اردو صحافت اور اسپورٹس
ڈاکٹرفاضل حسین پرویز
اسپورٹس ابتداء ہی سے انسان کی ضرورت اور اس کی دلچسپی کا ایک سبب رہا ہے۔ انسان نے پہلے مختلف جانوروں کو اپنی سواری اور بار برداری کے لئے استعمال کیا اور پھر انہی جانوروں کو اپنے دلچسپی اور تفریح کے لئے استعمال کیا۔ شہ سواری، اونٹ سواری سے لے کر بیل گاڑی تک یہی نہیں بلکہ کتوں اور دوسرے جانوروں کو اسپورٹس کے لئے استعمال کیا ان میں دوڑ کے مقابلے رکھائے جسے مسلمہ حیثیت دی جاچکی ہے۔ اپنے دفاع اور تحفظ کے لئے پہلے وہ تلوار، برچھے اور مختلف ہتھیار جن میں تیر، نیزے، رائفل اور پستول بھی شامل ہیں۔ اب یہ اسپورٹس میں شامل ہوگئے ہیں۔ وقت کی رفتار کے ساتھ انسان کا سفر اور سواری ارتقائی منازل سے گذرتی رہی۔ سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز تک اس کے سفرکا ذریعہ بنیاب یہی اس کی تفریح اور اس میں اس کی مہارت کے مظاہرے کا وسیلہ بن گئے اور یہی ان کا روزگار بھی ہے۔ صحت جسمانی، طاقت آزمائی، ہر دور میں قابل قدر رہی۔ ہر دور میں انہیں عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا۔ اب یہی پیشہ بن گیا۔ یہ پہلوان باڈی بلڈرس، مارشل آرٹس کے ماہرین، قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک و قوم کی عزت اور پہچان بن گئے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ جب یہ مختلف بدعنوانیوں میں ملوث پائے گئے تو یہی قوم کی رسوائی کا ذریعہ بھی بن گیا۔ اسپورٹس سے دلچسپی فطری ہے۔ لہٰذا عوام میں اسپورٹس مین یا کھلاڑی ہر دور میں مقبول رہے۔ انہیں قومی ہیرو کا موقف حاصل رہا ہے۔ ان کی مقبولیت میں یقیناًصحافت کا بڑا اہم رول رہا ہے۔
اسپورٹس جرنلزم کا آغاز کب سے ہوا یہ کہنا مشکل ہے مگر یہ کہا جاتا ہے کہ 1727ء میں اسپورٹس جرنلزم کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب گھوڑ دوڑ کے کیلنڈر اور اس کے نتائج کو پیش کرنے کا آغاز ہوا تھا۔ 18ویں صدی میں باکسنگ کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل تھی جس کے نتائج فیصلہ کن ہوتے تھے تب بھی اُس دور میں باکسنگ کے مقابلوں کے اعلانات شائع ہوتے تھے۔ 1800ء میں باسکٹ بال کا آغاز ہوا۔ جس کے بعد کئی اور کھیل شروع ہوئے۔ جن میں گالفGolf کا بھی ذکر ہے۔ پہلی جنگ عظیم اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد اردو کے سنہری دور کا آغاز ہوا۔
20ویں صدی کے اوائل سے یوروپین اخبارات نے اسپورٹس سرگرمیوں کیلئے باقاعدہ صفحات مختص کئے۔ کرکٹ، اتھیلیٹکس اور رگبی (Rugbi) ۱ کے مقابلوں کی تفصیلات شائع کرنی شروع کیں۔ مانچیسٹر گارجین نے کرکٹ کرسپانڈنٹ کے طور پرNeville Cardus کو کرکٹ نمائندہ مقرر کیا۔ کارڈس کو اسپورٹس جرنلزم میں نمایاں خدمات پر حکومت برطانیہ نے نائٹ (Knight)کا خطاب دیا۔ ان کے جانشین John Arlott بی بی سی ریڈیو پر اپنی کامنٹری کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔ 1908ء میں منعقدہ لندن اولمپکس کے بعد سے یوروپین اخبارات نے اسپورٹس کووریج کے لئے زیادہ سے زیادہ صفحات مختص کئے۔ ڈیلی میل نے سر آرتھر کانن ڈائیل (Sir Arthur Conan Doyle) کی خدمات حاصل کی جنہوں نے مراتھن ریس کا کووریج کیا تھا۔ یاد رہے کہ سر آرتھر کانن ڈائیل وہ عظیم انگریزی ادیب ہیں جنھوں نے انگریزی جاسوسی ادب میں غیر معمولی کارنامے انجام دےئے۔ شرلاک ہومس اور ڈاکٹر واٹسن ان کے لازوال کردار ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد اسپورٹس اور اسپورٹس جرنلزم کو صحیح معنوں میں فروغ حاصل ہوا۔ گھڑدوڑ کے مقابلے مقبول عام ہونے لگے اور اخبارات میں اس سے متعلق خبروں کو دلچسپی سے پڑھا جانے لگا۔ 1924ء کے اولمپکس نے اسپورٹس جرنلزم کو اور فروغ دیا۔ لندن کے ایویننگ نیوز نے انگلینڈ کے سابق کرکٹ کپتان سرلیونارڈ ہٹن اور اولمپکس کے چمپئن اتھیلیٹ ہیرالڈ ابراہم کی خدمات حاصل کیں کہ وہ سابق کھلاڑیوں سے اسپورٹس موضوعات پر کالم لکھائیں۔ تبھی سے اخبارات جرائد میں مہمان کالم نویسی کا سلسلہ شروع ہوا۔ کئی خبر رساں اداروں اور نیوز سنڈیکٹ نے کنٹراکٹ کی بنیاد پر کھلاڑیوں کی خدمات حاصل کیں۔ اب بھی دنیا کے کئی نامور کھلاڑی کرکٹ، فٹبال، رگبی، ریسلنگ، باکسنگ اور مختلفکھیلوں سے متعلق اپنے کالم لکھ رہے ہیں۔ برطانیہ میں ہمیشہ سے بہترین اسپورٹس جرنلسٹ رہے ہیں۔ ڈیلی میرر، کے پیٹرولسن Hugh Mcllvanney، Ian Wooldridge، Brian Glanville، Patrick Collins نے غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔
بیسویں صدی میں اسپورٹس کے میدان میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جس کی وجہ سے اسپورٹس کی خبروں کو صفحہ اول یا صفحہ آخر پر جگہ ملنے لگی جن میں 1972ء کے میونخ اولمپکس کے دوران کھلاڑیوں کا قتل عام، 1974ء میں محمد علی کلے کا جارج فورمین کے ساتھ تاریخ ساز مقابلہ جس میں محمد علی نے آٹھویں راؤنڈ میں کامیابی حاصل کی تھی اس مقابلہ کو 20ویں صدی کا سب سے بہترین باکسنگ مقابلہ قرار دیا گیا ہے ۔ Heysel اسٹیڈیم سانحہ جس میں یوروپین کپ کے لئے اٹلی اور لیورپول کے مقابلہ کے دوران ایک دیوار کے منہدم ہوجانے سے 39شائقین ہلاک اور 600سے زائد زخمی ہوگئے تھے ۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے 1951ء کے ایشین گیمس نے ہندوستانی اخبارات میں اسپورٹس کالم اور صفحات کو مختص کرنے کیلئے سنجیدگی سے سوچنے کیلئے مجبور کیا۔ دہلی میں منعقدہ ایشین گیمس سے ہندوستانیوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوگیا تھا۔
اردو صحافت میں یوں تو اسپورٹس کو اہمیت دی جاتی رہی مگر ایک انقلابی دور کا آغاز 1978ء سے ہوا جب 17برس کے طویل وقفہ کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ سیریز کا آغاز ہوا۔ ہندوستان کی ٹیم نے بیشن سنگھ بیدی کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں طرف کے اخبارات نے خصوصی ضمیمے شائع کئے۔ دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کی تصاویر، ان کے تعارف، ہند۔پاک تعلقات کے استحکام میں کرکٹ ڈپلومیسی کا رول پر روشنی ڈالی۔
1979ء میں آصف اقبال کی قیادت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ہندوستان کا دورہ کیا تو اردو صحافت نے اس کو زبردست اہمیت دی۔ پاکستانی کرکٹرس کی تصاویر پہلی مرتبہ ہندوستان کے اردو اخبارات میں شائع ہونے لگیں۔ آصف اقبال کی قیادت میں سہ روزہ میاچ حیدرآباد کے لال بہادر اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ اس موقع پر رہنمائے دکن نے ایک خصوصی شمارہ شائع کیا جس میں آصف اقبال کی تصویر کے نیچے کیپشن لکھا گیا ’’کل کا میزبان آج کا مہمان‘‘ کیونکہ آصف اقبال کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔ نظام کالج سے تعلیم حاصل کی۔ 17 برس پہلے پاکستانی ٹیم نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ اور حیدرآباد میں بھی میاچ کھیلا تھا تب آصف اقبال حیدرآباد کی ٹیم میں شامل تھے۔ 17برس بعد وہ مہمان ٹیم کے کپتان بن کر اپنے پیدائشی وطن آئے تھے۔ یہ رہنمائے دکن کا خصوصی شمارہ ڈاکٹر برہان حسین سائنٹسٹ (مرحوم) نے مرتب کیا تھا۔1978 اور 1979 کی ہند پاک سیریز کے دوران اردو اخبارات میں ممبئی کے روزنامہ انقلاب نے سب سے بہترین رپورٹنگ کی تھی۔ اس خبار کے ایڈیٹر خالد انصاری نے پاکستان کے مختلف شہروں سے بنفس نفیس اس کی رپورٹنگ کی تھی۔ جبکہ پاکستانمیں سبھی اخبارات جنگ، جسارت، نوائے وقت کے علاوہ منیر حسین کی قیادت میں نکلنے والے کرکٹ ماہنامے ’’اخبار وطن‘‘نے تو کئی دستاویزی شمارے شائع کئے۔ اخبار وطن‘ برصغیر میں اسپورٹس جرنلزم بالخصوص کرکٹ جرنلزم کو اردو میں فروغ دینے کی سب سے بہترین مثال ہے۔ منیر حسین جن کا 2013ء میں انتقال ہوا پاکستان کے فرسٹ کلاس کرکٹر بھی رہے اور ریڈیو کامنٹیٹر اور بہترین اسپورٹس جرنلسٹ بھی۔ پاکستان کے ہر ایک کھلاڑی کے لئے اخبار وطن سرچشمۂ فیضان رہا۔ کیوں کہ ابھرتے کھلاڑیوں کی اس نے زبردست حوصلہ افزائی کی۔
ہند پاک کرکٹ سیریز اور ہندپاک ہاکی مقابلوں کی بدولت اسپورٹس کی خبریں ہندوستان کے اردو اخبارات کے صفحہ اول پر اور کھیلوں پر تبصرے ایک ایک صفحہ پر شائع ہونے لگے۔ 1980ء میں ممبئی میں ورلڈ کپ ہاکی چمپئن شپ منعقد ہوئی۔ اس موقع پر حیدرآباد سے شائع ہونے والا روزنامہ رہنمائے دکن ملک کا پہلا اردو اخبار بن گیا جس نے اس چمپئن شپ کا ایک خصوصی ضمیمہ شائع کیا جس کے مرتب ہونے کا اعزاز راقم الحروف (سید فاضل حسین پرویز) کو رہا۔ ہاکی کی تاریخ، ہندوستان کا مقام، کھلاڑیوں کے تعارف اور تصاویر پر مشتمل یہ ایک دستاویزی شمارہ رہا۔ اردو صحافت میں اسپورٹس کو اہمیت دینے کا دوسرا مرحلہ 1982ء کے ایشین گیمس سے شروع ہوا جب دہلی میں 31سال کے بعد دوبارہ ایشیاڈ کا اہتمام کیا گیا۔ اس وقت تک ہندوستانی اخبارات میں اسپورٹس جرنلزم کو اہمیت دینے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ کلر ٹیلیویژن عام ہوچکا تھا جس پر ایشیا کے مقابلوں کے لائیو ٹیلی کاسٹ نے عام ہندوستانی کو بھی کھیل کا شائق بنادیا تھا۔ پرنٹ میڈیا نے ایشین گیمس 1982ء کے لئے کئی کئی صفحات مختص کئے اور پہلی مرتبہ اردو اخبارات نے بھی ایشین گیمس پر خصوصی شمارے شائع کئے۔ حیدرآباد سے شائع ہونے والے رہنمائے دکن نے 4صفحات پر مشتمل ایشین گیمس اسپیشل شائع کیا جس میں نامور کھلاڑیوں کی تصاویر اور تفصیلات شائع کی گئیں۔ 1982ء ایشیاڈ کا لوگو APPU تھا۔ ہاتھی کو اپّو کا نام دیا گیا تھا اور یہ نام اس قدر مشہور ہوا کہ ضرب المثل بن گیا۔ دہلی کا اپوگھر اسی کی یادگارہے۔
1983ء میں ہندوستان غیر متوقع طور پر کرکٹ کا ورلڈ چمپئن بن گیا تو پھر اردو صحافت نے بھی اسپورٹس جرنلزم کو اہمیت دینی شروع کی۔ اس کے بعد کھیل کے کوئی بھی مقابلے ہوں اردو صحافت میں اسے نمایاں جگہ دی گئی۔ اگرچہ کہ زیادہ تر مسلم کھلاڑیوں کو اہمیت دی جاتی رہی کیوں کہ اردو کے زیادہ قارئین مسلمان ہی رہے ہیں۔ البتہ اردو صحافت نے ہر کھلاڑی کو اس کے معیار اور میرٹ کے لحاظ سے اہمیت دی ۔ کلکتہ، ممبئی اور دہلی کے اخبارات میں اسپورٹس کے صفحات مختص رہے۔ حیدرآباد میں سیاست میں اسپورٹس کے دو کالم شائع ہوتے تھے۔ ہر اتوار کو آریوڈکشٹ جو یو این آئی کے نمائندہ تھے اور اردو سے واقف تھے‘ کھیلوں پر تبصرہ کیا کرتے تھے۔ رہنمائے دکن میں جناب اعجاز قریشی، چنو نواب، غضنفر علی خان، حسن فرخ، برہان حسین سائنٹسٹ کے اسپورٹس سے متعلق مضامین اور تبصرے شائع ہوتے۔ رہنمائے دکن کے ایڈیٹر جناب سید وقارالدین خود ایک بہترین کرکٹر رہے۔ اور علی گڑھ یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے وہ کپتان بھی رہے۔ وہ اسپورٹس کی خبروں کواہمیت دیا کرتے۔ راقم الحروف (سید فاضل حسین پرویز) کو 1980ء کے بعد سے رہنمائے دکن میں اسپورٹس جرنلسٹ کی حیثیت سے مکمل اختیارات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جس کی بدولت رہنمائے دکن میں اسپورٹس کے لئے روزانہ نصف صفحہ اور دوشنبہ کو اسپورٹس راؤنڈاَپ کے لئے مکمل صفحہ مختص کیا گیا۔اس وقت حیدرآباد ہی نہیں بلکہ سارے جنوبی ہند میں رہنمائے دکن اسپورٹس کے لئے بے حد مقبول ہوا۔رہنمائے دکن میں ابھرتے کرکٹرس کے تعارف کا سلسلہ شروع کیا گیا چنانچہ ایسے کھلاڑی جو ٹسٹ کرکٹ کے دروازے پر دستک دے رہے تھے‘ ان کے انٹرویوز اور تعارف شائع کئے گئے۔ محمد اظہرالدین کا تعارف مارچ 1983ء میں رہنمائے دکن میں اس عنوان کے ساتھ شائع کیا گیا تھا ’’سرزمین دکن سے ایک اور آصف اقبال کا جنم‘‘۔ اظہرالدین اور دوسرے کرکٹرس کی تصاویر اور خبریں اس وقت انگریزی اخبارات میں شائع ہوتی تھیں مگر اردو اخبارات میں رہنمائے دکن پہلا اخبار تھا جس نے اظہرالدین کے ٹسٹ کیرےئر کے آغاز سے ڈیڑھ سال پہلے ان کا انٹرویو ان کی تصویر کے ساتھ 13؍فروری 1984ء میں شائع کیا تھا۔ اردو قارئین نے اظہرالدین کی تصویر پہلی بار رہنمائے دکن ہی میں دیکھی تھی۔ 1985ء میں اظہرالدین نے ٹسٹ کیریئر کا متواتر تین سنچریوں کے ساتھ آغاز کیا اور عالمی ریکارڈ قائم کیا تو نہ صرف حیدرآباد بلکہ پورے ہندوستان میں کرکٹ کی مقبولیت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ارشد ایوب‘ خالد عبدالقیوم‘ ذاکر حسین‘ عبدالعظیم‘ میر عظمت علی خان‘ فیاض بیگ جیسے کھلاڑیوں کے تعارف رہنما ئے دکن میں شائع ہوئے۔ ان میں سے ارشد ایوب نے ٹسٹ کرکٹ کھیلی۔ دیگر کھلاڑی فرسٹ کلاس میاچس کھیل کر ریٹائرڈ ہوئے۔
حیدرآباد اور فٹبال کا ایک دوسرے سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ حیدرآباد میں کئی اولمپئنس اور فٹبال کے عالمی مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کی کثیر تعداد ہے۔ ایک دور وہ بھی تھا جب ہندوستانی ٹیم میں سات کھلاڑی حیدرآباد سے ہوتے۔ حیدرآبادی فٹبال کا زوال ہوا۔1982-83ء میں حیدرآباد میں نظام گولڈ کپ اور نہرو کپ فٹبال ٹورنمنٹ کا احیاء عمل میں آیا تو رہنمائے دکن نے فٹبال کے سابق کھلاڑیوں کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کے انٹرویوز اور تعارف کا سلسلہ شروع کیا۔ عزیز، نورمحمد، شاہد حکیم، اعظم، سوسے،افضل،حبیب، شبیر علی، اکبر جیسے کھلاڑیوں کے انٹرویوز ایک ایک صفحہ کے شائع کئے گئے۔یہ دستاویزی نوعیت کے حامل تھے۔
گذشتہ 30برس کے دوران اردو صحافت میں اسپورٹس کی اہمیت میں اضافہ ہوتا رہا۔انگریزی اخبارات، جرائد تو ہمیشہ سے اسپورٹس کو اہمیت دیتے رہے۔ 8؍اگست 1985 کوراقم الحروف کی محمد اظہرالدین پر پہلی اردو کتاب ’’اظہرالدین کرکٹ کا شہزادہ‘‘ شائع ہوئی جو اسپورٹس جرنلزم میں اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی۔ تاہم اردو میں باقاعدہ اسپورٹس جرنلزم کا کوئی تصور نہیں تھا۔ کلکتہ سے محمڈن اسپورٹنگ کلب کے ترجمان رسالے کے طور پر فلم اور اسپورٹس الیف انصاری شائع کیا کرتے تھے۔ یہ رسالہ جو کھلاڑیوں اور کھیل کے شائقین میں بے حد مقبول تھا‘ بند ہوگیا۔ 1987ء میں حیدرآباد سے نوجوان صحافی شجاعت علی راشد نے ماہنامہ ’’کھیل کے میدان سے‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا جس کی مجلسادارت میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ اس رسالے کی رسم اجرائی حیدرآباد کے ہوٹل تاج بنجارہ میں کپل دیو نے انجام دی تھی۔ یہ ہندوستان کا پہلا مکمل اسپورٹس میگزین تھا جسے اس دور کے سبھی کرکٹرس نے پسند کیا تھا۔1987ء کے اواخر میں سائنس، اسپورٹس اور فلم نامی اسپورٹس میگزین سید فاضل حسین پرویز کی ادارت میں حیدرآباد سے شائع ہوا جس کے منیجنگ ایڈیٹر احمد منیرالدین خالد مجلس ادارت میں شاہد حکیم، شکیل مرزا، مرزا عبدالعلیم بیگ، علاء الدین ذکی شامل تھے۔ اس ماہنامہ کے 16رسالے شائع ہوئے اسے دلیپ کمار نے بھی پسند کیا تھا۔ اس کے علاوہ ظہیرعباس، جاوید میاں داد، سید کرمانی، سنیل گواسکر جیسے عظیم کھلاڑیوں نے پسند کیا تھا۔لیکن یہ محدود وسائل اور ناسازگار حالات کی نذر ہوگیا۔ دہلی سے انیس خان نے اخبار نوجوان کی اجرائی عمل میں لائی تھی جو اسپورٹس اور ادب پر ایک معیاری ماہنامہ رسالہ تھا۔ چند برس بعد یہ بھی رسالہ بند ہوگیا۔7؍جنوری 1988ء کرکٹ، ریکارڈ اور ریفرنس بک ’’کرکٹ‘‘ راقم الحروف نے شائع کی جو اردو زبان میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی۔ لگ بھگ 17برس بعد روزنامہ منصف حیدرآباد کے اسپورٹس جرنلسٹس رحیم حیدر نے ’’حیدرآباد اور فٹبال‘‘ کتاب مرتب کی۔ محمد شجاعت علی راشد نے 1987ء سے 1989ء کے اواخر تک اسپورٹس جرنلسٹ کی حیثیت سے پہلے سیاست اور پھر رہنمائے دکن میں خدمات انجام دیں اور رہنمائے دکن کے لئے انہوں نے کئی یادگار اور دستاویزی نوعیت کے حامل اسپورٹس ایڈیشنس شائع کئے اور کئی بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑیوں کے انٹرویوز لئے۔ حیدرآباد کے سینئر اسپورٹس جرنلسٹس میں اعجاز قریشی سرفہرست ہیں جو آندھراپردیش اسپورٹس جرنلسٹس اسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔ ان کے تینوں فرزندان احسن قریشی، اسد قریشی اور ارشد قریشی نے بھی اسپورٹس جرنلزم میں نام کمائے۔آریوڈکشٹ اور ان کے فرزند ارون ڈکشٹ سیاست کے لئے اسپورٹس کالم لکھا کرتے تھے۔ عرفان جابری اور احتشام الحسین مجاہد اب اسپورٹس جرنلسٹ کی حیثیت سے سیاست کے لئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جناب عطاء محمد مرحوم اسپورٹس جرنلسٹ کی حیثیت سے بے حد مشہور تھے۔ منصف کے آغاز سے اپنی آخری سانس تک وہ اسپورٹس کالم لکھتے رہے اور اسپورٹس مقابلوں میں شریک ہوتے رہے۔ جناب رحیم حیدر ممتاز اسپورٹس جرنلسٹ‘ منصف سے وابستہ ہیں‘ انہوں نے فٹبال کو فروغ دیا۔ عمر فاروق (نمائندہ بی بی سی پایونیر) نے اپنے کیریئر کا آغاز روزنامہ آفاق حیدرآباد کے اسپورٹس جرنلسٹ کی حیثیت سے کیا تھا۔ وہ ایک بہترین اسپورٹس مبصر ہیں۔ رشید انصاری نے بھی کافی نام کمایا۔اسد شمیم اور اختر ترمذی روزنامہ اعتماد سے وابستہ ہیں اور اپنے مضامین اور تبصروں کے لئے مشہور ہیں۔ جناب ایم اے رحیم خود بھی ہاکی کھلاڑی رہے اور انہوں نے 1980ء میں ورلڈ ہاکی چمپئن شپ ممبئی اور 2004ء میں اتھینس اولمپکسں میں آفیشیل اور آبزرور کی حیثیت سے ہندوستان کی نمائندگی کی۔ چمپئنس ہاکی ٹرافی لاہور میں بھی انہوں نے شرکت کی اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف مقامات پر منعقدہ نیشنل چمپئن شپ میں وہ مدعو کئے جاتے رہے۔ کئی اخبارات کے لئے اسپورٹس ایڈیٹر رہے حالیہ عرصہ سے راشٹریہ سہارا میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسپورٹس جرنلسٹ کی حیثیت سے اگر کسی نے کل ہند سطح پر اپنی پہچان بنائی تو وہ تھے ہارون رشید مرحوم‘ جو پہلے بلٹز اور پھر انقلاب ممبئی کے ایڈیٹر رہے۔ ایاز میمن بین الاقوامی شہرت یافتہ صحافی ہیں۔ ان کے مضامین کا اردو اخبارات میں ترجمہ چھپتا ہے۔ کولکتہ کے الیف انصاری کو ہندوستانی فٹبال کا مسیحا کہا جاتا ہے جنہوں نے فٹبال کے لئے قلمی جہاد کیا۔ جناب ظفر علی خان (اخبار مشرق) گذشتہ 33برس سے اسپورٹس جرنلسٹ کی حیثیت سے اپنے آپ کو منواچکے ہیں۔ اولمپکس ایشیا کی رپورٹنگ کا انہیں اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ابراہیم ہوش مرحوم کولکتہ کے نامور اسپورٹس جرنلسٹ رہے جو کلکتوی زبان میں مکالمہ کے انداز میں مضامین لکھا کرتے تھے۔ اردو اسپورٹس جرنلزم میں جاوید نہال (ج ن) نے نیک نامی حاصل کی تھی۔ سمیع احمد ملک‘ رئیس الدین فریدی، محمد سمیع اللہ مرحوم، خورشید اختر، التجاعثمانی، منصور الدین فریدی، فضل امام مسلمہ اسپورٹس جرنلسٹس ہیں‘ سید شاہد حکیم جن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اردو صحافت کے فروغ میں اسپورٹس کالم نویسی، خبروں، فیچرس اور تصاویر کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ اردو صحافت عموماً کرکٹ کو ترجیح دیتی ہے یاکرکٹ سے متعلق خبریں اور مضامین اسپورٹس کے صفحہ پر غالب رہتی ہیں۔ سید پرویز قیصر نے کرکٹ کے اعداد و شمار کے ماہر (Statistician) کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی ہے۔ یہ مختلف خبرر رساں اداروں کے علاوہ انگریزی اخبارات سے وابستہ ہیں اور اردو اخبارات بھی ا ن سے خدمات حاصل کرتے ہیں۔فی الحال وہ انڈین ایکسپریس سے وابستہ ہیں۔
اسپورٹس جرنلزم کو جس طرح سے فروغ حاصل ہوا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران اسپورٹس کو ایک صنعتی و تجارتی شعبہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ آئی پی ایل، آئی بی ایل نے کھیل اور کھلاڑی کے ساتھ ساتھ اسپورٹس جرنلزم کو زبردست فروغ دیا جس کے بعد اردو صحافت نے بھی باقاعدہ اسپورٹس جرنلسٹس کے تقرر کا آغاز کیا۔ پہلے کے مقابلہ میں اب بیشتر اخبارات میں اسپورٹس جرنلسٹس ہیں جو اسپورٹس کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ جات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ اسپورٹس کا شعبہ اب محض اسپورٹس تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ سیاسی شخصیات کی اسپورٹس اداروں سے وابستگی نے اسے بھی آلودہ بنادیا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران اسپورٹس کی خبروں کو کھلاڑیوں کے کارناموں سے زیادہ کھیل کے مختلف شعبوں میں دھاندلیوں اور بدعنوانیوں‘ کھلاڑیوں کی سٹہ بازی، انڈرورلڈ سے ان کے تعلقات، رشوت ستانی، اقرباء پروری کی وجہ سے اہمیت دینے لگے ہیں۔ اسپورٹس جرنلسٹ نے تحقیقاتی صحافت کو نئی جہت دی صحافیوں کی خفیہ ٹیپس اور ٹیلیویژن کے لئے اسٹنگ آپریشنس کی وجہ سے کئی اسکامس بے نقاب ہوئے۔ کئی کھلاڑیوں کا کیریئر ختم ہوا۔
اولمپکس، ایشیا اور ورلڈ چمپئن شپس میں ڈرگس، ڈوپنگ کے افشاء نے کئی کرکٹرس کو ان کے اعزازات سے محروم کردیا۔ کرکٹ اور ٹینس کے علاوہ کئی دیگر کھیلوں میں فکسنگ کے واقعات منظر عام پر آئے۔ حال ہی میں آئی پی ایل میں کرکٹرس کی میاچ فکسنگ کے افشاء کے بعد نہ صرف کچھ کھلاڑی جیل کے اندر ہیں بلکہ بورڈ آف کرکٹ کنٹرول آف انڈیا (بی سی سی آئی) کے صدر کو بھی اپنے عہدہ سے ہٹنا پڑا۔اس قسم کی خبریں اردو اخبارات کی بھی زینت بنتی ہیں اور 24×7ٹیلیویژن پر لائیو ٹیلی کاسٹ دیکھنے کے باوجود عوام اخبارات اور جرائد میں مفصل پڑھنا چاہتے ہیں۔ کرکٹرس کے معاشقے، ان کی بے راہ روی اور ان کی نجی زندگی سے متعلق خبریں اور مضامین اردو اخبارات اور جرائد کی زینت بنتی ہیں جس سے قارئین کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔
اسپورٹس جرنلزم کیریر کے طور پر:
اسپورٹس جرنلزم کی ان دنوں بہت زیادہ قدر و منزلت ہے کیونکہ اس وقت اسپورٹس کا شعبہ فلمی دنیا کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود فلمی دنیا سے وابستہ مشہور شخصیات اسپورٹس سے وابستہ ہونے لگی ہیں۔ کئی مشہور فلمی اداکاروں نے جن میں شاہ رخ خان، جوہی چاؤلہ، شلپا شیٹی، ناگرجنا، پریتی زینٹا کی انڈین پریمیئر لیگ (IPL) میں کرکٹ ٹیمیں ہیں جبکہ تلگو اور ہندی فلموں کے اداکار ناگرجنا اور چرن راج نے (IBL) انڈین بیاڈ منٹن لیگ اور پولو کی ٹیمیں خریدی ہیں۔ جب کبھی ملک میں آفات سماوی و ناگہانی حادثات سے نقصانات ہوئے ہیں تو فلمی اداکاروں نے انسانی بنیادوں پر سڑکوں پر نکل کر چندے اکٹھا کئے اور چیاریٹی کے مقصد سے دوستانہ کرکٹ میاچس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اب تو فلمی اداکاروں کے درمیان باقاعدہ ہر سال کرکٹ چمپئن شپ منعقد ہونے لگی ہے۔ کئی مشہور فلمی اداکار اپنے دور کے اچھے کھلاڑی بھی رہے۔ دلیپ کمار بہترین فٹبال کھلاڑی رہے وہ انجمن اسلام ممبئی کی ٹیم میں شامل رہے۔ کرکٹ سے انہیں زبردست لگاؤ رہا۔ امیتابھ بچن، آفتاب سداسیوانی بھی اچھے کرکٹر ہیں جبکہ مشہور کریکٹر ایکٹر جانکی رام نیشنل سائیکل چمپئن رہے۔اجئے جڈیجہ کرکٹر نے فلمی دنیا میں بھی قسمت آزمائی۔ مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ انہوں نے ایک فلم میں کلیدی رول ادا کیا۔ بعض کرکٹرس کامیاب اداکار ثابت ہوئے اور انہوں نے فلم کے علاوہ ٹیلیویژن سیریل میں کامیابی حاصل کی۔ ٹسٹ کرکٹر شکلا نے بھی اس میدان میں کامیابی حاصل کی۔ دوسری طرف کئی فلمیں کھیل کی موضوعات پر بنائی گئیں جو کامیاب ہوئیں ان میں لگان (کرکٹ پر)، چک دے انڈیا (ہاکی)، گول (فٹبال)، بھاگ ملکھا بھاگ (اتھیلیٹکس)، اسٹرائکر (کیرم)، جو جیتا وہی سکندر (سائیکلنگ)، آل راؤنڈر‘ چین کھلی کے مین کھلی، بے وفا صنم، اقبال(کرکٹ)، جنت (میاچ فکسنگ)، جگر (مارشل آرٹس)، اپنے (باکسنگ)، رستم و سہراب، کنگ کانگ، دارا سنگھ، رستم بغداد، رستم ہند (ریسلنگ)، فیراری کی سواری، اپرادھ (موٹر اسپورٹ)، شطرنج کے کھلاڑی (شطرنج)، ہاتھی میرے ساتھی (سرکس اور الیفنٹ ریس)، آ گلے لگ جا (اسکیٹنگ) میری کوم (باکسنگ چمپئن)وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جبکہ کئی فلموں میں کہیں نہ کہیں اسپورٹس کے مناظر کو شامل کیا جاتا ہے۔ فلموں میں ہیرو یا ہیروئن کو کھلاڑی کے روپ میں بھی پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے ماں اور ممتا میں جتیندر کو ہاکی کھلاڑی کے روپ میں پیش کیا گیا۔ بعض فلموں میں گھوڑدوڑ، پولو، اسکائینگ،بریج (تاش)، اسنوکر، بلیرڈ، ٹینس، بیاڈمنٹن، گلائڈنگ، تیراکی کے مناظر پیش کئے جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اڈونچر سے بھرپورمناظر بھی اسپورٹس کے طور پر فلموں میں شامل کئے جاتے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اسپورٹس اور فلم کا ایک اٹوٹ رشتہ بن گیا ہے۔ ویسے بھی کھلاڑی اوراداکار کا رشتہ ہمیشہ سے رہا ہے۔جیسے اپنے دور کے مشہور کھلاڑی اور ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان منصور علی خان پٹوڈی جنہیں ٹائیگر کہا جاتا تھا‘ کشمیر کی کلی یعنی شرمیلاٹائیگر سے شادی کی تو فلم اور اسپورٹس ایک اٹوٹ بندھن میں بندھ گئے۔ فلمی خبریں اسپورٹس کالموں میں اور اسپورٹس کی خبریں فلمی کالموں میں چھپنے لگیں۔ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ آج تک جاری ہے۔ ایک دور تھا جب ڈریم گرل ہیمامالنی اور کرکٹر وینکٹ راگھون کے عشق کی داستانیں عام ہوگئیں۔ پاکستانی کرکٹر عمران خان اور ہندوستانی اداکارہ زینت امان کا رومانس ہند و پاک تعلقات کا سبب بنا۔ پاکستانی کرکٹر محسن خان نے رینا رائے سے شادی کی۔ سرفراز نواز اور شیتل اکثر محفلوں میں ساتھ ساتھ دیکھے گئے۔ وسیم اکرم اور شسمیتا سین کے عشق کے چرچے بھی عام ہوئے۔ اظہرالدین نے سنگیتابجلانی سے شادی کی۔ویراٹ کوہلی اور انوشکا کی داستان ان دنوں عام ہے۔ اس طرح کھیل اور فلم ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بن گئے۔ اسپورٹس کے شائقین اور فلموں کے رسیا کے مشاغل مشترک ہوگئے جس کا اثر اردو صحافت پر بھی پڑا۔ کیوں کہ اردو صحافت ان واقعات کو نمک مرچ لگاکر پیش کرتی اور شائقین کی دلچسپی کو برقرار رکھتی۔
جن نوجوانوں یا طلبہ کو اسپورٹس کیریئر کے طور پر اختیار کرنا ہے انہیں اسپورٹس کے ساتھ ساتھ فلم اور ٹی وی میں بھی اتنی ہی دلچسپی ضروری ہے۔ اردو صحافت نے فلم اور اسپورٹس کے لئے علیحدہ علیحدہ نمائندے اور ایڈیٹرس کے تقررات کا آغاز کیا ہے۔ ایسے صحافی جو فلم اور اسپورٹس دونوں میں ایک ساتھ دلچسپی رکھتے ہیں ان کا کیریئر درخشاں ہے۔
اسپورٹس جرنلزماور روزگار
اسپورٹس جرنلزم ایک علیحدہ مضمون ہے۔ اب تو باقاعدہ اس کے لئے بھی ڈپلوما اور ڈگری کورسس کا آغاز ہوچکا ہے۔ مضامین میں مہارت اور اسپورٹس کے شعبے میں اَپ ٹو ڈیٹ نالج کے ساتھ ہی کوئی اسپورٹس جرنلسٹ کامیاب ہوسکتا ہے۔ جس کھیل کے بارے میں وہ لکھتاہے یا کسی مقابلے کی رپورٹنگ کرتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کھیل کے پس منظر، قواعد، کھلاڑیوں کے پس منظر، ان کی کارکردگی، کیریئر ریکارڈ سے پوری طرح واقف رہے۔ کھلاڑیوں کے کیریئر کو بگاڑنے اور سنوارنے میں بھی اسپورٹس جرنلسٹ کا اہم رول ہوتا ہے۔ مثبت اور تعمیری انداز تحریر سے کیریئر سنورتے ہیں۔ تنقید برائے تنقید سے کیرےئر بگڑتے ہیں کیونکہ تحریر اور پروپگنڈہ کا کھلاڑیوں پر نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔ اچھا اسپورٹس جرنلسٹ وہ ہے جو کسی اسٹار کھلاڑی کا تعاقب کرنے کے بجائے ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ ان کے ساتھ ہونیوالی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائے۔اسپورٹس جرنلسٹ پرنٹ یا الکٹرانک میڈیا میں کامیاب ہوسکتا ہے‘ کامنٹیٹر کی حیثیت سے بھی وہ خدمات انجام دے سکتا ہے اور مبصر کی حیثیت سے بھی ۔ فری لانس اسپورٹس جرنلسٹ کی حیثیت سے وہ قومی و بین قومی اخبارات، ٹی وی چیانلس، سوشل میڈیا، بلاگس یاریڈیو کے لئے خدمات انجام دے سکتا ہے۔ یا پھر مختلف پرائیویٹ اور پبلک سکٹر کے اداروں میں ہونے والی اسپورٹس سرگرمیوں کا نگران بھی بن سکتا ہے۔