ابراہیم جلیس ۔ از ۔عوض سعید
بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے پیچھے ایک تاریخ ہوتی ہے۔ ابراہیم جلیس ان ہی میں سے ایک تھے۔ اس تاریخ ساز شخصیت کے ہر بُنِ مو کا احاطہ دہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں ان کے قرب کی دولت میسر ہوئی ہو۔ میرے لیے تو ابراہیم جلیس کی صرف دو ملاقاتیں ہی سرمایہ ہیں۔ مجھے سنہ اور تاریخ ٹھیک طرح یاد نہیں۔ غالباً ٤٨ اور ٥٠ کے درمیان شاذ کے ساتھ پہلی بار جلیس سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم ہائی اسکول کے طالب علم تھے۔ فصیح الدین اکثر ان کے سر پر سوار رہتے اور کسی نا کسی طرح ’’پرچم‘‘ کے لیے جلیس سے مضمون لکھوا لیتے۔
دوسری طرف نقوش، ساقی، ہمایوں، ادبی دنیا، نیا دور اور ادب لطیف میں ابراہیم جلیس چھائے ہوے رہتے۔ دراصل جلیس ’’زرد چہرے‘‘ کی اشاعت ہی سے شہرت پا چکے تھے۔ اور مقبولیت میں کسی طرح کرشن چندر سے کم نہ تھے۔ پھر چور بازار، تکونہ دیس دو ملک ایک کہانی نے انہیں لازوال شہرت بخشی، جلیس کے ہزاروں مداحوں میں ہم بھی تھے۔ اس لیے ہماری عین خواہش تھی کہ کسی نہ کسی طرح اس قد آور ادیب سے ملا جائے۔
اس زمانے میں ہمارے ایک ساتھی فضل اللہ ہوا کرتے تھے۔ وہ بھی جلیس کے بڑے مداحوں میں سے تھے۔ ہم نے جب ان سے رجوع کیا تو انہوں نے ہم سے وہ کاپیاں طلب کین جن میں ہمارے چند مزاحیہ مضامین بکھرے پڑے تھے تاکہ وہ جلیس کو دکھا سکیں کہ ہم لوگوں کو آگے لکھنا بھی چاہیے یا
شاذ اس وقت اپنے احباب کے لیے مزاح نگار مصلح الدین تھے۔ شاعر نہیں تھے۔ میرا کل اثاثہ ایک کہانی دو مزاحیہ مضامین تھے جس کے بل بوتے پر میں پکی روشنائی سے اپنا نام لکھوانا چاہتا تھا۔ فضل صاحب نے ایک دن یہ کہہ کر ہم سے کاپیاں لے لیں کہ ملاقات تو بعد میں بھی ہو سکتی ہے لیکن جلیس کی رائے ہم نوداردانِ بساطِ ادب کے لیے ضروری ہے۔ کاپیاں ان کے حوالے کر دی گئیں۔ لیکن عرصہ دراز تک ہمارے کانوں میں ذرا سے ردّ و بدل کے ساتھ یہی بات سنائی دیتی رہی کہ امروز فردا میں کاپیاں رائے کے ساتھ واپس کر دی جائیں گی۔ اور آخر ایک دن کاپیاں واپس آ گئیں۔ اس میں جلیس کی رائے درج نہ تھی۔ جو چیزیں انھیں پسند آئی تھیں اس پر انھوں نے رائٹ کا نشان لگا دیا تھا۔ زیادہ نشانات شاذ کے حصّے میں آئے تھے۔ میرے حصّے میں ایک نشان آیا تھا جو میری کہانی کے سرپر منڈلا رہا تھا۔
ہمیں یہ بھی شک تھا کہ کہیں فضل صاحب نے یہ حرکت نہ کی ہو۔ اس لیے ہم نے جلیس سے ملنے کی ٹھان لی۔ ایک دن ’’نظامیہ رستوران‘‘ پہنچے تو جلیس اپنے مداحوں میں گھرے ہوے چہک رہے تھے۔ مجھے یاد ہے شاذ نے بیرے کے ہاتھ میں ایک چٹّھی تھما دی اور اشارہ سے بیرے کو سمجھا دیا تھا کہ جلیس تک یہ چٹّھی پہنچا دے۔
تاجدار قلم ابراہیم جلیس۔
’’ہم لوگ آپ سے ملنے کے مشتاق ہیں۔ پانچ منٹ کے لیے زحمت کیجیے۔ ‘‘
شاذ نے غالباً کچھ اس طرح کی عبارت لکھی تھی۔ چٹّھی ملتے ہی وہ فوری ہماری طرف آئے۔ اور مسکراتے ہوۓ کہا۔ ’’بھئی آپ لوگوں نے یہ تاجدار قلم کیا لکھ دیا۔ ‘‘
جب ہم لوگوں نے کاپیوں پر لگائے ہوے نشانات کی تشریح چاہی تو انھوں نے قدرے رکتے ہوے مجھ سے کہا کہ ’’آپ افسانے لکھیئے اور شاذ سے کہا کہ وہ مزاح میں اپنا زور آزمائیں۔
شاذ مزاح نگار بنتے بنتے رہ گئے اور آگے چل کر شاعر بن گئے۔ اور میں نے افسانہ نگاری شروع کر دی جو اب تک جاری ہے۔ جلیس کی نظامیہ والی وہ ملاقات آج تک میرے ذہن میں محفوظ ہے۔
غالباً 1962ء میں وہ پاکستان سے حیدرآباد آئے تھے۔ معین فاروقی نے ان کے اعزاز میں ایک دعوت کی تھی۔ فاروقی نے میرا تعارف کراتے ہوے کہا۔
’’یہ میرے دوست عوض سعید ہیں____‘‘
’’افسانہ نگار عوض سعید‘‘ جلیس نے اس طرح کہا جیسے میرا نام اب ان کے لیے نیا نہیں رہا۔
میں خوش ہو گیا کہ جلیس کو کم از کم میرا نام یاد ہے۔
آج ابراہیم جلیس ہم میں نہیں رہے لیکن مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میرے ہاتھ میں ایک کاپی آج بھی ہے جس پر خلوص سے نشان لگانے والا کوئی نہیں۔(بزم اردو)
نوٹ ۔ اب نہ ابراہیم جلیس رہے اور نہ عوض سعید ! دونوں کی تحریریں زندہ رہ گئی ہیں۔ ایک بات یہ کہ ابراہیم جلیس میرے خسر جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب کے کلا فیلو اور اچھے دوست تھے۔(جہان اردو)