راجستھان میں اردو: ایک جائزہ

Share

_20141117_043107

prof.feroz

راجستھان میں اردو: ایک جائزہ
مصنف ۔ پروفیسر فیروز احمد
جائزہ ۔ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم

پنجاب میں اردو ، دکن میں اردو اوربنگال میں اردو جیسی کتابوں کی اشاعت سے ان علاقوں میں اردو زبان کے ماضی وحال کا جو ثبوت ملتا ہے اس سے اردو ادب کی تخلیقی سرگرمیوں کی تفہیم ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر اردو ادب کے میلانات و رجحانات بھی واضح ہوتے ہیں۔یہ اور اس جیسی متعدد دوسری کتابوں کا تعلق بظاہر علاقائی ادب سے ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ اردو زبان و ادب کے بتدریج ارتقا میں ان کی خاص اہمیت ہے اور اس کے مطالعے سے ہم نہ صرف زبان بلکہ ادب کی تخلیق اوراس میں مضمر علاقائی اثرات سے بھی واقف ہوتے ہیں۔اسی سلسلے کی ایک تازہ وارد کتاب’ راجستھان میں اردو‘ ہے۔ اس کے مصنف پروفیسر فیروز احمد ہیں جن کا تعلق راجستھان سے رہا ہے اور جو راجستھان یونی ورسٹی جے پور میں طویل مدت تک اپنی خدمات انجام دینے کے بعد مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدر آباد کے شعبۂ اردو سے بطور پروفیسر وابستہ ہوئے اوراب سنا ہے کہ وہ یہاں کی ملازمت سے بھی سبکدوش ہوکر واپس جے پور چلے گئے ہیں۔

پروفیسر فیروز احمد سے ہماری واقفیت کو ربع صدی کا عرصہ گذر چکا ہے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پروفیسر فیروز احمد حیدرآباد سنٹرل یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر مقرر ہوئے تھے ۔اس وقت شعبہ میں پروفیسر گیان چند جین ‘ پروفیسر ثمینہ شوکت صاحبہ ‘ ڈاکٹر سید مجاور حسین رضوی ‘ ڈاکٹر محمد انور الدین اور ڈاکٹر رحمت یوسف زئی جیسے قابل اساتذہ کی ٹیم موجود تھی اور ہم جیسے طالب علم ان دنوں وہاں ایم فل اردو کے طالب علم تھے۔ ان ہی دنوں اردو ایسوسی ایشن کے انتخابات عمل میں آنے والے تھے ۔شعبہ کے تمام اساتذہ نے ڈاکٹر فیروز احمد کی انتیظامی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر انہیں انتخابات کا ریٹرینگ آفیسر بنادیا تھا ۔ڈاکٹر فیروز احمد نے نہایت سوجھ بوجھ کے ساتھ پر امن انتخابات کرواے تھے جس میں راقم بھاری اکثریت کے ساتھ صدر منتخب ہوا تھا۔
ان دنوں تک ڈاکٹر فیروز احمدکی چارکتابیں منظر عام پر آ چکی تھیں۔ تقریباً ایک سال بعد وہ مستعفی ہو کر راجستھان یونی ورسٹی واپس چلے گئے پتہ نہیں انہوں نے ایسا کیوں کیا لیکن ان سے ہمارا رابطہ اس حیثیت سے قائم رہا کہ ہم ان کے مضامین اور بعد ازاں شائع ہونے والی کتابوں سے باخبر ہوتے رہے۔ان کا مزاج بنیادی طور پر تحقیقی ہے اور اور اگر انتخاب مہدی افادی، انتخاب میر ناصر علی اور اختر شیرانی :عہد اور شاعری جیسی کتابوں سے صرف نظر کر لیا جائے تو ان کی دوسری کتابیں مثلاً احسان اللہ عباسی :حیات اور کارنامے ،مہدی افادی ، نغمات آزادی(تحریک آزادی اور راجستھان کے اردو شعرا)اورراجستھانی اور اردوجیسی کتابیں ان کے تحقیقی مزاج کی آئنیہ دار ہیں۔ان میں بھی آخر الذکر کتاب یعنی’’ راجستھان میں اردو‘‘ اس اعتبار سے بے حد اہم کتاب ہے کہ اس کے ذریعہ اردو کی لسانی تشکیل میں شمالی ہند کی ایک مخصوص زبان یعنی راجستھانی میں تخلیق شدہ ادب کے حوالے سے پروفیسر فیروز احمد نے ایسے افعال، ضمائر اور حروف کی نشاندہی کی ہے جو بعد ازاں گجری اور دکنی میں بھی مستعمل رہے۔ پروفیسر فیروز احمد کے خیال میں گجری اور دکنی دونوں زبانیں راجستھانی کے بعد وجود میں آئیں، اس لیے ان زبانوں پر راجستھانی کے گہرے اثرات رہے۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ امیر خسرو ( م ۔۱۳۲۵ء) کے بعد تقریباً تین صدیوں تک شمالی ہند میں جس لسانی یا ادبی خلا کا احساس ہوتا ہے، اسے راجستھانی زبان میں تخلیق شدہ ادب کے ذریعہ پُر کیا جاسکتا ہے۔شرط یہ ہے کہ ہم زبان کے ارتقائی سفر میں رسم الخط کی قید سے بے نیاز ہو جائیں کیوں کہ زبان پہلے وجود میں آتی ہے اور رسم الخط بعد میں۔انھوں نے اس کتاب میں چودہویں صدی سے لے کر اٹھارہویں صدی تک مختلف قدیم راجستھانی شعرا کے کلام سے جو مثالیں درج کی ہیں،اپنے لفظی سرمایہ کے علاوہ صرفی اورنحوی اعتبار سے یہ اردو زبان کا وہ روپ ہیں جس کی بکثرت مثالیں گجری اور دکنی میں ملتی ہیں۔راجستھانی زبان اور اس میں تخلیق شدہ وہ ادب جو بعد ازاں فارسی رسم الخط میں بھی لکھا گیا ، فیروز احمد کی توجہ کا خصوصی مرکز بنا ہے اور اس کی نمائندہ مثال ان کی تازہ وارد کتاب ’راجستھانی اوراردو ‘ ہے۔ یہی کتاب فی الوقت ہمارے مطالعے کا موضوع ہے۔
یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے۔پہلی جلدمیں شمالی ہند میں اردو زبان کے ابتدائ آثار کی تلاش پہلی بار راجستھانی زبان کے حوالے سے کی گئی ہے۔ اس جلد میں مجموعی طور پر نَو مختلف عنوات ہیں اور چونکہ کتاب کا تعلق مغربی ہندوستان کے اس حصے سے ہے جسے عرف عام میں اب راجستھان کہا جاتا ہے ، غالباً اسی وجہ سے کتاب کے ا بتدائی دو ابواب میں’ راجستھانی اور اردو ‘ نامی سابق الذکر کتاب کی تلخیص پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر فیروز احمد نے اردو زبان کی تعمیر و تشکیل میں راجستھانی کے کردار اور اس کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ اس ذیل میں انھوں نے راجستھانی اور دکنی زبان کے مابین ان مماثلتوں اور مشابہتوں کا بھی ذکر کیا ہے جو گجری ؍دکنی اور راجستھانی کے مابین ابتدائی ایّام سے ہی موجود رہی ہیں۔ ان کی پیش کردہ مثالوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گجری یادکنی میں لسانی اعتبار سے جن خصوصیات کو اب تک صرف دکنی زبان کی خصوصیات کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے وہ چند مقامی خصوصیات سے قطع نظر،اصلاً راجستھانی کے غالب اثرات کا نتیجہ ہیں۔ کتاب کے یہ ابتدائی ابواب دکنی زبان و ادب کے ماہرین کے لیے خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔
ٍٍجلد اول کے ایک دوسرے باب بعنوان ’راجستھان میں اردو کے ابتدائی نمونے ‘ کے مطالعے سے دو باتوں کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس باب میں تفصیل کے ساتھ ان صوفیائے کرام بالخصوص صوفی سلطان التارکین (م ۶۷۳ھ ؍ ۱۲۵۷ء) اور ان کے ملفوظات کے مجموعہ ’ سرورالصدور و نور البدور ‘کا ذکر ہے جس میں نہ صرف ہندوی الفاظ موجود ہیں بلکہ ’ عزیز بھلو ہوئیں ،برو مت ہوئیں۔ سب کو پیارو ہوئیں ‘ جیسے فقرے بھی پائے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر فیروز احمد نے ایسے فقروں کو راجستھان میں اردو کا’ نقش اول ‘ قرار دیا ہے ۔ اسی سلسلے میں انھوں نے سید ابراہیم ( م ۱۴۸۹ء ) اور ان کے خاندان کے ایسے افراد کا ذکر کیا ہے جو اگرچہ عربی و فارسی زبان پر قدرت رکھتے تھے اور یہی زبانیں ان کے اظہار خیال کا ذریعہ رہیں لیکن راجستھان کے قصبۂ سنگھانہ میں آباد ہو کر دھیرے دھیرے ہندوی کی جانب متوجہ ہو گئے اوربعد ازاںیہی ان کی مادری زبان بنی۔ افسوس کہ ڈاکٹر فیروز احمد کو سید ابراہیم اور ان کے خانوادے سے متعلق افراد کی زبان و بیان کا کوئی ثبوت نہیں ملا تاہم شمالی ہند کے اس علاقے میں انھوں نے کتاب کے اسی باب میں جن افضلؔ بہادرپوری کا ذکر کیا ہے، وہ کئی لحاظ سے چونکانے والا ہے۔ یہ افضل بہادر پوری ( م ۱۷۳۴ء ) ولی ؔ دکنی کے معاصر اوران کے شناسا تھے۔ انھوں نے ایسی غزلوں اور اشعار کی نشاندہی بھی کی ہے جو ان دونوں شاعروں کے کلام میں موجود ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افضلؔ ؔ نے اپنا پہلادیوان اوّل ۱۱۰۰ھ میں مرتب کیا ۔ اس زمانے تک شمالی ہند بالخصوص دہلی میں کسی دوسرے شاعر کا دیوان مرتب نہیں ہو سکا تھا۔ اس اعتبار سے افضلؔ بہادر پوری شمالی ہند کے اب تک معلوم ایسے قدیم شاعر ہیں جو صاحب دیوان تھے۔یہ بات یقینی طور پر راجستھان کی اولیت میں شامل ہوگی۔ کتاب کے اسی باب میں بعض ایسے راجستھانی زبان کے شعرا کا ذکر ہے جنھوں نے دیو ناگری رسم الخط میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی زبان کو ریختہ،زبانِ ہندوستان اور سہج فارسی کہا ۔ آگے چل کر کتاب کے اسی باب میں بعض مہدویہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے بزرگوں اور ان کی ایسی تخلیقات مثلاً مثنوی فیض عام ، مثنوی تاریخ غریبی رسالہ در حجت دلیل بے واسطہ ،وفات نامہ اور شہادت نامہ وغیرہ کی زبان و بیان کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ ان تخلیقات کے خالقوں نے اپنی زبان کو’ دکنی‘ کہا ہے ۔ یہ دراصل ایسی دکنی زبان ہے جس پر راجستھانی کے گہرے اثرات بھی موجود ہیں۔،مجموعی طورپر اس باب کا انداز تمام تر تحقیقی ہے اور قاری ان دلائل سے متاثر ہوتا ہے جو ڈاکٹر فیروز احمد نے اپنے خیال کی تائید میں فراہم کی ہیں ۔
جلد اول کے ایک باب کا عنوان ہے ’ ۱۸۵۷ء تک مختلف شعری اصناف : آغاز و ارتقا‘۔ یہ ایک طویل ترین باب ہے اور کتاب کے تقریباً ۱۵۰؍ صفحات کو محیط ہے۔ اس میں غزل،مثنوی ، قصیدہ۔نعت، سلام اور مرثیہ وغیرہ پر مشتمل ایسے کلام کا ذکر ہے جو راجستھان میں لکھا گیا ہے۔اصناف شاعری کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے کتاب کا یہ باب بھی بے حد معلومات افزا ہے۔ خاص طور پراس لیے کہ نہ صرف غزل بلکہ مثنوی کی قدیم ترین مثالیں بھی شمالی ہند کے اس خطے میں ہی نظر آتی ہیں۔ان مثالوں سے راجستھان میں راجستھانی زبان کی موجودگی میں اردو کے عام چلن کے ثبوت فراہم ہوتے ہیں ۔
۱۸۵۷ء کے بعد راجستھان میں مہاجر شعرا کی آمد اور ان کے اثرات کے ذکر کے ساتھ ایک باب ’ مثنوی تائید الاسلام : غدر کی ایک اہم دستاویز‘ کے عنوان سے بھی ہے۔یہ باب اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ اس میں ایک ایسی مثنوی کا ذکر موجود ہے جس کا مصنف نام نہاد غدر کا عینی شاہد تھا اور اس نے ایک خاص مقصد کے لیے راجستھان کی ایک مسلم ریاست ٹونک میں نواب وزیر الدولہ کے زمانۂ اقتدار میں اسے لکھا۔ اس میں بعض ان اسباب و محرکات کا تفصیلی ذکر ہے جو بعد ازاں مورخین کی توجہ کامرکز بنے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ’راجستھان میں اردو ‘نامی اس کتاب کی جلد اول کے بیشتر مباحث تحقیقی انداز کے حامل ہیں اور ان میں فراہم کردہ معلومات یقینی طور پر اس خطے میں اردو زبان کے بنیادی کردار کی تفہیم میں معاونت کرتی ہیں ۔
کتاب کی جلد دوم کے مختلف ابواب یہ ہیں :
۱۔راجستھان میں اردو نثر: قصہ ،داستان اور مذہبی رسائل ۲۔غدر کے بعد چند اہم نثر نگار ۳۔ شب فراق اور نیا شعور نظر ۴۔راجستھان میں علی گڈھ تحریک کے اثرات ۵۔نثر کے جدید اسالیب ( ناول ، افسانہ ،ڈرامہ، تذکرہ ، تحقیق، تنقید، مضامین، مقالات،ادب لطیف، سوانح عمری، سفر نامہ ) ۶۔تحریک آزادی اور راجستھان کے اردو شعرا ۷۔راجستھان کے اردو شعرو ادب پر تقسیم ملک کے اثرات۸۔ فہرست مہاجر شعرا۹۔ مہاجرین شعرا کی خدمات پر ایک نظر
اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جلد دوم کے بیشتر ابواب کا تعلق راجستھان میں اردو نثر کے آغاز و ارتقا سے ہے۔ یہ ابواب اور ان میں فراہم کردہ معلومات سے راجستھان میں نثر اور اس کے جدید انداز و اسالیب سے متعلق جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ اس لحاظ سے بے حد اہم ہیں کہ اب تک اس انداز میں علاقائی ادب کی افہام و تفہیم کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔پروفیسر فیروز احمد نے جس دقتِ نظر اور غیر جانب داری کے ساتھ ان ابواب میں نثر کی قلم رو میں داخل ہونے والے موضوعات و مضامین کا مطالعہ کیاہے، اس سے ان کی تنقیدی بصیرت کا بھی ثبوت فراہم ہوتا ہے ۔ راجستھان میں قصہ گوئی ، داستان سرائی ،ناول اور افسانہ نگاری کے علاوہ تحقیق و تنقید اور ادب لطیف وغیرہ کا جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے تحقیق کا بھی خیال رکھا ہے اور نقد و تبصرہ کا بھی۔ ان کی تحقیق و تنقید دونوں خیال آرائی سے بے نیاز ہے ۔دوسرے لفظوں میں راجستھان کی جملہ نثری اقسام کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر فیروز احمد نے ان کی کیفیت اور کمیت دونوں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔راجستھان کے شعر و ادب پر علی گڈھ تحریک کے اثرات کا مسئلہ ہو یا پھر تحریک آزادی میں راجستھان کے اردو شعرا اور ادبا کی خدمات کا محاکمہ ، فیروز احمد انتہائی بے باکی کے ساتھ ان وجوہ اور اسباب کا تجزیہ بھی کرتے ہیں جن سے یہاں کا شاعر اور ادیب متاثر ہوا۔کتاب میں ایک ضمنی باب تقسیم ملک اور راجستھان کے شعر و ادب پر اس کے راست اور فوری اثرات سے متعلق بھی ہے۔ یہ گویا کتاب کا اختتامیہ ہے۔اس ضمن میں پروفیسر فیرز احمد نے ۹۰؍ ایسے شعر اور ادبا کا ذکر کیا ہے جن کی ادبی زندگی کا آغاز راجستھان میں ہوا مگر حالات کی ستم ظریفی نے انھیں ہجرت کے لیے مجبور کر دیا ۔ایسے افراد کی مرتبہ فہرست کے متعلق انھوں نے ایک مقام پر لکھا ہے :
’’۔۔۔اس فہرست میں کلاسیکی مزاج رکھنے والے ایسے اساتذۂ فن بھی ہیں جو زبان و بیان کی باریکیوں سے آگاہ تھے مثلاًمولانا اطہرؔ ہاپوڑوی، اسمعیل خاں رضیؔ ، مولانا منظور احمد کوثرؔ ، حافظ یوسف علی خاں عزیزؔ ، خاک ؔ اجمیری،مشکور علی برقؔ ، انور علی شادؔ ، رونقؔ جودھپوری وغیرہ اور ایسے شعرا بھی ہیں جن کے فکر و فن نے جدید اردو شاعری کے ارتقائی سفر میں نمایا ں کردار ادا کیامثلاً قابلؔ ا جمیری، اعجازؔ جودھپوری، درد ؔ سعیدی،الیاس عشقیؔ ، ثمر ؔ میرٹھی اور اخترؔ شیرانی وغیرہ۔ان میں ہر شاعر ایک سے زیادہ شعری مجموعوں کا خالق ہے۔۔۔۔افسانوی اور غیر افسانوی نثر بالخصوص صحافت، تنقیداور تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں میں بالترتیب یکتا جودھپوری، قیسی رامپوری ڈاکٹر عبدالسلام، عبدالوہاب خا ں عاصم، شمس العلمامولانا عبد الرحمان ، محمود شیرانی ،سلیم جعفر ،عبد الواحد معینی اور مولانا فاضل قرولوی نے تقسیم ملک سے قبل جس انداز میں نثری ادب کے ذخیرے میں اضافہ کیا ، اسے نظر انداز کر کے نہ صرف راجستھان بلکہ مجموعی طور پر ادب کی تاریخ کا مطالعہ ناقص متصور کیا جائے گا۔ ان میں متعدد ایسے اشخاص ہیں جنھوں نے ’ اقبالیات ‘ اور ’قدیم شعری ادب ‘ کی تحقیق میں مستقلاً اضافہ کیا اورآج بھی ان کی تحریں استناد کا درجہ رکھتی ہیں۔ مشتاق یوسفی نے نثر میں اور عنایت علی خاں عنایت نے شاعری میں طنز و مزاح کی جو روش اختیار کی، اسے کون فراموش کر سکتا ہے ‘‘۔
مجموعی طور دیکھا جائے تو پروفیسر فیروز احمد کی کتاب راجستھان میں اردو (جلد اول و دوم )اپنی غایت کے اعتبار سے راجستھان میں اردو زبان و ادب کے آغازو ارتقا کی ایک جامع تاریخ ہے۔اس کا دائرہ ۱۹۴۷ء تک پھیلا ہوا ہے۔ اس تاریخ کا اختصاصی پہلو یہ ہے کہ اس میں نہ صرف اردو زبان کی تعمیر و تشکیل کے متعلق ایک نیا نقطۂ نظر اختیار کیا گیا اور راجستھانی زبان اور اس کے لسانی امتیاز ات کو اردوئے قدیم کے حوالے سے جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی بلکہ راجستھان میں تخلیق شدہ ادب کو شمالی ہند کی شعری و ادبی روایت کے تناظر میں پیش کرتے ہوئے اس کے خوب و ناخوب پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔آخر میں یہ اشارہ بھی ضروری ہے کہ تقریباً۶۰۰؍ سے زائد صفحات پر مشتمل پروفیسر فیروز احمد کی یہ کتاب اپنی زبان وبیان اور انداز و اسلوب کے اعتبار سے بھی متاثر کرتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آزادی کے بعد راجستھان میں اردو کی مجموعی صورت حال اور وہاں کے شعری و نثری ادب پر بھی مفصل گفتگو کی جائے اور اس کام کے لیے فی الوقت پروفیسر فیروز احمد سے بہتر کوئی دوسر انہیں۔امید ہے کہ وہ اس جانب بھی متوجہ ہوں گے اور راجستھان کے جدید شعر و ادب کا اسی انداز میں تفصیلی محاکمہ پیش کریں جوپیش نظر کتاب کی جلد اول و دوم میں نظر آتاہے۔
یہ تو سچ ہے کہ تحقیق میں کوئی بات حرف آخر کا درجہ نہیں رکھتی لیکن جب تک راجستھان کے شعر و ادب کے بارے میں کوئی نیا انکشاف نہ ہو، پروفیسر فیروز احمد کی اس کتاب کوشمالی ہند کے ایک مخصوص علاقہ کی ادبی سرگرمیوں کی افہام و تفہیم میں غیر معمولی نوعیت اور اہمیت کی حامل کتاب قرار دینا غلط نہ ہو گا ۔ اس ضمن میں مصنف ( (09414442992سے ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

Share
Share
Share