ہماری ٹانگ اب بھی اوپر ہے -از۔ اقبال شیدائی

Share

k9214225

ہماری ٹانگ اب بھی اوپر ہے

اقبال شیدائی
مکان نمبر 18-12-418/10/23/1
حافظ بابا نگر ۔حیدر آباد 500005
cell :: 09700449281

’’السلامُ علیکم ہمارے ڈیفیٹیڈ ایم۔ ایل اے۔یا حضرت مرزاخیراتی بیگ خیرات صاحب عرف بالوشاہی۔‘‘
صبح صبح وارد ہونے والے ہٹلر کٹ مونچھوں والے نووارد کی بے تکلُّفی پر ہم نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔’’وعلیکم السلام! یہ سچ ہے کہ ہم مرزاخیراتی بیگ خیرات ہیں۔اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم ہارے ہوئے ایم۔ ایل۔ اے بھی ہیں۔لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ ہماری عرفیت بالو شاہی ہے۔‘‘
’’ ہمیں سب پتہ ہے صاحب جی۔ہم جانتے ہیں کہ آپ کی ہیروئین کا نام کلکتّے کی جلیبی ہے۔آپ کے ولی عہد کا نام رس گُلّہ ہے۔دوسرے کا نام جہانگیری ہے۔تیسرے کا نام اجمیری قلاقند ہے ، چوتھے کا نام گلاب جامن ہے اور پانچویں کا نام موتی چور کا لڈّو ہے جسے ہم نے ابھی باہر بھیجا ہے۔‘‘
’’لیکن یہ بات تمہیں آخر بتائی کس نے مسٹر ہٹلر۔‘‘ ہم نے مزید حیران ہوتے ہوئے دریافت کیا۔
’’ ہم ہٹلر نہیں شیخ مستان ہیں صاحب جی۔لوگ ہمیں صفائی ماسٹر کے نام سے جانتے ہیں۔ہمیں اپنی خدمات جنہیں دینی ہوتی ہیں، ہم اُن کے بارے میں کچھ جانکاری حاصل کر لیتے ہیں۔ہمیں یہ جانکاری شہر کے مشہور شاعر اور ادیب اقبال شیدائی صاحب نے دی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اُن کی انفارمیشن کبھی غلط نہیں ہوتی۔‘‘
’’ اچھاتو یہ فتنہ اقبال شیدائی کی تخلیق ہے۔کم بخت ہمارے تعلق سے کچھ نہ کچھ شوشے چھوڑتا رہتاہے۔ہم اُس کی ٹانگ توڑ دیں گے۔‘‘ہم نے جل کر کہا۔

وہ بولا۔’’ صاحب جی آپ پہلے اپنی ٹانگ کی خیر منائیے۔اب آپ اپنے لوور چیمبر کاعلاقہ ہمارے حوالے کر دیجئے ہم اِس کی صفائی کرکے آپ کواینما دیں گے۔‘‘
’’ اِس سے کیا ہوگا؟۔‘‘ہم نے پھرحیران ہوتے ہوئے دریافت کیا۔
’’ اِس سے یہ ہوگا آپ کے معدے کی اور ہالنگ ہوجائے گی۔اُچھاڑ پچھاڑ سے اندر کی آلائش کی باہر نمائش ہوجائے گی۔اور آپ کا معدہ صاحب جی نانو کار کی طرح چمک اُٹھے گا۔اورآپ راحت محسوس کریں گے۔‘‘
ہماری ٹانگ پربندھی پٹیاں کھول کر اپنے ہنر کے جوہردکھاکر شیخ مستان گئے تونرس نے ہمیں معمول کی دوائیں دیں اور کہادادا جی آج دس بجے آپ کا آپریشن ہے اس لئے آپ آج نہ توکچھ کھائیں اور نہ پئیں۔‘‘
یہ بات ہمیں ڈاکٹر نے رات ہی میں کہہ دی تھی اِس لئے ہم جواب میں بس گردن ہلا کررہ گئے۔
ہماری آنکھ اُس وقت کُھلی جب کوئی ہمارے بیڈ پر سوار ہوگیا۔دیکھا تو وہ وارڈ بوائے تھا اور ہمارے سرہانے ایک مشتنڈہ اور پائنتی ایک مشتنڈہ کھڑا تھا۔اِن تینوں نے ہمیں یوں اُٹھا لیا گویا وہ ہمیں قبر کے گڑھے میں پھینکنے والے ہوں۔ انہوں نے ہمیں بازو رکھی ہوئی ٹرالی پر پچھاڑدیا ۔ہم چاروں خانے چت گرے تو درد کے مارے ہمارے منھ سے بھیانک چیخیں نکل گئیں۔ راجکپور کٹ مونچھوں والے مشتنڈے نے جو ہمارے سرہانے کھڑاتھابولا۔’’ سار! تو جتنا چیکنا چاہتی ہے چیک لے۔اس کے بعد تجے چیکنے کی موقع نئیں ملیگی۔‘‘
اُس کے اِس جملے پر ہمیں نہایت تکلیف کے باوجود ہنسی آگئی۔ہماری ٹرالی لفٹ کے ذریعے گراونڈ فلور پر پہنچی۔اور مختلف راہداریوں سے ہوتی ہوئی ابزرویشن روم میں پہنچی۔پھر ان دونوں مشتنڈوں نے ہمیں اُٹھا کر دوسری ٹرالی پر پھینک دیا تومارے تکلیف کے پھر ایک بار ہمارے منھ سے چیخیں نکل گئیں۔یہاں بھی دوخدائی خدمت گارموجودتھے۔ دونوں نے ہمیں گھیر لیا۔ایک نے ہمیں ہمارے لباس سے جدا کر کے ایپرن پہنادیااورگلوکوز کی روانی بحال کر دی۔دوسرے نے ہمارے بی۔ پی کوچیک کیا۔اتنے میں تیسراخدائی خدمت گار ای۔سی۔جی مشین لے کرآگیا۔ابتدائی کاموں کی تشفی ہوگئی اور ہم آپریشن کے لئے فٹ پائے گئے تو ایک گرین کوٹ میں ملبوس لڑکی ہمارے پاس آئی اوربولی۔’’ انکل! پلیزآپ اِس پیپر پر ٹِک کی ہوئی جگہ پر اپناآٹوگراف دے دیجئیے۔‘‘
ہمیں بڑی خوشی محسوس ہوئی۔ دنیابھر کی سستی شہرت حاصل کر نے کے باوجود آج تک کسی نے ہم سے ہمارا آٹوگراف نہیں مانگاتھا۔ہم بہت خوش ہوئے اور ہم نے فارم پر اپنے آٹوگراف ثبت کر دئیے۔لڑکی نے ہمارے آٹوگراف کو دیکھا اوربولی۔’’انکل آپ کا آٹوگراف واقعی بہت خوبصورت ہے۔‘‘
ہم نے تھینکس کہا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوئے کہ دنیا میں کم سے کم ایک خوبصورت لڑکی تو نکلی جسے ہمارے دستخط بہت پسند آئے۔کاش یہ لڑکی ہمیں پچاس سال پہلے ملی ہوتی تووہ یقیناً کہتی۔’’ ڈیر خیراتی ایک آٹوگراف میرے دل کے کاغذ پربھی کردو۔‘‘
تھوڑی ہی دیرمیں یہی لڑکی ہماری ٹرالی کو ڈھکیلتی ہوئی ہمیںآپریشن تھیٹرمیں لے گئی۔اور آپریشن ٹیبل کے بازو روک دی۔پھر دو مشتنڈوں نے مل کر ہمیں آپریشن ٹیبل پر پٹک دیا۔پھر ہمارے منھ سے ایک بھیانک چیخ نکل گئی۔
’’صبر کر ماموں اب تیری ساڑھے ساتی بہت جلد دورہونے والی ہے۔‘‘
ہم نے آواز پر نظریں اُٹھائیں تو ایک ادھیڑعمرکا منا بھائی ایم۔بی۔ بی ۔ایس کا ڈوپلیکیٹ ہمیں بڑی پیاری نظروں سے دیکھ رہاتھا۔وہ بولا۔’’ ماموں میں پچھلے چاربرسوں سے یہاں کام کررہاہوں ۔ان چار برسوں میں اپن نے دیکھاتوپہلامریض ہے کہ جسے نہ بی۔ پی ہے نہ تھائرائیڈ ہے نہ گٹھیا ہے ، نہ شُگرہے۔ تجھے کوئی بیماری آہی نہیں سکتی۔توتُوکس گھن چکّر میں یہاں تک آگیا۔‘‘
ہم نے کہا۔’’ بھانجے ! ہماری گھر والی اسی ہاسپیٹل کے کمرہ نمبر 116میں اڈمٹ ہے ۔ہم پچھلے پانچ دنوں سے اُسی کے ساتھ تھے۔‘‘
وہ بیچ میں بول پڑا’’اوہ تو یوں بول نا کہ مامی کے ساتھ ہنی مون پر تھا۔ پھرکیاہوا ماموں۔؟‘‘
ہم نے بتایا’’۔پرسوں ہماری ایک رشتہ دارآگئیں۔ کہنے لگیں کہ بھائی تم گھرجاؤ۔ میں بھابی کے ساتھ آٹھ بجے تک رہوں گی۔تم رات آٹھ بجے تک آجانا۔ ہم گھرچلے آئے۔ رات ساڑھے سات بجے ہم وائف کا ٹفن لے کرگھرسے نکلے ۔روڈ پر آکر ہم دواخانہ جانے کے لئے آٹو کو رکوا ہی رہے تھے کہ ایک نوجوان جو ہیروہانڈا پربہت تیز رفتار سے آرہا تھا۔ ہمارے پیرکوٹکّر مار کر نکل گیا۔اور یوں ہم تمہاری مامی کے کمرے کے سامنے والے روم نمبر115میں اڈمٹ ہو گئے۔‘‘
منّا بھائی کا ڈوپلیکیٹ بولا۔ ’’ اچھا ماموں ! اب یہ بتااگروہ لڑکا جس نے تجھے ٹکّر دی تیرے سامنے آجائے توتیرا ری ایکشن کیا ہوگا۔‘‘
ہم نے کہا۔’’بھانجے! ہر جرم کرنے والاسوامی اسیما نند نہیں ہوتا۔وہ کبھی ہمارے سامنے نہیں آئے گا ۔ویسے ہم نے معاف کر دیا ہے۔ہمارے بھاگ میں جو تکلیفیں لکھی گئیں ہیں، انہیں توصرف ہمیں کو جھیلنی ہوتی ہیں نا۔‘‘
وہ بولا۔’’ ماموں! تیرادل بہت بڑاہے۔تجھ ایسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔اب ماموں تو اُٹھ کر بیٹھ جا۔‘‘اُس نے ہمارے ایپرن کی ڈوریاں کھول دیں اور اُٹھنے میں ہماری مدد کی۔اوربولا ۔’’ماموں تواب اپنے جسم کوڈھیلا چھوڑدے اوراپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لے۔‘‘
ہمیں لگاکہ ہم گوونتا موبے عقوبت خانے کے نا کردہ گناہ قیدی ہیں۔ہمیں لگا کہ اب ہم پر سارے وحشی ہتھکنڈے آزمائے جائیں گے۔ہمارے ناکردہ جرم کا اقرار کروایا جائے گا۔اتنے میں کسی نے ہماری پیٹھ کواسپرٹ سے غسل دے دیا۔
ہم سمجھے کہ اب ہماری پیٹھ کی خیر نہیں پتہ نہیں یہ لوگ ہمیں سگریٹوں سے جلائیں گے کہ برقی رَو کے جھٹکے دیں گے۔ ہمیں جلتی ہوئی سیگرٹوں سے جلایا نہیں گیا۔بلکہ کچھ انجکشنس دئیے گئے۔ منا بھائی کے ڈوپلیکیٹ نے کہا۔’’ماموں !بس تھوڑاسا صبر کر لے اب تیری قسمت میں آرام ہی آرام ہے۔‘‘
ہمیں لٹادیا گیا دائیں ہاتھ کاچارج اُسی لڑکی نے لیا جس نے ہمارا آٹوگراف لیا تھا۔بائیں ہاتھ کا چارج ایک کالے کلوٹے نوجون نے لے لیا اوروہ ہمارا بی۔ پی چیک کرنے لگا۔ ایک دو منٹ ہی میں محسوس ہونے لگا کہ ہم اب واقعی آرام سے ہیں۔ مناّبھائی کے ڈوپلیکیٹ نے ہماری ناک پر آکسیجن کا ماسک رکھ دیا۔’’ہم نے پوچھا بھانجے! اِس کی کیاضرورت ہے‘‘
وہ بولا۔’’ماموں ! اگرآپریشن کے دوران توسانس لینابھول گیا تو مرجائے گانا۔اور ہم تجھے مرنے نہیں دیں گے۔ویسے بھی اگر تومربھی گیا تو ہمار ا کچھ بگاڑنہیں سکے گا۔کیوں کہ تونے اپنے ڈکلریشن پر دستخط کر دئیے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ آپریشن کے دورن اگر تو مر بھی گیا تو ہم پر کوئی آنچ نہیں آنے والی۔ اپنی موت کاذمّہ دار توخود ہوگا۔‘‘
آپریشن کی کاروائی شروع ہو چکی تھی پہلے یوں لگا جیسے ہمارے پیر پر چیونٹیاں کاٹ رہی ہیں۔شاید گوشت کاٹا جارہاتھا۔تھوڑی دیربعد یوں لگا جیسے دیوارپر کیلیں ٹھونکی جارہی ہیں۔ہم نے جعلی منّا بھائی سے دریافت کیا ۔’’ بھانجے! کیا ہمارے پاؤں کوتابوت میں رکھ کر کیلیں ٹھونکی جا رہی ہیں؟‘‘
منّا بھائی نے کہا۔ ’’ دیکھ ماموں ہم اِس وقت کام پر ہیں تُو ہمارے کام میں اپنی ٹانگ مت اڑا۔ورنہ اپن تیری یہ ٹانگ کاٹ کر تیری آنکھوں کے اوپرلٹکادینگا۔‘‘
ہم خاموش ہوگئے کیلیں ٹھونکنے کا کام جاری رہا۔ بعض اوقات کیلیں اتنی شدت سے ٹھونکی جاتیں کہ آپریشن ٹیبل ہل جاتا اور ہمارا سردیوارسے ٹکراجاتا۔ ہم اپنی توجہہ کو دوسری طرف مبذول کرنے کیلئے پچھلے واقعات کویاد کرنے لگے۔جیسے ہی ہمیں امبیولینس کے ذریعہ دواخانہ پہنچایاگیاتھا تو ٹرالی ہی میں ہمیں گلوکوز چڑھانے کا عمل جاری کر دیاگیا تھا۔ اس کے بعد ہمارے پیر کے ایکسرے لئے گئے تھے۔ایکسرے روم سے باہر لا کر ہماری شکستہ ٹانگ کوہماری درد ناک چیخوں کے درمیان سفید برّاق پٹیوں سے سجادیا گیاتھا۔کچھ دیر ابزرویشن روم میں رکھ کر رات گیارہ بجے ہماری بیگم کے روم کے سامنے والے روم میں پہنچادیاگیا تھا۔انجکشنس اور گولیاں دی گئیں صبح گیارہ بجے جب ڈاکٹر صاحب راؤنڈ پر آئے تو انہوں نے نرس نرس کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ہماری ٹانگ کے نیچے تکیہ کیوں نہیں رکھاگیا۔بیچاری بھاگتے ہوئے گئی اور دوڑتے ہوئے آکرہماری ٹانگ کو اُٹھا کر تکیہ اس کے نیچے رکھ دیا۔اب ہماری داہنی آپریشن زدہ ٹانگ ہماری بائیں ٹانگ سے تقریباً چار انچ اوپر تھی۔ہمیں یوں لگاکہ ہماری یہ ٹانگ ہمارے ملک ہندوستان جنت نشان کے تمام سیاسی ، مذہبی ، اخلاقی ، فوجی ،اقتصادی ، سماجی ، تجارتی علمی اورادبی گھٹالوں اور گھپلوں سے بھی کہیں زیادہ بلندہو گئی ہے۔اور عالمی گرانی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے، اُس سے پیار کی پینگیں بڑھارہی ہے۔
آج ہماری ٹانگ اوپر ہے ۔اِس حسیں خیال ہی سے ہم سرشار ہوگئے۔ہمیں ہمارا ایکسیڈنٹ کرنے والے نوجوان کی بخالت پربڑا غصّہ آیا۔اُس کے باپ کا کیا جاتا اگروہ تھوڑی سی فیاضی دکھادیتا۔ہماری دونوں ٹانگوں کی ہڈیاں توڑجاتا۔آج ہماری دونوں ٹانگیں اونچی ہوتیں۔ہمیں یاد آیاکہ ہمارے بچپن میں ہم جب چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے، اُس وقت ہماری جماعت میں ہمارے ہم نام 4اور لڑکے تھے۔ہماری چار چوٹیاں ہواکرتی تھیں۔تو ہم چارچوٹیوں والاخیراتی کہلاتے تھے۔ دوسرا ڈانبر خیراتی ، تیسراہکلوخیراتی اور چوتھاموٹواور پانچواں گڈِّو خیراتی کے نام سے مشہور تھا۔ڈرل کے گھنٹے میں کشتیوں کے مقابلے ہوتے تھے۔ہمارا مقابلہ اکثر موٹو خیراتی سے ہوتا تھا۔ہم کہتے کہ بھائی ہم خود بخود گرجائیں گے لیکن ہماری ٹانگ اوپر رہنے دو۔لیکن وہ ظالم کبھی مانتا ہی نہیں تھا۔ایک بار ہم نے اسے ایک روپیہ رشوت بھی دی یہ آج سے60سال پہلے کی بات ہے جب ایک روپیہ ایک بچے کے لئے بہت بڑی بات تھی۔لیکن اُس دن تووہ ہمیں گرا کر ہماری ٹانگوں پر بیٹھ گیا۔ اورہماری ٹانگیں بُری طرح درد دینے لگیں اور ہم دو دن تک مدرسہ جانے کے قابل نہیں رہے۔
ہمارے خیالات کی ٹرین اُس وقت رُکی جب ڈوپلیکیٹ منّا بھائی نے ہم سے خطاب کیا۔’’ ماموں ! اب ہماراکام ختم ہوگیا۔ ماموںیہ جوہتھوڑی کی آواز آرہی تھی نا وہ در اصل ہم راڈ کو ہتھوڑی کی مدد سے اندرڈھکیل رہے تھے۔اور اسکرو اندربٹھا رہے تھے۔ماموں جانے سے پہلے اپن کو اطلاع کرنا اپن تجھے اپنے ہاتھ سے مٹھائی کھلائینگااور تیرے ہاتھوں سے مٹھائی کھائینگا۔اپن کو بہت خوشی ہوگی۔‘‘
کچھ دیرابزرویشن روم میں رکھنے کے بعد ہمیں ہمارے کمرے میں پہنچادیاگیا۔ہم شام7؍بجے تک تو بڑے سکون میں تھے لیکن بعد میں تکلیف بڑھنے لگی۔رات میں ڈاکٹر صاحب آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم ایک نیندکی گولی کھا لیں ۔ نیند لگ جائے گی تودرد کا احساس نہیں رہے گا۔انہوں نے ہمیں بتلایا کہ اب فکرکی کوئی بات نہیں ہے۔ہم چاہیں توکسی بھی کروٹ سو سکتے ہیں۔ انہوں نے کچھ دیر پیر لٹکاکر بیٹھنے کی اجازت بھی دے دی۔بیٹھنے میں ہماری مدد بھی فرمادی۔لیکن اُس رات نیند کی گولی کھانے کے باوجود سو نہیں سکے۔لیکن صبح ہمیںآرام محسوس ہونے لگا۔دن کے دو بجے پھر ہماری متاثر ہ ٹانگ کا ایکسرے ہوا۔رات ہم ایکسر ے رپورٹ کامشاہدہ کر ہی رہے تھے کہ حضرت اگر مگر حیدری ہماری عیادت کے لئے آگئے۔کہنے لگے ۔۔’’ یا حضرت مرزا خیراتی بیگ خیرات !ہمیں بہت خوشی ہے کہ آپ شفایاب ہوگئے۔ ہم نے پرسوں مسجد میں آپ کی شفایابی کے لئے اﷲ ربُّ العزت سے گڑگڑاکر دعا مانگی تھی کہ اگرچہ کہ حادثے میں حضرت مرزا خیراتی بیگ خیرات بہت بُری طرح زخمی ہوگئے ہیں اور اُن کی حالت نہایت تشویش ناک ہے بظاہر ان کے زندہ بچ جانے کی کوئی امید نہیں ہے۔ لیکن کسی کو تکلیف سے نجات دلانا ، بیماری سے صحت یاب کرنا تیرے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔تو اگر چاہے تو مردے کو زندہ کرسکتاہے۔تُواپنے کرم سے خیراتی بھائی کے تن میں نئی جان ڈال دے۔اگر اُن کادانہ پانی اِس دنیاسے واقعی اُٹھ چکاہے اور اُن کا آخری وقت آ ہی چکا ہے توتُویا اﷲاُن کے اگلے پچھلے ، جانے انجانے ، چھوٹے بڑے سب گناہ معاف کر دے اور انہیں اپنے جوارِ رحمت میں برج خلیفہ سے کہیں زیادہ بلند اور خوبصورت محل عطافرما۔اور اُن کے لواحقین کوصبرِ جمیل عطا فرما۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری دعا کے پہلے آپشن کوشرفِ قبولیت بخشا ہے۔‘‘
ہم ا نہیں جواب دینے ہی والے تھے کہ نرس نے آکر کہا۔’’آپ سب لوگ چلے جائیں ۔ ملاقات کا وقت ختم ہو چکاہے۔ بڑے ڈاکٹر صاحب آنے ہی والے ہیں‘‘
تیسرے دن ہم ناشتے سے فارغ ہوکراخبار بینی فرما رہے تھے کہ ہمارے پرانے کرم فرماحضرت الحاج عتیق الرحمٰن نورانی اورمنّے فخرالدین ہم سے ملنے آگئے۔انہوں نے سلام ودعاکوبالائے طاق رکھتے ہوئے فرمایا۔’’بتلائیے مشٹر مرژا قیراتی بیغ قیرات !آپ نے اِش ایقشیڈنٹ شے قیا شبق حاشل قیاہے۔‘‘
ہم نے کہا۔’’حضرت الحاج عتیق الرحمٰن نورانی صاحب ! واقعہ یہ ہے کہ ہم جب شعر کہتے تھے توخارج ازبحر اشعار کوبحر میں لانے کیلئے الفاظ کی ہڈیاں بڑی بے دردی سے توڑ دیتے تھے۔ آج جب ہماری ہڈی ٹوٹی ہے توپتہ چلاکہ جب کسی کی ہڈی ٹوٹتی ہے تووہ اُسے کتنی تکلیف دیتی ہے۔اور اُس کے علاج میں کتنا پیسہ پانی کی طرح بہہ جاتاہے۔ دوسروں کے درد کا احساس کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی میں کم از کم ایک باراپنے پیر کی ہڈی تڑوا کر کسی سوپراسپشیالٹی ہاسپیٹل میں اڈمٹ ہو۔اور خاص کر ہمارے رہنمایانِ قوم کواِس تجربے سے جنگی خطوط پردوچار ہوناچاہئیے۔‘‘
’’ اچھاہمارے خیراتی چچا۔‘‘ منّے فخرالدین بولے۔’’ کیاآپ اپنے اِس سوپر اسپیشیل تجربے کی بنیاد پرکچھ مشورے قوم کودینا پسند کریں گے۔؟‘‘
ہم نے کہا۔’’کیوں نہیں۔ ہم ضرورمشورہ دینا پسندکریں گے۔ہمارے اِس آپریشن کے بعدنہایت سنجیدہ غور و خوض کے اختتام پر اس نتیجے پر ہم پہنچے ہیں کہ ہرآرتھوپیڈک سرجن بلند پایہ بڑھئی بھی ہوتا ہے۔اور بہترین بڑھئی کو بے مثال آرتھوپیڈک سرجن ہوناچاہئیے۔اور اُن لوگوں کوجوکہیں بھی سوپر اسپیشیالیٹی ہاسپیٹل تعمیر کرناچاہتے ہیں،ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہسپتال کی تعمیر کے وقت ہسپتال کی کھڑکیوں اور دروازوں کے ڈیزائن اور تیاری کاٹھیکہ ہندوستان کے بہترین آرتھوپیڈک سرجن کو دیں۔اور جب عمارت کی تعمیر مکمل ہو جائے تو آرتھوپیڈک یونٹ میں ہندوستان کے بہترین کارپنٹروں کا تقرر کریں۔‘‘
ہمارے کرم فرماؤں سے ہماری گفتگو جاری ہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب تشریف لائے اور انہوں نے آپریشن کے بعد کی ایکسرے رپورٹ دیکھی اور خوش ہوکربولے۔’’مسٹر خیراتی ! اب آپ بالکل صحت مند ہیں۔ میں آپ کا ڈسچارج لکھ رہا ہوں۔ ‘‘
دوبجے کے بعد نرس نے ہاتھ میں بل تھمایا تو ہمیں تارے نظر آگئے۔پورے 60,300-00روپئیے کا تھا۔ہم نے دل ہی دل میں ہماری ٹانگ توڑنے والے کی رحمدلی کا شکریہ ادا کیا۔اگراُس نے ہماری دوسری ٹانگ پر بھی اپنی شہزوری دکھا دی ہوتی تویہ بل ایک لاکھ سے کم کا نہ ہوتا۔ شام تین بجے ہم وہیل چیر پر ہسپتال سے باہر آئے۔ہم کار میں سوار ہوہی رہے تھے کہ ہم ایک آواز پر چونک پڑے۔
’’ ارے ماموں ماموں! رُک جا اپن آریا ہے۔‘‘ہم نے نظر اُٹھائی تو ہمارے سامنے ہرے کوٹ میں منّابھائی ایم۔ بی۔بی۔ ایس کا ڈوپلیکیٹ مٹھائی کا ڈبّہ ہاتھ میں لئے کھڑا تھا۔ اُس نے اجمیری قلاقند کاایک ٹکڑا ہمارے منھ میں ڈالااور بولا ۔’’ ماموں میں تیرے لئے آپریشن تھیٹر میں پیشنٹ کوچھوڑ کر آرہا ہوں۔‘‘
جواباًہم نے بھی ایک پیس مٹھائی کااُس کے منھ میں ڈال دیا تو ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔اُس نے ہماری پلکوں کوپونچھتے ہوئے کہا ۔’’مت رو ماموں اگر توروئیگاتو اپن بھی رودیگا۔‘‘
ہم نے کہا ۔’’ بھانجے! ہم نرم دل کے نہیں ہیں۔ہماری حالتِ زار دیکھ کر ہمارے کچھ دوست رونے لگے تو ہم نے کہاتھاکہ ہڈی ہماری ٹوٹی ہے لیکن ہم نہیں روئے ، توپھر آپ لوگ کیوں رو رہے ہیں۔لیکن بھانجے ! مجھے تیرے خلوص نے رُلادیا ہے۔خداسے دعاہے کہ تو اپنے کام میں بہت ترقی کرے اور بہت نام کمائے۔اب تُو جابھانجے ۔آپریشن تھیٹر میں کوئی تیرامنتظر ہے۔‘‘
کار کی ایک سیٹ پر ہمیں یوں بٹھادیاگیاتھاکہ ہماری آپریشن شدہ ٹانگ تکئے کے اوپر تھی۔ہمیں جب اپنے مکان میں ہمارے کمرے میں پہنچادیاگیاتو یہ دیکھ کر بڑی طمانیت حاصل ہوئی کہ پلنگ پر تکیہ ہماری ٹانگ کامنتظر تھا۔ہم اپنے بستر پرلیٹے تویہ احساس خوش کُن تھاکہ ہماری ٹانگ اب بھی اوپر ہے۔
****

Share
Share
Share