ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
ردیف "پ”
پابوس ہونا
ہمارے یہاں قدموں کا بہت احترام کیا جاتا رہا ہے اس کا اندازہ اُن محاوروں سے ہوتا ہے جو قدموں سے نسبت کے ساتھ ہماری زبان میں رائج ہیں اور رائج رہے ہیں۔ پیر دھونا پیر دھو دھوکر پینا۔ پیروں کی دھُول ہونا۔ قدموں پر نچھاور ہونا قدم چومنا قدموں کو بوسہ دینا قدم بوس ہونا قدم چھونا قدم رنجہ فرمانا یا قدومیمنت (مبارک قدم) قدموں کی برکت قدم گاہ وغیرہ اس سے معاشرے میں احترام کے تقاضوں کی نشاندہی ہوتی ہے یہ ہند ایرانی تہذیب کا ایک مشترک رو یہ سمجھا جانا چاہیے ہمارے ہاں بزرگانِ دین کے ساتھ اور خاص طور سے صوفیوں کے ساتھ یہ رو یہ آج بھی برتا جاتا ہے کہ ان کے قدموں کو چھوتے ہیں ہندوؤں میں پنڈتوں کے لئے کہتے ہیں”پالا گن مہاراج” یعنی ہم حضور کے قدم چھوتے ہیں اور اُن پر نچھاور ہوتے ہیں جب کسی سے دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ وہ تو اس کے قدموں کی دھول کے برابر ہے یا میں تو آپ کے قدموں کی خاک ہوں یا خاک کے برابر بھی نہیں ہوں اس لیے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرح سوچتا سمجھتا اور کرتا رہا ہے۔ غالب کاشعر یاد آتا ہے۔
کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لئے
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں
یعنی آسمان کو قدم بوسی کی اجازت ہے تو مجھے کیوں نہیں ہے
پاپڑ بیلنا، پاپڑ پیٹنا
پاپڑ ہندوستان کی کھائی جانے والی اشیاء میں ایک خاص قسم کی غذا ہے جو باریک روٹی کی طرح تیار کیا جاتا ہے پھر تل کر کھایا جاتا ہے چونکہ روٹی پکانے کے مقابلہ میں پاپڑ بیلنا ایک مشکل کام ہے دیر طلب ہے۔ اور بہت سے پاپڑ تیار کرنے میں آدمی تھک جاتا ہے۔ اسی لئے تھکا دینے والے کاموں کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنے دنوں پاپڑ بیلتا رہا کہ پاپڑ چکلہ بیلن سے تیار ہوتا ہے۔
پانی پانی کرنا، پانی پانی ہونا، پانی پڑنا، پانی پھر جانا، (کون کتنے پانی میں ہے) پانی توڑنا پانی ڈالنا، پانی دکھانا، پانی دینا، پانی ڈھلنا (آنکھوں کا پانی ڈھل گیا ہے) پانی رکھنا یا بھرنا، پانی چھونا، پانی پی پی کر کوسنا، پانی پی کر ذات پوچھنا، پانی کا بتاسا یا بلبلا وغیرہ
پانی ہماری ضرورت کی چیز ہے اگر پانی نہ ہو تو زندگی بھی نہ ہو بہت محاورے پانی پر ہیں مثلاً گہرے پانی پیٹھ، گہرے پانی میں اگر اتر کر دیکھو۔ یہیں سے یہ محاورہ آیا ہے اور اس مفہوم کے ایک رخ کو ظاہر کرتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے کون کتنا تجربہ کار ہے کون کتنا بھرم رکھنے والا ہے۔ کون کتنا لائق ہے یا کتنا پیسہ والا ہے پانی پلانا ثواب کا کام ہے اور پیاسے کو پانی پلانا اور بھی زیادہ ثواب کا کام ہے آنحضرتؐ کو اسی لئے ساقی کوثر کہا جاتا ہے۔ کہ وہ میدان حشر میں پیاسوں کو آب کوثر پلائیں گے۔ پانی لگانا جانوروں کی گردن پر چھُری چلانے سے پہلے پانی اس لئے لگایا جاتا ہے کہ چھری آسانی سے چل جائے پانی دکھانا بھی اُس جانور کے لئے ہوتا ہے جس کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلایا جاتا ہے۔ پانی دینا پودوں کو سینچنا پانی پی کر کوسنا طنز کرنا ہے یعنی جس نے پانی پلایا اُسی کو کوسنے بیٹھ گئے۔ پانی پی کر ذات پوچھنا بھی اِسی طرح سے اپنی ایک روشِ فکر کا اظہار ہے کہ جس کے گھر کا پانی پی لیا اب اس کی ذات کیوں پوچھتے ہو۔ یعنی اس سے چھوت چھات برتنے کی بات کیوں کرتے ہو پانی پانی ہونا شرمندہ ہونا یعنی ندامت کے پسینے میں ڈوب جانا ہے اور پانی پانی کرنا شرمندہ کرنا ہے کہ میں نے سارا چٹھا سنا دیا اور اسے پانی پانی کر دیا ہے آنکھوں کا پانی مر جانا یا ڈھل جانا دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی لحاظ یا س نہ رہنا ہے اور کمینہ پن اختیار کرنا۔ پانی چھوڑنا عورتوں کی زبان میں اس لیے آتا ہے کہ پکانے کے عمل میں پانی کی مقدار کا کم اور زیادہ ہونا یا پکتے وقت پانی چھوڑنا پانی کا بتاسا بلبلے کو کہتے ہیں اس طرح سے پانی سے وابستہ تصورات ہماری معاشرتی فکر کا اک اہم حصہ رہے ہیں۔
پاؤں اُکھڑنا، پاؤں اُکھاڑنا، پاؤں جمنا یا جمانا، پاؤں پڑنا، پاؤں باہر نکالنا، پاؤں ملنا، پاؤں ٹپکنا، پاؤں پسارنا، پاؤں پر سر رکھنا پاؤں میں ٹوپی پگڑی یا ڈوپٹہ ڈالنا پاؤں پاؤں چلنا یا پیادہ ہونا
پاؤں کے ساتھ جہاں چلنے کے محاورات آتے ہیں جو انسان کے اہم تجربات میں سے ہیں اس کی اہم ضرورت ہے وہاں نہ چلنے کے ساتھ بھی بہت سے محاورات وابستہ ہیں مثلاً پیڑ توڑ کر بیٹھنا پیر کی کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں بیٹھنے کے علاوہ پیروں کے جمنے اور ٹھہرے کے بارے میں محاورات انسانی کردار اور سماجی ضرورت کی طرف نئے نئے پہلوؤں سے اشارہ کرتے ہیں مثلاً قدم جمانا، قدم جمنا جیسے ہم دوسرے لفظوں میں پیر جمنا، اور پیر جمانا، کہتے ہیں یہ مستقل مزاجی کی طرف اشارہ کرنے والے محاورے ہیں جن کے مقابلہ میں قدم اکھڑنا اور قدم اکھاڑنا آتے ہیں۔ پامردی اور بہادری کے خلاف ایک صورتِ حال ہے کہ جنت میں اُن کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اکھڑتے ہوئے نظر آئے یا اکھاڑ دیئے گئے سرپر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ بھاگ کھڑے ہونے کی ایک نئی عجیب اور مبالغہ آمیز صورت ہے ان محاوروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیروں کے بارے میں کیا کیا سوچتے ہیں اور کس طرح سوچتے ہیں۔
قدم سے متعلق کچھ دوسرے محاورے بھی ہیں جیسے دو قدم کا فاصلہ یا قدم قدم آگے بڑھنا دو قدم چل کر ٹھہر گئے یا دو دم چل کر تو دیکھو یا پھر ہمارا آج کے دور کا محاورہ کہ انہوں نے اپنے قلم یا اور قلم کی حرکت کو کبھی رکنے نہیں دیا مستقل طور پر کام کرتے رہے جو ایک بڑا سماجی قابلِ تحسین صورت ہے پاؤں میں سر رکھنا ڈوپٹہ رکھنا، انتہائی احترام کا اظہار کرنا مگر مقصد یہ ہوتا ہے کہ قصور معاف کر دیا جائے خطا در گزر کر دی جائے چونکہ دوپٹہ پگڑی، اور ٹوپی کسی بھی شخص کا اظہار عزت ہوتا ہے اور مقصد اس عمل سے یہ ہے کہ آپ ہمیں عزت دیں بخشیں اور ہمارے قصور کو در گزر کریں یہ ایک سماجی طریقہ رسائی ہے۔
پاؤں میں مہندی لگا ہونا یا لگنا
عورتوں کا محاورہ ہے کہ مہندی وہی لگاتی ہیں اور پیروں میں جب مہندی لگائی جاتی ہے تو چلنا پھرنا بندہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مہندی خشک ہو جائے۔اور اُس کو اتار دی جائے اس کے بعد بھی ہاتھ پیروں کو دھویا نہیں جاتا تاکہ مہندی رچ جائے بہرحال جب مہندی لگی ہوتی ہے تو آنا جانا ممکن نہیں ہوتا اسی لئے طعنہ یا طنز کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ایسا بھی کیا ہے کہ آپ نہیں آ سکتے کیا پیروں کو مہندی لگی ہے۔ یعنی آپسی معاملات میں آدمی اپنا حق یہ سمجھتا ہے کہ جب بھی وہ یاد کرے یا موقع ہو تو دوسرے کو آنا چاہیے اور اگر وہ نہیں آتا تو اس سے شکایت ہوتی ہے شکوہ کیا جاتا ہے اور اس کا اظہار مقصود ہوتا ہے کہ تم خوامخواہ کی بہانہ بازی کر رہے ہو یہ کوئی جائز بات نہیں ہے۔
پتھر چھاتی پر دھرنا یا دل پر پتھر رکھنا
بے صبر کرنا اور ایسے معاملات میں جہاں کسی شخص کے لئے صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے وہاں یہ کہتے ہیں کہ دل پر پتھر رکھ کر یہ کام کیا یا اس کا فیصلہ کرنے کے لئے دل پر پتھر رکھنا پڑا وغیرہ۔ پیٹ سے پتھر باندھنا انتہائی بھوک کے عالم میں بھی صبر و ضبط سے کام لینا اور کسی سے اظہار نہ کرنا پیٹ سے پتھر باندھنا کہلاتا ہے اور مشکلات برداشت کر کے جب کوئی کام کیا جاتا ہے تو بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم نے پیٹ سے پتھر باندھ کر یہ کام کیا ہے۔ یہ یا ایسے کاموں کے لئے تو پیٹ سے پتھر باندھنا ہوتا ہے یعنی سختیاں جھیلنا اور مشکلات برداشت کرنا۔
پُرانے مُردے اکھیڑنا
غیر ضروری باتوں کو بار بار دہرانا جن کا وقت بھی گزر چکا اور اُن کا ذکر بار بار زبان پر لانا گڑے مُردے اُکھیڑنا کہلاتا ہے یہ ہماری سماجی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی ہم کسی کی نیکی کو یاد نہیں کرتے اس کے احسانات کو بھول جاتے ہیں اور بُرائی کو بار بار دہراتے ہیں۔ بلکہ بھولی بسری باتوں کو بھی ضرور سامنے لانا چاہتے ہیں اس محاورہ میں ایک طرح کا طنز اور اس سماجی روش کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اچھائیوں کا اعتراف کرنے میں بے حد بخیل ہیں اور کمزوریوں، عیبوں، برائیوں کو طرح طرح سے سامنے لاتے ہیں۔
پھُول کھیلنا، پھُول کی جگہ پنکھڑی، پھُول نہیں پنکھڑی ہی سہی، پھُول کی چھڑی بھی نہیں لگائی۔ پھُولوں کا گہنا۔ پھُولوں کی چھڑی، پھُولوں کی سیج، پھولوں میں ملنا، پھول پان
پھول ہماری دنیا کا ایک بہت ہی خوبصورت قدرتی تحفہ ہے یہ ہماری سماجی رسموں میں بھی شریک ہے خوشی کے موقع پر خاص طور سے پھولوں کا استعمال ہوتا ہے۔ پھُولوں کا گلدستہ پیش کیا جاتا ہے ہار پہنائے جاتے ہیں پگڑی میں لگائے جاتے ہیں۔ بعض مغل بادشاہ اپنے ہاتھ میں گلاب کا پھول رکھتے تھے اکبر جہانگیر اور شاہ جہاں کی ایسی تصویریں ملتی ہیں جن میں گلاب کا پھول ان کے ہاتھ میں ہے۔ پھول دواؤں میں بھی کام آتے ہیں۔ اور فنونِ لطیفہ میں بھی اور ہماری سماجی زندگی سے ان کا ایک واسطہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی شاعری کے علاوہ اپنے محاوروں میں پھول کو شامل رکھتے ہیں جس کا اندازہ مندرجہ بالا محاوروں سے بھی ہو سکتا ہے پھول سونگھنا یا پھول سونگھ کر جینا انتہائی کم خوراک ہونا ہے۔ پھول چننا یا موتی چننا خوشی کے موقع پر ہوتا ہے۔
دلہن کی سیج پر پھول بچھائے جاتے ہیں پنکھڑیوں کی بارش کی جاتی ہے اور خوشی کے موقع پر پھولوں کے گہنے پہنے جاتے ہیں۔ دلی میں تو گرمی کے موسم میں پھولوں کے اس طرح کے ہار بکتے ہیں جو عورتیں اپنے جوڑے میں لگاتی ہیں۔ یا کانوں میں پہنتی ہیں۔ یا ہاتھوں میں پہنتی ہیں۔ جنوبی ہندوستان میں تو مزدور عورتیں بھی عام طور سے پھول پہنتی ہیں یہیں سے محاورے تشبیہیں استعارے اور تمثیلیں پیدا ہوئی ہیں۔ پھول کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ قابلِ قدر ہوتا ہے اور محاورے میں یہ کہتے ہیں پھول نہیں پنکھڑی صحیح بے حد اچھا سلوک کرنا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی پھولوں کی چھڑی بھی نہیں ماری تمام تر ناز بردار یاں کیں وغیرہ پھولوں میں تکنا بے حد ہلکا پھلکا ہونا ہے پھول پان بھی اسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
پیر پھیرنے جانا
یہ کسی کی آمد کے سلسلے میں بطورِ تشکر اس کے ہاں جانے کے موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے غالب نے ایک موقع پر کہا تھا کہ مجھے ان کا ایک آنا دینا تھا۔ ہاں ملاقات کی غرض سے کسی کے آنے کی طرف اشارہ ہے۔ علاوہ بریں دہلی میں یہ ایک خاص رسم ہے جو کسی بچے کی پیدائش سے پہلے لڑکی سُسرال سے میکے نوے مہینے آتی ہے اسے پاؤں پھیرنا بھی بولتے ہیں اس لحاظ سے خاص طور پر اس کے محاورے کی تہذیبی اہمیت ہو جاتی ہے۔
پیر نابالغ
پیر بوڑھے کو کہتے ہیں اور جب کسی آدمی کو بُڑھاپے تک عقل نہ آئے تو طنز کے طور پر اُسے پیرنا بالغ کہتے ہیں یہ مذاق اڑانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے وہ بوڑھے ضرور ہیں مگر پیر نا بالغ ہیں اس سے ملتا جُلتا ایک اور محاورہ ہے کہ بوڑھا اور بچہ برابر ہوتا ہے یہاں اُن کمزوریوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو بڑھاپے میں عود کر آتی ہیں اور آدمی بچوں جیسی باتیں کرنے لگتا ہے۔