کیا وقت ہے
ڈاکٹرزینت ساجدہ
سامنے والی عمارت دو منزلہ ہے۔ نیچے اور اُوپر کئی فلیٹ بنے ہیں۔ اُوپر کی منزل کے ایک فلیٹ کی بالکنی کے ایک کونے میں ایک بوڑھا اور بوڑھیا ہیں۔ صبح، شام جب کبھی نظر اس طرف اٹھتی ہے، وہ دونوں یو نہی آمنے سامنے اپنی اپنی کرسی پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ بوڑھے کے ہاتھ میں اخبار ہوتا ہے، وہ کبھی اخبار پڑھتا ہے اور کبھی پڑھتے پڑھتے اونگھ جاتا ہے۔ بڑھیا بالکنی کی ریلنگ کے سہارے بیٹھی خالی خالی نظروں سے بستی کو تکے جاتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے مگر شاید کچھ نہیں دیکھتی، سنتی ہے پر کچھ نہیں سنتی۔ دونوں کی عمر کیا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ بڑھاپے کی جس منزل میں وہ ہیں، وہاں سالوں کا حساب اور عمر کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔ ان کے چہروں کی کیفیت میں یکسانیت اور ٹہراؤ ہے۔ کبھی ان میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ نہ غم نہ خوشی، نہ لاگ نہ لگاؤ۔ کسی جذبے کی ہلکی سی پرچھائیں کا تک وہاں گذر نہیں۔ یہ چہرے کسی سے کچھ نہیں کہتے۔ وہ دونوں ہماری آپ کی بے حد مصروف پر شور اور ہنگامہ خیز زندگی کے درمیان رہتے ہوئے بھی ہر چیز سے بے تعلق دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر کبھی کبھی ایک چھوٹے سے سنسان ٹاپو کا احساس ہوتا ہے جو سمندر کے پھیلے ہوئے طوفانی سینے پر جما ہوا ہے۔ لہریں دندناتی، شور مچاتی اور جھاگ اڑاتی آتی ہیں اور اس کے کناروں سے سر ٹکرا کر لوٹ جاتی ہیں مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا اور نہ اس کی سنسان خاموشی میں کوئی فرق پڑتا ہے۔
اس فلیٹ میں بھی عمارت کے دوسرے فلیٹوں کی طرح دو کمرے ہیں، کچن اور باتھ روم ہیں۔ پیچھے اور سامنے برآمدہ ہے۔ ایک طرف آگے کو نکلی ہوئی چھجے دار چھوٹی سی بالکنی ہے۔ فلیٹ کافی آرام دہ ہے، بجلی، پانی، پنکھا، فرج ہر چیز موجود ہے۔ دوسرے فلیٹوں میں تنگی کا احساس ہوتا ہے۔ لوگ زیادہ ہیں یا بے ضرورت گھومتے پھرتے ہیں لیکن اس فلیٹ میں وسعت کا احساس ہوتا ہے۔ بوڑھے اور بوڑھی کی دنیا کمروں سے بھی بے تعلق ہے۔ انکا وجود بس چھوٹی سی بالکنی سے وابستہ ہے۔ کمرے سنسان اور بے کار پڑے ہیں۔
گھر میں دو نوکر ہیں، ایک عورت اور ایک مرد، وہ بھی عام نوکروں سے مختلف ہیں۔ مالک اور مالکن کے ہم زاد لگتے ہیں۔ عورت کمروں میں جھاڑو دیتی ہے، فرش صاف کرتی ہے، کپڑے دھوتی ہے اور برتن مانجھتی ہے۔ مرد بازار جاتا ہے، پھل، ترکاری اور ضرورت کی چیزیں خرید لاتا ہے، کھانا پکاتا ہے۔ عورت کام ختم کر کے بستی سے دور اپنے گھر چلی جاتی ہے اور مرد پچھلے برآمدے میں لیٹ جاتا ہے اور بیڑی پیتا ہے۔ گھر کا کام چپ چاپ نمٹ جاتا ہے۔ ہر کام وقت پر ہو جاتا ہے۔ نہ بک بک نہ جھک جھک۔ عام گھروں کی طرف نوکروں کے پیچھے نہ کوئی سر کھپاتا ہے نہ انھیں بار بار آواز دیتا ہے۔
بالکنی میں کرسیوں کے پاس ہی ایک چھوٹی سی میز رکھی ہوئی ہے۔ اس پر دواؤں کی بوتلیں پانی کا گلاس، جگ، پھلوں کی پلیٹ اور بسکٹوں کا ڈبا دھرا ہے۔ ایک کونے میں ریڈیو رکھا ہے۔ دونوں شاید اونچا سنتے ہیں۔ اس لیئے جب بھی ریڈیو بجتا ہے تو آواز بہت اونچی ہوتی ہے۔ سارا محلہ انھیں کے ریڈیو سے خبریں سنتا ہے۔ کرکٹ کے سیزن میں کمنٹری سنی جاتی ہے۔ ریڈیو ان کے لیے بولتا ہوا اخبار ہے۔ گانے اور دوسرے پروگرام سے انھیں کوئی دل چسپی نہیں۔ سامنے کی دیوار پر ایک بڑی گھڑی لٹکی ہوئی ہے، جس کا پنڈولم جھولتا رہتا ہے اور ہر آدھے گھنٹے بعد وقت کا اعلان کرتا ہے۔ ٹن، ٹن، ٹن،۔
جاڑا ہو یا گرمی دونوں بالکنی میں سارا دن گذار تے ہیں۔ رات بہت دیر گئے جب ساری بستی سوجاتی ہے وہ سونے کے لیے اندر کمروں میں جاتے ہیں اور صبح سویرے سب کے جاگنے سے پہلے پھر وہیں آن موجود ہوتے ہیں۔ اُن کے لیے ایک دن اور دوسرے دن میں کوئی فرق نہیں۔ ہاں جاڑا ہو تو بڑھیا شال اوڑھے لپیٹے رہتی ہے اور بوڑھا گرم کوٹ پہنا دکھائی دیتا ہے۔ گرمی میں صبح سے رات دیر گئے تک پنکھا چلتا رہتا ہے۔
اس عمارت اور آس پاس کی عمارتوں کے فلیٹوں میں ہر طرح کے لوگ آباد ہیں لیکن ہر بڑے شہر کی طرح یہ نئی بستیاں محلہ نہیں بن جاتیں۔ یہ ٹاورز ہیں محلہ نہیں۔ اُن کا اپنا چہرہ نہیں، شخصیت نہیں، انفرادی وجود نہیں۔ پرانے محلوں کی طرح یہاں ایک گھر کا دوسرے گھر سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں ہر فلیٹ ایک اکائی ہے، بے نام اکائی،. یہاں لوگ. جوان، بوڑھے، بچے، مرد اور عورتیں. اپنے فلیٹ کی چار دیواری میں محصور ہیں، پڑوس ہے لیکن کوئی پڑوسی نہیں۔
ہر فلیٹ کی اپنی دنیا ہے۔ لیکن ہر جگہ چہل پہل ہے، ہمہ ہمی ہے، زندگی ہے۔ کہیں شور و غل ہے، کہیں جھگڑے ہیں، کہیں ریڈیو کے گانے ہیں، کہیں عورتوں کے کوسے ہیں، کہیں بچوں کے قہقہے ہیں، کہیں ڈانٹ پھٹکار ہے، کہیں شکوے شکایتیں ہیں، غرض وہ سب کچھ ہے جو عام گھروں میں دن رات ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ان کی صبح و شام یکساں نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف بوڑھے اور بڑھیا کے فلیٹ میں زندگی ایک حال پر قائم ہے۔ یہاں وقت رک سا گیا ہے۔ ایک ہی دن بار بار آتا ہے اور گذر جاتا ہے، گذرتا بھی نہیں گذارا جاتا ہے۔ باہر لمحے گھڑیوں میں، گھڑیاں دنوں میں، دن برسوں میں بدلتے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک ہی لمحہ بار بار تکرار کر رہا ہے، برسوں سے، صدیوں سے، جانے کب سے، فلیٹ سے باہر، دوسرے فلیٹوں میں یا گلی اور بازار میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے اس فلیٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
گلی میں سویرے میونسپلٹی کے لوگ جھاڑو لگاتے ہیں، پھر دودھ والے کی آواز سنائی دیتی ہے، اخبار بیچنے والے لڑکے چیخ چیخ کر اخبار بیچتے ہیں، سڑک پر بسیں اور کاریں دوڑتی ہیں، رکشہ والوں کی گھنٹیاں بجتی ہیں۔ ہر گھر سے مختلف قدو قامت کے بچے اور بچیاں کندھوں سے بستے لٹکائے شور مچاتے نکلتے ہیں یا سب ایک ساتھ باتیں کرنے لگتے ہیں۔ دفتروں میں کام کرنے والے مرد اور عورتیں ہاتھوں میں بیگ لیے، ٹفن سنبھالے تیز تیز قدم اٹھاتے سڑک کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ ہر گھر سے کپڑے دھونے اور نوکروں کو پکارنے کی آوازیں آتی ہیں. پھر ٹھیلے پر سامان بیچنے والوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ عورتیں اپنے اپنے دروازے پر کھڑی سامان خریدتی ہیں، دام چکاتی ہیں، پھٹکارتی ہیں۔ پھر کچھ دیر کے لیے سناٹا چھا جاتا ہے، عورتیں بھی چپ ہیں۔ زندگی چاروں طرف اونگھ رہی ہے۔ دوپہر ڈھلنے لگتی ہے تو برتن بیچنے والوں، کپڑا بیچنے والوں، پھیری والوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ فلیٹ جاگ اٹھتے ہیں۔ گھروں کی صفائی ہوتی ہے، عورتیں ایک دوسرے کو پکارتی ہیں، چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں آتی ہیں، مائیں ڈانٹ ڈپٹ کر انھیں چپ کراتی ہیں۔ پھر چار بجتے ہیں۔ سڑک پر گاڑیوں کا شور بڑھنے لگتا ہے۔ مونگ پھلی والا اپنا ٹھیلا گلی کے نکّڑ پر کھڑا کر دیتا ہے۔ اسکول سے بچے لوٹ رہے ہیں۔ مونگ پھلی اور میٹھی گولیاں خرید رہے ہیں۔ آئس فروٹ اور کھلونے والوں کی آوازیں بلند ہوتی ہیں اور بچے اُدھر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔ اپنی کتابیں ایک طرف پھینک کر ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں۔ مائیں چلاّ چلاّ کر انھیں چپ کراتی ہیں۔ بیچ بچاؤ کرتی ہیں، ناشتہ کو بلاتی ہیں، مار پیٹ کرتی ہیں۔ بچے کچھ دیر کو ماؤں کے ساتھ گھروں میں چلے جاتے ہیں لیکن پھر شور مچاتے باہر نکل آتے ہیں۔ کہیں گولیاں کھیل رہے، کہیں لٹو گھما رہے ہیں اور کہیں گلی ڈنڈا۔ پتنگوں کے موسم میں ہر ایک کے ہاتھ میں پتنگ اور چرخ ہے۔ ہوا میں پتنگیں ڈول رہی ہیں، رنگ برنگی، چھوٹی بڑی، پتنگ کٹتی ہے تو لوٹنے کے لیے دوڑ پڑھتے ہیں، ایک دوسرے سے گتھ جاتے ہیں، دھنگا مشتی ہوتی ہے، تو تو میں میں ہوتی ہے۔
کالج کے طالب علم کتابیں گھروں میں پھینک کر اپنے اپنے لباس کی سج دھج دکھانے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ گلی کے نکڑ پر دو دو چار چار کھڑے باتیں کر رہے ہیں، قہقہے لگا رہے ہیں، فقرے چست کر رہے ہیں، لڑکیوں پر آوازے کس رہے ہیں، خوش فعلیاں کر رہے ہیں۔
دفتروں میں کام کرنے والے تھکے مارے ڈھیلے ڈھالے قدم رکھتے گھروں کی طرف لوٹ رہے ہیں، مٹھ لٹکا ہوا ہے۔ گھرمیں داخل ہوتے ہیں، آرام کرسی میں ڈھیر ہو جاتے ہیں یا اپنی بیویوں پر غصہ اتارنے لگتے ہیں۔
شام ہوتے ہی ہرفلیٹ میں شور بڑھتا جاتا ہے۔ کھانا پکانے کا شور، بچوں کے کھانے اور کھلانے کا ہنگامہ، طالب علموں کا چلا چلا کر سبق یاد کرنا، چھوٹے بچوں کا رونا، ریڈیو کا شور. ہر فلیٹ کی ساری بتیاں روشن ہیں۔ پھر ایک ایک کر کے بتیاں بجھنے لگتی ہیں، دھیرے دھیرے سناٹا چھا جاتا ہے اور اندھیرے کی چادر ساری بستی پر پھیل جاتی ہے۔
یہ سب آواز یں، یہ ساری چہل پہل یہ شور یہ ہنگامہ، اس فلیٹ کے چاروں طرف دن بھر گھومتا رہتا ہے مگر فلیٹ میں داخلے کا راستہ اسے نہیں ملتا بلکہ سناٹا یہیں سے نکل کر ساری بستی پرچھا جاتا ہے۔ بوڑھا اور بڑھیا وقت کے ان ہنگاموں کو سناٹے میں بدلتا دیکھتے ہیں۔ انھیں ان ہنگاموں سے کوئی سروکار نہیں، وہ خود سناٹا ہیں، انھیں کہیں جانا ہے نہ آنا۔ گھر میں کوئی بچہ نہیں جو روئے اور اسے چپ کرانے کے لیے لوری گائی جائے یا کہانی سنائی جائے۔ کوئی نوجوان نہیں، جس کو دیر گئے گھر لوٹنے پر باز پرس کی جائے۔ نہ بہو ہے، جس سے جھگڑا ہو، نہ بیٹی ہے،جس سے سر میں تیل لگوایا جائے۔ کوئی نہیں۔ کوئی نہیں۔ بس وہ دونوں ہیں۔ انھیں آپس میں کچھ کہنا سننا بھی نہیں۔ کوئی موضوع نہیں، کوئی مسئلہ نہیں، سب باتیں کی جاچکی ہیں، تمام موضوع ختم ہیں۔
ان کے نام کیا ہیں؟ شاید وہ خود بھی اپنے نام بھول چکے ہوں۔ وہ بے آواز اور بے جان مورتیاں معلوم ہوتے اگر ہر پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹے کے بعد ان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ آواز بھی شاید اس لیے اونچی ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کو اپنے وجود کا احساس دلائیں۔
صبح مرغ اذاں بھی نہیں دیتا کہ فلیٹ میں بوڑھے کی آواز گونجتی ہے، اوہ کیا وقت ہو گا، اور بڑھیا شاید بڑی گھڑی دیکھتی اور وقت بتاتی ہے، ابھی چار بجے۔ اچھا،اچھا۔ بستی میں جھاڑو لگانے والوں کی آواز آتی ہے اور بوڑھا پوچھتا ہے، کیا وقت ہو گا؟ بڑھیا کہتی ہے،چھ بج گئے ہیں، چائے آ گئی ہے،پی لو، اخبار یہ رکھا ہے،۔ وقت گزر رہا ہے، بوڑھا انگڑائی لیتا ہے،کیا وقت ہے،کیا وقت ہو گا،؟ بڑھیا کہتی ہے، ساڑھے سات بجے ہیں ناشتہ کر لیں۔ کیا وقت ہو گا؟ آٹھ بجے ہیں، ریڈیو سن لیں۔ کیا وقت ہو گا؟ ۹ بجے ہیں دوائی کھالیں۔ کیا وقت ہو گا؟ گیارہ بجے ہیں،رس پی لیں۔ کیا وقت ہو گا؟ بارہ بجے ہیں، کھانا کھالیں۔ کیا وقت ہو گا؟ دو بجے ہیں آرام کر لیں، کیا وقت ہو گا؟ چار بجے ہیں، چائے پی لیں۔ کیا وقت ہو گا؟ چھ بجے ہیں دوائی کھا لیں، کیا وقت ہو گا؟ آٹھ بجے ہیں کھانا کھالیں۔ کیا وقت ہو گا؟ نو بجے ہیں، خبر یں سن لیں، کیا وقت ہو گا؟ کیا وقت ہو گا؟ کیا وقت ہو گا؟۔
بوڑھے کی آواز گنجیلی اور بھاری ہے، بڑھیا کی آواز سپاٹ ہے۔ بوڑھا صرف کیا وقت ہے کی گردان کرتا رہتا ہے۔ بڑھیا وقت اور پروگرام بتاتی جاتی ہے۔ ہر گھڑی کا کام بندھا ٹکا ہے۔ وہ اس کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ نہ پوچھنے کا انداز بدلتا ہے اور نہ جواب دینے کا ڈھنگ۔ مقررہ وقت پر وہی سوال اور اس کا وہی مقررہ جواب۔ گھڑی کی سوئی گھومتی رہتی ہے، سکنڈ منٹ میں، منٹ گھنٹوں میں، گھنٹے دن رات میں اور دن رات ہفتوں اور مہینوں میں بدلتے رہتے ہیں لیکن ان کے لیے وقت وہی ہے جو تھا۔
بوڑھے کو پنشن ملتی ہے۔ پہلے وہ ایک بڑے مکان میں رہتے تھے،جس میں کئی کمرے، دالان،برآمدے اور صحن تھے۔ بیٹوں کے مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک جانے کے بعد، جب تک طاقت تھی وہ اس مکان میں رہا کیے۔ ان دنوں بوڑھا وقت گزاری کے لیے باغیچے میں صبح شام کھرپی لیے کام کیا کرتا تھا اور بڑھیا سلائی، بنائی اور پکوان سے دل بہلایا کرتی تھی۔ دونوں پابندی کے ساتھ ٹہلنے جایا کرتے تھے۔ لیکن تاب و تواں جواب دے چکے تو ڈھنڈار سے گھر سے وحشت ہونے لگی۔ انھوں نے مکان کرایہ پر اٹھا دیا اور اس فلیٹ میں اٹھ آئے۔ پنشن اور مکان کے کرایے سے ان کی گزاربسر بڑے آرام کے ساتھ ہو جاتی ہے۔
دونوں لڑکے باہر کے ملکوں میں خوب کماتے ہیں اور خوب خرچ کرتے ہیں مگر مصروف ہیں، بے حد مصروف۔ اس لیے ماں باپ کے ہاں آسکتے ہیں اور نہ انھیں بلاسکتے ہیں۔ ہر مہینے اپنی خیریت کا خط بھیج دیتے ہیں۔ اس خط سے ان کے درمیان رشتہ قائم ہے۔ ڈاکیہ مہینے میں ایک دو چکر اس گھر کے بھی لگا جاتا ہے اور دو خط،بجلی کا بل، کرایہ دار کا چیک پہنچا جاتا ہے۔ دودھ والا اور روٹی والا ہر مہینے مقررہ دن آ کر حساب لے جاتا ہے۔ اس میں کبھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ ہر ہفتے ڈاکٹر آتا ہے،نبض دل، اور خون کا دباؤ چک کرتا ہے اور وہی دوائیں لکھ جاتا ہے جو وہ مہینوں اور برسوں سے کھا رہے ہیں۔ کسی چیز میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، کوئی فرق نہیں آتا۔ ہر چیز وہی ہے، ہر چیز دہرائی جا رہی ہے مگر گزرتے وقت کی چپ چاپ مشین انھیں دھیرے دھیرے گھِس رہی ہے۔ تنہائی انھیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، کھوکھلا کر رہی ہے۔
کیا وقت ہے؟
کیا وقت ہے؟
یہ وقت آخر کب گزرے گا، کب گزرے گا۔
مشمولہ:اسلوبِ بیاں اور ۔مولف۔رحمت یوسف زیٔ