مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی
مولاناآزاد کے باورچی
کھانے کا تذکرہ نکل آیا ہے ‘ تو مولا نا کے بعض باورچیوں کا بھی ذکر ہو جاےَ ۔ایک باورچی صاحب رکھے گےَ‘ تو بڑے بقراط نکلے۔جو ترکاری ایک دن لے آتے ‘تو پھر روز وہی لاتیاور دونوں وقت وہی پکاتے۔مثلاًآلو لے آےَ۔اعتراض کیجَے‘ تو جواب میں لمبی تقریر کہ حضور ‘آلو معدے کو تقویت پہنچاتا ہے ۔خون صاف کرتا ہے۔اِشتہا بڑھاتا ہے !اَروی پر اُتر آےَ‘تواَروی کے فوائد سُن لیجے’’ حُضور‘ اَروی سب ترکاریوں کی ملکہ ہے ۔أدمی روز اَروی کھاےَ تو کبھی بوڑھا نہ ہو!‘‘
ایک دفعہ کالے بیگن روز آنے لگے ۔میں نے ٹوکا تو بڑی سنجیدگی سے فرمانے لگے ’’حضور ‘ غور فرمائیں گے ‘تو بہت خوش ہوں گے کہ یہ غلام بیگن کھلا رہا ہے ۔بیگن اعلیٰ درجے کا مصفّئ خون ہے۔کچھ بادی تو ضرور ہے ‘ مگر یہ بادی پن ہی بیگن کا سب سے بڑا گُن ہے۔پیٹ میں ریاح پیدا کرتا رہتا ہے ۔آنتوں میں سُدّے ہوں تو بخارات سے گرم ہوکر نرم پڑ جاتے ہیں اور آسانی سے دفع ہو جاتے ہیں‘ اور پھر حضور ‘ بیگن کا رنگ تو دیکئے ‘ سبحان اللہ !ماشاء اللہ ! آدمی عمر
بھر بیگن کھاےَ تو اُس کے رنگ میں بھی بیگن ہی جیسی چمک دمک پیدا ہو جاےَ۔‘‘
ایک اور باورچی صاحب اپنی آپ ہی مثال تھے۔ارسطو بھی ان سے بحث نہیں کرسکتا تھا۔کھانے میں یا تو نمک ہی نمک ہوگا‘یا بالکل ڈالیں گے نہیں۔ان کے ہاتھ کا پہلا پکوان سامنے آیا‘تو نمک ندارد۔کہا گیا‘کھانے میں نمک نہیں ہے۔فرمانے لگے ’’جی یہی تو میں بھی کہتاہوں!‘‘ارے بھئی‘نمک کا خیال رکھئے۔پھیکا سیٹا کھانا کس کام کا؟’’جی یہی تو میں بھی کہتاہوں!‘‘دوسرے وقت کھانے میں نمک ہی نمک‘اورجواب وہی مرغے کی ایک ٹانگ’’جی یہی تو میں بھی کہتا ہوں۔‘‘
ایک دفعہ مولانا کے ہاں کوئی باورچی نہ تھا۔مجھ سے فرمایا تلاش کرو۔میں نے مولانا عثمان مرحوم سے تذکرہ کیا‘ کہنے لگے ‘میرے وطن مونگیر میں ایک بہترین باورچی موجود ہے۔بوڑھا ہے۔کم تنخواہ پر آجائے گا۔مولانا نے سنتے ہی تار پر ۔۔۔بھیج دیا اور باورچی صاحب تشریف لے آئے ‘ مگر خود مولانا عثمان کے قد اور جثے کے نکلے۔ننھا سا ڈیل۔چھوٹے چھوٹے پتلے پتلے ہاتھ پاؤں۔مولانا دیکھ کر مسکرائے اور مولانا عثمان کے انتخاب کی داد دی!
حضرت کھانا پکانا ہی نہیں جانتے تھے۔برتن تک ٹھیک سے دھو نہ سکتے تھے۔گُم صُم‘کسی خیال میں ڈوبے بیٹھے رہتے اور نگاہیں دیوار پر جمی رہتیں۔ایک دن مولانا کی خدمت میں رقعہ بھیجنا تھا۔میں نے پکارنا شروع کیا‘کوئی ہے؟ جواب نہ ملا۔اوپر کا کام کرنے والا لڑکا موجود نہیں تھا۔میں دیر تک چیختا رہا۔آخر اُٹھ کر باورچی خانے پہنچا‘تو وہ حضرت چارپائی پر مصروفِ مراقبہ تھے۔عرض کیا‘اتنی دیر سے پکار رہا ہوں ۔آپ بولے بھی نہیں۔فرمایا’’یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے ‘جو بولتا!‘‘
مشمولہ ذکرِ آزاد