افسانہ ’’دو گز زمین ‘‘ ۔ از۔ لیو ٹالسٹاے/ ڈاکٹراسلم فاروقی

Share

russian-writers-leo-tolstoy-sergei-gerasimov-dvd-cover-art

دو گز زمین    


 
لیو ٹالسٹاے   

پاکھم ایک مہم جو جذباتی کسان تھا- اسے زمین خریدنے کا جنون کی حد تک شوق تھا- وہ چاہتا تھا کہ اس کی ملکیت میں بہت ساری زمین ہو- وہ دور دراز علاقوں سے زمین کی خریداری کی معلوما ت اکھٹا کرتا تھا- ایک مرتبہ اسے اطلاع ملی کہ بہت دور بشکرس علاقے میں بہت اچھی زمینات برائے فروخت ہیں- اور وہ بھی نہائت واجبی داموں پر- وہ سامان سفر باندھتا ہے اور چند ملازمین کے ہمراہ زمین کی خریدی کے لئے بشکرس کی جانب روانہ ہوجاتا ہے- بشکرس پہونچ کر وہ گاؤں کے بزرگوں سے زمین کی خریداری کی معاملت طے کرتا ہے- جب زمین کی قیمت کا اسے پتہ چلتا ہے تو اسے گاؤں والوں کی بے وقوفی پر ہنسی آتی ہے-گاؤں والوں نے فی یوم ایک ہزار روبل زمین کی قیمت طے کی-پاکھم کو یہ معاملت کچھ سمجھ میں نہیں آئی-وہ پھر سے دریافت کرتا ہے کہ یہ کس قسم کی قیمت ہے اسے ہزار روبل میں کتنے ایکر زمین ملے گی؟ میں آپ کی معاملت کو نہیں سمجھ پایا- تب گاؤں والے کہتے ہیں کہ ہماری معاملت کا طریقہ کچھ اور ہی ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک ہزار روبل میں جتنی چاہے زمین لے سکتا ہے تاہم شرط یہ ہے کہ وہ صبح طلوع آفتاب سے شام غروب آفتاب تک خود اپنی من چاہی زمین پر چلے اور شام کو اس غروب آفتاب سے قبل اس جگہ واپس آجائے جہاں سے اس نے زمین ناپنے کا سفر شروع کیا تھا- پاکھم جستجو کے انداز میں کہتا ہے کہ ایک شخص تو دن میں بہت ساری زمین پر چل سکتا ہے تب کیا وہ ساری زمین اسی کی ہوجائے گی- تب گاؤں والے اس کی سادہ لوحی کا مذاق اڑاتے ہیں اور ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاں وہ ساری زمین تمہاری ہوجائے گی- تاہم یہ شرط بھی رہے گی کہ اگر تم شام تک اپنے مقررہ مقام پر واپس نہ پہونچو تو تمہاری رقم قرق کرلی جائے گی-

خوشی ومسرت حیرت و استعجاب کے جذبے سے سرشار پاکھم بہت زیادہ زمین اپنے قبضے میں کر لینے کے منصوبے بناتے رات بے چینی سے گذارتا ہے- صبح سویرے وہ گاؤں والوں کے ساتھ اپنا سفر شروع کرنے کے لئے ایک پہاڑی کے اوپر جا پہنچتا ہے- ابتدائی مقام طے کرتے ہوئے گاؤں والے پاکھم کی ٹوپی ایک مقام پر رکھ دیتے ہیں – یہی وہ مقام ہوگا جسے دوبارہ چھولینے سے اس کی نشان زد کردہ ساری زمین اس کی ہوجائے گی- وہ زمین کی خریدی کے لئے طے شدہ ایک ہزار روبل وہاں رکھ دیتا ہے اور اپنے حصے کی زمین کی نشاندہی کے لئے چل پڑتا ہے وہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے مختلف مقامات پر نشانات بناتا چلا جاتا ہے- وہ زیادہ زمین اپنے حصے میں کر لینے کے جذبے سے سرشار آسانی سے آگے بڑھا چلا جارہا تھا- وہ سوچ رہا تھا کہ تین میل چلنے کے بعد وہ بائیں جانب مڑ جائے گا-اس کا خیال تھا کہ زمین اس قدر شاندار ہے کہ اس کا چھوڑنا بے وقوفی ہوگی- صبح صبح وہ سیدھے آگے بڑھتا ہی گیا – لیکن جب دوپہر تک سورج اس کے سر پر آگیا تھا وہ پیچھے مڑکر پہاڑی کی جانب دیکھتا ہے تو پہاڑی پر موجود لوگ اسے دکھائی نہیں دیتے- وہ بہت دور تک نکل آیا تھا-اب وہ واپس لوٹ جانا چاہتا تھا- اس کے ننگے پیروں میں زخم آگئے تھے اور اس کے پیر کمزور ہونے لگے تھے- دوپہر کے ساتھ ہی واپسی کا سفر شروع کردیتا ہے- وہ تیز تیز واپس ہونے میں لڑکھڑا رہا تھا- وہ چاہتا تھا کہ کچھ دیر تیز دوڑ کر واپسی کا فاصلہ جلد طے کر لے- اس نے سوچا کہ زمین کا گھیراؤ کرنے میں وہ لالچی ہوگیا تھا اور اپنے نشان سے بہت دور نکل آیا تھا- اس خوف سے کہ کہیں وہ وقت پر مقررہ مقام کو نہ پہونچ پائے اس کی سانس اکھڑنے لگی تھی- پسینے سے اس کے کپڑے شرابور ہونے لگے تھے- پیاس کے سبب حلق میں کاٹے پڑ رہے تھے – اس کے پھیپھڑے سنار کے پنکھے کی طرح دھک دھک کر رہے تھے اور دل ہتھوڑے کی طرح بجنے لگا تھا وہ خوفزدہ ہونے لگا تھا کہ کہیں وہ اس جدجہد مین مر نہ جائے- اسے مرجانے کا خوف تھا لیکن وہ رکا نہیں- وہ سوچا کہ گاؤں والے اسے بے وقوف کہیں گے اگر وہ درمیان میں کہیں رک جائے- وہ آہستہ آہستہ اپنی تمام تر قوت اور طاقت کو جمع کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود کی جانب واپس ہونے لگا- جب اسے بشکرس کے لوگ پہاڑی پر دکھائی دینے لگے تو اس کی کچھ ہمت بندھی اور وہ کسی طرح دوڑنے لگا- لوگ خوشی میں نعرے لگاتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرنے لگے- ہانپے کانپتے بالاخر وہ واپس پہاڑی کے دامن تک پہونچنے میں کامیاب ہو ہی گیا- سورج ڈھل چکا تھا اور چاروں طرف اندھیرا چھا گیا تھا- وہ رک جانا چاہتا تھا لیکن پہاڑی کی بلندی پر موجود لوگ آوازیں لگا کر ابھی بھی اس کی ہمت بندھا رہے تھے- اس نے اندازہ لگایا کہ وہ نیچے ہے اور اس کے لئے سورج غروب ہوگیا تھا لیکن پہاڑ کی بلندی پر موجود لوگوں کے لئے نہیں- پاکھم نے گہری سانس لی اور پہاڑ کی بلندی پر چڑھنے لگا- کسی طرح وہ لڑکھڑاتے ہوئے وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہونچ گیا- گاؤں کے بزرگ اس کے حوصلے پر ہنسنے لگے تھے وہ ہانپنے کانپتے اپنے نشانے کی ٹوپی پر ہاتھ رکھتے ہوئے گر پڑا- اور ٹوپی چھو لی-وہ اپنے حصے کی ایک بڑی زمین کا مالک بن گیا تھا لیکن اس دوران اس کے ہاتھ پیر سے دم نکل چکا تھا- گاؤں والوں نے کہا شاباش! تم نے اپنے لئے کافی زمین خرید لی ہے- پاکھم کے ملازمین جو اس کے ساتھ آئے تھے اپنے مالک کو اٹھانے لگے لیکن وہ دم توڑ چکا تھا-پاکھم کے ملازمین نے سبل پھاؤڑے سے اس کی قبر کا گڈھا کھودا جو سر سے پیر تک چھ فیٹ طویل تھا- اور قبر کے لئے درکار کل زمیں دو گز تھی-پاکھم کو قبر میں دفنا دیا گیا- دنیا میں اس نے اپنے لئے بہت ساری زمین خرید لی تھی لیکن بہ حیثیت انسان دراصل اسے صرف دوگز زمین کی ضرورت تھی-

مترجم – ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

صدر شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد تلنگانہ – انڈیا

Share
Share
Share