ہاجرہ بانو
پلاٹ نمبر ۹۳، سیکٹر اے، سڈکو این ۱۳،حمایت باغ،
اورنگ آباد۔ ۴۳۱۰۰۸۔ ریاست مہاراشٹر-انڈیا
موبائل: 9860733049 E-mail:
ہم جس جبلت کی قاتل سرزمین پر رہتے ہیں وہاں زندگی کے دریچے میں شاذ و نادر ہی کوئی فطری منظر آتا ہے۔ لیکن جب کبھی بھی نظر آتا ہے وہ کسی ایسی شخصیت کا مرہون منت ہوتا ہے جس نے اپنی سیاہ راتوں میں درخشندہ ستاروں کے الفاظی کحل سے شمس و قمر کو بھی سجدہ ریز کیا ہے۔ کئی اعزازات کے باوجود اردو ادب کی دنیا میں آج بھی ان کی شاعری کے اعتراف کے کامل حق کی ادائیگی نہ ہوسکی۔ وہ معتبر ہستی شفیق فاطمہ شعریٰ کی ہے۔ جو عربی، فارسی، اردو، ہندی، مراٹھی اور انگریزی زبانوں پر دسترس رکھتی ہے۔
سہارنپور سے تعلیم کے بعد ناگپور میں تعلیم مکمل کرکے اورنگ آباد مہاراشٹر آئیں اور یہیں ملازمت اختیار کی۔ کشادہ اور وسیع النظر اس شاعرہ کی شاعری کے خار زار میدانوں کے درمیان گلریز پگڈنڈیاں بھی ہیں اور ریگستان کی ریت سے پھوٹنے والے ایسے چشمے بھی ہیں جن میں ہر دل کی بستی زیر آب ہوجائے۔ یہاں طرز، ردھم اور اسلوب کا سنگم، فلک ہفتم کو بھی حصار قید کرتا ہے۔ ہزاروں دلوں اور ذہنوں کو اپنی نامکمل پرچھائیوں کو پیکر دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ زماں و مکاں کے وسعتوں سے پرے اپنی ذات سے جڑے تیرگی و آفتابی کے بھنور میں ہر ایک کی شریانوں اور رگوں کو باندھ لیتا ہے۔ اس دختر مشرق کی شاعری کا جائزہ لینا یا کوئی رائے دینا آفتاب کو چراغ دکھانے کے متراد ف ہے۔
شفیق فاطمہ شعریٰ کے والد تصوف کی دنیا کے بادشاہ تھے۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں ایم اے کیا۔ دینی علوم پر زبردست دسترس رکھتے ہیں۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے۔ حالانکہ ادبی ذوق نہیں رکھتے تھے لیکن اس کی پذیرائی صدق دل سے کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے تھے۔ شفیق فاطمہ ’’شفو‘‘ کو اپنے سخت اور وفادار والد کے ساتھ ساتھ ننہیال سے بہت انس تھا۔ نانا سید اکرام علی حسین ہوشنگ آباد میں تعلیمی شعبہ میں اپنی گراں قدر خدمات انجام دیتے تھے۔ ’’شفو‘‘ کی والدہ ظفر النساء بیگم کافی روشن خیال خاتون تھیں۔ اردو اور فارسی پر ملکہ حاصل تھا۔ گھریلو فرائض کی بخوبی ادائیگی کے ساتھ صنف شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں اس کی اشاعت کے مواقع نصیب نہیں ہوئے۔ ان ہی کی زیر سرپرستی شفیق فاطمہ عرف ’’شفو‘‘ کی شاعری بے روک ٹوک پروان چڑھتی رہی۔ گھر کا علمی اور ادبی ماحول ان کے خوش ذوق بھائیوں کے دم سے روشن تھا۔ بڑے بھائی مرحوم راجہ غضنفر علی تدریسی پیشہ سے وابستہ تہے اور طنز و مزاح میں بہترین مضامین لکھتے رہے۔ ان کا ایک مجموعہ ’’غائب متکلم‘‘ کافی شہرت پاچکا ہے۔ سلمان علی ریٹائرڈ الیکٹریکل انجینئر آج بھی بلا کا ذوق رکھتے ہیں۔ ان دونوں بھائیوں نے اپنی بہنوں کے فن کو کافی سراہا۔ یہ وصف آج بھی کئی دقیانوسی خاندانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
شفیق فاطمہ نے کسی استاد سے اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ البتہ اپنی بڑی بہنوں انیس فاطمہ، کنیز فاطمہ، ڈاکٹر ذکیہ عابد سے بقدر ضرورت رائے قبول کرلیتی تھیں۔ ذکیہ انگریزی زبان میں نظمیں لکھتیں رہیں جو اکثر ’’میرر‘‘ (Mirror) میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ شفیق فاطمہ کو عربی اور فارسی کی بنیاد اور اسلامی معلومات نے شاعری میں گہرائی اور ایک نئی جلا بخشی اور اردو زبان کو ایک نیا ذائقہ (Flavour) عطا کیا۔ محمد ولی اللہ سے رشتہ ازدواج میں بندھ جانے کے بعد ’’شعریٰ ولی اللہ‘‘ بن گئیں۔ پھر بھی ان کی شاعری میں کوئی فرق نہ آیا۔ ولی اللہ نے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی گو کہ وہ ایگریکلچرل یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ لیکن انہیں صنف شاعری سے ہمیشہ دلچسپی رہی۔ شادی کے بعد شفیق فاطمہ کے آنگن میں تین فرزندان یکے بعد دیگرے اپنی خوشبو بکھیرنے لگے۔ واصف اللہ قسم، اکرام اللہ خان اور ثناء اللہ یہ تینوں ہی آج کل حیدر آباد آندھرا پردیش میں آرکیٹکیکٹ، فارمیسی اور کمپیوٹر سائنس کے میدان میں اپنا جوہر دکھارہے ہیں۔
ولی اور سراج کی سرسبز و شاداب زمین۔ ملک عنبر کی جہد کا آب شیرین۔ ایلورہ و اجنتا کے سحر آفریں صنم کدے، دولت آباد کی تاریخی یادیں، بی بی کے مقبرے کا تقدس، روحانی خلد بریں۔ غرض کہ ہر راستہ و پگڈنڈی پر انمٹ نشانات سے بسا ہوا دکن کا حسین شہر اورنگ آباد۔ کئی شعراء نے اس کے حسن کو اپنے الفاظوں سے نوازا ہے۔ کسی نے شہر کل کو تو کسی نے ایک مخصوص جز کو منتخب کیا ہے۔ لیکن شفیق فاطمہ کی بات ہی نرالی ہے۔ انہوں نے سرتاپا اورنگ آباد کو ۱۹۵۳ء میں ’’فصیل اورنگ آباد‘‘ کے نام سے منظوم کیا ہے۔ یہ نظم نہایت تہہ دار اور لفظیات و تناسب اصوات کی سطح پر برتر تخلیق مانی گئی ہے۔ شہر اورنگ آباد پر تاحال کی گئی شاعری میں یہ ۱۴۸ء مصرعوں پر مبنی ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ مناظر کو کسی بھی شاعر کے الفاظی قالب میں ڈھلتے ہیں۔ لیکن پس منظر کی الفت و کلفت کو سانچے موتی کے ہار سے سجانا نہایت مشکل امر ہے۔ اور یہی کام شفیق فاطمہ نے کیا ہے۔ اس نظم میں معنویت، نزاکت اور مسرت آمیز لذت تو ہے لیکن ان سب سے بڑھ کر تاریخی واقعات کی نشاندہی کے ساتھ اپنے جذبات کی عکاسی کا ایک نیا اور اچھوتا انداز ہے۔ اتنی طویل نظم کو ابتدا سے اختتام تک ایک سرور انگیز احساس کے ساتھ باندھے رکھنا یہ صرف ان ہی کا خاصہ ہے۔ وہ اس کا اعتراف کچھ یوں کرتی ہیں کہ شاعری انسانی سطح پر ابھرنے والی آواز ہے جس کو صنفی دائرے میں محدود نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ایک بسیط فطری صورتحال کی آئینہ دار فضا ہے۔ اس کو قدامت، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
ایلورہ۔ پہاڑوں میں زندگی کی رمق۔ روح میں انجذاب ہوتے سنگ۔ زمین کے سینے پر نشیب و فراز میں ہلکورے لیتے روحامی تبسمی لمس۔ یہ سارے احساسات اگر انسان کو محسوس کرنا ہوں تو ایلورہ کا دامن اس کے لیے وا ہے۔ آدمی کو اگر اپنے گھٹے گھٹے چولے سے نکل کر داخلیت کی کشادہ دہلیز پر قدم رکھنا ہو تو اس سے بہتر جگہ ہوہی نہیں سکتی۔ شفیق فاطمہ شعریٰ نے روحانی الفاظ میں ’’ایلوہ‘‘ نظم میں اسے ڈھالا ہے۔
آج اس دل کو سکون دل گوتم کی تلاش
دور ویرانوں میں لے آئی ہے
ان گپھاؤں میں کوئی بزم سجی ہے جس کی
شمع تابندہ ہے گل تازہ ہیں
جام گردش میں ہیں ساقی کا کرم ہے سب پر
بند آنکھوں سے چھلکتا ہے سرور ازلی
در و دیوار سے ٹکراکے ہوا گاتی ہے
روشنی تپتے ہوئے لہر کی پابوسی کو
چاندنی بن کے گزرپاتی ہے
سحر و شام کے لمحات رواں آتے ہیں
اور گاتے ہوئے تعظیم سے جھک جھک کے گزرجاتے ہیں
ہے فضاؤں میں فرشتوں کے پروں کی آواز
ان خوبصورت و حسین مصرعوں پر اس نظم کا اختتام روح پر انمٹ نقوش چھوڑجاتا ہے۔
تشنہ لب عہد کو کیا کیا ہیں تقاضے مجھ سے
اور خاموش ہوں میں
میرے شیشے میں ہیں خونیں آنسو
حوصلوں آرزوؤں اور امنگوں کا لہو
یہ ندامت مجھے آبادی سے
ویرانوں میں لے آتی ہے
دیپ غاروں میں جہاں جلتے ہیں
اور فطرت کے سکوں زار میں
نغمات حسیں پلتے ہیں
تحریکوں اور حکومتوں کا خارجی دباؤ شاعر کے لیے ناقابل قبول ہوتا ہے۔ شاعری کے دائرہ کار میں کیا شامل ہو اور کیا خارج، اس کا فیصلہ خود شاعر کرتا ہے کہ یہ اس کی زندگی کا بھی اور موت کا بھی جواز ہے۔
شفیق فاطمہ شعریٰ ہر شاعر کی طرح وجدان کی کیفیت میں اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں لیکن دوسرے شعراء کی طرح نہ ستائش کی تمنا کرتی ہیں اور نہ کسی تنقید کی پرواہ۔ ان کی نظموں میں فکر کی نئی گہرائی اور تجربے کی گیرائی کا سمندر پوشیدہ نظر آتا ہے۔ جدید دور کے تقاضوں سے بھی واقفیت رکھتی ہیں اس لیے ہر عمر کے قاری کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ وطن، قوم اور بنی نوع کے دکھ درد کا احساس، چرند پرند کے جذبات کی عکاسی کا اظہار ان کی شاعری میں جابجا نظر آتا ہے۔ مشکل بحر کا استعمال نہایت ہی آسانی سے کرلیتی ہیں۔ فلسفہ و مذہب کے ساتھ تصوف کی تمام روایات کا احاطہ کرتی ہیں۔ فکر محکم اور اسلوب کی جدت کو حسین پیرائے میں قید کرلیتی ہیں۔ کہیں کہیں تو جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے وہ شاعر مشرق کے ہم پلہ نظر آتی ہیں۔
یہ سرزمین ہندوستان، گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار، اسی میں دو بڑے مذاہب کی روحانی مسرت مضمر ہے۔ دونوں کے سچے و کامل ملن کی تہذیبی دور میں ہی یہ طلائی گنجلک چہکاریاں بھرتی رہی۔ سیاسی راون کے تیر اس کے پنکھ بکھیرتے رہے۔ رام کی حق گوئی کی خاموشی کا درد مسلمانوں نے بھی سہا ہے۔ ستیا کی عصمت و عفت کی داستانوں نے ان کا سینہ بھی فخر سے چوڑا کیا ہے۔ اس کے دشمن کو ہر سال دسہرہ کے دن آگ میں جلتے دیکھ کر اپنے دل کی آگ کو بھی بجھتے محسوس کیا ہے۔
ستیا کی اگنی پریکشا پر ہر آنکھ سے موتی اسی سرزمین پر گرے ہیں۔ ان ہی موتیوں کی جوتی آج ہماری آنکھوں میں روشن ہے۔ شفیق فاطمہ شعریٰ نے 48 مصرعوں سے بنام ’’سیتا‘‘ کے دیپک میں اسی جوتی کو جلایا ہے۔
تیرا نام لے کر سحر جاگتی ہے
تیرے گیت گاتی ہے تاروں کی محفل
تیری خاک پاہند کا راز عظمت
تیری زندگی میرے خوابوں کی منزل
کہانی تیرے سن کے تھرا اٹھی میں
دھڑکنے لگا دھیرے دھیرے میرا دل
مگر آزمائش تھی کچھ اور باقی
ابھی سامنے اور بھی امتحان تھے
ایسی پھر اک راکشس کی اسیری
بہت دور تجھ سے تیرے پاسباں تھے
تیری پاک فطرت مگر اک سپر تھی
تیرے سامنے راکشس ناتواں تھے
یہ کیا ستم تھا کہ عفت کی دیوی
ثبوت اپنی عفت کا دینے کو آئی
وہ شعلے کی مانند شعلوں سے گزری
وہ بجلی سی بن کر زمین میں سمائی
ہر انسان کائنات قدرت کے نظام کے سامنے لاچار ہے۔ ہر پل تغیر پذیر لمحات چند ثانیوں میں ہنستی کھیلتی دنیا کو رتہس نہس کردیتے ہیں۔ خمیر خاک بے بس صرف دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ ستاروں پر کمند پھینکنے والی شکتی ان ستارو ں کی سمتوں کے آہنی ارادوں کے سامنے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔ ان ہی ستاروں کی شرارت نے شفیق فاطمہ کو ’’سمتیں‘‘ یہ نظم لکھنے پر مجبور کیا۔
ایک پگڈنڈی سے ہنستے گاتے آئے
اک دوراہے پر ان میں تکرار ہوئی
جیت گئے آدرش کے تارے جیت گئے
ہار ہوئی برسوں کے ساتھ کی ہار ہوئی
مل کر کھیل رہے تھے کچھ جگنو دیکھے
جوش تعاقب نے ان کو دیوانہ کیا
بکھرے اٹھ کر جدا جدا میدانوں میں
معصوموں کو سمتوں نے بیگانہ کیا
جہاں ہمت کی پستی حوصلوں کی اڑان کو مندمل کردیتی ہے تو دوسری طرف شاعرہ ان ہی سمتوں کی کج خرامی کو چیلنج بھی کرتی ہے اور خدائے بزرگ و برتر کی مکفت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ وفا کا یہ مقام دیکھئے جو ان کے تناسخ اور تبخیم تفرس کی داد حاصل کیے بنا نہیں رہتا۔
راہی یوں نہ سمجھنا بازی ختم ہوئی
جنم جنم ہم راہوں میں ٹکرائیں گے
جنم جنم چمکیں گے اشارے سمتوں کے
دل کی قسمت کے تارے گہنائیں گے
ہمت اور حوصلہ کی دیوی شفیق فاطمہ شعریٰ نے زیادہ تر تنہائی کو اپنا ساتھی بنائے رکھا۔ آہنی کلیجہ و خفیف تبسم ریز چہرہ۔ بڑی مشکل سے ایسا سنگم نظر آتا ہے۔ لیکن قدرت تو قدرت ہے۔ آخر اسے بھی تو اپنی عظمت کا ثبوت دینا ہے۔ سنگ ریز عشمے اسی کی تو دین ہیں۔ شفیق فاطمہ شعریٰ بھی کبھی کبھی پھوٹ پڑتی ہیں اور تب ان کے قلم سے یہ مصرعے قرطاس پر بکھرتے ہیں۔
سمٹتے پھیلتے پیہم سلگتے اور دھندلاتے
افق جو پے بہ پے ابھریں افق جب پے بہ پے ڈوبیں
تو اپنا کام کیا ہے ناؤ اپنی کھیتے رہنا ہے
ذرا سی بات لیکن آبگینے ٹوٹ جاتے ہیں
ذرا سی بات پہروں دل دکھاتی ہے سناتی ہے
تغافل گو بھلا لگتا ہے پھر بھی جی تو جلتا ہے
افق کے اس طرف اور اس طرف بکھرا ہوا امکاں
جسے ہم راہ کہتے تھے وہ ایک سپنا تھا سودا تھا
نوائے ناشنیدہ کے سویروں تک پہنچنے کا
اب آشام تنہائی کی وادی پار کرنے کا
الاؤں کے قریب آنے کا اک پیارا بہانہ تھا
وہ رقص نکہت گل تھا کہ گردش میں زمانہ تھا
شفیق فاطمہ شعریٰ کی شاعری پڑھتے وقت تو مجھے یہی محسوس ہوا کہ جیسے الفاظ نے مشرقی نسوانی جذبات کے سر پر اندر دھنیشی آنچل ڈال دیا ہو اور مشرقی تہذیب کی اساس کو استحکام بخشتے ہوئے نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی دلی کیفیت کو حرفی پیرہن عطا کیا ہو۔ ان کی صلاحیت و ہنر کی تعریف کئی عظیم ادباء و شعراء نے کی ہے۔ چہرے پر خاندانی وقار کی جھلک اور لطیف سی انکساری لیے ہمیشہ کی طرح آج بھی مجمع میں تنہا نظر آتی ہیں۔ آج کل نیو ملک پیٹھ حیدر آباد میں مقیم ہیں اور ماشاء اللہ کافی ضعیف العمری کے باوجود ارمغان حجاز کا اردو ترجمہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کے باوجود بھی انہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے غرور و بدگمانی نہیں ہے۔ انہوں نے خود کو ہمیشہ ادبی محفلوں سے دور رکھا۔ 1963 میں ممبئی میں منعقدہ مشاعرہ میں شرکت کی تھی یہ پہلا اور غالباً آخری مشاعرہ تھا۔ ’’گلہ صفورا‘‘ ’’آفاق نوا‘‘ ’’سلسلہ مکالمات‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں جو اردو اکیڈمی ایوارڈ اور غالب اردو شاعری ایوارڈ 2008 سے سرفراز ہوئے ہیں۔
جب بھی اورنگ آباد مہاراشٹر میں اور اردو ادب کے وسیع میدان میں شاعری کا ذکر کیا جائے گا شفیق فاطمہ شعریٰ کی معطر شاعری گلشن ادب کی فضاؤں میں رنگینیاں بکھیرتی رہے گی۔