تقسیم(افسانچہ) ۔ ابن عاصی
تینوں فریق مسجد کی ملکیت کا دعوی کر رہے تھے علاقے کے بڑوں نے بہت سمجھایا لیکن کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا جب بات کسی کنارے لگتی نظر نہ آئی تو بڑوں نے فیصلہ کیا کہ مسجد کے تین حصے کر دئیے جائیں مسجد کو تین گلیاں لگتی تھیں برابر برابرجگہ تینوں فریقوں کو دے کر درمیان میں دیواریں کھڑی کر کے دروازے لگا دئیے گئے اورپھر مسجد کے سامان کی تقسیم شروع ہو گئی
ٹوپیاں ‘ قرآن پاک کے نسخے ‘سپارے ‘ رحلیں اور جاے نمازوں کے ساتھ ساتھ مردے نہلانے والے تخت اورمیت لے جانے والی چارپائیاں تک بانٹ لی گئیں حتیٰ کہ لوٹے تک آدھے آدھے کر لیے گئے۔
سب کچھ تقسیم ہو چکا تو ایک سفید داڑھی والے بابے نے پوچھا۔۔
کچھ بانٹنے سے رہ تو نہیں گیا؟
رہ گیا ہے۔۔۔۔اک طرف سے آواز آئی
کیا۔۔؟سب نے آواز والے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔کیا رہ گیا ہے؟
رب۔۔۔!اس نے کہا! رب تقسیم ہونے سے رہ گیا ہے
اس کی یہ بات سن کے سب کو پتہ نہیں کیوں اک چپ سی لگ گئی تھی
ابن عاصی
السعید منزل نقد پورہ جھنگ سٹی۔