نام کتاب : نوبیل حیاتیات اشاعت:۲ ۲۰۱ء
ترجمہ نگار ومرتب: باقر نقوی قیمت : ۳۰۰۰؍ روپے
ناشر : کتاب مارکیٹ، آفس نمبر ۱۷،سٹریٹ نمبر-3- ضخامت : ۵۹۸ صفحات
اردو بازار ، کراچی ، پاکستان تبصرہ نگار :دیپک بدکی
’نوبیل حیاتیات‘ باقر نقوی کی دو ہزار پانچ سو صفحات اور تین جلدوں پر مشتمل سیریز کی آخری پیشکش ہے جس میں حیاتیات کے میدان میں لاثانی کام کرنے والے نوبیل انعام یافتہ سائنس دانوں کا تعارف اور ان کے خطبات درج ہیں۔اس سلسلے کی دو جلدیں ’نوبیل ادبیات‘ اور’ نوبیل امن کے سو برس‘ پہلے ہی شائع ہو چکی ہیں۔مذکورہ سیریزمشہور سائنس دان الفریڈ نوبیل، جنھوں نے اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ امن ، آگہی اور علمی تحقیق کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات کی صورت میں د ینے کے لیے مختص کیا تھا ، کے تئیں خراج عقیدت ہے۔الفریڈنوبیل کی وصیت کی بنیادی شرط یہ تھی کہ ایسے سائنس دانوں نے’’انسانیت کو سب سے بڑا فائدہ پہنچایا ہو۔‘‘(ص۱۴۳)
باقر نقوی الہ آباد ،ہندوستان میں پیدا ہوئے اور گزشتہ۳۸ برس سے برطانیہ میں اقامت پذیر ہیں جہاں وہ زندگی بیمہ کے پیشے سے وابستہ ہیں۔البتہ پاکستان آنا جانا رہتا ہے۔ان کی ادبی زندگی کا آغاز بطور شاعر پچاس سال پہلے ہوا تھا۔اب تک ان کے تین شعری مجموعے، ’تازہ ہوا‘(۱۹۸۸ء)،’مٹھی بھر تارے‘(۱۹۹۱ء)، ’موتی موتی رنگ‘ (۱۹۹۴ء)اور کلیات شاعری ’دامن‘(۲۰۰۴ء) شائع ہو چکے ہیں۔ نثری اصناف میں ان کا افسانوی مجموعہ ’آٹھواں رنگ ‘ اور نوبیل انعام یافتہ ناولوں کے ترجمے ہرٹامیولر کا ’نشیبی سرزمین‘ اور گنتر گراس کا ’نقارہ‘(The Tin Drum) ۲۰۱۲ء میں منظر عام پر آچکے ہیں۔غیر ادبی شعبوں کے حوالے سے ان کی شائع شدہ کتابوں کے نام یوں ہیں ؛ ’الفریڈ نوبیل‘(۱۹۹۹ء) ، ’خلیے کی دُنیا‘ [جینیات اور کلوننگ پر لکھی گئی تصنیف] (۲۰۰۲ء) ، ’برقیات مع الیکٹرونکس کی مختصر تاریخ(۲۰۰۵ء) ، ’مصنوعی ذہانت‘[Artificial Intelligence] (۲۰۰۶ء) ،’ای ایف یو۔ایک تحریک‘(۲۰۰۷ء)، ’نوبیل ادبیات ‘ (۲۰۰۹ء) ،’نوبیل امن کے سو برس‘(۲۰۱۱ء) اور زیر نظر کتاب ’نوبیل حیاتیات‘۔مذکورہ عنوانات پر طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ باقر نقوی نے ادب کے علاوہ کئی نادر اور مفید کتابیں تحریر، ترتیب و تدوین یا پھر ترجمہ کی ہیں جن کی اردو زبان کی نشو و نُما کے لیے اشدّ ضرورت ہے ورنہ تو اردو میں سہولت پسند ادیب زیادہ تر شاعری اور تنقید کے دائرے میں رہ کر ہی رقص سرور میں سر دھنتے رہتے ہیں۔
زیر نظر جلد میں فعلیات اور ادویات کے شعبے میں ۱۹۰۱ء سے لے کر۲۰۰۰ء تک تقسیم کیے گئے نوبیل انعامات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ان میں صرف اعترافِ کمال، اعلان تجلیل اور خطاباتِ تشکر شامل کیے گئے ہیں جبکہ انعام یافتگان کے خطبات طوالت، ریاضیاتی فارمولوں اور دیگر پیچیدگیوں کے سبب شامل اشاعت نہیں ہیں ۔سائنس دانوں کے سامنے گذشتہ صدی میں کئی موضوعات بطور چیلینج ابھر کر آگئے جیسے خلیے کی ساخت Cell biology کی مزید تحقیق کرنا،بافتوں Tissues اورلونیو ں Chromosomes کی بناوٹ اور وراثت میں ان کا حصہ ، جینیات Genes ، جینیاتی رمز Genetic code ، نظامِ حیات Genome ، پروٹین، امائنوایسڈ، ڈی این اے اور آر این اے کی کار کردگی ، نیوروبیالوجی،اعصابی نظام اور اطلاع رسانی، تریاقی مادے Antibodies ، نظامِ مامونیت ImmuneSystem اور مامونیاتی دفاع، خمیرےEmzymes ، غدود اورہارمونیاتی نظام، خون کے گروپس ،وٹامنز کی دریافت، لاعلاج بیماریوں کی علت و سبب ڈھونڈنا،ان بیماریوں کا علاج اور ادویات تلاش کرنا، ڈی ڈی ٹی،پن سیلین اور انسولین کی ایجاد، عضو ، خلیے یا ہڈی کے گودے کی پیوند کاری ،کمپیوٹر ٹوموگرافی Tomographyوغیرہ ۔ اعلان تجلیل میں ان مخصوص ایجادات کا پس منظر اور انعام یافتگان کے کار نمایاں بیان کیے گئے ہیں جبکہ ضیافت سے خطاب میں انعام یافتگان نے اپنے تجربات پر مختصر روشنی ڈالی ہے۔کہیں کہیں پر انھوں نے اسطوری حکایات و تلمیحات اور نظموں سے بھی اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ باقر نقوی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف ان تحریروں کا بخوبی ترجمہ کیا ہے اور اصطلاحات کو بڑی ہنر مندی سے برتا ہے بلکہ نظموں کا ترجمہ اردو نظموں میں ہی کیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان سا ئنس دانوں نے کس عرق ریزی اور دقیقہ شناسی سے سرطان اور لیوکیمیا کا علاج، بیکٹیریا سے پیدا شدہ عارضے، وائرس کی آلودگی Infection کی وجہ، تپ دق،ملیریا، اینیمیا، پولیو،زرد بخار،آتشک،ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس اور دیگرگھلا دینے والی بیماریوں کی چھان بین ، دل اور شریانوں میں خون کے ناکافی بہاؤ کا سبب، کولیسٹرول کی ضابطہ بندی، تھیلاسیمیا Thalassemia،ذہنی امراض جیسے ذہنی تنزلDimentiaاور ضعف عقل Alzheimer\’s کے اسباب ، بصارت اور سمعی عمل کا تجزیہ اورٹیکوں Vaccines کی دریافت وغیرہ کے بارے میں تحقیق کی ہے۔۱۹۹۰ء کے اعلان تجلیل میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہڈی کے گودے کی پیوند کاری سے دس ہزار سے زیادہ مریض شفا یاب ہو چکے ہیں اور دنیا میں ہر سال بیس ہزار سے زائدگردے پیوند کیے جاتے ہیں۔اسی طرح پروفیسر فارس مان(نوبیل پرائز ۱۹۵۶ء ) کے خلوص و ایثار کے بارے میں درج ہے کہ’’ایک نوجوان ڈاکٹر ہوتے ہوئے آپ نے خود اپنے دل میں نلکی ڈالنے کے عمل کی ہمت کی تھی۔‘‘(ص۲۷۸ء)
’نوبیل حیاتیات ‘سے چند اقتباسات ذیل میں درج کرتا ہوں تاکہ قاری خود ہی کتاب کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ لگا سکے:۔
*زندگی کی کامیابی کے لیے دو(۲) کا ہونا ضروری ہے۔(قدیم ڈینمارکی گیت کا مصرعہ، ص ۲۵۴)
*سائنس میں ، ہر نیانتیجہ، جو اکثر حیرت انگیز ہوتا ہے، نئے بڑھتے ہوئے قدم کا نقیب ہوتا ہے اور ماضی کے نظریات کو مسترد کرنے کی اجازت دیتا ہے…(اسٹینلے پروسنر،نوبیل پرائز۱۹۹۷ء، ص۴۵)
*میں خود بھی اسی خیال کا آدمی ہوں کہ سائنس قومی سرحدوں کو نہیں مانتی،اور اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں اسی خیال پر عمل کرتا رہا ہوں۔(سُسو‘ موتونیگاوا، نوبیل پرائز ۱۹۸۷ء)
*ہم جب سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں اور خود کو عالم کہنے لگتے ہیں تو سائنسی سماج کے ناکارہ ارکان بن جاتے ہیں۔(کرستیان ڈی ڈیوا،نوبیل پرائز ۱۹۷۴ء)
الغرض یہ کتاب گذشتہ صدی میں ہوئی سائنس کی ترقی کا آئینہ ہے۔ اسلوب اور طرز پیشکش ایسی ہے کہ نہ صرف سائنس خصوصاً فعلیات اور امراض سے تعلق رکھنے والے شائقین اس سے استفادہ کر سکتے ہیں بلکہ عام قاری بھی اپنے علم میں توسیع کر سکتا ہے۔ مطالعہ کرتے وقت کہیں پر کسی قسم کی ثقالت یا جھول محسوس نہیں ہوتی۔میں سمجھتا ہوں کہ اردو کے کینواس کو بڑھانے کے لیے ان کتابوں کی بہت ہی ضرورت ہیں۔ یہاں پر ایک تجویز پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ایسی کتاب کے اخیر میں کتاب میں استعمال شدہ سائنسی الفاظ اور اصطلاحات کی ایک فہرست مرتب کرنی چاہیے اور ان کے ساتھ ہی متبادل انگریزی الفاظ لکھے جانے چاہیے تاکہ وہ قارئین جنھیں سائنس اور حیاتیات سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو کتاب سے فائدہ اٹھا سکیں۔
زیر نظر کتاب کی حوالہ جاتی اور معلوماتی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ ہر وہ لائبریری جس میں اردو کی کتابیں دستیاب ہیں اس کتاب کو طلبہ کے لیے فراہم کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کرے گی۔
*****