شاہ فیصل مسجد، اسلام آباد
Shah Faisal Mosque, Islamabad
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی، ورنگل
مساجد کی اپنی ایک منفرد تعمیری تہذیب ہے لیکن دنیا کے بدلتے تعمیری اقدار کا اثر نہ صرف عام استعمال کی عمارات پردیکھا گیا ہے بلکہ مساجد کی تعمیرات بھی اس کے اثر سے نہ بچ سکیں حالانکہ مساجد کا ایک متعین ڈیزائن ہوا کرتا تھا۔دور حاضر میں انسانی طبیعت کی جدت طرازی نے جدید طرز تعمیر رکھنے والی مساجد میں روایتی ڈیزائن سے انحراف کیا اور ایسے چونکانے والے احساسات کو مساجد کی دیواروں میں سمو دیا کہ مسجد کا ہر حصہ ہمیں بات کرتا نظر آتا ہے ،آرکیٹیکٹس نے مساجد کو نئے اشکال میں ڈھالا کہ عبادت گذار اور سیاح دونوں ہی انگشت بدنداں نظر آتے ہیں، بالخصوص میناروں کو نئی وضع دی گئی اور کبھی کبھی گنبدان کو بنانا ضروری خیال نہیں کیا گیا، مسجد کی اندرونی آرائش کے سامان اور طریقہ کار بدل گئے۔شیشے اور اسٹیل کا استعمال بڑھ گیا، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانے لگا اور دنیا نے ان سہولتوں سے فائدہ اٹھا کر ایسی نئی نئی مساجد کی تعمیر کی جس کا تصور ایک عام آدمی کے لئے مشکل ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ
جرا ت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے اے مرد خدا ملک خدا تنگ نہیں
تعمیراتی دنیا میں ایسی ہی جرات آموزی کی ایک خوبصورت مثال’’ شاہ فیصل مسجد‘‘ ہے۔اسلام آباد میں تعمیر کردہ اس مسجد کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین مساجد میں ہوتا ہے۔ یہ مسجد شہر میں اس قدر اونچائی پر بنائی گئی ہے کہ میلوں دور سے رات ہو یا دن اس مسجد کے اونچے مینار نظر آتے رہتے ہیں۔ اہلیانِ شہر اسلام آباد نے اسکو شاہ فیصل کے نام سے موسوم کیا ہے کیونکہ اس عظیم الشان مسجد کا مکمل خرچ شاہ فیصلؔ نے اپنی ذات سے برداشت کیا تھا۔اس طرح یہ مسجد پاکستانی عوام کو شاہ فیصل کا تحفہ ہے۔ مسجد شاہ فیصل نہایت وسیع اور بہت ہی خوبصورت مسجد ہے ، اگر کسی قدر مبالغے سے کام لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی خوبصورتی کا بیان الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسکے حسن کو الفاظ میں بند کرنے سے صحیح معنوں میں اس مسجد کی تعمیری خوبیوں سے انصاف نہیں کیا جاسکتا ۔ میرا خام احساس ہے کہ اس مسجد کے متعلق کچھ کہنا اس کے حسن کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔
مسجد شاہ فیصل کو ایک ترکی آرکیٹکٹ Vedat Dalokayنے ڈیزائن کیا۔ اس کی تعمیر پر زائد از 130 ملین سعودی ریال خرچ ہوئے۔ یہ مسجد تقریباً 5000مربع میٹر یعنی 53821مربع فٹ علاقے پر بنائی گئی ہے۔نمازیوں کی گنجائش کے اعتبار سے اس مسجد میں تقریباً نوے ہزار تا ایک لاکھ افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ شاہ نے اس مسجد کی تعمیر کا ارادہ 1966ء میں کیا۔ اس کے بعد ابتدائی تیاریاں شروع ہوئیں، پہلا کام اس مسجد کی ڈیزائننگ کا تھا جس کے لیے ایک عالمی مقابلہ منعقد کیا گیا جس میں دنیا کے بڑے بڑے آرکیٹکٹس نے حصہ لیا۔ جانچ کے بعد ماہرین نے 1969ء میں Vedat Dalokayکے ڈیزائن کو پسند کیا، اس کے بعد اسلام آباد میں جگہ کا انتخاب ہوا جسکے لیے شاہراہ اسلام آباد کے اختتام پر واقع مرگلاہلز (Margalla Hills)کے علاقے کو مناسب سمجھا گیا اسکے بعد 1976ء میں اسکا تعمیری کام شروع ہوا۔ کمانوں اور گنبدان سے عاری اس مسجد کی طرز تعمیر جدید اور قدیم تہذیبی اقدار کا حسین امتزاج ہے۔ اس کے آرکیٹکٹ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’میں نے اس مسجد کو ڈیزائن کرتے ہوئے کعبۃ اللہ کی مکعب عمارت کو تصور میں رکھا تھا اسی لیے اس ہشت پہلو مکعب نما عمارت کے میناروں کو اس انداز سے بنایا ہے کہ اگر ہم تصور میں خیالی چھت ڈال دیں تو یہ عمارت مکمل مکعب نما شکل میں ظاہر ہوگی‘‘ اس مسجد کی چھت ڈھلوان ہے جس میں سنگ مر مر کی گلکاری بہت خوب انداز میں کی گئی ہے، مسجد کے اونچے مینار دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ،یہ مینارہمیشہ اپنی رفعت کا اور خدا کی وحدت وکبریائی کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ یہ مسجد صرف بیرونی جانب ہی سے حسین نہیں بلکہ اندرونی جانب سے بھی بہت خوبصورت ہے اس کی اندرونی سجاوٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس مسجد کے میناروں اور چھت کیڈیزائننگ قابل دید ہے ،چھت اور میناروں کے اندرونی حصے میں کئی ندرت آمیز اور دیدہ زیب اشیاء رکھی ہوئی ہیں جو نہ صرف اس کے اندرونی حسن میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ اس کو فنی اعتبار سے بھی بلندی عطا کر تی ہے ، رنگوں کا انتخاب اعلیٰ معیار کا ہے ،خوبصورتی کو نکھارنے کے لئے رنگوں کاا متزاج،انسانی ذہن میں تقدیس کا اعلیٰ معیار پیدا کرتا ہے ، ماحول میں تقدس کو مہکانے والی آرائشی اشیاء نے اندرونی ماحول کو اس قدر قابل دید بنا دیا ہے کہ حسن کی حس نہ رکھنے والا انسان بھی تعریف کر جاتا ہے اور بے اختیار اس کی زبان سے سبحان اللہ کا کلمہ نکل جاتا ہے۔میں حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا لیکن دور حاضر میں مسجدوں کو خوبصورت بنانے کے پیچھے شاید یہ منطق کار فرما ہو کہ عبادت کی ادائیگی کے دوران نمازی کو ایسا ماحول مہیا کیا جائے تاکہ وہ اس ماحول کی نورانیت میں کھو کر عبادتوں میں خشوع و خضوع پیدا کرلے، ورنہ ان دنوں دنیوی پریشانیوں نے انسان کی عبادتوں سے حلاوتوں کو چھین لیا ہے،ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خدا کے حضور سر ٹیک کر بھی دنیا میں کھو جاتے ہیں اور رب سے لو لگانے میں ناکام ہوجاتے ہیں اسی لئے شاید موجودہ دور کی مساجد میں مقدس ماحول پیدا کیا جا کر دل میں روحانیت کو ابھارا جارہا ہے تاکہ اس کے سجدے شرف قبولیت حاصل کرلیں۔ شاہ فیصل مسجدکو ہر لحاظ سے خوبصورت بنانے کے لئے اس کی قبلہ کی دیوار کو ترکی سے برآمد کردہ ٹائلس سے سجایا گیا ۔ چھت کو سنہرا رنگ دیا گیا اور اس میں ہلالی شکل کی کئی خوبصورتیاں ابھاری گئی، مسجد کے اصل ہال کے درمیان ایک بہت بڑا فانوس لٹکایا گیا ہے، اس فانوس کا وزن 7.5ٹن ہے اور اس میں 1000سے زائد بلبس لگے ہوئے ہیں۔ اس مسجد میں گنبد نہیں ہے، بلکہ اس مسجد کی چھت کو ایک خاص انداز سے تیار کیا گیا ہے جو تعمیری حسن کی دیدہ زیب جہت ہے، مسجد کی چھت کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جسے کسی نے ریگستان میں ایک عالی شان خیمہ نصب کردیا ہو،خوبصورتی کا کس قدر نازک اور خوشگوار احساس ہے جو عبادتوں میں سلیقہ اور سجدوں میں تڑپپیدا کرتا ہے ۔ یہ ہشت پہلو ریگستانی خیمے کی شکل کی چھت انجینئرنگ کا نادر نمونہ ہے۔ اس مسجد کی چھت 40 میٹر سے زائد اونچی ہے اس قدر اونچی چھت صرف چار کنکریٹ کے (Girders) شاہ تیرکھمبوں پر بنائی گئی ہے۔ مکمل چھت پر بھی ترکی کے خوبصورت ترابی پلیٹس اور سفید مرمر کے ٹکڑوں سے سجاوٹ کی گئی ہے۔ چھت کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے اس میں کئی چھوٹے چھوٹے فانوس لگائے گئے ہیں جو ناظر کے ذہن میں روشنیوں کو بکھیر کر حق کا راستہ دکھلاتی ہیں ۔ مسجد کا اندرونی ہال اس قدر وسیع ہے کہ اس میں بیک وقت 10 ہزار نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس خیمہ نما ہال کے چاروں کونوں پر ترکی طرز تعمیر کا دلکش مظہر شہکار مینارہیں جنکا قاعدہ مربع نما ہے ، ان میناروں کی بلندی 90میٹر سے زائد ہے۔ یہ مینار فنکاری کا ایک عجیب نمونہ ہیں جو بلندی پر اوپر جاتے جاتے سوئی کی طرح باریک ہوجاتے ہیں اور دیکھنے والے کے دل میں اللہ کی یاد بن کر چبھتے ہوئے سرفرازی کی نوید کااعلان کرتے ہوئے نمازی کے وجود میں فرحت بخش احساس پیدا کرتے ہیں۔
مسجد کا صدر باب الداخلہ بجانب مشرق واقع ہے۔ دروازے سے اندر داخل ہونے پر ابتدا میں صحن ملتا ہے اسکے بعد ایک وسیع پورٹیکو ہے، یہ پورٹیکو خود اسقدر بڑا ہے کہ اس کے نیچے 24 ہزار سے زائد افراد نماز ادا کر سکتے ہیں، جبکہ صحن میں مزید 40ہزارنمازیوں کے عبادت کی گنجائش موجود ہے۔ مسجد کے ہر ہر موڑ پراسکی ڈیزائننگ دیکھنے والوں کو چونکاتی رہتی ہے اسی لئے ماہرین کی نظر میں دوسری تمام خوبیوں کے ساتھ تعمیری کام کی نفاست اس مسجد کو دنیا کی خوبصورت ترین مساجد میں شمارکرواتی ہے۔ شاہ فیصل مسجد اسقدر بڑی ہے کہ بادی النظر میں ایک چھوٹا موٹا شہردکھائی دیتی ہے۔ مسجد سے متصل کتب خانہ، میوزیم، لکچر ہال، ریسرچ سنٹر وغیرہ موجود ہیں، اس کے علاوہ مسجد کے احاطے میں ایک اسلامی یونیورسٹی بھی موجود ہے۔ اس جامعہ میں زائد از 700 طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ شایدایسے ہی بچوں کے لیے شاہ فیصل نے یہ مسجد تعمیر کروائی تھی اور ان بچوں کے حق میں ان کی یہی دعا رہی ہوگی کہ
جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پردے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے
***