عالمی یوم مادری زبان‘اُردو اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد
ہر سال 21فروری کو عالمی سطح پر یوم مادری زبان منایا جاتا ہے۔اس دن اپنی مادری زبان سے یگانگت اور اپنے تہذیبی و ثقافتی ورثے کے تحفظ کی بات کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے 1999ء میں 21فروری کو عالمی یوم مادری زبان منانے کا فیصلہ کیا گیا اور سال2000سے ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے۔ اور سال2008کو بین الاقوامی سال برائے لسان کے طور پر منایا گیا۔ اسی دن1952ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے کچھ طلبا نے اس وقت کے ملک پاکستان سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ان کی زبان بنگالی کو بھی قومی زبان کے طور پر مانا جائے۔ احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ میں کئی طلبا مارے گئے تھے۔ اسی یادگار کے طور پر اقوام متحدہ نے اس دن کو عالمی یوم مادری زبان قرار دیا۔ دنیا بھر میں اس دن لوگ اپنی مادری زبان سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں اور اس کے فروغ کے لئے شعوری کوشش کا اظہار کرتے ہیں۔
زبان کے مفہوم کو اگر ہم سمجھنا چاہئیں تو کہا جاسکتا ہے کہ خیالات کے اظہار کو زبان کہتے ہیں۔ انسان اپنی ضرورت کی تکمیل کے لئے خیال ظاہر کرتا ہے۔ جیسے بازار میں جا کر کوئی چیز خریدنا ہو کمرہ جماعت میں استاد سے کچھ پوچھنا ہو یا گھر میں اپنی ماں سے کھانے کی کوئی چیز طلب کرنا ہو تو ہم اپنی زبان کے ذریعے خیال ظاہر کرتے ہیں۔ زبان کی محتلف شکلیں ہیں جیسے بات کی جائے تو اسے تقریر کہیں گے۔ اگر لکھ کر اظہار خیال کیا جائے تو اسے تحریر کہیں گے ۔ جو لوگ بات نہیں کر سکتے وہ اشاروں سے اپنا خیال ظاہر کرتے ہیں۔ دنیا میں لوگ علامتیں استعمال کرتے ہیں جیسے جمع‘تفریق‘ضرب ‘تقسیم‘خطرہ امن وغیرہ کے لئے علامتیں مشہور ہیں۔ رنگ بھی اپنے اندر زبان رکھتے ہیں جیسے سفید رنگ امن کی نشانی تو سیاہ رنگ غم کی نشانی۔اس طرح زبان کی یہ مختلف شکلیں ہوئیں۔
بچہ جس گھر میں پیدا ہوتا ہے وہاں ماں کے دودھ کے ساتھ تہذیب کے گھونٹ بھی پیتا ہے اور گھر سے اپنی مادری زبان سیکھتا ہے یہ فطری عمل ہے۔ اردو بولنے والوں کے لئے عربی‘فارسی یا تمل زبان مشکل ہے۔ لیکن ان زبانوں کے گھرانوں میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ فطری طور پر اپنی زبان سیکھ کر آتے ہیں۔ مادری زبان سے مراد وہ زبان ہے جو بچہ اپنے گھر سے سیکھ کر آتا ہے۔ ماہرین کا خیا ل ہے کہ بچے کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام انگریز‘چینی‘جاپانی‘روسی اور جرمن نے اپنے نظام تعلیم کو مادری زبان میں رکھا اس لئے ان کے بچے ترقی کرنے لگے۔ ہندوستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر زمانے میں یہاں بیرونی اقوام کی آمد رہی۔ آریا‘مغل اور انگریز تین بڑی قومیں تھیں جنہوں نے ہندوستان کی تہذیب پر اثر ڈالا اس لئے یہاں ہند آریائی اور انگریزی زبانوں کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ او ر ہندوستان کثرت میں وحدت والا ایک کثیر لسانی ملک بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں 1600سے زیاد بولیاں اور22سرکاری زبانیں ہیں جس میں اردو بھی شامل ہے۔ بولی اس زبان کو کہتے ہیں جس کی تحریری شکل نہیں ہوتی جیسے قبائلی زبانیں گونڈ‘بھیل‘لمباڑے وغیرہ کی بولیاں۔ زبان سے مراد وہ زبان ہے جس کے بولی اور تحریری شکل دونوں ہوتی ہیں۔ آزادی سے قبل ہندوستان میں اردو کا چلن عام تھا لیکن ہندی کو پروان چڑھانے کے لئے حکومتی سطح پر کوشش کی گئی اور آزادی کے بعد اردو کے مقابلے ہندی کو سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ اور لسانی بنیاد پر ریاستوں کی تقسیم عمل میں آئی تو سوائے جموں و کشمیر کہ ہندوستان کی کسی بھی ریاست میں اردو کو پہلی سرکاری زبان کا موقف نہیں مل سکا۔ جب کہ سارے ہندوستان میں اردو بڑے پیمانے پر بولی اور لکھی جاتی ہے۔ زبان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اسے سرکاری سرپرستی حاصل ہو۔ آزادی سے قبل ہمارے سامنے مثال تھی کہ نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان کی دوراندیشی کے سبب عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام 1917ء میں حیدرآباد میں عمل میں آیا تھا اور اس یونیورسٹی میں اردو میں میڈیکل اور انجینیرنگ کے بشمول تمام روایتی اور فنی کورسز اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ لیکن آزادی کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی کا ذریعے تعلیم اردو سے انگریزی کردیا گیا۔ آندھرا پردیش میں تلگو سرکاری زبان بنی اور اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رکھا گیا۔ اور آج بھی نئی ریاست تلنگانہ میں اردو کو سرکاری زبان کاموقف حاصل کرنے کے لئے جد وجہد کرنا پڑ رہا ہے۔
اُردو مادری زبان کی حیثیت سے اردو میڈیم سے زیر تعلیم طلبا کے اپنے مسائل ہیں۔ انہیں ملازمتیں نہیں ملتیں اور ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ لیکن ماضی کے برخلاف آج اردو سے زیادہ مواقع ہیں۔ اردو میڈیم طلبا کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اردو میڈیم طلبا انٹرکے بعد بی یو ایم ایس کی میڈیکل تعلیم اردو میں حاصل کر سکتے ہیں۔ D Edکرتے ہوئے اردو اساتذہ کی مخلوعہ جائدادوں پر بھرتی ہوسکتے ہیں۔ گرائیجویشن کے بعد بی ایڈ کریں تو ہائی اسکول ٹیچر بن سکتے ہیں۔ پوسٹ گرائیجویشن کی سطح پر بھی مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں اردو میڈیم سے پڑھنے کی سہولتے ہے۔ پی جی کے بعد طلبا لیکچرر بن سکتے ہیں۔ اردو یونیورسٹی میں اردو میں ایم بی اے کی سہولت ہے۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اردو کے قابل طلبا کے لئے روزگار کے مواقع ہیں۔ بین الاقوامی اردو چینل ای ٹی وی اردو حیدرآباد سے ساری دنیا میں اردو نشریات پیش کر رہا ہے۔ جس میں نیوز اور دیگر شعبوں میں اردو طلبا کے لئے مواقع ہیں دوردرشن ک بشمول دیگر علاقائی چینلوں پر اردو میں نیوز ریڈرس کے موقع ہیں۔ اخبارات میں انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے کے مواقع ہیں۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر پر اگر کسی کو اردو کمپوزنگ کا کام آتا ہو تو ڈی ٹی پی اور کمپوزنگ کے ذریعے بھی گھر بیٹھے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔
زبان ایک نامیاتی شئے ہے ۔ زبان بھی زندہ رہ سکتی ہے اگر اسے برتا جائے اس لئے اردو والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اردو میڈیم میں تعلیم دلائیں۔ یا کم از کم دسویں جماعت تک اردو کو بہ حیثیت زبان دوم ضرور پڑھائیں۔ اس سے انہیں سرکاری ملازمت میں آنے کا موقع بھی ملے گا۔اردو اخبار خرید کر پڑھے جائیں۔گھر میں اردو رسائل لائیں۔ اور ماں باپ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اردو کا ماحول بنائیں۔ قران کا ترجمہ اور اسلامی باتیں اردو میں پڑھائیں۔ حکومتی سطح پر قائدین کی زمہ داری ہے کہ وہ اردو کو سرکاری زبان کے چلن کے طور پر عام کریں۔ تلنگانہ میں یہ مطالبہ کیا جائے کہ یہاں سب بچوں کو جیسے تلگو لازمی پڑھائی جاتی ہے ویسے ہی غیر اردو دانوں کو اردو بھی لازمی طور پر پڑھائی جائے ۔ تلنگانہ میں لوگ اب اردو میں بات کرنے لگے ہیں۔ اس لئے ہم بھی غیر اردو دانوں کے ذریعے اردو میں بات کریں۔ فون پر دوسری زبان میں بھی مسیج کرنا ہو تو اردو میں لکھیں۔ جیسے رومن انگریزی سے اردو میں لکھا جاتا ہے۔ دکان مالکین اپنی دکانات پر اردو میں نام لکھیں۔ بس پر اردو میں بورڈ لکھانے کی مہم چلائی جائے ۔ تمام بس اسٹیشن‘ریلوے اسٹیشن‘پولیس اسٹیشن اور ڈاک خانوں کے نام اردو میں لکھائے جائیں ۔ سرکاری دفاتر میں اردو میں درخواست دی جائے تو اردو مترجمین کا تقرر ہوگا۔ تمام مدارس میں ایک بورڈ ہو جس پر اردو کے ایک لفظ کے معنی اور اس کا تلفظ اور اس کا انگریزی ترجمہ لکھا جائے۔کمپیوٹر پر اردو عام ہے۔ اب تو فون اور فیس بک پر بھی اردو استعمال ہورہی ہے اور اے ٹی ایم مشینوں پر بھی اردو کا چلن شروع ہوگا۔ اس طرح اس عالمی یوم مادری زبان کے موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ زندگی میں کم از کم ایک غیر اردو داں کو اردو پڑھنا لکھا سکھائیں گے۔ اردو زبان کے ساتھ اس کی گنگا جمنی تہذیب ہے۔ چنانچہ ملک میں میں امن و آمان کے قیام کے لئے بھی اس زبان کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بہر حال اردو کے مشہور شاعرداغؔ نے اردو کے بارے میں جو بات کہی تھی اسے عالمی سطح پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ
ؔ اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے