نابغۂ روزگارعلامہ اعجازفرخ

Share
علامہ اعجاز فرخ
علامہ اعجاز فرخ

نابغۂ روزگارعلامہ اعجاز فرخ

پروفیسر رحمت یوسف زئی

سابق صدر شعبہ اردو ‘حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی

علامہ اعجاز فرخ کی شخصیت ہمہ جہات کی حامل ہے۔ شعر و ادب ان کا اوڑھنا بچھونا، ذاکری ان کا محبوب مشغلہ، ہوائی جہاز کو آسمانوں میں اڑانا ان کا سابق ذریعۂ معاش، تنظیمی امور میں بے پناہ مہارت ان کی خصوصیت، ایکسپورٹ ان کا ضمنی شغل،مختلف زبانوں اور بیشمار علوم و فنون پر ان کی دسترس …..کن کن باتوں کا ذکر کیا جائے …. یہ اور ایسے بے شمار گوشے ہیں جن میں اتمام حجت کا وسیلہ تلاش کرنا ہو تو علامہ اعجاز فرخ کی رائے سب سے زیادہ مدلل اور دل کو چھو لینے والی ہو گی۔
کئی سال گزرے …. شائد 1962 یا 1963 کی بات ہے جب میں نےاعجاز فرخ کو پہلی بار دیکھا۔ منڈی میر عالم کے قریب کسی حویلی کی دوسری منزل پر ایک مشاعرہ تھا جس میں میں نے بھی شرکت کی تھی۔ اس مشاعرے میں اگر کسی شاعر نے بے حساب داد بٹوری تو وہ اعجاز فرخ تھے۔ لہجہ استاد شعراء کا ہم پلہ، اسلوب نیا اور عصری حسیت سے معمور… اب یہ تو یاد نہیں کہ انہوں نے کون سی غزل سنائی تھی لیکن غزل کی چاشنی اور انداز غزل گوئی نے مجھے ایسا مسحور کیا تھا کہ آج تک ان کا اسیر ہوں۔ بارہا میں نے ان سے ان کی شاعری کے بارے میں دریافت کیا مگر وہ نہ جانے کیوں ٹال گئے۔ اگر کوئی علامہ کے کاغذات میں سے ان کا کلام ڈھونڈ نکالے تو میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اردو شاعری میں ایک بیش بہا اضافہ ثابت ہو گا۔

ان کے حافظے پر کسی کو بھی رشک آ سکتا ہے۔ استاذی پروفیسر سید مجاور حسین رضوی خود بھی بے پناہ حافظے کے مالک ہیں لیکن وہ بھی علامہ اعجاز فرخ کا لوہا مانتے ہیں۔ ایک واقعہ یاد آیا۔ کچھ برس قبل علامہ سے میری ملاقات اردو مجلس کے ایک جلسے میں ہوئی جو آغا حیدر حسن مرحوم کی یاد میں منعقد ہوا تھا۔ اس جلسے میں مختلف اکابرین نے مضامین پیش کیے اورتقریریں کیں۔ آخرمیں جب میں نے حاضرین کو اظہار خیال کی دعوت دی تو علامہ اعجاز فرخ نے اشارہ کیا۔ میں تو خود ہی یہ چاہتا تھا۔ فوراً انھیں مائیک پر بلا لیا۔ انھوں نے تقریباً آدھا گھنٹہ تقریر کی اور تقریر کے دوران آغا حیدر حسن کے کئی اقتباسات زبانی سنا ڈالے۔ ساری محفل ان کی تقریر کے جادو میں کھو گئی اور داد و تحسین کی صداؤں سے ہال گونج اٹھا۔ سچ پوچھیے تو علامہ کی تقریر اس محفل کا حاصل رہی۔
علامہ اعجاز فرخ کی تحریر اور تقریر تو مسحور کن ہے ہی لیکن ان کے ساتھ گفتگو کا لطف کچھ اور ہی ہے۔ جب ان سے گفتگو کا موقع ملتا ہے تو ذہن میں فکر کے نئے دروازے وا ہونے لگتے ہیں، ایک نئی فضا میں سانس لینے کا لطف محسوس ہوتا ہے اور اک جہانِ نو کی خوشبو وجود کو منور و معطر کر دیتی ہے۔ ندرتِ خیال ان کا ایک اہم وصف ہے اور اس پر ندرت زبان و بیان سونے پر سہاگہ کا کام کرتے ہیں۔ ان چیزوں کا امتزاج دیکھنا ہو تو علامہ اعجاز فرخ سے مل لیجیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ دس کتابوں کو پڑھ کرجوعلم حاصل ہوتا ہے وہ کسی عالم سے کچھ دیرگفتگو کے نتیجے میں حاصل ہونے والے علم سے بدرجہا کم ہوتا ہے۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ کبھی کبھی وہ مجھے ملاقات کا موقع عطا کرتے ہیں۔ اور جب کبھی ملاقات ہوتی ہے یا فون پرگفتگو ہوتی ہے تو سرورسا چھا جاتا ہے۔ ذہن و دل انبساط میں ڈوب جاتے ہیں۔
میں نے علامہ اعجاز فرخ کا کوئی مضمون سیاست کے علاوہ کسی اور رسالے یا اخبار میں نہیں دیکھا۔ ان کی تحریریں صرف اور صرف سیاست کے صفحات کی زینت بنتی رہی ہیں اور اس طرح وہ سیاست خاندان کے ایک اہم رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالباً 70، 71 سے وہ سیاست کے لیے لکھ رہے ہیں۔ اگر ان مضامین کو جمع کر کے شائع کیا جاتا تو کئی کتابوں کے مصنف ہو گئے ہوتے۔ لیکن ان کی قلندرانہ طبیعت اور بے نیازی نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ دراصل علامہ خود ایک کتاب ہیں اور شائد کوئی کتاب اپنی ذات میں اضافے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بہرحال ان کے چاہنے والے بہت ہیں اور سب کی یہ خواہش ہے کہ ان کے مضامین کتابی شکل میں دستیاب ہوں۔ دیکھتے ہیں وہ اپنے چاہنے والوں کے اصرار کو کب تک ٹالیں گے۔
پچھلے دو تین مہینوں سے اخبار سیاست میں علامہ اعجاز فرخ نے مضامین کا ایک اہم سلسلہ شروع کیا ہے۔ ان مضامین میں حیدر آباد کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کو بڑی خوبصورتی سے سمیٹا گیا ہے۔ قطب شاہی فرماں رواؤں سے شروع ہونے والے ان مضامین کا تسلسل ابھی نظام ششم میر محبوب علی خان تک پہنچ پایا ہے اور میرے اندازے کے مطابق علامہ اعجاز فرخ کی زنبیل میں اس قدرمواد ہے کہ مزیددس بارہ قسطیں توہوہی سکتی ہیں۔ ان مضامین کو پڑھیے تومحسوس ہوتا ہے کہ یہ سطحی جائزہ نہیں، صرف لفظوں کی بازی گری نہیں بلکہ علامہ اعجازفرخ نے ناقابل تردید حقائق پیش کیے ہیں اور پھرزبان کی چاشنی نے تحریرکوایسا حسن عطا کیا ہے کہ بائد وشائد۔ پچھلے تین چارہفتوں سے یہ مضامین شائع نہیں ہو پائے۔ جس کی وجہ سے شائقین میں قدرے مایوسی ہے۔ دراصل علامہ کو ماریشس کا سفر کرنا پڑا اور پھر کچھ اور مصروفیات بھی رہی ہوں گی۔ اب شائد اگلی قسطیں ایام عزا کے بعد ہی لکھی جائیں گی۔
اس سلسلے کا پہلا مضمون ’’ مرا شہر لو گاں سوں معمور کر‘‘ ہے جو 19 ستمبر 2007 کو شائع ہوا۔ جس میں شہر حیدر آباد کے بانی محمد قلی قطب شاہ کا ذکر مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ قطب شاہی سلطنت کے پہلے حکمران سلطان قطب شاہ سے لے کر ابراہیم قطب شاہ تک کے عہد کا مختصر احاطہ بھی ہے لیکن اتنا جامع ہے کہ تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ ابراہیم قطب شاہ کے بارے میں وہ رقم طراز ہیں کہ ’’ حقیقت میں دیکھا جائے تو حیدر آباد کی موجودہ تہذیب اور ثقافت کا نقطۂ آغاز ابراہیم قطب شاہ کا دور ہے۔ اس دور میں ہندو مسلم اتحاد کو فروغ حاصل ہوا اور گولکنڈہ ترکستان اور عرب تاجرین کے لیے ایک بین الاقوامی منڈی (کی شکل) اختیار کر گیا۔ اگرچہ شہر حیدر آباد کی بنیاد قلی قطب شاہ نے رکھی لیکن اس کا منصوبہ دراصل ابراہیم قطب شاہ کا ہے چنانچہ حسین ساگر کی تعمیراسی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ ‘‘
حیدر آباد کا دامن ہمیشہ ہی سے سب کے لیے سہارا بنا رہا۔ قطب شاہی دورہو، نظام ششم اورنظام ہفتم کا زمانہ ہو کہ آج کا حیدرآباد … یہ شہر دنیا بھر کے لوگوں کی آماجگاہ بلکہ پناہ گاہ رہا ہے۔ سب نے یہاں سے بےپناہ فائدے حاصل کیے۔ اس شہر نے بلا تفریق مذہب وملت ہرایک کونوازا اور اتنا نوازا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ علامہ لکھتے ہیں ’’ ہندوستان تو کیا دنیا بھر میں جہاں کسی پر وطن کی زمین تنگ ہوئی، اس نے بوریا سمیٹ کر حیدر آباد کا رخ کیا۔ آئے تو خالی ہاتھ تھے، وطن میں تو زندگی بھر پاؤں چادر سے باہر تھے، لیکن دکن کی سوندھی مٹی نے یوں اسیر کیا کہ یوں جاتے ہوئے سکندر نے کفن سے ہاتھ باہررکھ دیئے تھے، لیکن جب یہ دنیا سے گئے تواولادوں کے لیے نام و نشان، خطاب، منصب، تام جھام، نوکرچاکر، ڈیوڑھی، حویلی، زمین، جاگیریں ، سب اولادوں کے لیے چھوڑگیے ‘‘
حیدر آباد کی تہذیب و ثقافت پر علامہ کا دوسرا مضمون ’’ چارمینارنے کیا کیا نہیں منظردیکھے ‘‘ 16 ستمبرکوشائع ہوا۔ جس میں انھوں نے چکسہ، مہندی، سہاگ مصالحہ، لاک اورنگینے جڑے چوڑیوں کے جوڑے ، عطروغیرہ کے ساتھ حیدرآباد کی قدیم عمارتوں محلات عاشور خانوں اور عالمی شہرت کے حامل چار مینار کی تفصیلات بیان کردی ہیں۔ اس مضمون میں ان کے دل کا درد بھی نمایاں نظرآتا ہے۔ چند ہی دن قبل مکہ مسجد کے صحن میں جوبم دھماکہ ہوا اوراس کے بعد پولس نے قانون کے نام پرجس وحشیانہ اورظالمانہ اندازسے خون ریزی کی اس کے بارے میں علامہ اپنی مرحوم اہلیہ کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ اچھا ہوا نہ رہی، مر گئی۔ نہ مرتی تویہ سن کرمرجاتی کہ مسجد میں دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ اٹھے ہی رہ گئے اورمصلے سے سیدھے خدا کے حضورپہنچ گئے۔ جو باہرنکلے توپولیس کی گولیوں نے بھون کررکھ دیا‘‘۔ خون دل سےلکھے گئے اس مضمون کی آخری سطریں یوں ہیں ’’ جس چارمینار کی آنکھوں نےایک پوری تاریخ، تہذیب، تمدن، یکجہتی اور ہمیشہ شہر کو شاد دیکھا ہے، اس نے سڑکوں پر مکہ مسجد کے نمازیوں کو خون میں غلطاں بھی دیکھا۔ احساس کی نظروں میں چارمینارکی بوڑھی آنکھوں سے جوئے خوں جاری ہے۔ شب کے سناٹے میں گولکنڈے کے پتھرسے درد بھری آوازآتی ہے۔ ایک سسکی سی ابھرتی ہے مرا شہرلوگاں سے معمورکر مراشہرلوگاں سے معمور کر۔ شائد اس شہر میں اب درندے در آئے ہیں ‘‘
تیسرا مضمون ’’ ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں ‘‘ اس بات کا مدلل ثبوت ہے کہ قطب شاہی سلطنت ہیروں کی کان کنی میں نمایاں حیثیت رکھتی تھی اوردنیا کے بیشترمشہورہیرے دکن کی سرزمین کی دین ہیں۔
’’ کیا زمانے گئے کیا لوگ زمانے سے گئے ‘‘ کے زیرِ عنوان مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ قطب شاہی حکمران کس قدر روا دار تھے۔ ایک ایسا علاقہ جہاں کی عوامی زبان تلگو ہو وہاں فارسی اور ترکی بولنے والے ترکی النسل حکمرانوں کو یوں ہی سر آنکھوں پر نہیں بٹایا گیا۔ یہ حکمران رعایا کی آنکھوں کے تارے یوں ہی نہیں بن گئے۔ تلگو کے عالموں اور فاضلوں کا اس سلطنت میں ایک اہم مقام تھا۔ تلگو کے متعدد شعراء کو بادشاہوں کی سرپرستی حاصل تھی اور انھیں جاگیریں عطا کی گئی تھیں۔ دفتری کام کاج میں تلگو کا بڑا دخل تھا۔ یہاں تک کہ فرامین بھی تلگو میں جاری کیے جاتے تھے۔ اس مضمون میں بھی علامہ نے اپنے پچھلے مضامین کی طرح ماضی اور حال کا تقابل اس طرح کیا ہے کہ پتھر کے بھی آنسو نکل آئیں۔
اگلے مضمون ’’ اس پہ انسان کو ہے خواہشِ دنیا کیا کیا‘‘ میں قطب شاہی سلطنت کے آخری دور اور اورنگ زیب کے تسلط اور پھر اس کے انتقال کے علاوہ اس ساری دولت کا بھی ذکر ہے جو اورنگ زیب نے دکن سے سمیٹی تھی۔
یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ابوالحسن تانا شاہ ایک درویش صفت بادشاہ تھا۔ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ شاہ راجو قتال کا عقیدت مند تھا اور ان ہی کی خانقاہ سے وابستہ تھا۔ لا ولد عبداللہ قطب شاہ کو بستر مرگ پر اپنے جانشین کی تلاش ہوئی تو قسمت نے ابو الحسن کے سر پر تاج شاہی رکھ دیا۔ دکنی میں تانا کا مطلب ہے لاڈلا۔ لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھیے۔ اس درویش صفت، نازک مزاج اور سیدھے سادے بادشاہ کا نام ہندی بولنے والے ظلم کی علامت کے طور پر دھڑلے سے استعمال کرتے ہیں۔ تانا شاہی نہیں چلے گی،تانا شاہی بند کرو کے نعرے بلند کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ ان نعروں پر تانا شاہ کی روح کتنا تڑپتی ہو گی۔ دراصل صحیح روزمرہ نادر شاہی ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ نادر شاہ نے مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں دلی پر حملہ کیا تھا اور وہاں خون کے دریا بہا دیے تھے، ظلم کی انتہا کر دی تھی اور دلی کو لوٹ کر تباہ و تاراج کر دیا تھا۔ اس کے بعد دلی کے روزمرہ میں نادر شاہی ظلم کے کیے استعمال ہونے لگا۔ آزادیِ ہند کے بعد نہ جانے کس بد بخت نے نادر شاہی کو تانا شاہی سے بدل دیا اور پھر ہندی میں اس کا رواج عام ہو گیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اب تو اردو بولنے والے بلکہ دکن کے اردو بولنے والے بھی اس روزمرہ کو بغیر سوچے سمجھے استعمال کرنے لگے ہیں۔
علامہ اعجاز فرخ کا اگلا مضمون ’’ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ‘‘ مغل سلطنت کے عروج و زوال کا جائزہ اور نادرشاہ کے دلی پر حملے کے بارے میں حقائق پیش کرتا ہے۔ اور ساتھ ہی اس میں دکن میں آصفیہ حکومت کے بانی آصف جاہ اول کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد ’’ بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے ‘‘ اور ’’ میر محبوب علی خان کو نہیں جانتے کیا‘‘ کے زیرِ عنوان دو مضامین میں نظام دوم سے نظام ششم تک کا عہد سمیٹا گیا ہے۔ میر محبوب علی خان ریاست حیدر آباد کے سب سے محبوب فرماں روا تھے۔ میں نے اپنے بچپن میں کہن سالہ بزرگوں اور بڑی بوڑھیوں کو ’’محبوب علی پاشا‘‘ کے لیے رطب اللساں دیکھا ہے۔ ان کی سخاوت اور داد و دہش اپنی مثال آپ تھی۔ بیحد کم عمری میں یعنی صرف ڈھائی سال کی عمر میں ان کے سرپرسلطنت کا بوجھ آ پڑا تھا۔ ظاہر ہے کہ مشیرانِ سلطنت نے ساری ذمہ داری سنبھالی لیکن پوری وفاداری سے۔ نہ کوئی سازش نہ عہدے کا ناجائز استعمال۔
میرمحبوب علی خان پر لکھے گئے اس مضمون کے بعد مضامین کا یہ سلسلہ عارضی طورپررک گیا ہے۔ یہ بھی ہے کہ اس کے بعد میرعثمان علی خان کا دور شروع ہوتا ہے جوریاست حیدر آباد کا سنہری دور ہے۔ یہی وہ دور ہے جب عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا، ہائی کورٹ قائم ہوئی، مجلس مقننہ وجود میں آئی، باب الحکومت کی تنظیمِ نو ہوئی،متعدد کارخانے قائم ہوئے، دواخانے اورتالاب بنے، بے شمارفلاحی کام انجام دئیے گئے، پولس ایکشن کا سانحہ ہوا اورریاست حیدرآباد ہند یونین میں ضم کرلی گئی۔ آنے والے مضامین اس دور کا احاطہ کس طرح کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ علامہ اعجاز فرخ کے قلم میں جو جادو ہے اس کا جواب نہیں۔ جن مضامین کا میں نے بالائی سطور میں ہلکا سا ذکر کیا ان میں مستند حوالوں سے مدد لی گئی ہے اور یہ مضامین تحقیق کے معیارپرکھرے اترتے ہیں۔ انہوں نے شیشے کوشیشے کی طرح اور ریشم کو ریشم کی طرح برتا ہے۔ وہ شیشہ صفت بھی ہیں اور تیشہ بدست بھی۔ یہ علامہ اعجازفرخ کا مزاج ہے۔ وہ کوئی بات یوں ہی نہیں لکھتے، پوری جانچ اور پرکھ کے بعد ہی ان کا قلم چلتا ہے۔ وہ پکے حیدرآبادی ہیں اورحیدرآباد کی تہذیب ان میں رچی بسی ہے۔ اس مٹی کی سوندھی خوشبوان کے رگ و پئے میں سمائی ہوئی ہے۔ وہ آگہی کے عذاب سے آشنا اورناآگہی کے کرب سے آگاہ ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنے غم زدہ دل کے درد کو قرطاس پربکھیر دیا ہے تاکہ آگہی کووسعت ملے، آنے والی نسلیں اس آگہی سے روشناس ہوں اورآنے والا مورخ ان حقائق سے بہرہ ور ہوسکے۔ ان مضامین کے لیے وہ خود کو بھلا بیٹھے ہیں، ایک بے چینی سی ان میں نہاں بھی ہے اورعیاں بھی۔ اکثر سوچتا ہوں ….
جانے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

پروفیسر رحمت یوسف زئی
پروفیسر رحمت یوسف زئی

Prof.Rahmat Yousuf Zai
mob : 09848093057
بہ شکریہ : بزم اردو

Share
Share
Share