نام کتاب :تنقیدی اسمبلاژ
ترتیب کار :حقانی القاسمی ۔ ۔ ۔ مبصر ۔ ڈاکٹر منور حسن کمال
صفحات : 456 ۔ ۔ ۔ قیمت :185/- روپے
رابطہ :عرشیہ پبلی کیشنز، A-170 ،گراؤنڈ فلور۔3، سوریہ اپارٹمنٹ،دلشاد کالونی، دہلی۔95
صلاح الدین پرویز کی تخلیقی روح سے تنقیدی مکالمہ
صلاح الدین پرویزایک عاشق صادق، ایک صوفی منش اور ایک آوارۂ شبستاں شخص کا نام ہے۔ وہ اپنی تخلیقات کے توسط سے انسانی تخلیق اور انسانی رشتوں کی معنویت کی تہیں کھولتے ہوئے قاری کو اس انسانی روایت کے نزدیک لانے کی کوشش کرتے ہیں، جن کے لیے اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ پھر متجسس اور متلاشی نگاہیں شریانوں کے راستے روحانی فضائے بسیط میں پھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنی آنکھیں کبھی کتابوں میں رکھ کے بھول جاتے ہیں اور کبھی کسی تھاپ سے گھبراکر ٹوٹتے بکھرتے نظر آتے ہیں۔ اسی ٹوٹتی بکھرتی آواز کو کسی تھاپ نے نہیں بلکہ کتابوں سے حقانی القاسمی نے اٹھایا کہ یہ انہی کا حق بھی تھا اور انہی کا جنون اس کو اٹھاپانے کی سکت بھی رکھتا تھا، ….اسی جنون کا ثمرخیز نتیجہ ہے ’تنقیدی اسمبلاژ‘۔ حقانی نے ’تنقیدی اسمبلاژ‘ میں ان سبھی بکھری ہوئی دستکوں، نمرتاؤں اور آئیڈنٹٹی کارڈ کو دشتِ تحیرات سے نکال کر قاری کے سامنے پیش کرنے میں ذرا دیر نہیں کی، اگر دیر کرتے تو شاید صلاح الدین پرویز کی روح ان سے مکالمہ کرتی نظر آتی اور اس مکالمے میں حقانی القاسمی کو ایک ہزار دو راتوں تک جواب دینا پڑتا، لیکن جواب پھر بھی نامکمل ہی رہتا، اس لیے کہ سبھی رنگ کے ساون اپنے تمام تر کنفیشن کے ساتھ آتش و نور کے طلسم کدہ میں جدید تر تخلیقی اظہار کا استعارہ بن کر بن میں ناگنوں کی مدح میں چندن بدن سے لپٹے عشق ناگ کی طرح صلاح الدین پرویز کے روحانی رشتوں کی بازیافت کررہے ہوتے۔یہ تبصرہ اردو سخن سے لیا گیا ہے۔
زیرنظر کتاب ’تنقیدی اسمبلاژ‘ میں حقانی القاسمی نے سینۂ صلاح الدین پرویز میں جو بھی راز ہائے کائنات تھے، انھیں سموکر اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ پرویز کی زندگی کا ایک دستاویز بن گیا ہے، ایسا دستاویز جس میں ’استعارہ‘سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔انتساب میں ہی حقانی القاسمی نے آواں گار مجلہ، استعارہ کے حوالے سے بڑا اچھا متاثر کن جملہ لکھا ہے کہ ’استعارہ‘ کے نام جس کی موت کا ملال زندگی کی آخری سانس تک رہے گا۔‘ اس جملہ میں جو گہری معنویت ہے، اس کو وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے ’استعارہ‘ کے عروج کا دور دیکھا ہے اور اس میں چھپنے والے ادبی مضامین اور مباحث کی گونج صرف برصغیر میں ہی نہیں بلکہ باہر بھی سنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’استعارہ‘ نے ادب کے انجماد کو توڑا تھا اور ادب میں تحرک اور طغیانی کی کیفیت پیدا کی تھی کہ آج بھی لوگ ’استعارہ‘ کو شدت سے یاد کرتے ہیں اور اس کی کمی کو محسوس کرتے ہیں۔
حقانی القاسمی نے اس کتاب میں وہ تمام مضامین و مقالات شامل کیے ہیں جو صلاح الدین پرویز کی کتابوں ’ژاژ، نیگیٹو، جنگل، نمرتا، آئیڈنٹٹی کارڈ، سبھی رنگ کے ساون، کتاب عشق، ایک ہزار دو راتیں، دی وار جرنلس، آتما کے نام پرماتما کے پتر، دشت تحیرات ، کنفیشن اور بنام غالب‘ کے حوالے سے مقتدرناقدین نے لکھے ہیں۔ صلاح الدین پرویز کی لفظیات اور اسلوبیات معاصر شاعروں سے مختلف تھی، اس لیے اس کے تعلق سے بھی کچھ تحریریں شامل کی گئی ہیں اور ان تحریروں میں صلاح الدین پرویز کے فکری اور اسلوبی امتیازات اور خصائص پر خصوصی روشنی ڈالی گئی ہے۔
ان تمام تحریروں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ صلاح الدین پرویز نہایت خلاق ذہن کے حامل تھے اور انھوں نے نظمیہ شاعری میں نئے آسمان اور نئی زمین دریافت کی تھی۔انہوں نے مختلف ادبیات کا بہت گہرا مطالعہ کیا تھا، خاص طور سے کافکا، کامیو، ساتر اور بودلیئر سے ان کی گہری ذہنی مناسبت تھی۔ مشرقی اور مغربی زبانوں سے آگہی نے بھی ان کے وژن کو وسعت عطا کی تھی اور اس وژن کا اظہار ان کی نظموں میں بہت عمدہ طریقے سے ہوا ہے۔
اس کتاب کے صفحات پر گوپی چند نارنگ کا عظمتِ رفتہ کا سراغ، پروفیسر سحرانصاری کا متوازیت کی مثال اور ثریاسعید کا ایک شاہد معصوم ایسے مضامین ہیں، جو ابتدائے تخلیق سے تخلیقی شعور کی تہہ تک کو روشن کرتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ کے ان خیالات سے کسی طرح بھی مفر کی گنجائش نہیں کہ عہد نو کی زندگی کو اپنے وژن کی لافانی وسعتوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے نظموں کی تخلیق پرویز کا وہ عظیم انسانی کارنامہ ہے، جس کی ذمہ داری آج کے شاعر اور آج کے تخلیق کار پر ہے۔پرویز کو یہ احساس ہے کہ دنیا بھر کی عقل اور فراست اور فلسفیانہ قوتیں یک جا ہوکر بھی ایک نظم نہیں بن سکتیں۔
صلاح الدین پرویز نظم کی وجودیت کو ایسے منطقی قضیہ سے باہر لانے کی کوشش کرتے ہیں جس کو ’سارتر‘ نے اپنا منزل مقصود تصور کرلیا تھا۔
یہ ضروری نہیں
ہیٹ اپنے سروں پر جمائے
نئے اجنبی ریزوں کو چھپائے ہوئے پیٹھ میں
بارشیں اپنے کاندھوں پہ ڈالے ہوئے
سب نمازیں پہاڑوں سے لوٹیں
پرندے کے ہونٹوں پہ دونوں زبانوں کو روکیں
دعا کے لیے ہاتھ باندھیں
صلاح الدین پرویز کی ایسی نظمیں جو عشق رسولؐ سے سرشار اور اسلامی فکر کے تابندہ نقوش رکھتی ہیں، زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایسا سراپا ابھر گیا ہے جس میں بقول نارنگ ’ارضی مماثلتوں کے استعارے بھی ہیں اور زمین سے بلندالوہی کیفیات کو نمایاں کرنے والی صلاحیتیں بھی۔‘
وہ شام ابرو، وہ رات گیسو
وہ جسم جھایا، وہ چاند سا ماتھا
وہ آنکھیں شمعیں، وہ ہونٹ صبحیں
سفید پھولوں کا باغ نیارا
اداس بچوں کا باپ پیارا
کہ جس کی آنکھوں میں ان کے غم
جگمگا رہے تھے۔
صلاح الدین پرویز کا یہ انداز بتاتا ہے کہ انھوں نے صرف عصری حسیت اور عشق سے سرشار نظمیں ہی نہیں کہی ہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ الہٖ وسلم سے حقیقی عشق میں شرابور ہوکر ہی اردو شاعری کو مالامال کیا ہے۔
آئیڈنٹٹی کارڈ پرگفتگو کرتے ہوئے پروفیسر حامدی کاشمیری نے محسوس کیا ہے کہ ’صلاح الدین پرویز اپنی سرگزشت رقم کررہے ہیں۔ اس میں ان کے تاثرات، مشاہدات، احساسات اورمعتقدات کی جا جا جھلکیاں روشن ہیں۔ وہ اوائل عمر ہی سے گردوپیش کی زندگی، بدلتے ہوئے سیاسی، تاریخی اور سماجی حالات اور آبائی اور نسلی تصورات سے متاثر رہے ہیں۔ شاید اسی لیے کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے شعوری اور لاشعوری عوامل و محرکات کے مکمل انضمام سے اپنے تخلیقی ذہن کی تشکیل کی ہے، یہ وہ داخلی کیفیت ہے، جو سوز تخلیق کے زیراثر دل و جاں کو گداز کرتی ہے اور بقول غالب ضمیر میں سیل آتش رواں ہوتاہے‘۔ پرویز کے تخلیقی ذہن کا یہ انداز دیکھئے:
مالی ترے گلشن میں سبھی رنگ کے ساون
لکھتے ہیں سراپا ترا جادو کے قلم سے
اور: ابھی کھل اٹھیں گے رستے کہ ہزار راستے ہیں
کہ سفر میں ساتھ اس کے کئی بار ہجرتیں ہیں
کتاب میں شامل مضامین میں مصنفین نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا ہے کہ پرویز کی شاعری پر نثری معیارات اس وجہ سے حاوی ہیں کہ ان کی تحریریں نظم و نثر دونوں کا لطف دیتی ہیں۔ پرویز نثری جملوں کو شعری مصرعوں میں اس طرح تبدیل کرنے کے ہنر سے واقف ہیں کہ وہ نظم حسرت کا مزہ دیتے ہیں اور ابوالکلام کی نثر کا لطف۔ جہاں ان کی شاعری اپنے منفرد شعری اسلوب کے سبب اپنی انفرادیت برقرار رکھتی ہے وہیں ان کی نثر اس باوقار فن پارہ کی طرح ہے، جس میں تعقل کے بجائے تحرک موجزن نظر آتا ہے۔ جب حقانی القاسمی نے ان سب کو ایک خوب صورت مجموعہ کی تشکیل کے بعد قاری کے سامنے پیش کیا ہے تو بے ساختہ بہ اندازِ وزیرآغا یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ صلاح الدین پرویز اپنی نظموں، ناولوں، استعاروں اور گیتوں میں بکھرے پڑے تھے، حقانی القاسمی نے ان اعضا کو جوڑ کر صلاح الدین پرویز کا ایک ایسا مجسمہ مرتب کردیا ہے کہ جس کی حیثیت اب تاریخی ہوگئی ہے۔
یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ صلاح الدین پرویز کے فکر و فن کی تفہیم و تعبیر کے لیے ان تحریروں کا یک جا ہونا ضروری تھا تاکہ ان کے مطالعہ سے فکر و فن کی نئے مصادر ایجاد ہوں، نئے ابعاد سامنے آئیں اور نئے مباحث جنم لیں۔ اس لیے کہ تخلیق اور تخلیق کار کے زندہ رہنے کے لیے یہ عمل جاری و ساری رہنا چاہیے۔
صلاح الدین پرویز کی پہلی برسی (27؍اکتوبر2012) پر حقانی القاسمی نے ان کو شایان شان خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ یہ جذبہ اس لحاظ سے قابل قدر ہے کہ اکثر زندگی میں جانثار کرنے والے تو نظر آجاتے ہیں مگر وفات کے بعد ایسے لوگوں کی کمی محسوس کی جاتی ہے جو ایک لمحہ کے لیے ہی سہی اپنے محسنوں اورکرم فرماؤں کو یاد رکھیں، یہ اس دور کا ایک بڑا المیہ ہے۔ حقانی القاسمی نے اپنی کتاب سے احساس دلایا ہے کہ حقیقی محبت موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ وہ وہ موج حوادث میں بھی مرنہیں سکتی۔