اسلام میں خواتین کو مساوی حقوق کے باوجود عمل آوری کا فقدان

Share

CWS3

CWS

CWS2

CWS4

اسلام میں خواتین کو مساوی حقوق کے باوجود عمل آوری کا فقدان
اردو یونیورسٹی میں مسلم خواتین کی قومی دھارے میں شمولیت پر مباحثہ۔ محترمہ کمارامنگلم، پروفیسر آمنہ کشور ، محترمہ شمینہ شفیق و دیگر کے خطاب
حیدرآباد، 24؍ فروری (پریس نوٹ) کسی بھی مذہب میں خواتین کو حاشیہ پر رکھنے کی تعلیم نہیں دی گئی ہے لیکن ہماری سوسائٹی میں یہ چیز در آئی ہے۔ جہاں تک ہم خواتین کو درپیش مسائل کی بات کرتے ہیں مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی خواتین اسی طرح کے مسائل سے دوچار ہیں۔ خواتین کے مسائل میں تغذیہ ، صحت سے متعلق مسائل، ان کے کام کا انہیں کریڈٹ نہ ملنا وغیرہ شامل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں مرکز برائے مطالعاتِ نسواں اور قومی کمیشن برائے خواتین، نئی دہلی کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقدہ ایک علمی مذاکرہ بعنوان ’’ہندوستانی مسلم خواتین کی مرکزی دھارے میں شمولیت۔ مستقبل کا لائحہ عمل‘‘ میں محترمہ، للیتا کمارامنگلم ، صدر نشین، قومی کمیشن برائے خواتین، نئی دہلی نے بحیثیت مہمانِ خصوصی اپنے خطاب میں کیا۔ بیشتر مقررین نے اعتراف کیا کہ اسلام میں خواتین کو اگرچہ مساوی حقوق حاصل ہیں تاہم ان پر عمل آوری کا فقدان پایا جاتا ہے۔ محترمہ للیتا نے اپنے خطاب میں کہا کہ خواتین کو خود اپنے بارے میں سوچنا ہوگا۔ اپنی پریشانیوں پر غور کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کے متعلق ذہن سازی

کرنی ہوگی تبھی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے پروگرامس میں مردوں کو بھی مدعو کرنا ہوگا تاکہ وہ بھی اپنی رائے پیش کرسکیں اور مسائل کے حل کے لیے بہتر مشورے دے سکیں۔ جہاں تک خواتین کی مرکزی دھارے میں شمولیت کی بات ہے وہ انصاف کا حصول ہے۔ پروفیسر فاطمہ علی خان نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اسلام میں یقیناًمساوات کا تصور ہے لیکن لوگوں نے اسے گویا اغوا کرلیا ہے اور خواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ صنفی حسیت پر ہمیں کام کرنا ہوگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف طالبات بلکہ خاتون اسٹاف ممبرس کا بھی دفاتر میں استحصال کیا جاتا ہے۔ ان مسائل پر ہمیں توجہ دینی ہوگی۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ اردو یونیورسٹی میں مرکز برائے مطالعاتِ نسواں کے علاوہ شعبۂ تعلیمات نسواں بھی موجود ہے۔ محترمہ شمینہ شفیق، رکن، قومی کمیشن برائے خواتین نے کہا کہ حیدرآباد کے پرانے شہر میں ہم نے کچھ خواتین سے ان کے مسائل پر بات کی تب ہمیں پتہ چلا کہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ گھریلو تشدد کا ہے۔ اس پر توجہ کی خاص ضرورت ہے۔ قومی کمیشن ہندوستان کے مختلف علاقوں میں خواتین مسائل پر غور کر رہا ہے۔ جنوبی ریاستوں میں حالات شمالی ریاستوں کے مقابلے بہتر ہیں۔ غیر حکومتی اداروں کو ان مسائل کے حل کے لیے آگے آنا چاہئے۔ اس کے علاوہ ہم کچھ بچوں کی تعلیمی کفالت بھی کرسکتے ہیں جس سے انہیں آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ پروفیسر آمنہ کشور، پروفیسر مولانا ابوالکلام آزاد چیئر نے اپنے کلیدی خطبہ میں کہا کہ قومی دھارے میں شمولیت کا مطلب کیا ہے ، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا سوسائٹی میں مقام کا حصول، شمولیت قرار دیا جائے یا روزگار کی فراہمی یا اسکولوں میں تعلیم کی فراہمی یا اعتماد میں اضافہ کو شمولیت قرار دیا جائے ۔ ہمیں ان سب باتوں پر غور کرنا ہوگا۔ مسائل کے حل کے لیے ہمیں مزید پروگرامس کی ضرورت ہے تاکہ ان باتوں پر غور کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان، ہندوستان میں اقلیت میں ہیں اور مسلم خواتین گویا اقلیت میں اقلیت کے مترادف ہیں۔ ہمیں اپنے مسائل کے لیے ان کے بارے میں جاننا اور ان کے حل تلاش کرنا ہوگا۔ لڑکیوں کو صرف روایتی ہی نہیں بلکہ پیشہ ورانہ تعلیم بھی دینی ہوگی تاکہ انہیں روزگار کے حصول میں آسانی ہو۔ ڈاکٹر شاہدہ، صدر شعبۂ تعلیمات نسواں نے کہا کہ اسلام میں مرد اور عورت کے مساوی حقوق ہیں لیکن اس پر عمل آوری نہیں ہوتی۔ تقریباً 90 فیصد خواتین کو شادی پر مہر حاصل نہیں ہوتا جبکہ انہیں جہیز دینا ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں علماء کرام جمعہ کے خطبہ میں توجہ دلا سکتے ہیں۔ لڑکیاں تفسیر پڑھیں تاکہ انہیں اپنے اسلامی حقوق معلوم ہوسکیں۔ ڈاکٹر نجم السحر، صدر شعبۂ تعلیم و تربیت نے کہا کہ کنٹراکٹ میریج اسلام میں جائز نہیں، لیکن اس کے باوجود غیر ملکی شہری بعض قاضی حضرات سے مل کر اس طرح کے کام کر رہے ہیں۔ بعض غریب لڑکیاں جنہیں اس کا علم نہیں ہے، قاضی حضرات کے کہنے پر اسے اسلام کا حصہ سمجھ کر قبول کر رہی ہیں۔ بعد میں ان کی کیا حالت ہوتی اس کا اندازہ ہمیں بخوبی ہے۔ ڈاکٹر گلفشاں حبیب، اسوسیئٹ پروفیسر، جناب خلیق الرحمن، محترمہ شبانہ کیسر، ڈاکٹر عینی حسن، محترمہ دلناز بیگ، محترمہ روبینہ مظہر، ڈاکٹر رفعت سیما خاتون، محترمہ رفیعہ نوشین، محترمہ راسیہ نعیم ہاشمی نے بھی مختلف امور پر بات کی۔ ڈاکٹر آمنہ تحسین، انچارج مرکز نے خیر مقدم کیا۔ محترمہ عائشہ خاتون کی قرأت کلام پاک و ترجمانی سے جلسہ کا آغاز ہوا۔ اساتذہ اور طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

عابد عبدالواسع
۔ پبلک ریلیشنز آفیسر

Share
Share
Share