کلیم احمدعاجز ۱۹۲۵ء میں قصبہ تلہاڑہ، ضلع پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ والد کے انتقال بعد پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ ۱۹۴۶ء میں بہارمیں فساد کی آگ بھڑک اٹھی،گھر کے تمام افراد شہید کردیے گئے۔ان جاں گسل حالا ت کا ذہن پر بہت برا اثر ہوا اور دنیا ومافیہا کی خبر نہ رہی۔لمبے وقفے کے بعد۱۹۵۶ء بی اے (آنرز)اور۱۹۵۸ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پوری یونیورسٹی میں اول آئے اور طلائی تمغہ حاصل کیا۔’’بہار میں اردو شاعری کے ارتقا‘‘ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ۱۹۶۵ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔پٹنہ کالج، پٹنہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر کے منصب پر فائز ہوئے۔ مسلم ہائی اسکول کے نویں جماعت میں جب زیر تعلیم تھے تو چند غزلیں لکھ کر اسکول کے ہیڈ مولوی ثمر آروی سے اصلاح لی۔پہلی او رآخری اصلاح یہی تھی۔ان کی تصانیف میں’مجلس ادب‘، ’وہ جوشاعری کا سبب ہوا‘،
’جہاں خوش بو ہی خوش بو تھی‘، ’یہا ں سے کعبہ ، کعبے سے مدینہ‘، ’اک دیس ایک بدیسی وغیرہ شامل ہیں۔
حکومت ہند کی جانب سے انہیں پدم شری ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔
آج صبح یعنی ۱۵ فروری ۲۰۱۵ کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔انّاالللہ وانّا الیہ راجعون۔
ادارہ جہانِ اردو اس موقع پراپنے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتا ہے۔
One thought on “ممتاز شاعر کلیم عاجز نہیں رہے”
Khuda unhe jannat ul firdous atha farmaie.