اردو کے منتخب محاورے 3 ۔ب۔ سے

Share

Capture

ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی

بد لگام ہونا
بدتمیز ہونا، سرکش ہونا، زبان کا قابو میں نہ رکھنا، یہ گھوڑے کی مناسبت سے ہے لیکن اِس سے مراد انسان کی طبیعت اور کردار ہے کہ وہ کس حد تک اپنی زبان اپنی طبیعت اور اپنے عمل اور ردِ عمل پر قابو رکھتا ہے۔
بدمزاج اور بد مزاجی بھی اسی ذیل میں آتا ہے بد ذوقی، بد شوقی کی کمی صحیح مذاق کا فقدان بدکلامی وغیرہ اسی سلسلے کے محاورے ہیں ان میں طریقہ کار طرزِ عمل طرزِ گفتگو کے اعتبار سے اِن محاورات کا موقع بہ موقع استعمال اور اِطلاق ہوتا ہے۔

بُرا وقت، بُرے دن، بُری گھڑی
ہم سماجی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی بُرا نہیں کرتا۔ برائی کا سبب تو بری گھڑی ہوتا ہے جس پر آدمی کو کوئی قابو نہیں بُری ساعت بھی اسی کو کہتے ہیں اور وہی بُرے دن ہوتے ہیں۔ جب ایک لمبا دور کسی تکلیف مصیبت یا پریشانی کے عالم میں گزرا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ بُرا وقت نہ لائے بُرے دنوں سے بچائے یا کسی بچے کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ بری گھڑی کی پیدا ئش ہے بات وہی ہے کہ برائیوں کی ذمہ دار بُرے دن ہیں بُرا وقت ہے بُری ساعت ہے اُس سے معاشرتی طور پر ہماری سماجی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم حالات کوکس طرح سمجھتے اور کس طرح انہیں Interpretکرتے ہیں کسی بات کا مطلب نکالتے ہیں۔

بسم اللہ کرنا، بسم اللہ کا گنبد ہونا، بسم اللہ کی برکت
بسم اللہ کا گنبد ہونا جاہل آدمی کے لئے کہا جاتا ہے جو مذہب کا دعویٰ دار ہو جس کا ذہن بالکل مکتبی ہو۔ اُسے ہم ملاّئے مکتبی کہتے ہیں اور یہ بھی طنز کرتے ہیں کہ یہ تو بسم اللہ کے گنبد میں رہتے ہیں ویسے بسم اللہ پڑھ کے کھانا ایک طرح کا مذہبی اور تہذیبی رو یہ ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے۔ کہ بسم اللہ کیجئے یعنی شروع کیجئے اللہ کے نام کے ساتھ۔
بسم اللہ کی برکت کے معنی بھی یہی ہیں کہ بسم اللہ پڑھ کے کوئی کام کرو گے تو برکت ہو گی ظاہر ہے کہ یہ محاورہ مسلمانوں کا اپنا ہے۔ اور ان کی مذہبی فکر سے گہرے طور پر متاثر ہے۔ اور ہمارے سماجی عمل اکثر مذہب دھرم خاندانی بزرگوں کے اثر اور صوفیوں کے اثرات سے بھرے نظر آتے ہیں۔ بسم اللہ ہی غلط ہو گئی اس کے معنی ہوتے ہیں کہ کام کی شروعات غلط ہو گئی۔

بغل کا دشمن، بغلی گھونسا ہونا
بغل کے ساتھ بہت سے محاورے ہیں مثلاً بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا(مُنادی) یا بغل میں کتاب اور منہ پر جہالت اِس سے مراد یہ ہے کہ بھی اور نہیں بھی بجا بے خبری ہے۔
اس سے فائدہ اٹھا کر دوسرے ہمیں دھوکے دیتے ہیں۔ اور دوست بن کر دشمنی اختیار کرتے ہیں وہی لوگ بغلی گھونسا ثابت ہوتے ہیں یا بغل کے دشمن سمجھے جاتے ہیں یہ کہا جاتا ہے کہ لوگ بغل میں گھوس کر نقصان پہنچاتے ہیں یہ بھی مکاری دغا بازی اور دھوکہ دھڑی کی ایک صورت ہے۔

بوٹی بوٹی پھڑکتی ہے۔ بوٹی بوٹی کر ڈالنا، بوٹیاں چبانا، بوٹیاں چیلوں کو ڈالنا، بوٹی بوٹی تھرکنا
یہ شدید ردِ عمل اور غصہ کے اظہار کے طور پر کہتے ہیں کہ تیری بوٹیاں چبا لوں گا اس لئے کہ کچا گوشت کھانا وحشت و بربریت کی علامت ہے۔ بوٹیاں یا بوٹی بوٹی کر کے چیل کووّں کو کھلا دینا ایک بہت ہی المناک انجام ہے مرنے والے کے ساتھ شدید غصہ اور انتقام کا سلوک کرنا ہے قدیم زمانہ میں غلاموں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا تھا اور ان کی بوٹیاں چیل کووّں کو کھلائی جاتی تھیں۔
ہم اس سے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بہت محاوروں کے پس منظر میں تاریخی واقعات اور روایات موجود ہیں۔ بوٹی بوٹی تھرکنا یا پھڑکنا دوسری بات ہے اس سے مراد ایک ایسی شخصیت ہوتی ہے بلکہ اکثر نوعمر کے لڑکے اور لڑکیاں ہوتی ہیں جن میں سے چُستی چالاکی اور شوخ مزاجی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی تو بوٹی تھرکتی ہے۔

بھرم کھُل جانا، بَھرم باقی رہنا
ہمارے ہاں بہت باتیں اصل حقیقت نہیں ہوتیں بلکہ اُن کو ظاہر اِس طرح کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہوں لیکن اِس میں واقعتاً کوئی بنیاد نہیں ہوتی تو جلدی ہی وہ بات کھُل جاتی ہے اور بھرم باقی نہیں رہتا اس کو دہلی میں ایک اور محاورے سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ پول پیٹی کھُل گئی اور آدمی اپنے بھرم کو باقی رکھ سکے کہ سماج کے لئے وہ بڑی بات ہوتی ہے۔

بھاگ پھوٹنا، بھاگتے کی لنگوٹی، بھاگتے بھُوت کی لنگوٹی۔ بھاگ جاگنا یا کھُلنا، بھاگ لگنا، بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا
ہمارا معاشرہ ایک تقدیر پرست معاشرہ ہے کہ ہم تدبیر پر بھروسہ نہیں کرتے اپنی کوشش یا اجتماعی کوشش کے نتیجے پر ہمارا یقین نہیں ہوتا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے یا ہونا ہے وہ قسمت کی وجہ سے ہوا ہے تقدیر میں یونہی تھا اس لئے ہوا ہے۔ اس کوکسی تدبیر کسی منصوبہ بند کوشش اور کاوش سے وابستہ کر کے نہیں دیکھتے یہ ہماری بنیادی سوچ ہے کہ ہم Effortsکوششوں پر بھروسہ نہیں کرتے Chancesکو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اسی وجہ سے بھاگ قسمت اور تقدیر کا لفظ بہت لاتے ہیں بھاگ پھوٹنا یعنی بدقسمتی کا پیش آنا بھاگ کھُلنا اچھی قسمت ہو جانا بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا اچانک ایسی صورت کا پیدا ہو جانا جو فائدہ پہنچانے والی ہو۔
اِس سے ہم اس فریم ورک کا حال معلوم کر سکتے ہیں جس کے ساتھ ہماری سماجی نفسیات”ہمارے معاشرتی رویوں میں شریک ہو جاتے ہیں اسی لئے ہم لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم نے تو اس کے ہاتھ پیلے کر دیئے ہیں۔ اب جو تقدیر جو نصیب یعنی ہم آگے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ہم اپنی زندگی میں اچھے بُرے مواقع سے بھی گزرتے ہیں جہاں قدرت بظاہر ہمیں Favourیا Disfavourکرتی ہے لیکن پورے معاشرے نے غلطی یہ کی کہ ہر بات کو تقدیر کے حوالہ کر دیا اور حالات ماحول نے انسانی روش اور رویوں پر نظر نہیں رکھی ہمارے یہاں آدمی بد دیانت بہت ہے یہاں تک کہ قرض لیا ہوا واپس نہیں دینا چاہتا جو ایک طرح کا سماجی عیب ہے۔ دوسرے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جن کا قرض ہوتا ہے جو کچھ ملے وہی لے لو یہ آدمی کچھ دے گا تو نہیں اسی کو بھاگتے کے لنگوٹی یا بھاگتے بھُوت کی لنگوٹی کہتے ہیں۔ اصل میں یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ وہ آدمی کسی لائق نہیں ہے اور اس کے پاس کرتا پاجامہ بھی ہیں صرف لنگوٹی ہی لنگوٹی ہے۔ وہی تو چھینی جا سکتی ہے۔

بیل منڈھے ہونا یا چڑھنا، بیل پڑنا، بیل بدھنا
بیل منڈھے چڑھنا، بیل کے سہارا لینے کے عمل کو کہتے ہیں اس لئے کہ بیل تیزی سے بڑھتی ہے مگر سہارا چاہتی ہے اگر سہارا نہیں ملتا تو وہ گِر پڑتی ہے اور برباد ہو جاتی ہے کسی منصوبے یا تدبیر کے کامیاب ہونے کو بڑی بات اور تقدیر کی خوبی خیال کیا جاتا ہے۔ اسی لئے جب کوئی کام ہو جاتا ہے تو یہ خیال کیا جاتا ہے۔ کہ بس تقدیر کی خوبی ہے کہ بیل منڈھے چڑھ گئی ہمارے ہاں مدد کرنے والے تو ہوتے نہیں غلط سلط مشورہ دینے والے ملتے ہیں رکاوٹوں سے بچ نکلنا یا ان پر قابو پانا بڑی بات ہوتی ہے۔ تبھی گھریلو ماحول میں اسے بیل منڈھنا کہتے ہیں۔ جو چیزیں تیزی سے آگے بڑھتی ہیں انہیں بیل بدھنا کہتے ہیں یعنی وہ بیل کی طرح پروان چڑھتی ہے یہ لڑکیوں کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ تو بیل کی طرح بڑھتی ہیں۔

بے نمک ہونا
نمک ہمارے ہاں سالٹ (Salt) کو بھی کہتے ہیں اور اس سے کئی محاورے نکلے ہیں۔ نمک حلال اور نمک حرام اور دہلی میں ایک حویلی ایسی ہے جس کو نمک حرام کہتے ہیں اور نمک کھانے کا معنی احسان مند کے ہیں۔ کسی کی نیکی خدمت اور بھلائی کا خیال کرنے کے ہیں۔ کہ ہم نے تو اس کا نمک کھایا ہے بے نمک سالن کے معنی بے مزہ ہونے کے ہیں۔ یہاں تک کہ جس شخص کے رنگ میں ہلکی ہلکی ملاحت نہیں ہوتی حسنِ بے نمک کہتے ہیں جہانگیر نے کشمیر کے لئے لکھا ہے کہ کشمیر میں نمک نایاب ہے یہاں تک کہ اس کے حسن میں نمک نہیں ہے”حتّی کہ حنش ہم نمک نمی دارد۔ ”

بیوی کا غلام ہونا
اب سے کچھ زمانہ پہلے تک جب بڑے گھروں کی بیٹی رخصت کی جاتی تھی تو اس کے ساتھ غلام اور باندیاں بھی دی جاتی تھیں کہ یہ آئندہ خدمت کے لئے ہیں۔ رفتہ رفتہ جاگیر داریاں ختم ہو گئیں تو یہ رسم بھی ختم ہوئی اب بیوی کے سامنے بول بھی نہیں سکتا۔ بھیگی بلی بنا رہتا ہے۔ یعنی اُس غلام کی طرح ہوتا ہے جسے اپنے مالک یا ملکہ کی طرح بی بی کے سامنے بولنے کی جرات بھی نہ ہو۔ وہ گویا بیوی کا غلام ہے۔ اِس سے ہمارے معاشرے کی ذہنی روش کا پتہ چلتا ہے۔ کہ شوہر کے مقابلہ میں وہ بیوی کو کوئی درجہ نہیں دیتا تھا۔ اور یہ اس کی مخالف ایک صورت تھی کہ بیوی اس کی آقا بن جائے اور شوہر اس کا غلام نظر آئے۔ یہ صورت حال معاشرہ پسند نہیں کرتا تھا۔ تبھی تو طنزا ً کہا گیا کہ بیوی کا غلام ہے۔

Share
Share
Share