میں
خصوصاً اکبرؔ اور شاہ جہاں کے دور میں چھتریوں کا استعمال زیادہ کیا جاتا تھا لیکن اورنگ زیب نے اس روایتی چھتری کے ڈیزائن میں ہلکی سی تبدیلی کی اور راجستھانی طرز تعمیر کو اس میں سمو کر اس کے حسن کو دو بالا کردیا۔ مسجد کے اندرونی حصے میں یعنی نماز کے اصل ہال میں گچ و سیماں کی منبت کاری کروائی ،اس کے علاوہ اندرونی دیواروں کو بھی خوبصورت بنایا گیا ، ان کو حسین بنانے کے لئے سنگ مرمر کے تکڑوں کو نہایت خوبصورتی سے جڑا گیا اور Fresco (فریسکو) کا کام بھی کروایا گیا ( جو دوران تعمیر استرکاری کے وقت ہی مختلف رنگوں کے ذریعہ نقوش بناکر کیا جاتا ہے۔ ایسا کام مغلوں کی کئی ایک تعمیرات میں دیکھا جاسکتا ہے ) مسجد کے اندرونی جانب بیلوں اور پتوں کو اس خوبصورتی سے بنایا گیا ہے جو ہمیں اسی دور کی دوسری تعمیرات میں دکھائی نہیں دیتی۔ان ڈیزائینوں کو اس سلیقے سے چنا گیا ہے کہ دیواروں سے تقدس جھلکتا دکھائی دیتا ہے ، سنگ سرخ رملی پر سفید مرمر کے تکڑوں کو یونانی اور ہندوستانی طرز کے مطابق سجایا گیا ہے، پھولوں اور بیلوں کو اس انداز سے بنایا گیا ہے کہ اصلی لگتے ہیں اور بحیثیت مجموعی مسجد کی بیرونی خوبصورتی کو مزید دلکش بناتے ہیں ۔ دیواروں پر کمانوں کے ابھرے نقوش کمان در کمان موجود ہے جو پوری دیوار کو کمانوں سے مزین کر دیتے ہیں ۔ راستوں کی بڑی کمانوں کے اوپری حصے میں قوس در قوس ڈیزائن بنے ہوئے ہیں جو خوبصورتی کو ایک نیا رخ عطا کرتے ہیں، قوسی گنبدان کے اندر یعنی چھت کی اندرونی سطح پر آرائش کے لاجواب نمونے موجود ہیں، مسجد کی چھت کو کافی دلفریب انداز میں سجایا گیا ہے، فرش پر سفید سنگ مرمر اور سنگ عبری کے مصلے بنے ہوئے ہیں، مسجد کی اوپری حفاظتی دیوار میں ’’ثلمۃ‘‘ (Merlons) کا سلیقے سے استعمال کیا گیا جس کو سنگ مرمر کے ٹکڑوں میں موزونیت سے لگایا گیا ہے ۔بیرونی باب الداخلہ بھی بہت بہترین طرز تعمیر رکھتا ہے اس کی کمان اونچی اس قدر اونچی کہ بلند حوصلہ انسان کا خیال بھی وہاں تک پہنچ نہ پائے، باب الداخلے کی میناریں عجیب وضع کی لیکن دیکھنے والے کے دل کو سر سبز و شاداب کردیں ۔ ویسے اس مسجد نے کافی آفتیں جھیلی ہیں ، سکھوں اور انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں اس مسجد سے اچھا سلوک روا نہیں رکھا ،ان دونوں ادوار میں اس مسجد کو کبھی اصطبل اور کبھی سپاہیوں کے رہنے کے حجروں میں تبدیل کیا گیا ، اس کی خوبصورتی کو ملیامیٹ کیا گیا اور اس کے رنگ و روغن کو ادھیڑ دیا گیا، جب ایکعرصہ بعد یہ مسجدواپس مسلمانوں کے زیر انتظام آئی تو اس میں عبادت کا سلسلہ شروع ہواورنہ اس مسجد کی حالت ناگفتہ بہ تھی ، افتادہ دور کے گزرنے کے بعد 1939ء میں نواب زینؔ یار جنگ بہادر کی سرپرستی میں تعمیر و مرمت کا کام شروع ہوا جو 1960ء تک چلتا رہا اور بہت حد تک اس کی اصل خوبصورتی کو بحال کیا گیا۔اس تعمیر و ترمیم پر تقریباً پچاس لاکھ روپیے کا خرچ آیا۔
مسجد کے باب الداخلہ پر سفید سنگ مرمر کی تختی لگی ہے جس پر کلمہ لکھا ہوا ہے اور عالمگیرؔ کی جانب سے بنائی گئی اس مسجد کی ہجری سن تاریخ کھدی ہوئی ہے اورتختی کے نچلے حصے میں بہ اہتمام فدائی خان کوکہؔ لکھا ہوا ہے۔ مسجد کے سامنے کے حصے میں بڑا باب الداخلہ بنا ہوا ہے، اس باب داخلے کی اونچائی 76فٹ ہے ،مسجد کے صحن میں دالان بنے ہوئے ہیں جس میں 24فٹ اونچے 88کمرے بنے ہوئے ہیں۔صحن کے درمیان میں 50 فٹ چوڑا، 50 فٹ لمبا پانی کا حوض بنایا گیا ہے ۔ جو نمازیوں کے لئے وضو کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
مسجد کاشرقی حصہ ایک بڑی کمان کے علاوہ اپنے دونوں جانب پانچ پانچ مزید کمان رکھتا ہے ، درمیانی کمان کا حصہ کافی موثر ہے جو ’’ کنیسہ‘‘ (Transept)کی طرح کسی قدر بیرونی جانب نکلا ہوا ہے ، مسجد کو تین گنبدان ہیں درمیانی گنبد کافی بڑی ہے اس گنبد کا قطر 65فٹ ہے،گنبد کے پھولے ہوئے حصے کا قطر 75فٹ ہے۔گنبد کی اونچائی 49فٹ اور اس کے Pinnacleکی اونچائی24 فٹ ہے، بقیہ دو گنبدان کا قطر51فٹ ہے ان کی اونچائی صرف 32فٹ ہے، تینوں گنبدان کو سنگ مرمر سے بنایا گیا لیکن ان گنبدان کی اٹھان ، کام کی نزاکت اور بلندی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ،مسجد کو جملہ آٹھ مینار ہیں جن میں چار بڑے اور چار چھوٹے ہیں بڑے مینار 176 فٹ اونچے ہیں،یہ مینار مسجد کی اصل عمارت کے بجائے مسجد کی باؤنڈری کی دیواروں میں اگائے گئے ہیں،دیواریں اینٹ سے بنائی گئی ہیں جن کو چونے اور کنکر کے درمیان رکھ کر بنایا گیا ہے تاکہ اس میں مضبوطی پیدا ہوسکے، ان بڑے میناروں کے قاعدے کی گولائی 67فٹ ہے ،ہرمینار چار درجے رکھتی ہے اس کے اوپری حصے تک پہنچنے کے لئے 204سیڑھیاں بنائی گئی ہیں، جب کوئی زائر، ان سیڑھیوں سے اوپر چڑھ کر ’’راوی‘‘ کے اطراف و اکناف کا جائزہ لیتا ہے تو سننے والے کان یہ سن لیتے ہیں کہ کوئی بہت دور سے بادلوں کو چیر کر پکار رہا ہے کہ
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
اقبالؔ
بادشاہی مسجد کی اصل عمارت کے چار کونوں پر چھوٹے مینار بنے ہیں، مسجد کا صحن 528فٹ چوڑا اور 528 فٹ ہی لمبا ہے اس طرح اس کا کل رقبہ 278784مربع فٹ ہے ، مسجد کے اصل ہال کی چوڑائی 275فٹ اور گہرائی 83فٹ ہے۔ چھت کی اونچائی 37فٹ ہے جبکہ چھت کے اوپرحفاٖظتی دیوار کے کنگورے 74فٹ اونچے ہیں ۔اس طرح مسجد کے اندرونی حصے کا کل رقبہ تقریباً 22625مربع فٹ ہوجاتا ہے۔
بادشاہی مسجد کا محراب نہایت عالی شان ہے، جس پر کلمہ لکھا ہوا ہے ، محراب کے قوسی نقوش اور اس کا ہم مرکز محرابی سلسلہ محراب کی رونق اور پاکیزگی کو بڑھاتا ہے اور خدا رسیدہ بزرگوں کی دعاؤں کے مانند نظر آتا ہے ،کئی ہوش مند اس کی خوبصورتی کودیکھ کر محو حیرت ہیں،اگر آپ اس کو مسلسل دیکھتے رہیں تو ایسا محسوس ہوگا جیسے آنکھوں میں نور اتر رہا ہو۔ مسجد کی بیرونی دیواروں کی آرائش بھی نزاکت سے کی گئی ہے Motifsکو خوبصورتی سے ابھارا گیا ہے دیکھیں تو دیکھتے ہی رہنے دل چاہتا ہے،مسجد کی ہر شئے اتنی خوش ترکیب ہے کہ ہر ہر موڑ پر تعریف کے مسلسل پل باندھے جاسکتے ہیں۔
مقبرہ اقبالؔ : ۔ بادشاہی مسجد کے باب الداخلہ اور لاہور فورٹ کے درمیان حضوری باغ میں افغان اور مورش طرز تعمیر کی جھلکیوں کو سمیٹے سنگ رملی سرخ سے بنمشہور فلسفی وشاعر علامہ اقبال کامقبرہ ہے۔جس کی دیوار پر لگی تختی پر ’’حکیم الامت محمد اقبالؓ لکھا ہوا ہے۔ مقبرہ کی ساخت زیادہ تر مغل تعمیری تہذیب رکھتی ہے۔مقبرے کے اطراف چھجہ بنا ہوا ہے ، جئے پور سے درآمد کردہ سنگ سرخ سے بنے اس مقبرے میں تعویذ پر’’ سنگ لاجورد ‘‘ لگے ہوئے ہیں جو افغانیوں نے بطور تحفہ بھجوایا تھا ، مقبرے کی عمارت مستطیل ہے، مقبرے کے اندرونی میں استر کاری کے لئے استعمال کردہ سنگ مر مر مکرانہ،راجستھان سے لایا گیا ہے۔ شاعر مشرق کے مقبرے کے اندرونی حصے میں قرآنی آیات کندہ ہیں اور سنگ مر مر کی قد آدم پلیٹ پر زبور عجم کے کچھ اشعار لکھے ہوئے ہیں۔دیواروں پر کمانیں بنی ہوئی ہیں ۔مقبرے میں داخلے کے دو دروازے ہیں جو مشرق اور جنوب کی جانب واقع ہیں دروازے پر کمان بنی ہوئی ہے جس میں نقوش عربیہ بنے ہوئے ہیں دروازے کے دونوں جانب جالی دار کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں۔ اس سادہ لیکن پر وقار عمارت کے آرکیٹیکٹ زین ؔ یار جنگ ہیں جو حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے تھے۔اس عمارت کو دیکھنے کے لئے کثرت سے سیاح آتے ہیں ، میرا احساس ہے کہ ہر کوئی یہاں سے کوئی نہ کوئی پیغام لے کر باہر نکلتا ہے اور زیر لب یہ دعا دیتا ہے کہ
ع آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے